کورونا وائرس کے دوران چینی معیشت کی شرح نمومیں اضافہ
گرتی ہوئی بھارتی معیشت کے لیے ایک سبق
پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
چین کی جی ڈی پی میں کورونا وبا کی وجہ سے بڑی پستی کے بعد دوسری سہ ماہی میں 3.2فیصد کے اضافے کا امکان ہے۔ دنیا کی دوسری بڑی معیشت چین کو سال 2020کے جنوری۔ مارچ میں شدید دھکا لگا۔ مگر گزشتہ ہفتہ جاری ہونے والی رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ جاریہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی (اپریل تا جون) چین کی جی ڈی پی میں بہتری دیکھنے کو مل رہی ہے۔ چین کی معیشت میں بہتری کے اعلان کئے جانے کے بعد اس رپورٹ پر ساری دنیا میں بڑی باریکی سے تجزیہ کیا جارہا ہے۔ جو اعداد و شمار پیش کئے گئے ہیں وہ ماہرین کے تخمینہ سے کچھ زیادہ ہی ہیں۔ اس طرح چین نے خود کو معاشی سستی میں جانے سے بچالیا۔ چین نے کورونا وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے سخت تالہ بندی کرتے ہوئے کاروبار اور فیکٹریوں کو بند کردیا تھا ۔ ساتھ ہی معیشت کی ریکوری کے لیے ٹیکس کی وصولی میں بھی نرمی برتی۔ ماریکوئی بی بی سی نیوز سنگاپور نے بتایا کہ چینی معیشت سخت لاک ڈاؤن کے بعد بہت زور لگا کر اپنے آپ کو اس مشکل سے نکال پائی ہے۔ فیکٹریوں میں زیادہ کام صنعتی پیداوار میں اضافے کے ثبوت ہیں لیکن جو شعبہ امید کے مطابق سامنے نہیں آیا وہ خرید و فروخت کا ہے۔ جب چینی معیشت تیز گام ہونے لگی تو امریکہ کے ساتھ ہانگ کانگ معاملے میں تناؤ بڑھنے لگا۔ چین کے اس Vشکل کی ریکوری سے ماہرین اقتصادیات متحیر ہیں۔ ڈوئچے بینک کی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین میں Vشکل کی ریکوری کو واضح طور پر آگے بڑھتا دیکھا جا سکتا ہے۔ مگر صارفین کی طرف سے خرچ کرنے کی سطح اب بھی ماقبل کورونا وبا کے مقابلے میں کم ہے۔ چین اس خلا کو سیاحت اورکھانے پینے کی اشیاء کی فروخت سے پُر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ چنانچہ چین نے پہلے ہی واضح کردیا تھا کہ مئی 2020کے لیے معاشی ترقی کا کوئی ہدف نہیں ہوگا کیونکہ کورونا وائرس کو قابو میں کرنا اس کا پہلا ہدف تھا۔ 1990کے بعد پہلی مرتبہ چین نے اپنی معیشت میں شرح نمو کا کوئی ہدف نہیں رکھا کیونکہ امسال پہلے چھ ماہ میں 1.6فیصد معیشت میں کمی آگئی تھی۔
کورونا قہر کی عالمی معاشی تباہی کے درمیان دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت چین کو جاریہ مالی سال کی دوسری سہ ماہی میں بڑی تیزی سے پٹری پر آنے کا موقع ملا۔ اس سے قبل اس سال کی پہلی سہ ماہی میں اس کی جی ڈی پی میں 6.8فیصد کا سکڑاؤ متوقع تھا۔ مگر پہلی سہ ماہی (اپریل تا جون) 3.2فیصد کی گزشتہ ہفتہ شرح نمو منظر عام پر آگئی۔ چینی معیشت میں یہ نمو اس وقت آئی جب دیگر بڑی معیشتیں امریکہ 5.9فیصد، جاپان 5.2فیصد، برطانیہ 6.5فیصد، جرمنی 7.0 فیصد، فرانس 7.2فیصد، اٹلی 9.1فیصد، اسپین 8.0فیصد اور بھارت 4.5فیصد کے سکڑاؤ سے جنگ لڑ رہی ہیں۔ دوسری سہ ماہی میں چین کی تجارت کا سرپلس 154.7بلین ڈالر اچانک بڑھ گیا جو گزشتہ سال اسی مدت میں 104.4بلین ڈالر کے قریب تھا۔ اس تجارت میں ترقی کی جو وجوہات بیان کی جارہی ہیں وہ بھونچکا کردینے والی ہیں۔ تجزیہ نگار کے مطابق تجارت میں ترقی کی تین وجوہات ہیں۔ چائنیز میڈیکل اوزاروں کی سخت طلب، کورونا وبا کے درمیان آسیان (ASEAN) ملکوں سے اچھی تجارت اور امریکہ کے ساتھ برآمدات میں سختی اور اس سے دونوں ممالک کے درمیان تلخ تعلقات۔ کیونکہ جو وائرس چین سے نکلا تھا اس کے لئے عالمی برادری، کمیونسٹ چین کو ہی اس تباہ کن وائرس کے لئے مورد الزام ٹھہرا رہی ہے جس کی وجہ سے عالمی پیمانے پر میڈیکل سامانوں کی طلب میں زبردست اضافہ ہوا اور چینی معیشت کی ریکوری ہوئی۔ چین کے ساتھ سرحدی تنازع میں الجھ کر چینی اشیاء کے بائیکاٹ کی جنونی اپیل کے باوجود بھارت، چین سے کووڈ 19ٹسٹ کٹس، تھرما میٹرس اور پی پی ای کٹس جہازوں میں بھر بھر کر درآمد کررہا ہے۔ اسی وجہ سے کم وقت میں بھارت میں زیادہ ٹسٹنگ شروع کی گئی اور چین نے راحت کا سانس لیا جسے دیکھ کر آسیان ممالک کی بھی چین سے تلخی بڑھ گئی، کیونکہ بیجنگ اور اس خطے کے دیگر ممالک سے سرحدی تنازع بڑھنے سے گزشتہ سہ ماہی میں تجارت میں ترقی ہوئی ہے۔ امریکہ چین سے کورونا قہر برپا ہونے سے بہت پہلے ہی تجارتی تنازع میں بری طرح الجھ گیا اس کی وجہ سے امریکی امپورٹرس نے اگرچہ کم مدت کے لیے بہت سارے اشیاء کو امپورٹ کرکے ذخیرہ کرلیا کہ تعلقات منقطع ہونے کی صورت میں اس سے زیادہ کمائی ہوسکے گی۔ اس پس منظر میں چین نے دنیا بھر کے ملکوں سے یہ کہتے ہوئے کہ اس کا کاروباری انداز جارحانہ ہوگا پھر سے تعلقات استوار کرلیا۔ نتیجتاً فیکٹریوں میں زیادہ سامانوں کی تیاری ہونے لگی اور اس کا اکسپورٹ بھی بڑھا اور بیجنگ تیزگامی سے بنیادی ڈھانچوں کی تعمیر میں لگ گیا تاکہ معیشت میں ترقی کے ساتھ اچھال اور گھریلو طلب میں زیادتی ہو۔ ساتھ ہی چین نے جارحیت سے گھریلو سیاحت کو آگے بڑھایا تاکہ جو دولت گھروں میں خرچ کے بغیر پڑی ہوئی ہے اس
کا چھٹیوں میں بہتر استعمال ہو۔ اگرچہ عالمی سیاحت بند ہے اس لیے چینی سیاحوں کو کفایتی شرح پر اپنے ملک کو دریافت کرنے کے لیے ابھارا گیا۔ شن زو کے مطابق جنگ کی سب سے بہترین حکمت عملی ہے کہ بغیر لڑے دشمن کو زیر کیا جائے۔
