محمدجاوید اقبال،دلّی
ہند، ہندو اور ہندوتو کا مفہوم عام لوگوں کے ذہن میں پوری طرح واضح نہیں ہے۔ موجودہ زمانے میں لفظ ہندو سے مراد ہر وہ شخص ہے جس کا تعلق ہندو مذہب سے ہے۔ ہندو لفظ ہند سے مشتق ہے جو کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے Online Arabic Portal میں اس کے معنی نفیس، خوبصورت اور تیز کے درج ہیں۔ یہ لفظ فارسی لغت میں بھی درج ہے جس کے معنی پر کشش اور دل نشین کے ہوتے ہیں۔ ایران اور ہندوستان میں لفظ شیریں اور لیلیٰ محبوبہ کے معنوں میں استعمال ہوتے ہیں ۔ اسی طرح لفظ عربی میں اسی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ ابوسفیان کی بیوی کا نام ہند تھا۔ اسی طرح اور دوسری خواتین کے نام میں ’ہند‘ استعمال ہوا ہے۔
لفظ ہند کے معنی سیاہ کے بھی ہوتے ہیں۔ ایک شاعر نے لکھا ہے ’’خط بڑھا زین بڑھیں گیسو بڑھے، حسن کی سرکار میں جتنے بڑھے ہندو بڑھے‘‘۔ فارسی کی لغت کشوری میں اس لفظ کے معنی چور، ڈاکو، رہزن اور شکست خوردہ کے درج ہیں۔ ہو سکتا ہے سندھ ندی کے قریب کچھ لوگ ایسے آباد ہوں جن کا پیشہ رہزنی ہواس لیے ایرانیوں نے ان کا نام ہندو رکھ دیا ہو۔لہذاپورے ہندوستان کے لوگوں کو رہزن کہنا تاریخ اور ادب کے ساتھ سراسر بے انسافی ہوگی۔
قدیم مذہبی کتابوں میں لفظ ہندو نہیں پایا جاتا۔ رام دھاری سنگھ دِنکر جو مورخ اور شاعر اور بھاگل پور یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے اُن کی مشہور کتاب سنسکرتی کے چار ادھیائے، جو آج بھی سند کے طور پر معروف ہے، اس کا تعارف ہمارے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے کرایا ہے۔ مصنف نے اپنی اس کتاب کے صفحہ ۱۰۴ پر لکھا ہے کہ قدیم مذہبی کتابوں سنسکرت یا پالی زبان میں یہ لفظ پایا نہیں جاتا البتہ جو لوگ باہر سے آئے انھوں نے یہاں کے رہنے والوں کو ہندو کہنا شروع کردیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ سندھ ندی کے آس پاس رہتے تھے ان کو باہر سے آنے والوں نے خاص طور سے ایرانیوں نے سندھو کی بجائے ہندو کہا۔ ایران میں اُس زمانہ میں پہلوی زبان بولی جاتی تھی جس میں حرف ’س‘ کے بجائے(ھ) بولا جاتا تھا۔ اس لیے ان لوگوں نے سندھو کے بجائے ہندو کہنا شروع کردیا۔ ہندو مذہب کے مشہور اسکالر رجنی کانت شاستری اپنی کتاب ہندو جاتی کا اُتھان اور پتن میں بھی اسی طرح کی باتیں بیان کی ہیں۔اسی طرح جب یہاں یونانی آئے تو انھوں نے یہاں کے رہنے والوں کو سندھو کے بجائے ’اِندو‘(INDU) کہنا شروع کیا۔ اس وجہ انڈین اور انڈیا الفاظ وجود میں آئے۔
