کورونا کے بعد کیا ؟
خطرات کو مثبت امکانات میں بدلنے کے لیے سوجھ بوجھ اور ہم آہنگی درکار
عبدالباری مومن
اس وقت دنیا کورونا وائرس کی عالمی آفت کو جھیل رہی ہے۔ یہ شاید ہماری نسل کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ اس ناگہانی آفت سے نمٹنے کے لیے حکومتیں بہت سے فیصلے کر رہی ہیں آئندہ بھی کرتی رہیں گی۔ افراد کو بھی انفرادی سطح پر فیصلے کرنے ہوں گے۔ دیکھا گیا ہے کہ اس طرح کی کسی قدرتی یا انسانی آفت کے دوران یا بعد میں ایک بڑی سیاسی، معاشی، سماجی، تہذیبی یا تکنیکی تبدیلی آتی ہے۔ چناچہ یہ عین ممکن ہے کہ ان فیصلوں کے نتیجے میں آئندہ دنیا کے سیاسی، سماجی، معاشی اور تہذیبی نقشے بدل جائیں۔ یہ تبدیلیاں ہماری زندگی کے اکثر پہلووں پر بڑے پیمانے پر اثر انداز ہوں گی۔ اس لیے دیگر معاملات کے ساتھ ساتھ ہمیں اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم اس وباء سے نجات پانے کے لیے جو کچھ بھی کریں گے اس کا اثر ہمارے مستقبل پر کیا پڑے گا۔ ان شاء اللہ ایک دن اس وباء کا خاتمہ ہو جائے گا اور نسل انسانی باقی رہے گی۔ لیکن ایک بات یقینی ہے کہ وہ دنیا آج کی دنیا سے مختلف ہوگی۔ ممکن ہے کہ آج کے ان ہنگامی حالات میں بغیر کسی بحث ومباحثے کے ہم جو فیصلے کر رہے ہیں اور کریں گے وہ ہماری آئندہ زندگی کا مستقل حصہ بن جائیں۔ ہو سکتا ہے کہ ہم ایسی نو دریافت شدہ تکنالوجیوں کو اپنا لیں جو ابھی پختہ نہیں ہوئی ہیں، لیکن آگے چل کر شاید وہ ہمارے لیے مشکلات کا باعث بن جائیں۔ سوچیے! کیا عام حالات میں اس قدر جلد اور طویل بحث ومباحثے کے بغیر حکومت ورک فرام ہوم یا آن لائن ایجوکیشن یا آن لائن ٹریڈِنگ یا نام نہاد سوشل ڈِسٹنسِنگ (حقیقتاً فِزیکل ڈسٹنسِنگ) کا مکمل نفاذ کرنے کی پوزیشن میں ہو سکتی تھی، اور کیا عوام ان کو بغیر تنقید کے گوارا کر سکتے تھے؟ لیکن چونکہ یہ نارمل وقت نہیں ہے اور اس وقت دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ کورونا وائرس سے چھٹکارے اور صحت وعلاج کا ہے، اس لیے عوام بغیر کسی ہچکچاہٹ کے ان تمام فیصلوں کو جوں کا توں قبول کرنے کے لیے مجبور ہوئے۔ کورونا وائرس کو ختم ہونے میں ایک مدت درکار ہوگی۔ سوال یہ ہے کہ کیا کورونا کی وباء سے چھٹکارا پانے کے بعد بھی ہمیں ان تمام باتوں کو مستقل طور پر اپنی زندگی کا حصہ بنائے رکھنا چاہیے؟ ذرا تصور کیجیے کیسا لگے گا اگر ساری زندگی ہر شخص دفتر جانے کی بجائے گھر سے کام کرنے لگے۔ ہر ملاقات اور گفتگو پر افراد درمیان میں فاصلہ بنائے رکھیں۔ ساری تعلیم، حکومتی اور کاروباری لین دین آن لائن ہو جائیں۔ حکومت ہر شخص کو نگرانی کا بینڈ پہننا لازم کردے۔ اگر کورونا وائرس جیسی آفت نازل نہ ہوتی تو ہم اس صورتِ حال کو ہرگز قبول نہیں کرتے اور نہ حکومت ان چیزوں کو نافذ کر پاتی۔ آزمائش کی اس گھڑی میں ہمیں دو باتوں پر غور کرنا ہے۔ نمبر ایک: (الف) کیا ہم چاہتے ہیں کہ حکومت جدید تکنالوجی کی مدد سے شہریوں کی کڑی نگرانی کو مستقل حیثیت دے دے (ب) یا ہم چاہتے ہیں کہ شہریوں کے اختیارات، آزادی اور ان کی پرائیویسی برقرار رہے؟ نمبر دو: (الف) کیا ہم چاہتے ہیں کہ جارحانہ قوم پرستی کے ذریعہ طبقاتی تفریق پیدا کرنے کی موجودہ صورت حال باقی رہے (ب) یا آپسی بھائی چارے اور اتحاد کی فضا کو قائم رکھا جائے۔
پابندیاں اور کڑی نگرانی: کورونا کی وباء کا مقابلہ کرنے کے لیے ملک کی ساری آبادی کو چند باتوں پر سختی سے عمل کرنا پڑ رہا ہے۔ حکومت ان کے لیے ہدایات جاری کرتی ہے، سخت قوانین بناتی ہے اور ان کے نفاذ کے لیے پولیس کو دن رات شہریوں کی نگرانی پر متعین کرتی ہے اور پولیس ڈنڈے کی مدد سے بالجبر ان پابندیوں کو نافذ کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ خلاف ورزی کرنے والوں کو حکومت سخت سزا دیتی ہے۔ یہاں تک تو ٹھیک ہے، کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ ہنگامی دور کا خاتمہ ہو جانے کے بعد یہ پابندیاں اور نگرانیاں باقی نہیں رہیں گی۔ لیکن جدید تکنالوجی کے اس دور میں نگرانی کا ایک نیا طریقہ اختیار کیا جا رہا ہے۔ انسانی تاریخ میں آج پہلی مرتبہ یہ ممکن ہوا ہے کہ آلات کی مدد سے ہر شخص کی ہر وقت نگرانی کی جا سکے۔ چند دہے قبل تک یہ ممکن نہیں تھا۔ روس کی بدنامِ زمانہ خفیہ پولیس ’کے جی بی‘ کے لیے بھی یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ ہر شخص پر نگرانی رکھ سکے۔ وہ نہ تو ہر شہری کے لیے ایجنٹ مقرر کرسکتی تھی اور نہ اکٹھا کیے گئے ڈاٹا کو پوری طرح سے جانچ سکتی تھی۔ لیکن آج ایسے حساس آلات ایجاد ہو چکے ہیں جو بغیر کسی انسانی دخل اندازی کے، کسی اطلاع کے بغیر کسی بھی فرد کی ہر لمحہ نگرانی کر سکتے ہیں ۔ کثیر مقدار میں ڈاٹا محفوظ کر سکتے ہیں اور ان کی کسی بھی مقصد کے لیے پروسیسنگ کرسکتے ہیں۔ کورونا کی آفت سے نمٹنے کے لیے کئی حکومتوں نے مسلسل نگرانی کرنے والے آلات کا ستعمال کیا ہے اور کر رہے ہیں۔ حکومت ایپ بنا کر عوام کو اسے ڈاون لوڈ کرنے کی ترغیب دلاتی رہتی ہے۔ کلائی پر پہننے والا بینڈ (بریسلیٹ) بھی اسی مقصد کے لیے حکومت بنواتی ہے۔ یہ سب عوام کی صحت کی حفاظت کے نام پر کیا جا رہا ہے اور کیا بھی جانا چاہیے۔ لیکن اگر اس کو مستقل حیثیت دے دی گئی تو شہریوں کی پرائیویسی زبردست خطرات سے دوچار ہو جائے گی۔ چین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اس نے مشتبہ مریضوں کی شناخت کے لیے ان کے اسمارٹ فون ٹریس کیے اور ان کی مدد سے شہریوں کی چلت پھرت کی نگرانی کرتا رہا۔ چہروں کی شناخت کرنے والے کیمرے استعمال کیے۔ آج تمام شہریوں کی چلت پھرت اس کی خفیہ پولیس کی نگاہ میں ہے۔ اسی تکنالوجی کا استعمال اسرائیل نے بھی اپنی پارلیمنٹ کی مخالفت کے باوجود اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کر کے کیا۔ (ہمارے ملک میں بھی چہروں کی شناخت کرنے والے کیمروں کے استعمال پر بحث جاری ہے)
