کورونا کےتباہ کن اثرات کو روکنے کے لیے مرکزی حکومت کی کوششیں غیرموثر

سب سے زیادہ متاثر تعلیم کا شعبہ بُری طرح نظرانداز۔مرکز کے معاشی پیکیج کا ایک تجزیہ

ڈاکٹر جاوید عالم خان، ماہر معاشیات
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اینڈ ایڈوکیسی (IPSA)

تعلیم ، روزگار ، صحت اور غذائیت کو اوّلین ترجیحات میں شامل کرنے کی ضرورت
جیسا کہ یہ بات سبھی کو معلوم ہے کہ کورونا وبا کے آنے کے بعد سے ہی مرکزی حکومت کے ذریعے اچانک لاک ڈاون کردیا گیا تھا اور مرحلہ وار اس میں تخفیف کی گئی اور ابھی مکمل لاک ڈاون ختم بھی نہ ہوا تھا کہ ’’اومیکرون‘‘ کی آمد سے دوبارہ سختیاں بڑھادی گئیں۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ حکومت نے جس سراسیمگی کے عالم میں بغیر کسی تیاری کے اور عوام کی حالت پر غور کیے بغیر لاک ڈاون کا اعلان کیا تھا وہ ایک نہایت ہی مضحکہ خیز اور غیر ذمہ دارانہ قدم تھا۔ لہٰذا دنیا نے دیکھا کہ ورکرس، مزدور، طلبا، سیاح (یا ایسے لوگ جو کسی بھی غرض سے گھر سے کہیں دور تھے) بے شمار مسائل کا شکار ہوئے۔
سب سے زیادہ نقصان مزدوروں کا ہوا اور انہیں شہروں سے بغیر کسی سہولت کے پیدل ہی اپنے گھروں کو لوٹنے پر مجبور کردیا گیا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بہیترے مسافر حادثات کا شکار ہوگئے۔
موجودہ اعداد وشمار اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ ابھی تک ملک بھر میں تقریباً 50کروڑ افراد غیر منظم شعبوں میں کام کرتے ہیں جن کی حالت ہمیشہ ہی ناقابل بیان رہی ہے کیونکہ کسی بھی حکومت نے ماضی یا حال میں ان کی بہتری اور سماجی تحفظ کے لیے کوئی بھی قابل ذکر کام نہیں کیا ہے۔ حکومت نے مزدور طبقہ کے لیے بجٹ اور پالیسی پر کبھی کوئی خاص توجہ نہیں دی۔
عظیم پریم جی یونیورسٹی کے ایک مطالعہ سے یہ بات واضح ہوئی ہے کہ اس لاک ڈاون کا اثر عوام کی معاشی زندگی پر بہت گہرا پڑا ہے لہٰذا وہ مزدور جو سال 2020میں لاک ڈاون کی وجہ سے بے روزگار ہوگئے تھے ان کی آمدنی میں تقریباً 68فیصد کمی آئی ہے۔ اسی طرح خواتین کی زندگی پر بھی لاک ڈاون کا بہت گہرا اثر پڑا اور تقریباً 56فیصد خواتین بے روزگار ہوگئیں۔ عظیم پریم جی یونیورسٹی کےایک اورمطالعہ سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ لاک ڈاون کے سبب لوگوں کی آمدنی گھٹ کر آدھی رہ گئی ہے اور غذائیت میں عدم تحفظ کا گراف کافی بڑھ گیا ہے۔ اس طرح غذائیت میں لوگوں کو کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔
بے روزگاری کی صورتحال کو سمجھنے کے لیےجدول ۔1 ملاحظہ کریں
لاک ڈاون کے سبب لوگوں کی ناگفتہ بہ حالت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ سال 2020ہنگر واچ (Hunger Watch) کے سال 2020 کے سروے کے مطابق 48فیصد لوگ دن بھر بھوکے رہنے پر مجبور ہیں اور 30فیصد لوگ مہینے میں کئی بار بغیر کھائے ہی رہتے ہیں۔ اس طرح لاک ڈاون کے اثرات سب سے زیادہ خواتین اور بچوں کی زندگیوں پر پڑے ہیں جس سے لوگوں کی معاشرتی طرز زندگی کافی حد تک بدل گئی ہے۔