رام دھاری سنگھ دِنکر نے لکھا ہے کہ انیسوی صدی میں جب ہندوستان میں نئی روشنی پھیلی تو کچھ لوگوں نے ہندو نام چھوڑ کر اپنے آپ کو آریہ کہنا ، کہلوانا شروع کردیا تھا۔بہرحال آج بھی بعض لوگوں میں یہ ذہن پایا جاتا ہے۔
مصنف کے مطابق جب یہاں کے لوگوں کو احساس ہوا کہ لفظ ہندو کی تعبیر غلط کی جارہی ہے تو انھوں نے لفظ ہندو کا نیا مطلب وضع کرلیا۔ چنانچہ ادبھُت کوش میں لفظ ہندو کا مطلب بہادر شخص درج کردیا گیا۔
مذکورہ بالا کتاب کے صفحہ 105 پر مصنف نے لکھا ہے کہ ہندوئوں میں جذبہ بہادری پیدا کرنے کے لیے یہ تعریف گھڑلی گئی ہے۔ دوسری جگہ ہندو لفظ کی تعریف اس طرح کی گئی ہے کہ ہندو اس شخص کو کہتے ہیں جو تشدد سے نفرت کرتا ہو۔رام دھاری سنگھ دِنکر نے اپنی اسی کتاب میں ایک مختلف بیانیہ تحریر کیا ہے کہ لفظ ہندو، مسلمانوں کے ہندوستان آنے سے سیکڑوں سال پہلے بھی بولا جاتا رہا ہے۔ایک مورخ سنجے سبرامنیم کے قول کے مطابق ہندولفظ صرف علاقہ دکن ہی تک محدود تھا۔ویدک تہذیب کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ تہذیب پوری طرح آریوں کی ہی تہذیب تھی بلکہ حقیقت میں دراوڑ آریہ اور دیگر قوموں کے افکار ،رسم و رواج اور تہذیب و تمدن کی آمیزش سے یہ تہذیب وجود میں آئی ہے۔مختلف ہندو اسکالرس کے مطابق لفظ ہندو کسی مذہب یا دھرم کا نام نہیں بلکہ ایک مخصوص علاقہ میں رہنے والے لوگوں کا نام ہے جو غیرملکیوں نے دیا ہے۔اس سے یہ حقیقت آشکارا ہوتی ہے کہ ہندو لفظ ایک جغرافیائی علامت ہے نہ کہ کوئی مذہبی علامت۔
بہرحال اب لفظ ہندو بلا شبہ مذہب اور دھرم کے معنوں میں استعمال ہونے لگا ہے۔ لیکن اس کی اصل سناتن دھرم ہے۔ ہندودھرم کی ایک عجیب و غریب صفت یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ اس کا کوئی متعین بنیادی عقیدہ (Faith) نہیں ہے۔ ایک شخص جو ایک خدا کو مانے یا سیکڑوں خدائوں کو مانے یا پھر کسی ایشور یا دیوی دیوتائوں کو نہ مانے وہ بھی ہندو کہلائے گا۔کوئی شخص اگر مورتی کو پوجے یا نہ پوجے پھر بھی وہ ہندو دھرم کے دائرے میں شامل ہوگا۔
جو شخص مذہبی کتابوں جیسے رامائن ، مہابھارت یا گیتا پر یقین رکھتا ہو یا پھر ان کو نہ مانتا ہو وہ بھی ہندو شمار کیا جائے گا۔ ایک خدا کی توحید پر یقین رکھنے والے اور ایک ملحد کو بھی ہندو ہی کہا جائے گا۔