اس طرح کی نگرانی کی حمایت میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ کوئی نئی بات نہیں۔ حکومتیں اور کاروباری کارپوریشنس افراد کی شناخت اور نگرانی کے لیے اس سے بھی زیادہ پیچیدہ آلات کا استعمال کرتی رہتی ہیں۔ لیکن اصل خرابی اس وقت پیدا ہوگی جب نگرانی کا یہ عمل مستقل صورت اختیار کرلے گا۔ اگر ایسا ہوا تو ہماری پرائیویسی خطرے میں پڑ جائے گی۔ جدید آلات کی مدد سے یہ بالکل ممکن ہے کہ وہ آپ کے اندرون کی نگرانی بھی کر سکے۔ یہ بالکل ممکن ہے کہ جب آپ اپنے موبائل کے کسی ایپ پر ٹیپ کریں تو آپ کے جسم کا درجہ حرارت، آپ کے بلڈ پریشر کی رپورٹ اور آپ کے دل کی دھڑکن کی رفتار کی رپورٹ سیدھے حکومت کے دفتر میں ریکارڈ ہو جائے اور ہم یہ بات جان ہی نہ سکیں کہ ہماری نگرانی کی جا رہی ہے۔ پتہ نہیں آگے چل کر اور کتنے ترقی یافتہ آلات اس مقصد کے لیے ایجاد ہو جائیں۔ نگرانی کی تکنالوجی نہایت تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ آج سے دس سال قبل جو بات افسانہ سمجھی جاتی تھی وہ آج حقیقت بن کر سامنے آچکی ہے۔ ایک ایسی حکومت کا تصور کریں جو اپنے شہریوں سے ہر وقت ایک بائیو میٹرک بریسلیٹ پہنے رہنے کا مطالبہ کرتی ہے۔ اس کے ذریعہ شہریوں کے دل کی دھڑکن، درجہ حرارت اور بلڈ پریشر چوبیس گھنٹے حکومت کے دفتر میں ریکارڈ ہوتا رہتا ہے۔ ایک مخصوص الگورتھم کی مدد سے اس معلومات کا تجزیہ کیا جاتا رہتا ہے۔ آپ کو خبر ہونے سے قبل حکومت جان لیتی ہے کہ آپ کسی بیماری کا شکار ہونے تو نہیں جا رہے ہیں اور آپ نے کب، کہاں اور کس سے ملاقات کی۔ اس میں شک نہیں کہ اس سے انفیکشن کا خطرہ تو ٹل جائے گا اور وباوں کو روکنے میں بھی مدد ملے گی۔ بہت کم عرصے میں وباء پر کنٹرول کرلیا جائے گا۔ لیکن اس کا خطرناک پہلو یہ ہے کہ اس سے ہر شہری کی کڑی نگرانی کے نظام کو قبولیت کی سند حاصل ہو جائے گی۔ جب آپ حکومت کے حامی چینل کے بجائے کسی حکومت مخالف چینل پر کلک کریں گے تو آپ کے سیاسی خیالات سے حکومت واقف ہو جائے گی۔ لیکن جب اس کے ساتھ ساتھ آپ کے دل کی دھڑکن، آپ کا بلڈ پریشر اور جسم کا درجہ حرارت بھی ریکارڈ ہو رہے ہوں تو آپ کی سیاسی پسند ناپسند اور محبت و نفرت کا اندازہ بھی حکومت کو ہو جائے گا۔ حکومت جان لے گی کہ آپ کب خوش ہوتے ہیں اور کب غمگین۔ کون سی چیز آپ کو کس کیفیت میں مبتلا کرتی ہے۔ غصہ، خوشی، نفرت، محبت بھی بخار اور کھانسی کی طرح جسمانی کیفیات ہیں۔ جب حکومتیں اور کارپوریشنس ہمارے احساسات کو ہم سے بھی قبل محسوس کرلیں گی تو وہ ان کو اپنے پوشیدہ مقاصد کے لیے استعمال کر سکیں گی۔ کارپوریشنس اپنی اشیاء اور خدمات کی فروخت کے لیے ہمارے احساسات کو استعمال کریں گی۔ بلکہ شاید وہ ہمارے احساسات میں تبدیلی کرنے پر بھی قادر ہوں گی۔ سیاست دانوں کو ممبران کی خرید وفروخت کے لیے ہوٹلوں میں مقید رکھنے کی ضرورت نہیں پیش آئے گی۔ اس ریکارڈ شدہ معلومات کے سامنے دنیا کی بڑی سے بڑی انسائیکلو پیڈیا بھی پتھر کے زمانے کی چیز ثابت ہوگی۔ فرض کیجیے کہ آپ 2030 میں شمالی کوریا میں رہ رہے ہیں اور بریسلیٹ پہننے پر مجبور ہیں۔ وہاں آج کی طرح کی سخت گیر حکومت قائم ہے۔ اگر اس کے ’عظیم‘ رہنما کی تقریر سنتے وقت آپ کے دل میں نفرت یا غصے کے جذبات اُمڈ آئے تو آپ کے اپنی جگہ سے اٹھنے سے قبل ہی آپ کا کام تمام ہو سکتا ہے۔
ہم آج کی طرح کے ہنگامی حالات میں تو شاید اس طرح کی نگرانی پر کوئی اعتراض نہ کریں البتہ اس کو مستقل بنائے جانے کی مخالفت ضرور کریں۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم ہنگامی حالات میں جس طرح کے جذبات کا اظہار کرتے ہیں وہ ہمارے مستقل جذبات واحساسات کا ہی تو پرتَو ہوتے ہیں۔ اور پھر ایمرجنسی بھی تو بار بار آسکتی ہے۔ کورونا وائرس بھی دوبارہ حملہ کر سکتا ہے یا پھر اور کوئی وباء آ سکتی ہے۔ اس طرح حکومتوں کو بہانہ ملتا رہے گا۔ وہ کہہ سکتی ہیں کہ وہ اپنے شہریوں کی صحت کے لیے فکرمند ہیں اس لیے وہ مسلسل نگرانی کے ذریعے ان کی جسمانی کیفیت سے باخبر رہنا چاہتی ہیں اورآئندہ کورونا وائرس جیسی کسی اور وباء کو پھیلنے سے قبل روکنا چاہتی ہیں۔
آج کل پرائیویسی کے تعلق سے شدید بحث چھڑی ہوئی ہے۔ کورونا وائرس کی وباء اس مباحثے کے سلسلے کا آخری نکتہ ثابت ہو سکتی ہے۔ لوگ صحت کی بحالی کی خاطر پرائیویسی کی قربانی دینے کو تیار ہو جائیں گے۔ عوام کو پرائیویسی اور صحت کے درمیان کسی ایک کا انتخاب کرنے کے لیے کہنا ہی مسئلے کی جڑ ہے۔ ہم کو دونوں کی ضرورت ہے۔ کورونا وائرس کا مقابلہ عوام پر جبر اور دباو کے بجائے ان پر اعتماد کرتے ہوئے، ان کی آزادی پر زیادہ قدغن لگائے بغیر ان کا تعاون حاصل کرکے کرنا چاہیے۔ موجودہ وباء کے دوران جنوبی کوریا، تائیوان اور سنگاپور کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ انہوں نے عوام کی نگرانی کے لیے ایسے سافٹ ویئر استعمال کیے جو ان کی پرائیویسی پر اثر انداز نہیں ہوتے تھے۔زیادہ اعتماد انہوں نے ٹیسٹنگ اور باخبر عوام کے تعاون پر کیا۔ رپورٹنگ اور خبروں کی ترسیل میں شفافیت برتی۔ اس سے معلوم ہوا کہ صرف مرکزی نگرانی اور بے انتہا سختی ہی اصل طریقہ نہیں ہے۔ عوام کو اربابِ اقتدار پر اعتماد ہو تو وہ ان کی بات ضرور سنیں گے۔ خود ہمارے ملک میں کیرالا کی مثال لیجیے۔ وہاں عوام کو حکومت پر بھروسہ ہے۔ نظامِ صحت مکمل طور سے نجی ہاتھوں میں نہیں ہے اور حکومت اس معاملے میں اخلاص اور شفافیت برتتی ہے۔ تعصب برائے نام ہے۔ اسی طرح جرمنی میں ایک ایسا فیڈرل نظام قائم ہے جہاں ریاستوں کو بہت زیادہ آزادی حاصل ہے لیکن وہاں پر چانسلر اینجیلا مارکل کو اپنی مخلصانہ لیڈر شپ کی بناء پر ریاستوں کا بھر پور تعاون حاصل رہا اور انہوں نے بڑی حد تک وباء پر کنٹرول کر کے دنیا کے سامنے ایک مثال قائم کی۔ حکومت با اعتماد ہو تو عوام پر سختی کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ وہ خود قانون کی پابندی اور حکومت سے تعاون کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔گزشتہ چند سالوں سے سیاست دانوں کی غیر ذمہ دارانہ حرکات، غیر سائنسی اعتقادات اور یک رخی میڈیا کی وجہ سے ان پر عوام کا اعتماد باقی نہیں رہا۔ انہیں ایمر جنسی کے ان حالات میں بھی جشن تاجپوشی، سالگرہ اور شادی بیاہ کے اہتمام سے فرصت نہیں ملتی۔ سیاست دانوں کو معلوم ہے کہ عوام ان کی باتوں پر آنکھ بند کر کے عمل نہیں کریں گے، اس لیے وہ آمرانہ رویہ اختیار کر کے اپنے احکام شہریوں پر تھوپنا چاہتے ہیں۔ سالہا سال سے موجود بد اعتمادی کا ماحول راتوں رات بدلنے والا نہیں ہے۔ لیکن موجودہ حالات بھی عام حالات نہیں ہیں اس لیے اگر سیاست داں کوشش کریں تو عوام کے سوچنے کا انداز تیزی سے بدلا جا سکتا ہے۔ گھر کے اندر بھی بھائیوں کے درمیان لاکھ اختلافات کے باوجود ناگہانی حالات میں وہ اختلافات کو بھلا کر ایک ہو جاتے ہیں، کیوں کہ ان کے درمیان بھائیوں والا رشتہ تو قائم رہتا ہی ہے۔نئی تکنالوجی استعمال کرنا چاہیے۔ لیکن اس کا استعمال شہریوں کے اعتماد کو قائم اور مستحکم بنانے کے لیے ہونا چاہیے۔ مثلاً میرے جسم کا درجہ حرارت اور بلڈ پریشر میری زندگی کے لیے اہمیت رکھتے ہیں۔ مجھے ان سے باقاعدہ باخبر رکھا جائے تو میری صحت کے لیے مفید ہوگا۔ لیکن حکومت شہریوں کے اس ڈاٹا کو جمع کرکے ان کا استعمال شہریوں کی نگرانی، ان کی پسند اور ناپسند کی معلومات کے حصول اور اس طرح کے دیگر مقاصد کے لیے کرے تو یہ شہریوں کی پرائیویسی میں دخل اندازی ہوگی۔ ہاں! اس کا استعمال عوام کی صحت کی دیکھ بھال اور حکومت کی ذمہ داری کی پاز پُرس کے لیے ہو تو ان کے لیے مفید ہوگا۔ نگرانی کی تکنالوجی میں یہ خصوصیت موجود ہوتی ہے کہ جس طرح حکومت شہریوں پر اس کے ذریعہ چوکسی برت سکتی ہے اسی طرح شہری بھی حکومت پر نگاہ رکھنے کے لیے اس کو استعمال کرسکتے ہیں۔کورونا وائرس آج شہری حقوق کی جانچ کا ایک ذریعہ بن گیا ہے۔ قابلِ اعتماد ماہرین اور اور سائنسی ڈاٹا تک عوم کی رسائی ہو تو خود غرض سیاست دانوں کی سازشوں کا پردہ فاش ہوگا۔ اگر اس میں چوک ہوئی تو اس سے ہماری آزادی اور پرائیویسی پر کاری ضرب پڑے گی۔