سب سے حیرت انگیز امر یہ ہےکہ عوامی نظام تقسیم (PDS) جس سےکروڑوں لوگ استفادہ کرتے ہیں اور سبسیڈی و مفت میں راشن حاصل کرتے ہیں، لاک ڈاون کے دوران اس کے تحت حکومت نے سبھی کو مفت میں راشن دینے کا وعدہ کیاتھا لیکن گزشتہ برس نومبر میں حکومت نے اس راشن کو روک دیا جبکہ حکومت کے خزانہ میں 4گنا زائد راشن بھرا ہوا تھا۔ ایک اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ’’نیتی آیوگ‘‘ یہ چاہتی ہے کہ دیہی علاقوں میں سبسیڈی پر راشن پانے والوں کی شرح فیصد 75سے گھٹا کر 60اور شہری علاقوں میں سبسیڈی پر راشن پانے والوں کی شرح فیصد 50فیصد سے گھٹا کر 40فیصد کردی جائے۔ اس طرح آمدنی کے ساتھ ساتھ غذائیت کی شرح میں بھی کافی کمی دیکھنے کو ملے گی جس کے منفی اثرات خواتین اور بچوں کی طرز زندگی پر بہت گہرے پڑیں گے۔
لاک ڈاون نے جتنے بھی سماجی اور اقتصادی شعبوں کو متاثر کیا ہے تعلیم ان میں سرفہرست ہے، چنانچہ لاک ڈاون کے فوراً بعد ہی پورے ملک میں اسکولوں ،کالجوں اور یونیورسٹیوں کو بند کردیاگیا اور سارے طلبا کو اپنے گھروں میں ہی بیٹھنا پڑا۔ طلبا کو سب سے زیادہ خوشی چھٹیوں سے ہوتی ہے لیکن اس بار طلبا اسکولوں میں آنے کے لیے بے چین ہورہے ہیں۔ غریب، ایس سی، ایس ٹی، او بی سی آدیواسی اور اقلیتوں کے بچے عموماً سرکاری اسکولوں کو ہی جاتے ہیں لیکن اس لاک ڈاون میں تمام ہی اسکول تقریباً مکمل طور سے بند ہوگئے ہیں۔ پرائیویٹ اسکولوں کی فیس بہت زیادہ مہنگی ہونے کے سبب کچھ مالدار طبقے کے ہی بچے ایسے ہوتے ہیں جو ان میں جاتے ہیں۔ عمومی طور پر پرائیویٹ اسکولوں نے بھی دروس مکمل بند کردیے سوائے چند کے جنہوں نے آن لائن تعلیم جاری کو رکھا، ان میں بھی بہت سے طلبا کے پاس کہیں موبائل و لیاپ ٹاپ میسر نہیں تو کہیں بجلی تو کہیں انٹرنیٹ کا مسئلہ درپیش رہا۔ غرضیکہ لاک ڈاون میں سب سے زیادہ نقصان تعلیم کا ہوا اور حالت یہاں تک آپہنچی کہ طلبا کے سرپرست ان کی فیس نہیں دے پا رہے ہیں اور نتیجتاً ان کی تعلیم روک دے رہےہیں۔ طلبا سے بات کرنے پر معلوم ہوا کہ کچھ نے تو پڑھائی روک دی ہے کچھ پچھلی کلاس میں ہی ہیں اور ان میں سے بیشتر جو کچھ معلوم تھا وہ بھی بھول گئے۔ لاک ڈاون میں تعلیمی شعبے کی اتنی خراب حالت ہونے کے باوجود بھی حکومت کے پاس تعلیم کے بارے میں کوئی خاص پالیسی نہیں ہے چاہے ہم کورونا پیکیج کی بات کریں یا موجودہ بجٹ پیکیج کی جس میں حکومت نے طلبا کے لیے کسی خاص پروگرام، یا ان کے فیس میں تخفیف کا اعلان کیا ہو حالانکہ اس اثنا میں حکومت نے دوسرے شبعوں میں کچھ نئی اسکیموں اور پروگراموں کی شروعات کی ہے (جیسا کہ غریب کلیان یوجنا اور آتم نربھر پیکیج) ان حالات میں تعلیمی شعبے میں ٹھوس اور مستحکم قدم اٹھائے جانے کی ضرورت تھی مگر حکومت کی جانب سے طلبا اور ان کے سرپرستوں کو محض نا امیدی ہی ہاتھ لگی۔ موجودہ حکومت کے رویے کو دیکھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کی ساری تعلیمی پالیسوں کا محور ہندوتوا کرن ہی ہے نہ کہ تعلیم کو آزاد اور عالم گیر بنانا پیش نظر ہے۔ اس طرح حکومت اس بات کا مظاہرہ کررہی ہے کہ اس کی پالیسوں میں تعلیم کو کوئی اہمیت ہی حاصل نہیں ہے۔
