ہندوراشٹر کا نظریہ اکثریت پسندانہ فکر کا غماز، سب کے لیے انصاف کی گنجائش نہیں !

آکار پٹیل کی کتاب میں آئینی اقدار سے انحراف اور ہندوبالادستی کے سفر کا جائزہ

 

کتاب کا نام : اَور ہندو راشٹر (Our Hindu Rashtra)
مصنف : آکار پٹیل
ناشر : ویسٹ لینڈ
صفحات : 368
قیمت : 519 روپے
تبصرہ نگار : ڈاکٹر امتیاز احمد (فیکلٹی مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدر آباد)
ہندوستانی آئین کی تدوین سیکولر اور سوشلسٹ اقدار و اصولوں پر کی گئی ہے جس میں ہر شہری کے ساتھ یکساں سلوک، انصاف اور تمام ہی طبقوں کو ان کے حقوق کی ضمانت دی گئی ہے۔ اپنے پڑوسی ممالک کے برعکس اس نے دستوری طور پر کسی مذہبی گروہ کو دوسرے پر فوقیت دی اور نہ ہی کسی مذہب کو دوسرے مذاہب سے افضل قرار دیا ہے۔ ایک سیکولر دستور کے ہوتے ہوئے ملک آج کس طرح اکثریت پرستی کے آگے گھٹنے ٹیک چکا ہے یہ کتاب اسی سوال کا جواب ہے۔
کتاب کے مصنف آکار پٹیل ایک نامور صحافی اور حقوق انسانی کے سرگرم کارکن ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا سے منسلک ہیں۔ وہ ہر طرح کی شدت پسندی، ہندو جارحیت اور مودی حکومت کی فرقہ وارانہ پالیسیوں کے خلاف اپنے سخت موقف کی وجہ سےجانے جاتے ہیں۔
پٹیل کتاب کا آغاز ہندتوا کے اس پروپیگنڈے کی تردید سے کرتے ہیں کہ ملک کا بٹوارہ کانگریس کی کمزوری اور مسلمانوں کا ملک سے بدعہدی کی وجہ سے ہوا تھا۔ ان کے مطابق اس نظریے کو سنجیدگی سے چیلنج نہیں کیا گیا، لہٰذا انتخابی سیاست میں اس کی معنویت کی وجہ سے اس فکر کو اتنی بیباکی اور مضبوطی سے رکھا جانے لگا کہ ایک بڑے طبقے نے اسے حقیقت کے طور قبول کر لیا۔
مصنف کا کہنا ہے کہ اکثریت پرستی (Majoritarianism) کی ابتدا ملک کے بٹوارے سے نہیں بلکہ تقسیم بنگال کی سیاست سے ہوئی۔ اسی زمانے میں وندے ماترم کا نعرہ جسے ہندو نیشنلزم کا استعارہ سمجھا جاتا ہے، کو ہندوستان کے قومی نعرے کی حیثیت سے متعارف کرایا گیا۔ یہ وہی زمانہ تھا جب 1906 میں ڈھاکہ میں مسلم لیگ قائم ہوئی اور مسلمان ایک کمیونٹی کی حیثیت سے سیاسی نمائندگی کا مطالبہ کرنے لگے۔یہاں سے مصنف اس وقت کی سیاسی تاریخ کا تجزیہ کرتے ہوئے ان تمام واقعات کا ذکر کرتے ہیں جن کے باعث ملک کا بٹوارہ ہوا۔ وہ ایک بہت دلچسپ نقطہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تقسیم کا مطالبہ سب سے پہلے لالہ لاجپت رائے نے کیا۔ لاجپت رائے نے 14 دسمبر 1924میں دی ٹری بیون (The Tribune) میں ایک مضمون لکھا تھا جس میں انہوں نے ملک کی تقسیم کا مطالبہ کیا تھا۔ محمد علی جناح اور مسلم لیگ نے یہ موقف بہت بعد میں اختیار کیا۔
جناح اور مسلم لیگ کو جب یہ محسوس ہونے لگا کہ غیر منقسم ہندوستان میں مسلمانوں کو اپنی سیاسی نمائندگی کا حق ملنا مشکل ہے تو انہوں نے 1946 میں یہ موقف اختیار کیا کہ مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں، لہٰذا ملک کو آبادی کے اعتبار سے تقسیم کیا جانا چاہیے۔ اس حوالے سے مصنف لکھتے ہیں کہ جناح نے اس سے پہلے مصالحت کی بہت کوششیں کیں اور کیبینٹ مشن پلان کو قبول کیا لیکن جب جواہر لال نہرو نے کیبینٹ مشن پلان کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور جناح اور مسلم لیگ کو اس بات کا یقین ہو گیا کہ اس غیر منقسم ملک میں مسلمان اپنے بہت سے جائز حقوق سے محروم رہیں گے تو انہوں نے تقسیم ہند کا ماحول بنانا شروع کیا۔
