کورونا کی امکانی تیسری لہر اور گرتی معیشت حکومت کے لیے بڑا چیلنج

آسمان چھوتی مہنگائی و بے روزگاری سے غریبی بڑھ رہی ہے

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

 

بھارت میں کورونا وبا کی دوسری لہر کا اثر آہستہ آہستہ کم ہو رہا ہے، اب متاثرین اور اموات کی تعداد میں کمی درج کی جارہی ہے مگر جب تک اس وبا کو پوری طرح سے قابو میں نہیں کرلیا جاتا ہمیں محتاط رہنا اور بڑی مصیبت کے لیے تیاریوں پر دھیان مرکوز رکھنا ضروری ہے۔ واضح رہے کہ جنوری 2021 کے مقابلے میں اب کورونا متاثرین کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ تقریباً دیڑھ سال پر محیط مصیبت کے دور میں سرکاری اعداد وشمار کے مطابق 3.86 لاکھ افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور 7.9 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں۔ ویسے ہلاکتوں کے غیر سرکاری اعداد وشمار اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ اب تک 2.88 کروڑ افراد اس وبا سے صحت یاب ہو چکے ہیں۔ دوسری لہر کے حملے اور اس سے پھیلی افراتفری اور ٹیکوں کے حصول میں دشواریوں اور حکومت کی عدم توجہ کی وجہ سے حالیہ ماہ میں ٹیکہ اندازی کی مہم میں بڑی دشواریاں اور رکاوٹیں آئیں مگر مرکزی حکومت پر سپریم کورٹ کی پھٹکار کے بعد وہ ٹیکوں کی خریداری کر کے ریاستوں کو فراہم کر رہی ہے۔ ٹیکہ بنانے والی کمپنیوں نے بھی اپنی پیداوار بڑھا دی ہے۔ اس طرح ٹیکہ اندازی مہم میں سرعت دیکھی جارہی ہے جس سے توقع ہے کہ ہماری معاشی، سماجی ودیگر سرگرمیاں بڑھیں گی، مگر ہم نے سائنس دانوں اورطبی ماہرین کی مسلسل تنبیہ کے باوجود سنیٹائزیشن، ماسک اور سوشل ڈسٹنسنگ (ایس ایم ایس) کا خیال نہیں رکھا جس کی وجہ سے دوسری لہر کچھ زیادہ ہی قہر برپا کر گئی۔ مغربی ملکوں کی طرح بھارت میں بھی تیسری لہر کی قہر سامانیاں جلد ہی دستک دینے کو ہیں۔ 6 تا 8 ہفتوں میں ہی تیسری لہر کا اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ اس لیے لوگوں کو خبردار کیا جارہا ہے کہ لوگوں کے ریاستی لاک ڈاون میں نرمی کے درمیان بد احتیاطی برتی تو اس کا بڑا خمیازہ بھگتنا پڑسکتا ہے۔ ایمس کے ڈائرکٹر رندیپ گلیریا نے اس ضمن میں اہم بیان دیا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ ان لاک ہونے کے بعد لوگوں میں لاپروائی شروع ہوجاتی ہے۔ لوگوں کی بھیڑ کی وجہ سے معاملہ زیادہ ہی سنگین ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تیسری لہر سے بچنا مشکل نظر آرہا ہے۔ مہاراشٹر سی ایم کی اکسپرٹ کمیٹی نے کہا کہ مہاراشٹرا میں مقررہ وقت سے قبل بھی تیسری لہر آسکتی ہے۔ اس لیے مرکز نے ریاستوں کو ہدایت کی ہے کہ لاک ڈاون کو کھولنے میں احتیاط ضروری ہے۔ مرکز سے بھیجے گئے ’’ٹسٹ ، ٹریک، اینڈ ٹریٹ‘‘ اور کووڈ ویکسین پر خصوصی توجہ دی جائے۔ اس ٹیکہ اندازی مہم کے ذریعے ہی کورونا کے چین کو توڑا جاسکتا ہے اس لیے یہاں بھی کل تک 28کروڑ لوگوں کو ٹیکے لگ چکے ہیں۔ کوشش ہونی چاہیے کہ جب تک تیسری لہر آئے اتنے ہی مزید لوگوں کو ٹیکے لگائے جائیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی چیف سائنسٹس سومیہ سوامی ناتھ نے آگاہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈیلٹا ویرینٹ بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اس ویرنٹ کی سرعت Transmission abilityبڑھ جانے کی وجہ سے یہ بہت جلد پھیل رہا ہے۔ کووڈ۔19 کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے سومیا نے کہا کہ ابھی تک جتنی ویکسین ہمارے پاس موجود ہے اور جن کا تجربہ کیا جارہا ہے۔ ہمیں ان کے بارے میں اور بھی مزید ڈاٹا کی ضرورت ہے۔ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ کس ملک میں کس طرح کا ویرینٹ ہے اور کون سی ویکسین موثر طریقے سے استعمال کی جارہی ہے۔ ہمارے پاس کچھ ڈاٹا موجود ہے۔ ابھی مزید اعداد وشمار ضروری ہیں۔ اس کے بعد ہی ہم اس ویرینٹ سے نمٹنے اور ریسرچ کے لیے بہترمنصوبہ بناسکیں گے۔ بھارت کے بعد برطانیہ، امریکہ برازیل و دیگر یوروپی ملکوں میں ڈیلٹا ویرینٹ تیزی سے پھیل رہا ہے۔ برطانیہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہاں ڈیلٹا ویرینٹ کی وجہ سے روز بروز کورونا کے کیسس بڑھ رہے ہیں۔ ایک ماہ میں جتنے کیسز ملے ہیں ان میں 90 فیصد ڈیلٹا ویرینٹ کی زد میں آکر متاثر ہوئے ہیں۔ اس ویرینٹ کی وجہ سے برطانیہ میں محض 11دنوں میں متاثرین کی تعداد دگنی ہوگئی ہے۔
امپیریل کالج لندن کے ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 20مئی سے 7جون تک ایک لاکھ گھروں سے ٹیسٹنگ سواب لیے گئے ہیں۔ برطانیہ میں اب ٹیکوں اور کووڈ۔19 کے درمیان مسابقت چل رہی ہے۔ اعداد وشمار کے مطابق ہر 540متاثرین میں سے ایک مریض ڈیلٹا ویرینٹ سے بیمار ہے۔ وہاں کل ہی 6مریضوں کی اس کی وجہ سے موت ہوگئی ہے۔ یوروپ کے دیگر ممالک میں بھی یہ وبا تیزی سے پھیل رہی ہے۔ دوسری طرف امریکہ اور برازیل میں بھی ڈیلٹا ویرینٹ کے معاملے تیزی سے سامنے آرہے ہیں۔ نیویارک سٹی کے صحت عامہ کے شعبہ کے مطابق شہر میں 6.7فیصد معاملوں میں ڈیلٹا ویرینٹ کی تصدیق ہوئی ہے۔ برازیل میں کورونا کی تیسری لہر کا معاملہ سامنے آرہا ہے۔ ڈیلٹا ویرینٹ (B.1.617) ان چار نئے ویریٹس میں شامل ہیں جس نے سب سے زیادہ بھارت میں تباہی مچائی ہے۔ موجودہ وائرس دیگر ویرینٹ کے مقابلے 60فیصد قوی ہے۔
ڈبلیو ایچ او نے کل ہی جنوب مشرقی ایشیائی ممالک سے اپیل کی ہے کہ کووڈ کی تیسری لہر آنے سے قبل صحت کے بنیادی ڈھانچہ کو مضبوط بنائے۔ طبعی دوری کے اصولوں کو مضبوط کرے اور ٹیکہ اندازی مہم کو مہمیز دے۔ ڈبلیو ایچ او نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ انفیکشن بھارت بنگلہ دیش، نیپال، انڈونیشیا، سری لنکا، تھائی لینڈ ودیگر ممالک میں اپنا پیر پسار رہا ہے جو قابل تشویش ہے۔ فی الحال نیپال میں ہلاکت کی رفتار بہت زیادہ ہے۔
واضح رہے کہ کووڈ کی پہلی لہر سے دیہی علاقے کسی طرح محفوظ تھے مگر جب دوسری کورونا وبا کی لہر نے حملہ کیا تو لوگ بہت زیادہ دہشت زدہ ہوگئے کیونکہ گاوں کے لوگوں نے کورونا کو شہری وبا سمجھ کر زیادہ اہمیت نہیں دی۔ اس لیے دیہی باشندے اسے کَلنک تصور کرنے لگے۔ اسی وجہ سے لوگوں کے اندر کووڈ ٹسٹ اور ٹیکہ کے تئیں بڑی ہچکچاہٹ اور مزاحمت دیکھنے کو مل رہی ہے۔ اب دوسری لہر سے بڑی تباہی کے بعد حکومت نے زور وشور سے کورونا کے علاج اور ٹیکہ اندازی کے تئیں بیداری مہم کی شروع بھی کی ہے۔ ویکسین کے متعلق ویسے ہی شکوک و شبہات شہری علاقے میں بھی پائے جاتے ہیں ۔ دوسری لہر نے جیسی تباہی مچائی اور تقریباً چار لاکھ سے زائد لوگ ہلاک ہوگئے کیونکہ کسی کو ہاسپٹل میں بیڈ نہیں ملا، کوئی آکسیجن سلنڈرسے محروم رہا، کسی کو دوا نہ ملی کیونکہ صحت عامہ کا شعبہ ملک میں بالکل ہی بے اثر اور بے کار تھا۔ اسی لہر کے دوران مودی اور ان کی وزارت کی پوری فوج پانچ ریاستوں میں ہونے والے الیکشن میں مصروف رہی۔ اس وقت دنیا کے بیشتر ممالک اور ان کے ذمہ دار کووڈ کو شکست دینے اور قابو میں کرنے میں مشغول تھے۔ مگر بھارت میں صحت کے بنیادی ڈھانچہ کو فقدان کے باعث لوگ دم توڑ رہے تھے۔ حکومت اپنی بدنامی سے بچنے کے لیے اموات کی تعداد پر پردہ ڈالتی رہی۔ گودی میڈیا مودی جی کی واہ واہی میں مست تھا مگر بین الاقوامی میڈیا نے حکومت اور خاص کر مودی جی کی ناکامیوں کو اجاگر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور سب سے زیادہ مودی جی کی جملہ بازی، حد سے زیادہ خود اعتمادی اور تکبر اور بڑ بولے پن کو اس ناکامی کا ذمہ دار قرار دیا۔ برطانوی جریدہ دی اکانومسٹ نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ مودی پر خود نمائی اور خود ستائی کا خبط سوار ہے اس لیے وہ تشہیر کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ سات سالوں میں مودی جی نے قومی اور عالمی لیڈر بننے کے جنون میں تشہیر پر عوام کا ٹیکس میں دیا گیا کروڑہا روپیہ برباد کیا ہے۔ اگر تیسری لہر پر مودی جی کا رویہ کام کیے بغیر کریڈٹ لینے والا رہا تو عوام ہرگز معاف نہیں کریں گے۔
اپریل تا جون پہلی سہ ماہی میں جی ڈی میں 12فیصد کی تنزلی کا اندیشہ ہے۔ اس پر سوئس بروکریج فرم یو بی ایس سیکوریٹنر نے جون سہ ماہی میں جی ڈی پی کے 12فیصد گھٹنے کا اندازہ رکھا ہے۔ اس کے مطابق دوسری لہر کے درمیان اپریل اور مئی میں کیے گئے لاک ڈاون سے ہوا ہے۔ گزشتہ سال اسی سہ ماہی میں 23.9فیصد کی تنزلی دیکھی گئی تھی۔ اس لیے بھارتی معیشت کی کمر ٹوٹ گئی اور مستقل منفی میں جاری ہے۔ کنفیڈریشن آف انڈین انڈسٹری (سی آئی آئی) کے صدر نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ دوسری لہر کے بعد شروع ہوا ان لاکنگ کے درمیان حکومت کو بیک وقت دو قدم اٹھانے ہوں گے۔ طلب کی مضبوطی تک حکومت کو کھیت بڑھانے اور صنعتوں کو 3 لاکھ کروڑ روپے سے سہارا دینا ہوگا۔ اس بار معیشت بڑی سست رفتاری سے بہتری کی طرف آئے گی۔ مہنگائی اور آسمان چھوتی بے روزگاری سے عام لوگوں کو غریب سے غریب تر کر دیا ہے۔ آر بی آئی کے سابق گورنر ڈی سبا راو نے امیر اور غریبوں کی آمدنی کی عدم یکسانیت سے ان کے درمیان خلیج زیادہ ہی بڑھا ہے۔ اس طرح کی غیر موازن بحالی ملکی معیشت کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ گھریلو بازار میں رقیقیت (لیکویڈیٹی) اور دیگر املاک کی چیزوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اس وبا کے دوران شیئر بازاروں میں بڑی تیزی دراصل یکساں بحالی کی وجہ سے ہے۔ یہ دراصل سرمایہ داروں کو فائدہ دیتا ہے۔ سابق وزیر مالیات یشونت سنہا نے این ڈی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ کووڈ سے نہیں نوٹ بندی سے معیشت میں تنزلی آئی ہے کیونکہ نوٹ بندی کے وقت شرح نمو 8فیصد تھی جو ماقبل کورونا کے4 فیصد ہو گئی۔ لوگوں کی کروڑوں کی آمدنی ختم ہوئی۔ معیشت کی بہتری کے لیے اب تک کوئی قابل قدر قدم نہیں اٹھائے گئے۔ معیشت نیم مردہ حالت میں ہے۔ مگر حکومت کی فضول خرچی پر کوئی روک نہیں ہے۔ حکومت کی سرپرستی میں سوئس بینک میں بھارتیوں کے کالا دھن جمع ہونے کا 286فیصد کی زیادتی کے ساتھ نیا ریکارڈ قائم ہوا ہے، اس لیے وزیراعظم اپنی رئیسی سے دستبرداری ہوکر غریب عوام کے مسائل کو حل کرنے پر توجہ دیں اور تیسری لہر سے نمٹنے کی بہتر طریقے سے تیاری کریں۔ محض جملہ بازی و خود نمائی سے کام نہیں چلے گا۔ بقول راہول گاندھی وزیراعظم کے آنسووں سے جانیں نہیں بچائی جاسکتیں۔
***

طلب کی مضبوطی تک حکومت کو کھیت بڑھانے اور صنعتوں کو 3 لاکھ کروڑ روپے سے سہارا دینا ہوگا۔ اس بار معیشت بڑی سست رفتاری سے بہتری کی طرف آئے گی۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 27 جون تا 3 جولائی 2021