گلوبل منصوبے کی ضرورت: دوسرا انتخاب ہمیں یہ کرنا ہے کہ ہم ملک کے لیے جارحانہ قوم پرستی(جو تفرقہ کا باعث ہوتی ہے) چاہتے ہیں یا آپسی بھائی چارہ؟ آج ساری دنیا کورونا وائرس کی وبا اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی معاشی بدحالی کا شکار ہے۔ لیکن ہم قوم پرستی کی سیاست میں الجھے ہوئے ہیں۔ ان مسائل کو حل کرنے کا طریقہ آپسی بھائی چارہ، تعاون اور اتحاد کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے۔ اگر ہم اس وباء کو شکست فاش دے کر انسانیت کو فتح مند دیکھنا چاہتے ہیں تو ایک دوسرے پر بھروسہ کرتے ہوئے خبروں اور معلومات کا باہمی تبادلہ ضروری ہے۔ وائرس چاہے چین کا ہو یا امریکہ کا، بھارت کا ہو یا جرمنی کا، وہ ایک ہی طرح سے حملہ آور ہوتا ہے، وہ انسان کی نہ ذات دیکھتا ہے نہ مذہب۔ چین وائرس سے بچنے کی حکمت عملی سے امریکہ کو واقف کرا سکتا ہے اور بتا سکتا ہے کہ وائرس سے لڑنے کے لیے اسے کیا کرنا چاہیے۔ اگر اٹلی میں کوئی دوا دریافت ہوتی ہے تو اسے چاہیے کہ وہ ایران کو اس سے واقف کرادے۔ برطانیہ جنوبی کوریا سے مدد مانگ سکتا ہے۔ ان تمام باتوں کے لیے عالمی پیمانے پر باہمی تعاون اور اعتماد کی ضرورت ہے۔ اب وہ زمانہ نہیں رہا کہ ہر ملک اپنے اپنے گھیٹو میں محصور رہے اور دوسروں سے کوئی تعلق نہ رکھے۔ شہریوں کو چاہیے کہ وہ سائنسی ڈاٹا اور ماہرین پر اعتماد کریں اور خود غرض سیاست دانوں کے سازشوں والے نظریات سے اپنے آپ کو محفوظ رکھیں۔بیماری سے لڑنے والے آلات کی تیاری کے لیے بھی عالمی پیمانے پر مشترکہ کوششیں ہونی چاہئیں۔ یہ نہ ہو کہ ہر ملک ہر قسم کے آلات تیار کرکے اپنے ہاں ذخیرہ کرلے۔ ہونا یہ چاہیے کہ مختلف قسم کے آلات کی تیاری کا کام باہمی مشورے سے مختلف ممالک کے درمیان تقسیم کردیا جائے۔ اس طرح معاشیات کے زرّین اصول ’’ تقسیم محنت‘‘ پر عمل ہوگا جس کے بے شمار فائدے بیان کیے جاتے رہے ہیں۔ لیکن اس کے لیے سب سے زیادہ ضروری ہے باہمی عالمی اعتماد، بھائی چارہ اور آپسی اتحاد۔جس طرح کسی ملک میں جنگ کی حالت ہو تو وہاں کی اہم صنعتوں کو ملک کی حکومت قومی ملکیت میں لے لیتی ہے، بالکل اسی طرح اس انسانی آفت کے موقع پر بھی اہم صنعتوں کو انسانی ملکیت میں لے کر انسانیت کو بچانے کی جنگ لڑنی چاہیے۔ یہی حکمت عملی طبی عملہ کے لیے بھی استعمال کی جا سکتی ہے۔ نسبتاً کم متاثر ممالک سے فاضل طبی عملہ کو زیادہ متاثرہ ممالک میں بھیجا جا سکتا ہے۔ یہی بات معاشی مسائل کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے۔ ہر ملک تنہا اپنے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرے تو مسائل الجھ سکتے ہیں۔ اسی طرح اگر طویل عرصے تک بین الاقوامی اسفار پر پابندیاں برقرار رہیں تو کورونا کے خلاف جنگ متاثر ہوگی۔ اس سمت میں تیزی سے قدم آگے بڑھا کر تمام ممالک کو ایک بین الاقوامی معاہدہ کرلینا چاہیے تاکہ ممالک کے درمیان باہمی اعتماد میں اضافہ ہو۔ بد قسمتی سے دنیا کے اکثر ممالک ان خطوط پر غور وفکر نہیں کر رہے ہیں بلکہ ایک جمود سا طاری ہے۔ یہ کام تو ابتداء میں ہی ہونا چاہیے تھا۔ G7 ممالک نے تاخیر سے ہی سہی ویڈیو کانفرنس منعقد کی لیکن وہ کوئی مشترکہ منصوبہ نہیں بنا سکے۔ 2008 کے معاشی بحران اور 2014 میں ایبولا کی وباء کے مواقع پر امریکہ نے عالمی لیڈر کا کردار ادا کیا تھا، لیکن موجودہ امریکی انتظامیہ اس کے لیے تیار نظر نہیں آتی۔ اس نے تو ’امریکہ سب سے پہلے‘ کا نعرہ لگا کر انسانیت اور بھائی چارے کو بالکل کنارے کر دیا اور قریبی دوستوں کی بھی پروا نہیں کی۔ یوروپی یونین کی پروازوں کو بند کرنے سے قبل ان سے مشورہ کرنا تو درکنار مناسب نوٹِس بھی جاری نہیں کی۔ بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر ایک جرمن ادویات کی کمپنی کو کووِڈ-19 کی مستقبل میں آنے والی دوا کے اجارہ دارانہ حقوق حاصل کرنے کے لیے ایک اَرَب ڈالر کی پیشکش تک کر دی۔ اس کے بعد اگر امریکہ اپنے برتاو میں تبدیلی لاکر کوئی اقدام کرتا بھی ہے تو کتنے ممالک اس کی قیادت قبول کرنے کے لیے تیار ہوں گے؟ ایک ایسے لیڈر کی قیادت جو فتح کا سہرا تو صرف اپنے سر پر باندھنا چاہتا ہے لیکن تمام غلطیوں کا ٹھیکرا ہمیشہ دوسروں کے سر پھوڑتا ہے۔ اگر امریکہ کے پیدا کردہ اس خلاء کو کسی اور ملک نے پورا نہیں کیا تو نتائج غیر متوقع ہو سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ آئندہ کئی سالوں تک اس کے اثراتِ بد بین الاقوامی تعلقات پر چھائے رہیں۔خطرات مواقع بھی پیدا کرتے ہیں۔ ہمیں امید کرنی چاہیے کہ کورونا وائرس کے خلاف جنگ عالمِ انسانیت کو نا اتفاقی، خود غرضی اور باہمی تفریق کا باعث بننے والی جارحانہ قوم پرستی کے خطرات کو سمجھنے اور ان سے نمٹنے میں مددگار ثابت ہوگی۔ درد مند انسانیت کو یہ انتخاب کرنا ہے کہ وہ اندھی قوم پرستی کے دائرے میں اپنے آپ کو محصور رکھے گی یا آپسی بھائی چارے اور اتحاد کا راستہ اختیار کرے گی؟ نا اتفاقی کے نتیجے میں دنیا اس وباء سے طویل مدت تک چھٹکارا پانے میں نا کام رہ سکتی ہے۔ یہ بات صرف اسی وقت نہیں بلکہ مستقبل میں بھی انسانیت کے لیے کئی گنا مہلک ثابت ہوگی۔ دوسرا راستہ اختیار کرنے سے اس وباء کے جلد خاتمے کا امکان بڑھ جائے گا، بلکہ مستقبل میں اس طرح کی وباوں کا مقابلہ کامیابی کے ساتھ کیا جا سکے گا۔
کورونا وائرس دوبارہ حملہ کر سکتا ہے یا پھر اور کوئی وباء آ سکتی ہے۔ اس طرح حکومتوں کو بہانہ ملتا رہے گا وہ کہہ سکتی ہیں کہ وہ اپنے شہریوں کی صحت کے لیے فکر مند ہیں اس لیے وہ مسلسل نگرانی کے ذریعے ان کی جسمانی کیفیت سے باخبر رہنا چاہتی ہیں اور آئندہ کورونا وائرس جیسی کسی اور وباء کو پھیلنے سے قبل روکنا چاہتی ہیں۔