ہریانہ: نوح میں وی ایچ پی اور بجرنگ دل کی ریلی کے دوران فرقہ وارانہ تشدد  

تشدد کی آگ گروگرام تک پہنچی،متعدد گاڑیوں ،مکانوں اور گھروں میں آتشزنی،آر اے ایف کی 20 کمپنیاں تعینات

نئی دہلی ،یکم اگست :۔

ہریانہ کے نوح میں وہی ہوا جس کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا۔ پیر کو بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد  کا جلوس پر تشدد ہو گیا ،جس میں کم از کم تین افراد کی ہلاکت اور متعدد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں ۔حالات کشیدہ ہیں ،آر اے ایف کی 20 کمپنیوں کو تعینات کیا گیا ہے ۔نوح میں شروع ہوئے تشدد کی آگ اب گرو گرام اور پلول تک پہنچ گئی ہے ۔ متعدد فیکٹریوں ،گھروں اور مکانوں کو نذر آتش کر دیا گیا ہے ۔

علاقے میں فرقہ وارانہ تشدد کے بعد انٹرنیٹ خدمات معطل کر دی گئی ہیں۔ ریاست کے وزیر داخلہ انل وج نے مرکزی حکومت سے اضافی سیکورٹی دستہ کا مطالبہ کیا ہے ۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ کون اس کے پیچھے ہے اور کیا اہم سبب ہے اس کا پتہ جانچ کے بعد پتہ لگایا جائے گا اور قصور واروں کوبخشا نہیں جائے گا۔ ہریانہ آر اے ایف کی 20 کمپنیاں تعینات ہوں گی ۔ فی الحال گرو گرام اور آس پاس کے علاقوں میں کشیدگی بر قرار ہے۔

ڈپٹی کمشنر پرشانت پنوار نے کہا کہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 144 کے تحت امتناعی احکامات ضلع میں پانچ یا اس سے زیادہ لوگوں کے جمع ہونے کو روکنے کے لیے نافذ کیے گئے ہیں اور ضلع میں انٹرنیٹ خدمات کو معطل کر دیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ اس سال فروری میں راجستھان کے بھرت پور میں دو مسلم نوجوانوں کے اغوا اور قتل کے ملزم بجرنگ دل کے رکن مونو مانیسر نے چند روز قبل سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو میں دعویٰ کیا تھا کہ وہ اور ان کی ٹیم  میوات پہنچ رہے ہیں ، جلوس کا حصہ بنیں۔

مقامی لوگوں نے مونو کے قتل کیس میں ملوث ہونے کی وجہ سے نوح کے یہاں آنے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھاکہ اس سے خطے میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی متاثر ہوگی۔

تشدد پیر کی دوپہر کے قریب اس وقت شروع ہوا جب ہندو شدت پسند وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کے جلوس کے ساتھ  تقریباً نصف درجن گاڑیاں نوح چوک پر پہنچیں جس سے یہ افواہ پھیلی کہ مونو مانیسر ایک گاڑی کے اندر موجود ہے۔

دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق "گاڑیوں پر ‘گورکشک’ لکھا ہوا تھا جس سے افواہوں کو ہوا ملی کہ مونو مانیسر ان کے اندر ہیں۔ جیسے ہی گاڑیاں نوح چوک پر پہنچیں، مٹھی بھر نوجوانوں نے گاڑیوں پر پتھراؤ کیا۔ جلد ہی، آس پاس کے دیہاتوں کا ہجوم سڑک پر اتر آیا اور ہنگامہ آرائی شروع کر دی۔

واقعہ پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے یوگیندر یادو نے کہا کہ”‘شوبھا یاترا’ کو فرقہ وارانہ تشدد پیدا کرنے کے لیے  استعمال کیا گیا۔ پچھلے دو دنوں میں بہت اشتعال انگیز ویڈیوز جاری کیے گئے تھے۔ اس علم اور اندیشے کے باوجود انتظامیہ نے یاترا کو میوات میں داخل ہونے کی اجازت دی۔ اور جب تشدد شروع ہوا، انتظامیہ محض تماشائی رہی  ، پولیس غائب ہو گئی۔