کورونا سے مودی کا ہندوتوا شکست کھایا ہے سسٹم نہیں
وبا کی تباہ کاریوں کو عوام اتنی آسانی سے بھولنے والے نہیں
انل سنہا
janchowk.com
سرکار کی مدد سے کارپوریٹس کی آمدنی دوگنی چوگنی اورآکسیجن ا ور دواوں کی قلت سے اموات
شاید کسی نے تصور بھی نہیں کیا ہو گا کہ ہندوتوا کے رتھ کے سامنے کوئی پوشیدہ طاقت کھڑی ہو جائے گی اور اسے شکست سے دوچار کر دے گی۔ ہو سکتا ہے کہ آکسیجن کے لیے تڑپ کر مر رہے لوگوں اور گنگا میں تیرتی لاشوں کو موجودہ میڈیا عوام الناس کی زندگی کا ایک معمولی واقعہ بتا دے لیکن لوگوں کے دل ودماغ سے کورونا وبا کی تباہ کاریوں کی یادیں آسانی سے غائب ہونے والی نہیں ہیں۔ کئی برسوں کے بعد لوگ اسے بنگال کے قحط یا طاعون (plaque) کی طرح یاد کریں گے جب انگریزوں نے لوگوں کو ان کے اپنے حال پر چھوڑ دیا تھا، انہیں معلوم ہو جائے گا کہ اُس دور میں بھی حکومت کی ہمدردی کی کہانیاں اسی طرح پیش کی جا رہی تھیں جس طرح آج کا میڈیا وزیر اعظم نریندر مودی کی شبیہ صاف و شفاف پیش کرنے کے لیے طرح طرح کے قصے گڑھ رہا ہے۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم کورونا کی ہلاکت خیزی کو برداشت کرنے میں مودی حکومت کی جانب سے کیے گیے انتظامات کی وجہ سے ناکام ہوئے ہیں جو آزادی پسند تحریک اور ترقی پسند نظریات کی بنیاد پر تعمیر کی گئی تھی یا اس ہندوتوا سیاست کی وجہ سے جو مودی کے سات برس کی حکومت میں اپنی برہنہ شکل میں سامنے آتی رہی ہے۔ سسٹم کے ناکام ہونے کا ٹھیکرا آر ایس ایس-بی جے پی کی اسی گھڑی گئی کہانی کے سر جاتا ہے جس کے مطابق پچھلے ستر سالوں میں ملک پستی کی طرف چلا گیا اور یہ اس لیے ہوا کہ یہاں کی اکثریت والی آبادی کو حاشیہ پر رکھا گیا۔
بے ایمانی اور جھوٹ پر مبنی اس کہانی میں آزادی کے بعد ہیرو کھڑے کیے گیے جو سائنس وٹکنالوجی کے میدان میں ہوئے ریسرچ سے تیار کردہ دوا (medicine) مثلاً ڈی آر ڈی او میں بنی دوا، جواہر لال نہرو کی سربراہی میں بنے سرکاری کارخانوں میں تیار آکسیجن سمیت آزادی کے بعد پھیلائے گئے ریلوے کے نیٹ ورک کا سہرا اپنے سر لیتے ہے۔ وہ کبھی اسے ’سودیشی‘ تو کبھی ’آتم نربھر بھارت‘ کی شناخت بتا کر اپنی تصویر پر چسپاں کر دیتے ہیں۔ لیکن جب دوا، ویکسین اور علاج کی سرعام لوٹ والے کاروبار میں شراکت دار بن کر لوگوں کو مرنے کے لیے چھوڑ دیتا ہے تو اس کے لیے سسٹم پر الزام لگا کر اپنے کو جرم سے پاک کرنے کی کوشش میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
آزادی کے بعد موت کا اس سے بڑا ’تانڈو‘ تقسیم ہند کے وقت دیکھا گیا تھا۔ وہ آفات سماوی نہیں تھا اور اس کا وار کورونا وائرس کی طرح پوشیدہ نہیں تھا بلکہ وہ لوگوں کے قابو سے باہر تھا۔ آپسی نفرت لوگوں کی جان لے رہی تھی۔ اس سانحے میں یہ بھی دیکھا گیا کہ صرف وہی لوگ تھے جو اخوت اور ہمدردی پر یقین رکھتے تھے جنہوں نے لوگوں کی امید کو زندہ رکھا تھا۔ مہاتما گاندھی غیر جانبدار تھے ان کے لیے نہ ہی سرحد اور نہ ہی کوئی دیوار اہمیت کی حامل تھی۔ لیکن جواہر لال نہرو سے کانگریس تک تمام قائدین تقسیم ہند میں شریک تھے اور حکومت سے وابستہ تھے۔ انہوں نے اس وقت حکومت نہیں بلکہ عوام کے قائد کی حیثیت سے کام کیا۔