پٹیل کے نزدیک ملک کانگریس کے مغرور رویے کی وجہ سے تقسیم ہوا جس کو ہندو اکثریت کی غیر معمولی حمایت حاصل تھی۔ اس سلسلے میں وہ مشہور اسکالر اے جی نورانی کا حوالہ دیتے ہیں۔ نورانی کا کہنا ہے کہ 1940 کے بعد جناح کی فرقہ وارانہ سیاست ان کی مصالحت اور تصفیہ کی سابقہ کوششوں کو تاریخ سے محو نہیں کر سکتی، بالکل اسی طرح آزادی کے بعد سیکولرزم کے دفاع میں نہرو کی کوششیں ان کی اور کانگریس کی سابقہ غلطیوں کو مٹا نہیں سکتیں۔
ملک کی آزادی اور تقسیم کے بعد دونوں ملکوں نے الگ الگ راستوں کا انتخاب کیا۔ ایک کے آئین میں سیکولرزم اور تمام طبقات کے حقوق کی ضمانت ہے تو دوسرے ملک کے آئین میں اکثریت طبقے کے عقائد اور جذبات کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ یہاں پر فاضل مصنف محمد علی جناح کے اس تاریخی خطاب کا تذکرہ کرتے ہیں جو انہوں نے پاکستان کی آئین ساز اسمبلی میں کیا تھا۔ اس خطاب میں جناح نے ایسے پاکستان کی بات کہی تھی جہاں ہر انسان کو یکساں حقوق حاصل ہوں گے۔ ذات، مذہب، نسل، جنس اور علاقے کی بنیاد پر کسی کے ساتھ تفریق اور امتیازی سلوک نہیں کیا جائےگا۔ یہ پاکستان کی ایک مثبت اور خوش آئند ابتدا تھی۔ اس کے بعد پاکستان کی سیاسی رسہ کشی اور جمہوری عدم استحکام کا ذکر کرتے ہوئے اس بات کی تفصیل سے وضاحت کرتے ہیں کہ کس طرح پاکستان جناح کی امیدوں اور وعدوں کے برخلاف ایک ایسا ملک بن گیا جہاں اکثریتی طبقے کی حکمرانی قائم ہو گئی، سیاست میں مذہب کے غلبے کی وجہ سے مذہبی تشدد، مسلکی منافرت، اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک جیسے مسائل سے پاکستان ایک لمبے عرصے تک نبرد آزما رہا۔ اس ضمن میں مصنف ان علمی اور عملی پیچیدگیوں کو بھی بیان کرتے ہیں جو ان کے خیال میں اسلام کو ایک سیاسی نظریے کی حیثیت سے نافذ کرنے کے سلسلے میں پاکستان کے سیاسی رہنماؤں، عدلیہ اور مذہبی قائدین کو پیش آئیں، نیز تعزیراتی قوانین کی تدوین اور اس کے نفاذ میں جو عملی دقتیں پیش آرہی تھیں ان پر بھی تفصیل سے تبصرہ کیا ہے۔
ہندوستان کے سیاسی اور سماجی منظر نامے پر تبصرہ کرتے ہوئے مصنف اس بات کا تجزیہ کرتے ہیں کہ یہ ملک جس کی بنا سیکولر اور سوشلسٹ آئین پر رکھی گئی تھی، اس پر کس طرح سے اکثریتی طبقے نے اپنی اجارہ داری قائم کرنے کی کوششیں کیں اور کس طرح یہ ملک مرحلہ وار بھگوا اور فسطائی طاقتوں کے قبضے میں آتا چلا گیا۔ اس حوالے سے وی ڈی ساورکر، ایم ایس گولوالکر اور دین دیال اپادھیائے کی تحریروں کے اقتباسات کو پیش کرتے ہوئے مصنف نے قارئین کو یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ان لوگوں نے ہندوتوا اور ہندوستانی شہریت کو کس طریقے سے سمجھا اور ہندو راشٹر کے قیام کی راہ میں ذات (Caste) جیسی بڑی رکاوٹ کو حل کرنے کی کیا تجا ویز پیش کیں۔ مسلمانوں کے سلسلے میں دین دیال اپادھیائے اور آر ایس ایس کا یہ ماننا ہے کہ انہیں سیاسی طور پر مفلوج کر کے ہی شکست دی جا سکتی ہے اور پھر انہیں ہندوستانی سنسکرتی میں آسانی سے ڈھالا جا سکتا ہے۔ مصنف کے نزدیک مسلمانوں کی سیاسی شکست سنگھ اور بی جے پی کا بنیادی ایجنڈا ہے۔ہندوستانی سیکولرزم میں مذہب اور فرقہ واریت کے نام پر ووٹ حاصل کرنے کی سخت ممانعت ہے۔لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ ملک کی سیاست میں ذات، علاقہ اور مذہب کا کیا رول ہے۔ اس ضمن میں مصنف نے عدالت کے ان تاریخی فیصلوں کا احاطہ کیا ہے جو ہندو راشٹر کے قیام میں معاون اور اس کو قانونی جواز فراہم کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر 1964میں جگدیو سنگھ سدھانتی بنام پرتاپ سنگھ دولتا کے معاملے میں عدالت کو یہ فیصلہ کرنا تھا کہ لفظ اوم (Om) مذہبی علامت ہے یا نہیں۔ کورٹ نے یہ فیصلہ دیا کہ یہ مذہبی علامت نہیں ہے۔ اس کے بعد مصنف اس طرح کے بہت سے مقدمات کا ذکر کرتے ہیں جس میں عدالت نے ہندو فرقہ پرستوں کے حق میں فیصلہ کیا ہے یہاں تک کہ کورٹ نے بال ٹھاکرے کی نفرت آمیز اور اشتعال انگیز تقریروں پر بھی کوئی کارروائی نہیں کی اور ان تقریوں کو سیکولرزم کے منافی نہیں سمجھا۔ پٹیل کورٹ کے اس تاریخی فیصلے پر تفصیل سے تبصرہ کرتے ہیں جس میں اس نے ہندتوا (Hindutva) کو طریقہ زندگی سے تعبیر کیا ہے۔ غرضیکہ سیکولر عدالت نے اس طرح کے تنازعات میں ہمیشہ اکثریتی طبقے کے حق میں فیصلہ کیا ہے جس کی وجہ سے ہندو راشٹر کے حامیوں کو ہمیشہ تقویت ملتی رہی ہے۔ حال میں بابری مسجد اور رام جنم بھومی کے معاملے میں بھی کورٹ نے جو فیصلہ دیا اس سے ہم واقف ہیں کہ کس طرح کورٹ نے ایک طرف اس بات کا اعتراف کیا کہ مسجد کا انہدام جرم اور غیر قانونی عمل تھا لیکن فیصلہ اکثریتی طبقے کے حق میں کر دیا اور بعد میں ملزمین کو کورٹ سے بری بھی کر دیا گیا۔
مختصر یہ کہ کتاب کے ابتدائی ابواب ملک کی آزادی اور تقسیم کی تاریخ، پاکستان کے آئین، سماج اور سیاست پر مشتمل ہیں۔ اس کے بعد ہندوستانی سیاست اور سماج پر تبصرہ کرتے ہوئے مصنف نے سنگھ کا انتخابی سیاست میں شمولیت ساورکر، گولوالکر اور دین دیال اپادھیائے کے نظریات کا تنقیدی جائزہ، اڈوانی کی رتھ یاترا، عدالت کے فیصلے Disturbed Areas Acts کے ذریعے گجرات کے مسلمانوں کو سماجی طور پر الگ تھلگ کرنے کی پالیسی، کشمیر کے حالات، گائے کی سیاست اور لو جہاد پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔
مصنف کے مطابق مذہب کا استعمال اگر سیاست میں ہونے لگے تو اس کے بہت گہرے منفی اثرات پڑتے ہیں۔ پاکستانی سیاست میں مذہب کو غیر معمولی اہمیت دی گئی جس کے نتیجے میں بہتیرے سماجی مسائل پاکستان کو جھیلنے پڑے۔آج ہندوستان اسی راہ پر گامزن ہے۔ یہاں پر بھی ہندو اکثریتی طبقے کے عقائد اور جذبات کو عوام پر مسلط کرنے اور اقلیتوں کو ان کے جائز حقوق سے محروم رکھنے کی سیاست بہت تیزی سے مقبول ہو رہی ہے جس کے وہی نتائج دیکھنے کو مل رہے ہیں جس سے پاکستان گزر چکا ہے۔
کتاب کے آخری باب کا عنوان HOW TO FIGHT IT ہے۔ اس میں ان مسائل کے حل پر بحث کی گئی ہے۔ اس حوالے سے مصنف سی اے اے، این آر سی، اور این پی آر کے خلاف شاہین باغ کے احتجاج کو ایک بہترین جمہوری احتجاج قرار دیتے ہیں اور ملک میں موجودہ سیاسی و سماجی مسائل کو حل کرنے کے سلسلے میں سول سوسائٹی کے کردار کو بہت امیدوں سے دیکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عوامی مسائل اور انسانی حقوق کے تئیں سول سوسائٹی کی دلچسپی اور سرگرمی سے یہ مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ اس تعلق سے مصنف کے دلائل کمزور ہیں۔ ملک میں روز بروز حقوق انسانی کی پامالی، مسلم اقلیت، خواتین اور دلتوں پر ہو رہی جارحیت اور تشدد کے خلاف سول سوسائٹی کی مجرمانہ خاموشی مصنف کے موقف کی تائید نہیں کر رہی ہے۔
***

مصنف نے عدالت کے ان تاریخی فیصلوں کا احاطہ کیا ہے جو ہندو راشٹر کے قیام میں معاون اور اس کو قانونی جواز فراہم کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر 1964میں جگدیو سنگھ سدھانتی بنام پرتاپ سنگھ دولتا کے معاملے میں عدالت کو یہ فیصلہ کرنا تھا کہ لفظ اوم (Om) مذہبی علامت ہے یا نہیں۔ کورٹ نے یہ فیصلہ دیا کہ یہ مذہبی علامت نہیں ہے۔ مصنف نےاس طرح کے بہت سے مقدمات کا ذکر کرتے ہیں جس میں عدالت نے ہندو فرقہ پرستوں کے حق میں فیصلہ کیا ہے

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 14 مارچ تا  20 مارچ 2021