رام اور سیتا کی پوجا کرنے والا بھی ہندو اور اس کے برخلاف راون کی پوجا کرنے والا بھی ہندو ہی کہلاتا ہے۔ مذکورہ بالا تفصیل سے یہ امر بالکل صاف اور واضح ہے کہ ہندو مذہب کی کوئی متعین بنیادیں نہیں ہیں بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہندو مذہب کی یہی ایک خوبی ہے کہ اس میں بہت وسعت پائی جاتی ہے۔مشہور مورخ رومیلا تھاپر کے مطابق پندرھویں صدی سے پہلے لفظ ہندو مذہب کے طور استعما ل نہیں ہوتا تھا۔ سب سے پہلے لفظ ہندو کو ایسٹ انڈیا کمپنی کے تاجروں اور اعلیٰ افسروں نے لفظ ہندو کو مذہب سے جوڑدیا۔سوامی وویکانند ہندو مذہب کے ایک عظیم اسکالر گزرے ہیں، انھوں نے 1883 میں شکاگو میں دنیا کے مذاہب کی کانفرنس میں ایک زبردست تقریر کی تھی جس میں ہندو مذہب کی سب سے بڑی خوبی قوت برداشت(Tolerance) کو بتایا تھا۔ انھوں نے اس موقع پر ایک کہانی سنائی تھی وہ یہ بھی کہ ایک کنویں میں ایک میڈک رہتا تھا۔ وہ کنویں ہی کو سب کچھ سمجھتا تھا۔ اتفاق سے ایک سمندر سے ایک دوسرا میڈک وہاں آگیا۔ کنویں کے میڈک نے اس سے پوچھا تم کہاں سے آئے ہو؟ اس نے سمندر کا حوالہ دیا۔ کنویں کے میڈک نے کہا کہ کیا سمندر اتنا بڑا ہوتا ہے جتنا یہ کنواں؟بہرحال وویکانند نے کہا تھا کہ ہر آدمی اپنے مذہب کو ہی بڑا سمجھتا ہے اُس کو اپنے مذہب سے باہر نکل کر بھی دیکھنا چاہیے۔ وویکانند نے کہا کہ اس شکاگو کی کانفرنس نے کنویں کی دیواریں توڑ کر ایک عظیم وسعت دی ہے تاکہ ہم دوسرے مذاہب کے بارے میں بھی سوچیں ۔یہ کہانی سن کر پوری محفل نے زبردست داد دی تھی۔
لفظ ہندوتو کا تعلق ہندو مذہب سے نہیں ہے بلکہ ہندوتو کا مطلب ہندوتہذیب سے ہے۔ یہ لفظ ونایک دامودر ساورکر کا تراشیدہ ہوا ہے۔ساورکر نے سب سے پہلے 1923 میں اس لفظ کا استعمال کیا تھا۔اس سے پہلے سوامی وویکانند یا سوامی رام تیرتھ وغیرہ نے لفظ ہندوتو کا استعمال نہیں کیا ہے۔ ساورکر جس نے ہندوتو لفظ کا استعمال کیا وہ خود ایک ملحد تھا ۔ اس نے بار بار کہا کہ اس کا ہندو مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔اُس کا یہ فلسفہ نفرت پر مبنی ہے۔ اُس نے کہا کہ یہ ملک یہاں کے رہنے والوں کا ہے ۔ باہر سے جو لوگ آئے تھے مثلاً مسلمان یا عیسائی انھوں نے اس ملک کو نقصان پہنچایا۔ ساورکر گاندھی جی کے فلسفہ عدم تشدد اور ہندو مسلم اتحاد کے بھی خلاف تھا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ہندوتو امریکا اور ہندوستان کی ملی بھگت ہے۔ اس کا مقصد اسلام کے فروغ کو روکنا اور ہندوستان کی بازار پر قبضہ کرنا ہے۔
بہرحال ہم ہندوتو کا مطلب ہندوتہذیب ہی لیتے ہیں۔ تب یہ مسئلہ کوئی مشکل نہیں ہے۔ اس لیے کہ تہذیب کے معنی رہن سہن پہننے کھانے اوڑھنے اور رسم و رواج کے آتے ہیں ان رسم و رواج اور رویوں میں مذہب کے طور طریقے بھی شامل ہیں۔ کیا اس میں کوئی شک ہے کہ ہندوستان کے مختلف علاقوں اور ریاستوں میں رہن سہن کے مختلف طریقے پائے جاتے ہیں۔ یہ رسم و رواج اور طریقے وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے رہے ہیں۔ مثلاً پہلے زمانے میں یہاں کے باشندے غیرمسلم کھانے سے پہلے غسل لازماً کرتے تھے ۔ کچن میں مرد یا عورتیں ننگے پیر جاتے تھے ۔ زمین پر بیٹھ کر کھاتے تھے۔ بعض مقامات پر اچھے خاصے مال دار لوگ ننگے پائوں آتے جاتے تھے وغیرہ لیکن آج کے زمانے میں جوتے لازماً پہنتے ہیں۔ میز کرسی پر بیٹھ کر کھاتے ہیں۔غیرمسلم عورتیں لازماً گھونگٹ نکال کر آتی جاتی تھیں۔ اب چہرہ کھول کر باہر نکلتی ہیں۔ بہرحال حقیقت یہ ہے کہ انسانی رویوں میں تبدیلی آتی رہتی ہے۔
ہمارے وہ بھائی جو ہندوتو کو تہذیب سمجھتے ہیں وہ اپنے رسم و رواج اور تہذیب میں جو باتیں شامل کرنا چاہیں متعین کرلیں اور پر عمل کریں اور اس کا پرچار بھی کریں لیکن دوسروں کو یہ رسم و رواج اختیار کرنے پر مجبور نہ کریں۔ جولوگ اس میں افادیت اور بہتری محسوس کریں گے وہ انھیں اختیار کرلیں۔لیکن اگر اس ہندوتو کے مسئلہ کو گہرائی سے دیکھا جائے تو اس مسئلہ کی آڑ میں سیاسی اقتدار حاصل کرنا ہے اس طرح وہ نفرت کی سیاست پر عمل کرکے معصوم سیدھے سادھے لوگوں کو دھوکا دینا ہے۔ لیکن اب دھیرے دھیرے عوام اس کھیل کو سمجھ گئے ہیں۔ اگر واقعی ہندوتو کا مطلب ہندو تہذیب یا بھارتیہ تہذیب ہوتا تو اس تہذیب کی خوبیاں بیان کی جاتیں۔ اس کو لکھ کر عام کیا جاتا۔ اس تہذب پر عمل کیا جاتا۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہے۔ جو چیز کھلی آنکھوں سے دکھائی دیتی ہے وہ اسلام دشمن، مسلم دشمن اور دلتوں سے دشمنی ہے۔ اس کا نقصان یہ بھی ہے کہ نوجوان نسل میں قوت برداشت ختم ہو رہی ہے جو ہندومذہب کی خوبی بتائی جاتی ہے۔ اس کا نقصان یہ بھی ہے کہ نوجوان نسل ہر اس شخص کے خلاف ہو جائے گی جو اس کی رائے کے خلاف ہو۔ اس لیے خاندانوں میں، سوسائٹی کے مختلف طبقوں میں نفرت کی فصل اُگ رہی ہے۔ ایسے لوگ خود اس ملک کے دشمن ہیں۔ کاش عوام و خواص عقل سے کام لیں۔
موبائل: 8860429904
***
***
ہمارے وہ بھائی جو ہندوتو کو تہذیب سمجھتے ہیں وہ اپنے رسم و رواج اور تہذیب میں جو باتیں شامل کرنا چاہیں متعین کرلیں اور پر عمل کریں اور اس کا پرچار بھی کریں لیکن دوسروں کو یہ رسم و رواج اختیار کرنے پر مجبور نہ کریں۔ جولوگ اس میں افادیت اور بہتری محسوس کریں گے وہ انھیں اختیار کرلیں۔لیکن اگر اس ہندوتو کے مسئلہ کو گہرائی سے دیکھا جائے تو اس مسئلہ کی آڑ میں سیاسی اقتدار حاصل کرنا ہے اس طرح وہ نفرت کی سیاست پر عمل کرکے معصوم سیدھے سادھے لوگوں کو دھوکا دینا ہے۔ لیکن اب دھیرے دھیرے عوام اس کھیل کو سمجھ گئے ہیں۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 19 تا 25 دسمبر 2021