ان کے بس میں جو کچھ بھی تھا انہوں نےکیا۔ قتل وغارت گری کو روکنے کی پرزور کوشش کی۔یہی وجہ ہے کہ کروڑوں مسلمان ملک میں ٹھیر گئے۔ اس وقت بھی موجودہ حکومت کو چلانے والے لوگوں کے نظریاتی آبا واجداد نفرت ہی پھیلا رہے تھے۔ اگر ہم اس وقت کے حکمرانوں کی ہمدردی وغمگساری پر مبنی نظریہ کی بنیاد پر موجودہ حکومت کے ہندوتوا کے نفرت انگیز نظریے پر چلنے والے طرزعمل سے موازنہ کریں تو ہم دونوں کے درمیان واضح فرق دیکھیں گے۔ ہمدردی سے مبرّا ہندوتوا کے نظریے کا ہی اثر ہے کہ سیکڑوں میل پیدل چل کر اپنے وطن کو لوٹ رہے مہاجر مزدوروں کو دیکھ کر بھی حکومت کا دل نرم نہیں ہوا۔ آکسیجن سے تڑپ کر لوگوں کے مرنے اور گنگا میں تیرتی لاشوں کو دیکھنے کے بعد بھی اسے اپنی شناخت کی ہی فکر لاحق رہی۔
اگر 2020میں کورونا وائرس کے پاؤں پھیلانے کے بعد ہم سرکار کی پالیسیوں اور رویوں پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ آکیسجن، وینٹی لیٹرس اور ویکسین سے لیکر ضروری دوائیوں کے انتظام میں سرکار وی آئی پی کلچر (VIP Culture) کی وجہ سے ناکام نہیں ہوئی۔ یہ بھی نہیں ہے کہ وقت رہتے اس نے فیصلے نہیں لیے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ حکومت وقت پر مطلع ہونے کے بعد بھی کوئی انتظام نہیں کر پائی۔ وہ چاہتی تو نوکر شاہی (bureaucracy) خاموشی سے اس کے پیچھے کھڑی ہو جاتی۔ لیکن بات اس سے بھی نہیں بننے والی تھی کیوں کہ ہندوتوا اور کارپوریٹ کا ایجنڈہ اسے عوام کے حق میں کام نہیں کرنے دیتا۔ دونوں ہی لوگوں کو راحت پہنچانے کے کسی سچے ایجنڈے کے خلاف ہیں۔ اگر تھوڑی دیر کے لیے یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ نریندر مودی، امت شاہ سمیت بھاجپا چاہتی کہ وہ لوگوں کی جان بچانے کو ترجیح دے تو ایسا ممکن نہیں۔ آرایس ایس اسے ہندوتوا کے ایجنڈے سے ہٹنے نہیں دیتی اور کارپوریٹ اسے ایسا کوئی فیصلہ نہیں کرنے دیتا جو اسے اقتصادی نقصان پہنچائے۔
آکسفیم (Oxfam) کی معاشی عدم مساوات پر اپنی رپورٹ میں جانکاری دی گئی ہے کہ کورونا وائرس کے دوران ملک کے ارب پتیوں نے 35 فیصد زیادہ کمائی کی ہے۔ ملک کے گیارہ سب سے بڑے صنعتکاروں نے کورونا کے دور میں سب سے زیادہ کمائی کی۔ جس سے منریگا کا دس سال کا خرچ اٹھایا جاسکتا ہے۔ کورونا مدت کے دوران ان 11 ارب پتیوں کی دولت میں اضافے پر ایک فیصد ٹیکس عائد کرنے سے، سستی قیمتوں پر دوائیں بیچنے کی ’جَن اوشَدھی اسکیم‘ پر حکومت کے اخراجات میں 140 گنا اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ یعنی ملک کا کوئی آدمی دوا کے بغیر نہیں مرے گا۔
لیکن ان امیروں کو فائدہ پہنچانے میں مصروف مودی سرکار نے کورونا کے دوران بھی ایسی کمپنیاں بنائیں جن سے ان کی آمدنی میں کوئی رکاوٹ پیدانہ ہو۔ لاک ڈاؤن کے دوران بھی اس نے ان کا خیال رکھا۔ روز کمانے کھانے والوں کی حالت خراب ہوئی۔ پچھلے ایک سال میں بارہ کروڑ سے زیادہ لوگوں کی نوکریاں چلی گئیں لیکن امیروں کی آمدنی میں کوئی کمی نہیں ہوئی الٹا اضافہ ہی ہوا۔ زیادہ کمائی کرنے والے امیروں میں مودی اور شاہ کے چہیتے آگے ہیں، ان میں ویکسین بنانے والی کمپنی کے مالک سایرس ایس پونا والا بھی شامل ہیں۔
