کوئی میڈیا ایسا نہیں ہے جو جمہور کے تمام طبقات کی نمائندگی کا دعویٰ کرے

اخبارات اور میڈیا کا سرمایہ داروں کی طرف جھکاؤ ناقابل انکار حقیقت

انل چمڑیا

 

یوم جمہوریہ کی مناسبت سے بھارت میں میڈیا کے کردار اور پریس کی آزادی کا جائزہ
1857 میں 475اخبار نکلتے تھے اور ان میں سے بیشتر صوبائی زبانوں میں ہوتے تھے۔1857سے 2020کے بیچ کا موازنہ کریں تو آج دس بیس اخبارات نے پورے میڈیا کے نظام کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔ بھارت کے لیے جمہوریت اس لیے ضروری ہے کہ یہاں مختلف رنگوں کے لوگ، کئی زبانیں ،کئی طرح کی تہذیبیں، کئی طرح کے مذاہب ، مختلف ماحول اور مختلف النوع کے کھان پان وغیرہ پائے جاتے ہیں۔
جمہوریہ ہند میں بنائے گئے آئین کے سفر کے اکہترویں سال میں ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ جمہوریت کے لیے میڈیا کا فروغ نہیں ہوا ہے بلکہ جمہوریت کا استعمال کرتے ہوئے میڈیا کمپنیوں کی توسیع ہوئی ہے۔ ڈاکٹر امبیڈکر نے آئین بننے سے بہت پہلے ہی بھارت میں میڈیا پرکچھ لوگوں اور خاص طرح کےخیالات کے تسلط کی طرف ملک کی توجہ مبذول کرائی تھی۔ انہوں نے میڈیا کے حوالے سے کہا تھا کہ’’کسی مقصد کو خیال میں نہ لاتے ہوئے غیر جانبداری کے ساتھ خبر دینا، سماج کے حق میں عوامی مفاد کا نظریہ پیش کرنا، بغیر کسی ڈر کے بڑے سے بڑے اور اونچے سے اونچے شخص کے جرم کا پردہ فاش کرنا اب بھارت میں صحافت کا پہلا اور اہم فریضہ نہیں مانا جاتا بلکہ اب مقتدیٰ کی شان میں قصیدے پڑھنا ہی اس کا فرض بن چکا ہے‘‘۔
یہ بات انگریزوں کی حکومت کے وقت کی ہے جس وقت بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش غلامی کے دور سے گزر رہےتھے۔ انہوں نے کہا کہ ’’خبروں کے ذریعے سنسنی پھیلانا، غیر ذمہ دارانہ احساسات کو بھڑکانا، اور ذمہ دار لوگوں کے دماغ میں غیر سنجیدہ جذبات کو بھرنے کی کوشش میں لگے رہنا ہی آج کی صحافت ہے‘‘۔ انہوں نے بتایا کہ ’’لارڈ سیلس بری نے نارتھ کِلِپ کی جرنلزم کے تعلق سے کہا تھا کہ دفتر کے آقاؤں کے لئے دفتر کے آقاؤں کے ذریعے لکھی جاتی ہے’’ بھارتی صحافت میں بھی یہی سب ہے مگر اس میں یہ بھی شامل کیا جا سکتا ہے کہ وہ ڈھول بجانے والے لڑکوں کے ذریعے اپنے پیروکار کی شان میں تعریفوں کے پل باندھنے کے لیے تحریر لکھی جاتی ہے‘‘۔ لارڈ نارتھ کلپ کے سلسلے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے صحافت کی جگہ جمہوریت کے حقوق کا استعمال کر کے مالکوں کے حقوق کی صحافت کا ماڈل تیار کیا تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’اپنے تسلط کو قائم کرنے میں سیاست دانوں نے بڑے صنعت کاروں کا سہارا لیا ہے۔’’ انہیں غمگین ہو کر کہنا پڑا تھا کہ ’’بھارت میں صحافت کبھی ایک پیشہ ہوا کرتا تھا پر اب یہ ایک تجارت بن گئی ہے۔ اب تو صابن بنانے کے علاوہ اس کا کوئی اور اخلاقی کام نہیں رہ گیا ہے۔ یہ خود کو عوام کا ایک ذمہ دار رہنما نہیں مانتا ہے‘‘۔