یقینی اور محفوظ روزگار کے یکساں مواقع خواتین کی بہتری کے لیے کافی اہمیت رکھتے ہیں جبکہ دیکھا یہ گیا ہے کہ دیہی علاقوں میں کام کی خواہاں خواتین میں ہر پانچ میں سے 4بے روزگار ہیں اور جو خواتین کام پر ہیں ان کے ساتھ والینٹرس جیسا برتاو کیا جاتا ہے۔ان میں آشا ورکرس، آنگن باڑی سے جڑی اور مڈ ڈے میل کی باورچی خواتین قابل ذکر ہیں ۔ ان کی تنخواہیں نہایت ہی کم ہیں نیز انکے لیے کسی طرح کا کوئی سماجی تحفظ بھی مہیا نہیں کیا جاتا جس سے کام کے تئیں ان کی وہ دلچسپی باقی نہیں رہتی جس کی ان سے امید کی جاتی ہے۔ لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ ان خواتین کے لیے تحفظ اور یقینی روزگار کے ساتھ ساتھ بہتر تنخواہ کو یقینی بنائے تاکہ خواتین اور بچوں کی صحت وغذائیت، تحفظ اور معاشی حالت کو بہتر بنایا جاسکے۔
دیہی علاقوں کی معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے منریگا (MGNREGA) ایک بہتر اور موثر آلہ کار ثابت ہوسکتا تھا اگر حکومت اس میں کچھ اور بہتری پیدا کرلیتی مثلاً نئے مزدوروں کو شامل کرنا ، مزدوری میں اضافہ کرنا، سالانہ مزدوری کے جملہ ایام کو 100سے بڑھا کر 200کرنا۔ ٹھیک اسی طرح حکومت کو چاہیے کہ شہری علاقے میں رہنے والے لوگوں کے لیے بھی کچھ اسکیمیں اور پروگرام کی شروعات کرتی تاکہ لوگوں کو روزگار کے بہتر مواقع میسر ہوسکیں۔
مذکورہ صورتحال کے پیش نظر صحت ، تعلیم، غذائیت اور روزگار کے شعبے میں بہتری لانے کی غرض سے حکومت کو کچھ نئی پالیسیوں اور پروگرامس کی ضرورت تھی لہٰذا حکومت نے سال 2020-21میں مفاد عامہ کے مد نظر کئی قسطوں میں اکنامک ریلیف پیکیج کا اعلان کیا جس کو ہم پردھان منتری غریب کلیان یوجنا (PMGKY) اور آتم نربھر ابھیان پیکیج کے نام سے جانتے ہیں۔ اگرہم ان پروگراموں کے بجٹ پیکیج کی بات کریں تو حکومت کے دعوے کے مطابق مرکزی حکومت نے لوگوں کی فلاح کے لیے 29.87لاکھ کروڑ کے بجٹ پیکیج کا اعلان کیا ہے جو کہ ہماری کل جی ڈی پی کا 15فیصد ہے۔
بہرحال جب ہم اس بجٹ پیکیج کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات ہمارے سامنے آتی ہے کہ حکومت کل مختص رقم میں سے 12.71لاکھ کروڑ آر بی آئی کو دے گی اور حکومت کا اس میں کوئی دخل نہیں رہے گا۔ نیز دو لاکھ کروڑ کے سی سی (KCC) کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ اب اس ناقابل بیان معاشی صورت حال میں لوگ قرض کے ان پروگراموں سے کیونکر فائدہ اٹھا سکیں گے۔ مختصراً یہ کہ ان پروگراموں کا حکومت کی جانب سے بلاواسطہ عوام کو فائدہ کل مختص پیکیج کا محض 2.25فیصد ہی پہنچے گا جو کہ نہایت ہی افسوسناک ہے۔
آئیے پردھان منتری غریب کلیان یوجنا کو مختصراً سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں
٭ 80کروڑ غریب عوام کو تین مہینے کی مدت کے لیے ہر مہینہ 5کلو گرام چاول یا گیہوں اور ایک کلو گرام مفت دال دی جائے گی
٭ جن دھن اکاونٹ کے تحت 20کروڑ خواتین کے اکاونٹ کے تین مہینے کے لیے ہر مہینہ 500روپیے ٹرانسفر کیے جائیں گے۔
٭ تین مہینے کے لیے 8کروڑ غریب کنبوں کو مفت گیس سیلنڈر ملے گا۔
٭ منریگا (MGNREGA) کی مزدوری کو 182روپئے سے بڑھا کر 202کردیا جائے گا تاکہ 13.62کروڑ افراد کو فائدہ پہنچ سکے۔
