کشمیر کی سیاسی بیداری میں تحریکِ آزادیٔ ہند کا کردار
دین کی سربلندی اور وطن کی آزادی کے لیے سیداحمد شہیدؒ اورشاہ اسماعیل شہیدؒ کی مثالی خدمات
ش م احمد،کشمیر
روزگار آزادی ہند کی تحریک کا زمانہ عروج 1920ء سے شروع ہوتا ہے جب گاندھی جی نے اُنیسویں صدی کے اواخر میں قائم انڈین نیشنل کانگریس کی مرکزی قیادت سنبھالی۔ دس سال بعد 1931ء میں تحریک آزادی ہند کی صدائے بازگشت مطلق العنان ڈوگرہ شاہی کے زیر تسلط کشمیر میں کچھ اپنے انداز میں سنی گئی۔ آزادی کی تحریک کے اثرات دارالعلوم دیوبند سے سند فراغت پا چکے جید عالم دین اور ممتاز مبلغ میر واعظ کشمیر مولانا محمد یوسف شاہؒ اور علی گڑھ یونیورسٹی سے ایم ایس سی کیمسٹری کر کے گھر لوٹے شیخ محمد عبداللہ کی صورت میں نمودار ہوئے۔ ان دونوں نے بہت جلد تحریک سے لیے گئے اثرات کا اظہار گھٹن بھرے کشمیر میں سیاسی بیداری کی ایک نئی صبح کے آغاز سے کیا۔ ہندوستان میں برطانوی راج سے آزادی پانے کی پُر جوش عوامی تحریک نے کشمیر کو کس طرح سیاسی طور بیدار کیا یہ ایک تفصیل طلب موضوع ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں تحریک آزادی ہند کے بعض مراحل کا مطالعہ کرنا ہوگا۔
تحریک آزادی ہند کی تاریخ، حالات وحوادث کا ایک بہت وسیع وعریض مجموعہ ہے۔ اس تاریخ کا یہ بھی ایک معمّہ ہے کہ اگر حالات کی موافقت نصیب ہوئی ہوتی تو آزادی ہند کی پہلی آہٹ یقینی طور پرارضِ کشمیر سے سنی جاتی۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے جب انگریزوں اور لاہور دربار کے خلاف بیک وقت تلوارِ بے نیام بنے سید احمد شہید بریلوی ؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ کی تحریک مجاہدین اپنے عروج وشباب پر تھی۔ تحریک مجاہدین 17؍ جنوری 1826ء سے 6 مئی1831ء تک اپنے دَم خم پر رواں دواں رہی۔ اُتار چڑھاؤ کا لمبا سفر طے کر نے کے بعد بالآخر امیرِ تحریک سید احمد شہیدؒ نے فیصلہ لیا کہ سرحد کو چھوڑ کر کشمیر کو تحریک کا نیا مرکز بنایا جائے۔ اُن کا یقین تھا کہ کشمیر کی زمین دشمن کے خلاف مزاحمت و مقاومت کے لیے زرخیز بھی تھی اور موزوں بھی۔ گردشِ لیل ونہار کے بہاؤ میں اُن کا یہ منصوبہ پایۂ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔ یہ ہتھیار بند تحریک بالاکوٹ کے مقام پر اپنا آخری معرکہ ہار کر تاریخ کے گرد و غبار میں گم ہو گئی۔ وہ تو بھلا ہو مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کا جنہوں نے ’’سیرت سید احمد شہید‘‘(دوجلدیں) اور ’’جب ایمان کی بہار آئی‘‘ جیسی معرکة الاراء کتابیں لکھ کر تحریک آزادی ہند کے آسمان پر چمکتے ان دو ستاروں اور اُن کے جان نثار ساتھیوں کی سرگزشت کو تاریخ کے اوراقِ پریشاں میں زندہ جاوید رکھا اور واضح کیا کہ انہیں تحریک مجاہدین آزادی ہند میں اولیت حاصل ہے۔