چین نے بہت ہی عمدہ انداز میں نگرانی کر کے کورونا قہر کے طوفان سے آہستہ آہستہ اپنی معیشت کو کامیابی سے نکال لیا۔ اس طرح بیجنگ کو دوسری سہ ماہی میں V شکل کی ریکوری میسر آئی۔ ساتھ ہی چین نے ٹیکنیکل مندی کو نظر انداز کرتے ہوئے منفی گروتھ پر قابو پایا۔ 3.2کی جی ڈی پی میں نمو، جو چین کے نیشنل بیورو آف اسٹیٹسٹکس کی طرف سے منظر عام پر آیا ہے جس نے 6.8فیصد کے پہلی سہ ماہی 2020میں جی ڈی پی سکڑاؤ کے اندازے کو پیچھے چھوڑدیا گرچہ چین کی جی ڈی پی شرح نمو 2019کی چوتھی سہ ماہ کے 6فیصد کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے۔ پھر بھی کورونا کے دوران ایسی تیز بازیابی بڑی مثبت کامیابی ہے۔ کونارا چین کے چیف اکانومسٹ لوتنگ نے کہا کہ دوسری سہ ماہی کا گروتھ چین کے کورونا وائرس کو کامیابی سے کنٹرول کرنے کی اور پالیسی سپورٹ کی وجہ سے ممکن ہوا۔ نِکی کے تجزیے کے مطابق تیز رفتاری سے گروتھ کی ریکوری سے دیگر ممالک کو بھی سمت ملے گی کہ مالی پیاکیج کے بجائے قرینہ سے خرچ ہی اصل چیز ہے۔ اس وجہ سے ملک نے بڑی سرعت سے وبا کو قابو کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ آئی ایم ایف کے مطابق کورونا وبا کو کنٹرول کرنے میں بہترین منصوبہ بندی کے ساتھ چین کا خرچ کرنے کا سلیقہ اور قرض اور اس کی ضمانت پر کنٹرول کی وجہ سے چین کی جی ڈی پی کا 2.5فیصد ہی صرفہ آیا جبکہ امریکہ کا 11فیصد، جاپان کا 20فیصد اور جرمنی کا 34فیصد تھا۔ قرض اور گارنٹی کے مقابلے یہ چینی راحتی پیکیج بہت ہی مختصر ہے کیونکہ چین اپنی جی ڈی پی کا نصف گھریلو کھپت سے پورا کرتا ہے۔ اس لیے بیجنگ نے بہت قاعدے سے کھپت کو بہتر کرنے کے لیے خریداروں کے ہاتھ میں رقم فراہم کی اور اسے پری پیڈ ووچر کے ذریعے خاص خاص اشیاء کے لیے استعمال کیا۔ ان تمام تراکیب سے ہمارے ملک کو بھی سبق لینا چاہیے کیونکہ مرکزی حکومت نے جی ڈی پی کا محض 2فیصد خرچ کرکے سمجھ لیا کہ وہ اتنے بڑے معاشی بحران کو جو کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہوا ہے قابو کرلیں گے۔ ہمارے ملک کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ اتنے بڑے طبی اور معاشی بحران کے وقت محکمہ صحت، وبائی امراض، سماجیات اور اقتصادیات کے ماہرین سے مشورہ نہیں کیا جاتا ہے بلکہ حکومت کے گرد گردش کرنے والے ماہرین پر ہی حکومت تکیہ کرلیتی ہے جس کا نتیجہ کبھی بہتر نہیں آسکتا۔ ماہرین اقتصادیات، پروفیسر ابھیجیت بنرجی، پروفیسر پربھات پٹنائک، اور جے این یو کی پروفیسر جیئنتی گھوش نے حساب لگاکر بتایا کہ ہر شہری کو چھ ماہ تک راشن اور نقد پہونچانے میں جی ڈی پی کا محض 3فیصد ہی خرچ ہوگا۔ گزشتہ ماہ سے ہی ملک کے ماہرین اقتصادیات لوگوں کوماہانہ چھ ہزار کی رقم دینے کا مشورہ دے رہے ہیں تاکہ لوگوں کی قوت خرید بڑھے۔ مگر ہمارے چیف معاشی مشیر کرشن مورتی سبرامنین کورونا ویکسین کی تیاری کا انتظار کررہے ہیں تاکہ لوگوں کے اندر غیر یقینی کا خاتمہ ہو اور وہی مالیاتی حوصلہ افزائی کے لیے مناسب وقت ہوگا۔ ان کے مطابق یقینی طور پر اس سے ان کی طلب بڑھے گی حالات سے مقابلہ کرنے کے لیے منصوبہ بندی اہم ہے۔ ساتھ ہی خرچ کی گئی رقم کی صحیح قدر کے لیے وقت بھی کافی اہم ہے۔ مگر چین نے اس سے الگ ہٹ کر نقدی رقم فراہم کی اور گارنٹی کے ساتھ لوگوں کو قرض بھی دیا۔ وزیراعظم مودی نے 20لاکھ کروڑ روپے کا معاشی راحتی پیکیج کا اعلان کیا۔ اسے بینک کو دے کر کاروبار کو کھڑا کرنا تھا اس سے چھوٹے کاروبار نان بینکنگ فائنانشیل کمپنیز، مائیکرو فائنانس ادارے اور ہاوزنگ فائنانس کمپنی کو سہارا دیا گیا۔
عمدہ منصوبہ بندی، چین کے خرچ کرنے کا سلیقہ بذریعہ قرض لوگوں کے ہاتھ میں نقد دے کر طلب اور کھپت میں ہنرمندی سے اضافے نے اقتصادی ماہرین کو تو حیرت میں ڈالا ہی ساتھ ہی دو عالمی اداروں نے چین کو 2024میں دنیا کی سب سے بڑی معیشت بننے کی پیشن گوئی کردی۔ عالمی بینک اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے اعداد و شمار کے مطابق چین 2024میں امریکہ کو پس پشت ڈالتے ہوئے دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن کر ابھرے گا۔ سروے کے مطابق 2024میں جی ڈی پی کے حجم کے لحاظ سے چار ایشیائی ممالک یوروپ کو پیچھے چھوڑدیں گے جبکہ چین اول اور امریکہ دوم ہوگا۔رپورٹ کے مطابق 1990کے بعد سے چین کی شرح نمو لگاتار بڑھ رہی ہے۔ بھارت اور انڈونیشیا حال ہی میں دس بڑی معیشتوں میں شامل ہوئے ہیں۔ زیادہ یہی امکان ہے کہ بھارت 2024میں تیسرے اور انڈونیشیا پانچویں مقام پر ہوگا۔ جرمنی ساتویں، برازیل آٹھویں ، برطانیہ نویں اور فرانس دسویں پائیدان پر ہوگا۔ واضح ہوکہ امریکہ اور چین کے درمیان تلخیاں بڑھ رہی ہیں،یہ اس وقت ہوا جب امریکی صدر نے امریکی ریاست ہیوسٹن اور ٹیکساس میں چین کے سفارتخانوں کو بند کرنے کا حکم صادر کردیا۔ صدر ٹرمپ نے پریس کانفرنس کے
سوال و جواب میں کہا کہ جہاں تک فاضل سفارتخانوں کو بند کرنے کی بات ہے وہ ہمیشہ ممکن ہے۔ دوسری طرف لداخ میں سرحدی تنازع کی وجہ سے دو ماہ سے بھارت اور چین کے درمیان کافی کشیدگی پائی جارہی ہے۔ ایسے حالات میں جب چین معیشت میں ترقی کرکے پہلے مقام پر آجائے گا تو اس وقت دنیا کے بیشتر ممالک چینی معیشت اور تجارت پر انحصار کریں گے۔
***
عمدہ منصوبہ بندی، چین کے خرچ کرنے کا سلیقہ ، بذریعہ قرض لوگوں کے ہاتھ میں نقد دے کر طلب اور کھپت میں ہنرمندی سے اضافہ نے اقتصادی ماہرین کو تو حیرت میں ڈالا ہی ساتھ ہی دو عالمی اداروں نے چین کو 2024میں دنیا کی سب سے بڑی معیشت بننے کی پیشن گوئی کردی۔ عالمی بینک اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے اعداد و شمار کے مطابق چین 2024میں امریکہ کو پس پشت ڈالتے ہوئے دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن کر ابھرے گا۔ سروے کے مطابق 2024میں جی ڈی پی کے حجم کے لحاظ سے چار ایشیائی ممالک یوروپ کو پیچھے چھوڑدیں گے جبکہ چین اول اور امریکہ دوم ہوگا۔