٭ سینیر سٹیزن، غریب بیواوں اور غریب معذوروں کو ملنے والی پنشن میں 1000روپے کی اضافی رقم دینا۔
٭ پی ایم کسان یوجنا کے تحت 8.7کروڑ کسان کو 2000اپریل کے پہلے ہفتے میں دینا۔
٭ عورتوں کے سیلف ہیلپ گروپ (Self Help Groups) کے تحت 63لاکھ افراد کو 10اکھ کی جگہ 20لاکھ کا قرض بلاکسی ضمانت کے دینا۔
٭ وہ ورکرس جن کی تنخواہیں 15ہزار ماہانہ سے کم ہیں انہیں پراویڈنٹ فنڈ سپورٹ (Provident Fund Support)فراہم کرنا۔
٭ صوبائی حکومتوں سے درخواست کی گئی کہ تعمیراتی کاموں میں مشغول مزدوروں کومالی مدد فراہم کی جائے۔
٭ کووڈ عملہ کو 50لاکھ کا انشورنس
٭ صوبائی حکومتوں سے کہا گیا ہے کہ ڈسٹرکٹ منرل فنڈ کو کورونا کو پھیلنے سے روکنے پر خرچ کیا جائے۔
ہمارے تجزیہ سے یہ پتا چلتا ہے کہ غریب کلیان یوجنا کا زیادہ تر مختص بجٹ حصہ بلا واسطہ استفادہ کنندگان کو پہنچتا ہے جبکہ ’’آتم نربھر ابھیان‘‘ کا بیشتر حصہ قرض کے ذریعہ بینکوں کے واسطے سے استفادہ کنندگان کو دیا جائے گا جس کوجدول ۔2کے ذریعہ بآسانی سمجھا جاسکتا ہے۔
تجزیہ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ حکومت گزشتہ دو برسوں میں بجٹ اورپالیسی کے تئیں عوام کی ذمہ داری سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کرتی رہی ہے جس کے سبب بدحالی میں مزید اضافہ ہی دیکھنے کو ملا ہے۔
حکومت کی ذمہ داریاں اپنے معزز شہریوں کے اوپر سرپرست کی سی ہوتی ہیں جو لاک ڈاون اور کورونا جیسی وباوں میں کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہیں، ایسے حالات میں حکومت عوام کو یوں ہی بے سہارا و لاچار نہیں چھوڑ سکتی نہ ہی وہ اپنے شہریوں کی تعلیم، صحت، روزگار یا غدائیت کو نظر انداز کرسکتی ہے۔ ایسا کرنا بہت ہی غیر ذمہ دارانہ بات ہو گی۔ کسی بھی حکومت کی قابلیت اور اس کی دانشمندی ایسے ہی حالات میں جانچی جاتی ہے کہ آیا یہ حکومت اپنی ذمہ داریوں کو نبھا پارہی ہے یا بالکل ہی نا اہل ہے۔ ہمیں بڑے ہی افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ موجودہ حکومت اپنی ذمہ دریوں کے تئیں بالکل ہی نا اہل ثابت ہوئی ہے، اس نے ایسے ایسے غیر دانشمندانہ قدم اٹھائے ہیں جس سے عوام الناس کو صرف اور صرف نقصان ہی ہوا ہے۔ لہٰذا حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ مفاد عامہ کے پیش نظر اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرے اور اپنی کوتاہیوں کو درست کرنے کی کوشش کرے۔ حکومت اپنی پالیسیوں میں صحت، تعلیم، غذائیت کو شامل کرے اور نوجوانوں کے روزگار پر خصوصی توجہ دے تبھی ملک کے باشندے خوش رہیں گے ملک کی ترقی ہوگی اور حکومت بھی اپنے مقاصد میں کامیاب سمجھی جائے گی۔
***

 

***

 حکومت کی ذمہ داریاں اپنے معزز شہریوں کے اوپر سرپرست کی سی ہوتی ہیں جو لاک ڈاون اور کورونا جیسی وباوں میں کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہیں، ایسے حالات میں حکومت عوام کو یوں ہی بے سہارا و لاچار نہیں چھوڑ سکتی نہ ہی وہ اپنے شہریوں کی تعلیم، صحت، روزگار یا غدائیت کو نظر انداز کرسکتی ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  09 جنوری تا 15 جنوری 2022