اسی لیے کہتےہیں کہ ڈاکٹر امبیڈکر نے میڈیا کو خصوصی حقوق دینے کے مطالبے کی مخالفت کی تھی۔ آئین ڈرافٹنگ کمیٹی کے صدر ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر نے کہا ’’پریس (یاماس کمیونیکیشن) کو کوئی خاص حقوق نہیں دیے جاسکتے ہیں جو کہ شخصی طور پر کسی شہری کو حاصل نہیں ہیں۔ پریس کے ایڈیٹر ہوں یا پھر اس کے مینیجر تمام شہری ہیں اور جب وہ کسی اخبار کی ترجمانی کرتے ہیں تب وہ صرف اپنے شہری حقوق کا استعمال کر رہے ہوتے ہیں اس لیے میری رائے میں آئین میں دفعہ 19 پریس کی آزادی جیسی کسی خاص شق کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ماس کمیونیکیشن میں بطور انسٹرکٹر میر اتجربہ ہے۔ اس دوران ایک سوال یہ سامنے آیا کہ انڈین انسٹیٹیوٹ آف ماس کمیونیکیشن میں میڈیا کمپنیوں کی طلب کے مطابق طلباء تیار نہیں ہو رہے ہیں۔ انڈین اسٹیٹیوٹ آف ماس کمیو نیکیشن بھارت سرکار کے مالی تعاون سے چلنے والا ادارہ ہے۔ جب اس مسئلے کی طرف ہماری توجہ گئی تو پہلا سوال یہ سامنے آیا کہ کیا یہ انسٹیٹیوٹ میڈیا کمپنیوں کے لئے انسانی وسائل تیار کرنے کی جگہ ہے یا پھر آئین کے مقاصد اور اس کے شعور کی سمت میں طلباء وطالبات کی ترقی کے لیے پر عزم ہے۔ میڈیا کمپنیوں کے مطالبات کی کوئی حد نہیں ہے۔ وہ ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ کرتے ہیں اور ان کا مقصد جمہوریت کی حفاظت کی ضمانت نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی یہ مقابلہ جمہوریت کے حق میں ہے۔ وہ جمہوریت اور آزادی کا استعمال اپنے لیے زیادہ سے زیادہ منافع اور زیادہ سے زیادہ مال و دولت جمع کرنے کی غرض سے کرتے ہیں۔ یہ مقابلہ ہر سال اپنے منافع کے مطابق انسانی وسائل کی ضروت کو محسوس کرتا ہے۔
انڈین انسٹیٹیوٹ آف ماس کمیونیکیشن کیا ہم صرف بڑی میڈیا کمپنیوں میں نوکری کرنے کے نفسیات کو فروغ دیں؟ ان کی طرف للچائی ہوئی نگاہ سے دیکھیں؟ آخر کیوں بڑی کمپنیوں کی طرف سطحی صحافت کو فروغ دیا جانا چاہیے؟ جبکہ آزادی کے فوراً بعد ہی ایک مطالعہ میں پایا گیا تھا کہ صحافت کے درپیش کیا خطرات ہیں۔
25 فروری 1964 کو ملک میں ہونے والی آمدنی کی سماج میں تقسیم اور لوگوں کے حالات کی جانکاری حاصل کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔ پلاننگ کمیشن کے صدر پی سی مہال نوبیس اس کے صدر بنائے گئے تھے۔ انہوں نے اپنی رپورٹ میں کہا ’’معاشی طاقت نہ صرف پیداوار، سرمایہ کاری، خرید وفروخت اور اقدار پر کنٹرول رکھتی ہے بلکہ بڑے پیمانے پر مواصلات کے تمام ذرائع سے بھی کام کرتی ہے۔ مواصلات کے ذرائع میں بھی اخبار سب سے اہم ہے اور علاقائی اور معاشرتی مفادات کو ملحوظ خاطر رکھنے کے لئے یہ طاقت ور ذریعہ ثابت ہوتے ہیں۔‘‘
اسی لیے یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ اس ملک میں اخباروں کے کاروبار اور بڑے سرمایہ کاروں کے بیچ ایک موثر اندرونی رشتہ ہے۔ یہ صنعتی گھرانے یا تو براہ راست اپنا مالکانہ حق لے کر یا پھر ان کے بورڈ آف ڈائرکٹر میں شامل ہو کر ان اخباروں کو بڑی حد تک بالواسطہ طور پر توازن برقرار رکھتے ہیں۔ اس دوران اشتہارات پر بھاری خرچ کر کے بالواسطہ اخباروں کو کنٹرول کرنے کا رجحان بھی بڑھ گیا ہے۔ دنیا کے کسی بھی جمہوری ملک کے مقابلے میں اخباروں اور سرمایہ کاروں کے بیچ گہرے رشتے ہمارے ملک میں سب سے زیادہ ہیں۔