ملک کے کسان دہلی کی سرحد پر اپنی جانوں کی پروا کیے بغیر بیٹھے ہیں کیونکہ کورونا دور میں مودی نے زراعت کو کارپوریٹ کے حوالے کرنے کا قانون بنا دیا۔ اڈانی اور امبانی جیسے صنعت کاروں کو اس سے سب سے زیادہ فائدہ ہونے والا ہے۔ چھ مہینوں سے دھرنے پر بیٹھے کسانوں کی کوئی سنوائی نہیں ہے۔ کیونکہ حکومت کارپوریٹ کو فائدہ پہنچانے کے لیے اس فیصلے سے پیچھے نہیں ہٹ رہی ہے۔حکومت کی باقی پالیسیوں کا بھی یہی حال ہے۔ کورونا میں لوگ بھلے ہی مریں لیکن مودی نے ویکسین کمپنیوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے ایسی پالیسی اپنائی کہ آج ملک کو ویکسین کی کمی کے بحران کا سامنا ہے کیونکہ ان کمپنیوں سے وقت پر معاہدہ نہیں کیا گیا۔ ایک تو اس پر مرکزی حکومت کو اپنا پیسہ خرچ کرنا پڑتا اور دوسرا یہ کہ کمپنیوں کو سستی قیمت پر ویکسین دینی ہوتی۔ اس سے انہیں کم فائدہ ہوتا۔ اب ریاستی حکومت کو براہ راست خریدنے کے لیے کہا گیا ہے اور کمپنیوں کو من مانی قیمت وصول کرنے کی چھوٹ مل گئی ہے۔
سوال اٹھتا ہے کہ مرکزی حکومت پیسے کیوں نہیں خرچ کر رہی ہے؟ اصل بات ہے کہ اس کے پاس پیسے ہی نہیں ہیں۔ کیوں کہ اس نے سرمایہ کاروں کو ٹیکس کی لاکھوں کروڑوں کی چھوٹ دے کر اپنی آمدنی گھٹا لی ہے۔ یہ سالوں کی محنت سے کھڑی کی گئی سرکاری کمپنیوں کو بیچ کر اپنا کام چلانے کی کوشش کر رہی ہے۔ کورونا کے دور میں کارپوریٹ نے جو زیادہ کمائی کی اس پر بھی ٹیکس لگانے کی اس کی ہمت نہیں ہے۔ یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ کارپوریٹس کی آمدنی سرکار کی مدد سے دوگنی چوگنی ہو رہی ہے اور ملک کے لوگ دوا اور آکسیجن کی قلت سے مر رہے ہیں۔ پرائیوٹ اسپتال لوگوں کو لوٹ کر مالا مال ہو رہے ہیں۔ اسپین جیسے ملک نے بھی پرائیوٹ اسپتالوں کو سرکاری اسپتالوں میں ضم کر دیا۔ امریکہ سمیت زیادہ تر ترقی یافتہ ممالک میں کورونا کے مریضوں کا مفت علاج ہو رہا ہے اور کورونا ٹیکہ بھی مفت لگایا جا رہا ہے۔
ایک اور اہم بات کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرانا ضروری ہے کہ کورونا وائرس کے درمیان بھی ہندوتوا کی مہم پوری طاقت سے جاری رہی۔ رام مندر کے شیلا نیاس سے لیکر ایودھیا میں دیپ جلانے کے پروگرام تک بغیر کسی رکاوٹ کے چلتے رہے۔ دوسری لہر کے تیز ہونے کے بعد بھی ’کمبھی اسنان‘ جاری رکھا گیا۔ ہندوتوا کا ایجنڈہ کورونا پھیلنے میں مدد کرنے والے ان پروگراموں تک ہی محدود نہیں تھا۔ ان نظریات نے کورونا کی لڑائی کے لیے ضروری سائنسی انداز اپنانے میں رکاوٹیں کھڑی کیں۔ تھالی بجانے دیے جلانے کے علاوہ بابا رام دیو کی بغیر جانچ والی کورونیل دوا کے لانچنگ پروگرام میں ملک کے وزیر صحت کی موجودگی سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ کورونا کے علاج کے حوالے سے حکومت کا نقطہ نظر مکمل طور پر غیر سائنسی ہے۔ ہندوتوادیوں کی جانب سے ’گو موتر‘ سے علاج کے دعوے سے تو ہم واقف ہی ہیں۔
ظاہر ہے کہ ہم کورونا کے خلاف لڑائی میں ناکام ہو گئے کیونکہ ملک میں ہندوتوا اور کارپوریٹ کے لیے کام کرنے والی حکومت ہے۔ ہندوتوا کے نظریے نے اسے کورونا کے سلسلے میں سائنسی نقطہ نظر اپنانے سے روکا اور کارپوریٹ نے اسے مفت علاج اور ویکسینیشن جیسے اقدامات کرنے کی اجازت نہیں دی۔ اس کے لیے اسے ان کے خلاف سخت قدم اٹھانے پڑتے۔
***
کورونا وائرس کے درمیان بھی ہندوتوا کی مہم پوری طاقت سے جاری رہی۔ رام مندر کے شیلا نیاس سے لیکر ایودھیا میں دیپ جلانے کے پروگرام تک بغیر کسی رکاوٹ کے چلتے رہے۔ دوسری لہر کے تیز ہونے کے بعد بھی ’کمبھی اسنان‘ جاری رکھا گیا۔ ہندوتوا کا ایجنڈہ کورونا پھیلنے میں مدد کرنے والے ان پروگراموں تک ہی محدود نہیں تھا۔ ان نظریات نے کورونا کی لڑائی کے لیے ضروری سائنسی انداز اپنانے میں رکاوٹیں کھڑی کیں۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 20 جون تا 26 جون 2021