تحریک مجاہدین کوئی ہنگامی حادثہ نہیں تھی بلکہ یہ ملت اسلامیہ ہند کے دو عظیم سپوتوں کی حریت پسندی، اخلاص، استقامت اور دین و ایمان کے تئیں حساسیت کا ایک نادر نمونہ تھی۔ سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ جیسے جلیل القدر، حساس ذہن اور صالح فکر اکابرین ایک جانب ایسٹ انڈیا کمپنی کی صورت میں برطانوی سامراج کے بڑھتے اثر ورسوخ کا نوشتۂ دیوار صاف صاف پڑھ رہے تھے تو دوسری جانب مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سربراہی میں لاہور دربار کے گرد و نواح کی مسلم آبادی کے خلاف مذہبی تعصب اور ریشہ دوانیاں بھی تاڑ رہے تھے۔ اُن کی غیرت وحمیت کو قطعی گوارا نہ ہوا کہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ کر حالات کا تماشہ دیکھتے رہیں یا کسی غار میں جا کر تسبیح کے دانے پھیرنے بیٹھ جائیں۔ انہوں نے سنجیدگی سے سوچ سمجھ کر وطن کی آزادی کا بگل بجانے اور ہندی مسلمانوں کے دین وعقائد کو بچانے کے لیے انگریزوں اور لاہور دربار کے خلاف مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کیا۔ ابتداءً اُنہوں نے لاہور دربار کے خلاف مورچہ بندی کی مگر اُن کا منتہائے مقصود انگریز کی غلامی سے وطن کو آزادی دلانا تھا۔ اس کے لیے سید احمد شہید ؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ نے دعوت وتبلیغ کے ساتھ ساتھ جان ہتھیلی پر رکھ کر رزم گاہِ حق وباطل میں قدم رکھا، یہاں کئی معرکے گرم کئے، یہاں تک کہ اسی دشت کی سیاحی میں اپنی جانیں قربان کردیں۔
تحریک مجاہدین کوئی ہنگامی حادثہ نہیں تھی بلکہ یہ ملت اسلامیہ ہندکے دو عظیم سپوتوں کی حریت پسندی، اخلاص، استقامت اور دین و ایمان کے تئیں حساسیت کا ایک نادر نمونہ تھی۔
تحریک مجاہدین سے موسوم اس مسلح جھتے نے گھوم گھام کر پشاور کو اپنا پہلا مرکز بنایا۔ یہاں سے انہوں نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی فوج کو للکارا میدانِ جنگ میں اسے پے دَر پے شکستیں دیں یہاں تک کہ ان کا عسکری دبدبہ قائم ہوا۔ یہ کام بیش قیمت جانی ومالی قربانیاں دئے بغیر ممکن نہ تھا۔ مسلح تحریک سے انگریز کو یہ واشگاف پیغام ضرور ملا کہ ہندوستان کا مسلمان کوئی نرم نوالہ نہیں بلکہ آہنی عزائم کا مالک تھا جو وقت آنے پر اپنے دین وایمان اور وطن کی حفاظت میں جان ومال تک قربان کرنے کو تیار تھا۔
بہر حال لاہور دربار تحریک کے ہاتھوں مسلسل شکست وہزیمت کا سامنا کر کے بوکھلا گیا۔ اس نے اپنے خلاف مجاہدین کا حرب وضرب کا سلسلہ روکنے کا ایک آسان اور آزمودہ نسخہ روبہ عمل لایا۔ سازشوں کا جال بچھا کر تحریک کو کمزور کرنے کی تیر بہدف کاوشیں کیں اور اپنی پنڈ چھڑا دی۔ دربار نے پشاور کے اُن جنگجو سرداروں کو اپنے شیشے میں اُتار کر پہلی فرصت میں اُن کی وفاداریاں خرید لیں۔ یہ لوگ پہلے سید احمد شہیدؒ کے ہاتھ پر بیعت علی الجہاد کر چکے تھے مگر بعد میں لالچ میں آکر ا پنے عہد سے مُکر گئے۔ گھر کے ان بھیدیوں کی کھلی جفاکاریاں اور غداریاں دیکھ کر سید صاحبؒ نے اپنی مزاحمت کاری جاری رکھنے کے لیے اُسی طرح عزمِ صمیم اور عالی ہمتی سے کام لیا جس طرح ٹیپو سلطان نے میر صادق کی غداری کے باوجود عزیمت ومقاومت کا میدان میں ڈَٹا رہنا اپنے ایمان کے شایانِ شان سمجھا تھا۔ اپنی حربی حکمت عملی میں تبدیلی لا کر سید احمد شہید ؒ نے بوجوہ سرحد چھوڑ کر کشمیر کو اپنی تحریک کا نیا مرکز بنانے کا فیصلہ کیا ۔ کشمیر اُس وقت مہاراجہ رنجیت سنگھ کی قلمرو میں شامل تھا اور کشمیری مسلمان شاہی مظالم ومصائب کا تختہ مشق بنے ہوئے تھے۔ تحریک مجاہدین کا سخت جاں قافلہ سرحد چھوڑ کر کشمیر کی جانب کوچ کر گیا۔ قافلہ وادی کاغان کے متصل واقع بالا کوٹ منتقل ہوا۔ وادی کشمیر کے پہلو میں واقع یہ علاقہ آج بھی اپنی شانِ رفتہ کی داستان سید احمد شہیدؒ اور ان کے ساتھیوں کی مرقدوں کی زبانی سناتا ہے۔ نو قائم شدہ مرکز تحریک بالاکوٹ میں بہت جلد مہاراجہ رنجیت سنگھ کے سپاہیوں اور سرفروشوں کے درمیان ایک خون ریز معرکہ پیش آیا۔ اس میں طرفین کا بہت سارا جانی نقصان ہوا۔ یہیں پر چشمِ فلک نے دیکھا کہ کس طرح آزادی ہند اور سربلندی دین کے لیے سر بکف سید احمد شہیدؒ اپنے دستِ راست شاہ اسماعیل شہیدؒ اور اپنے دیگر ہزاروں مجاہدین سمیت دادِ شجاعت دیتے ہوئے شہادت کی خونین قبائیں زیب تن کر گئے۔یوں 6 مئی1831ء کو ہندوستان کی پہلی جنگِ آزادی کا یہ ابتدائی قافلہ ابدی نیند سو گیا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب انگریز سرزمینِ ہند میں اپنے ناپاک قدم جما چکے تھے، مغلیہ بادشاہت زوال آمادہ تھی، حکومت کی باگیں دھڑا دھڑ گوروں کے ہاتھ منتقل ہو رہی تھیں، مسلمان اپنی سیاسی وحکومتی اہمیت سے ہاتھ ہی نہیں دھو رہے تھے بلکہ مدہوشی و بے توقیری کے عالم میں اپنے دین و ایمان سے بھی محروم ہو رہے تھے۔ اس پر مستزاد یہ کہ مستشرقین کی فتنہ سامانیاں، عیسائی مشنریاں اور مرزائیوں کی ارتدادی مہمیں کانٹے کی طرح علمائے حق کے دل میں کھٹک رہی تھیں۔ سید احمد شہید ؒ جیسی نرم دمِ گفتگو گرم دمِ جستجو والی ہستی سے قوم کی یہ حالتِ زار اور بے حسی کہاں دیکھی جاسکتی تھی چنانچہ انہوں نے بلا تاخیر سر بکف ہوکر انگریز سامراج کے خلاف سیف وسنان سے لیس تحریک کے بل پر ایک فیصلہ کن ٹکر لینے کی ٹھان لی۔ اس میں دو رائے نہیں کہ تحریکِ مجاہدین نے قرونِ اولیٰ کی جیسی عزیمت و شہادت کی ایک بہادرانہ تاریخ مرتب تو کی لیکن زمینی صورت حال کو نہیں بدل سکی۔ مجاہدین بالا کوٹ نے آزادی ہند کی جو چنگاری اپنے لہو سے سلگائی تھی، اس کو دوبارہ شعلہ فشاں ہونے کے لیے ایک زریں موقع کی تلاش تھی۔ 1857ء کے واقعات نے سوختہ جذبات کے سوکھی گھاس کو دیاسلائی دکھائی، نتیجہ یہ نکلا کہ انگریز سامراج کے خلاف ہمہ پہلو آتشیں بغاوت پھوٹ پڑی، فرنگی آقاؤں کے خلاف عوامی غم وغصہ کا سیلِ رواں آناً فاناً جاری ہوا۔ اس دوران خاک وخون میں ڈوبی کئی کہانیوں کو ضرور جنم ملا۔ بایں ہمہ طاقتور انگریزوں نے عوام وخواص کی اس مزاحمت وبغاوت کو آہنی ہاتھوں سے کچل کر رکھ دیا۔ دل دہلانے والے طویل سلسلہ واقعات کے حوالے سے دلی کے قتل عام، شہر کی تاراجی، آتش زدگیاں، زندان خانوں کی آبادی، تذلیلیں اور ڈر اور خوف کی ستم رانیاں جوڑیے تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔
انگریزوں کی ساری انتقامی کارروائی اور تباہی چن چن کر مسلمانوں کو نشانہ بنا گئی۔
سید احمد شہید ؒ کی مسلح تحریک اور عوامی بغاوت کے ناکام تجربات کے مابعد مسلمانوں میں سوچ کے دو مختلف دھارے فروغ پا گئے : ایک دھارا دینی علوم کے نشر واشاعت سے محکوم ومظلوم اور حاشیہ پر پھینکے گئے مسلمانوں کے دین وایمان کے دفاع پر مرکوز رہا۔ اس دھارے کی نمائندہ شخصیت عظیم المرتبت عالم دین مولانا محمد قاسم نانوتویؒ (1832 ء تا1880ء) تھی۔ انہوں نے 1867ء میں دارالعلوم دیوبند کا سنگِ بنیاد رکھ کر اپنے فکر ونظر کو ایک مستحکم ومعطر آشیانہ فراہم کیا۔ دوسرا دھارا مسلمانوں میں عصری علوم کی اشاعت وترویج سے منسوب تھا۔ اس دھارے کی نمائندہ شخصیت مسلم انڈیا کے عظیم مصلح، ادیب، ماہر تعلیم اور دانشور سر سید احمد خان ؒ(1817ء تا 1898ء)تھے۔ انہوں نے مسلمانوں کی نئی پود کے حوالے سے تعلیم وتدریس کی مشعلیں فروزاں کرنے کے جو اونچے خواب دیکھے تھے اُن کی تعبیریں ڈھونڈنے کے لیے مدرستہ العلوم مسلمانانِ ہند( محمڈن اینگلو اورینٹل کالج) کی بنیاد رکھی۔ یہ مسلمانوں میں علومِ جدیدہ کی ترویج کا پہلا انقلابی قدم تھا جو ترقی کے مدارج طے کرتے کرتے آج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شکل میں اپنا وجود دنیائے علم وآگہی سے منوا رہا ہے۔سرسید کو اپنے خوابوں کے تراشیدہ اس ادارے سے یہ خوش اُمیدی تھی کہ یہاں تعلیم وتحقیق کے توسط سے مسلمانوں کے دائیں ہاتھ میں فلسفہ، بائیں ہاتھ میں نیچرل سائنس اور سر پر کلمے کا تاج ہوگا ۔ ان دونوں دھاراؤں کے اہداف مختلف تھے۔ دارالعلوم دیوبند جہاں ہندوستان کے مسلمانوں کے دین وایمان اور تہذیب وثقافت کو بچانے میں مصروفِ عمل تھا وہیں علی گڑھ تحریک کی غایتِ ملتِ اسلامیہ ہند کی تعلیمی پسماندگی دور کر کے اسے زندگی کے مسابقتی دوڑ میں آگے لانا اور اس کی معاشی زبوں خالی کا تدارک کرنا تھی۔ انگریزوں کے زیر سایہ برطانوی ہند میں 1885ء کو کمپنی کے ایک وظیفہ یاب انگریز سول سرونٹ اے او ہیوم نے کانگریس کی بنیاد رکھی تاکہ برٹش راج میں ہندوستانی اشرافیہ اور برطانوی آقاؤں کے مابین روابط و مراسم قائم ہوں۔
مسلم اکثریتی کشمیر اُن ایام میں شخصی راج کے ظلم وبربریت اور استحصال کی چکی میں پس رہا تھا۔ یہ ملک بدنام زمانہ بیع نامۂ امرتسر کی رُو سے مہاراجہ گلاب سنگھ نے انگریزوں سے 75 لاکھ نانک شاہی، کچھ پشمینہ شالوں، اعلیٰ قسم کے گھوڑوں کے عوض خرید لیا تھا۔ کشمیر چونکہ انگریزوں نے لاہور دربار کو تہس تہس کرنے کے بعد ہتھیا لیا تھا۔ اس تخریبی مشن میں مہاراجہ گلاب سنگھ نے انگریزوں کی خفیہ اعانتیں کر کے اُن کے تئیں اپنی وفاداری کا جو ثبوت دیا تھا اس سے انگریز خوش تھے کہ گھر کے بھیدی نے لنکا ڈھانے میں اُن کی بہت مدد کی تھی۔ اپنی اسی ’’حُسنِ کارکردگی‘‘ کے صلہ میں لاہور دربار کے اہم ملازم گلاب سنگھ کو فاتح گوروں نے کل کا کل کشمیر فروخت کر دیا۔ تاریخ کی اس نایاب خرید وفروخت پر علامہ اقبال ؒ نے اپنے ایک مشہور فارسی شعر میں کشمیر کا پورا درد وکرب بیان کیا ہے ؎
دہقان وکشت وجوئے و خیابان فروختند
قومے فروختند وچہ اَرزاں فروختند
کشمیر کے مسلمان ان ایام میں ظلمت، جہالت، غربت اور ناخواندگی کے اندھیاروں میں ٹھوکریں کھا رہے تھے۔ مسلم اکثریتی ریاست کے ہندو مہاراجہ کو اہلِ کشمیر کی زندگی سے کوئی لینا دینا نہ تھا، اُن کی تعلیم، صحت، روزگار، رہائش وغیرہ جیسی روز مرہ زندگی کی بنیادی ضروریات کی تکمیل اس کی ادنیٰ سی ترجیح بھی نہیں تھی۔ تعلیم اور صحت کے لیے بالعموم عیسائی شفا خانے اور مشنری اسکول تھے یا شہر خاص سری نگر میں قائم نصرۃ الاسلام کے زیر اہتمام چلنے والا اسلامیہ اسکول تھا۔ مہاراجہ کو صرف اور صرف اپنے خزانے کو ہر حال میں بھرنے کے لیے سرکاری محصولات بڑھانے اور کشمیریوں کی کھالیں بے گار سے اُتارنے کی فکر لاحق رہتی تھی ۔
(مضمون نگار کشمیر کے سینئر آزاد صحافی ہیں )