مگر یہ محسوس کیا جاتا ہے کہ آئین کے مقاصد حاصل کرنے کی سمت میں بڑھنے کے نام پر تنظیمیں بھلے ہی قائم کی گئیں ہوں لیکن حقیقت میں ان کا ستعمال اس کے مخالف سمت میں جانے کے لیے ہوتا ہے۔ آئینی اظہار رائے کی آزادی کی ضمانت کے لئے بڑی کمپنیوں کو ہی خصوصی حقوق دیے جاتے ہیں۔ پہلے پریس کمیشن سے لے کر دوسرے پریس کمیشن تک کے مطالعہ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بڑی کمپنیوں کی طرف صحافت کے جھک جانے کے نتائج نکل رہے ہیں۔لیکن ان نتیجوں کے ظاہر ہونے کے باوجود بڑی کمپنیوں کی طرف داری کے لیے ہی قدم اٹھائے گئے۔ ملک کا کوئی شہری اپنے آئینی اظہار رائے کا استعمال لوگوں کے حق میں کر سکے اس کے لیے کسی طرح کے تحفظ اور حوصلہ افزائی کی سمت میں فیصلے نظر نہیں آتے۔ پریس کمیشنوں نے صحافت کی بجائے بڑی کمپنیوں اور آئین کی فراہم کردہ اظہار رائے کی آزادی کی ضمانت کو یکجا کرنے کے لیے بھی ہر ممکن کوشش کی ہے۔
جمہوریت کی سلامتی کی ضمانت کے لیے قائم شدہ تنظیموں میں کسی کے ذریعے کسی شہری کو آزاد صحافت کرنے کے لئے کسی طرح کے تحفظ و امداد کے سلسلے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا۔سرکاری ادارے آزاد جرنلزم کرنے والوں کو کسی بھی طرح سے تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ صحافت میں بھی سرکاری ادروں کے ذریعے انہیں ہی آزاد مانا جاتا ہے جنہیں کمپنیوں میں جرنلزم کرنے کا تجربہ ہوتا ہے۔ یعنی ریٹائرمنٹ کے بعد کسی جج اور کسی افسر شاہی کی مختلف خدمات انجام دے سکے۔ اسی طرح کمپنیوں میں صحافت کی نوکری کرنے والے ہی سرکاری اداروں کے ذریعے صحافی ہونے کی پہچان حاصل کر سکتے ہیں۔ درحقیقت کسی بھی تنظیمی ڈھانچے کا ایک خاص مقصد ہوتا ہے کہ وہ اپنے مفادات میں اس قسم کے اداروں کی ترقی کرے۔ بھارتی جمہوریت کے نام پر چلنے والا نظام اجارہ داری کی طرف بڑھنے والی بڑی سرمایہ دارکمپنیوں کےحق میں ہے۔ جمہوریت کی صحافت کے بجائے کمپنیوں کی صحافت کی جو صورت حال ہم دیکھ رہے ہیں وہ ترتیب وار پیداکی گئی ہے۔ جمہوریت میں آزادی اسی کے ہاتھوں میں ہے جو زیادہ سے زیادہ دولت مند ہے۔ میڈیا کا کاوربار اور میڈیا کے ذریعے چل رہے دھندے ان دو پہلوؤں کو علیحدہ کرکے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ میڈیا کے ذریعے چل رہے دھندوں کی توسیع 1991 کے بعد تیزی سے ہونے کی وجہ واضح ہے۔ میڈیا پر قابو پانے کے طریقوں میں کمپنی کے حصص پر قبضہ اور اشتہارات کافی اہم مانے جاتے ہیں۔ لیکن میڈیا پر قابو پانے کے طریقوں پر بات چیت کم ہوتی ہے۔ اس کے طرز عمل پر بات چیت مرکوز ہو جاتی ہے۔ لیکن وہ بات چیت انہی طرز عمل پر مرکوز ہوتی ہے جو اچانک بد شکل اور بدترین صورت میں نمودار ہوتی ہے یا نظر آنے لگتی ہے۔
(مضمون نگاردہلی سے شائع ہونے والے میڈیا اسٹڈیز گروپ کے چیئرمین اور ماہنامہ تحقیقی جریدوں ’جن میڈیا‘ (ہندی)اور ’ماس میڈیا‘ (انگریزی) کے ایڈیٹر ہیں۔)
***

حیرت کی بات نہیں ہے کہ اس ملک میں اخباروں کے کاروبار اور بڑے سرمایہ کاروں کے بیچ ایک موثر اندرونی رشتہ ہے۔ یہ صنعتی گھرانے یا تو براہ راست اپنا مالکانہ حق لے کر یا پھر ان کے بورڈ آف ڈائرکٹر میں شامل ہو کر ان اخباروں کو بڑی حد تک بالواسطہ طور پر توازن برقرار رکھتے ہیں۔ اس دوران اشتہارات پر بھاری خرچ کر کے بالواسطہ اخباروں کو کنٹرول کرنے کا رجحان بھی بڑھ گیا ہے۔ دنیا کے کسی بھی جمہوری ملک کے مقابلے میں اخباروں اور سرمایہ کاروں کے بیچ گہرے رشتے ہمارے ملک میں سب سے زیادہ ہیں۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 24 جنوری تا 30 جنوری 2021