کشمیر کی سیاست ، ثقافت اور تاریخ پر ایک نظر

خالد بشیر احمد کی ایک معلوماتی کتاب

مبصر:غازی سہیل خان

خالد بشیر احمد کا تعلق وادی کشمیر سے ہے۔ وہ کشمیر کے پہلے کے اے ایس (KAS) آفسیر رہ چکے ہیں۔ انہوں نے اپنی نئی کتاب ’’کشمیر لوکِنگ بیک اِن ٹائم‘‘ (Kashmir looking Back in Time) میں کشمیر کی سیاست، ثقافت اور تاریخ کا واقعات و حقائق کے تناظر میں ایک جامع جائزہ پیش کیا ہے۔ یہ کتاب قاری کو کشمیر کی تاریخ کے گمنام گوشوں سے واقف کرتی ہے۔ اس سے پہلے فاضل مصنف کی دو اور کتابیں نہ صرف کشمیر بلکہ باہر کی دنیا میں بھی مقبول ہو چکی ہیں۔موصوف کی تحریریں گہری تحقیق کی عکاس ہوتی ہیں، کوئی بات جو بظاہر چھوٹی معلوم ہوتی ہے لیکن خالد صاحب جب اسے اس کی اصل شکل میں پیش کرتے ہیں تو قاری کی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور قاری یہ سوچنے لگتا ہے کہ جس بات کو میں معمولی سمجھتا تھا وہی تو اہم اور بڑی بات ہے۔ مذکورہ کتاب میں فاضل مصنف نے کشمیر کی تاریخ کے چنندہ واقعات کو قلم بند کیا ہے۔ کتاب کو بنیادی طور تین عنوانات میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا عنوان سیاست، دوسرا ثقافت اور تیسرا تاریخ ہے۔مذکورہ عنوانات کے بعد واقعات کو ذیلی عناوین کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ کتاب میں بیسویں صدی کے واقعات کو زیادہ جگہ دی گئی ہے کیونکہ اسی دور میں کشمیر میں سیاسی اور ثقافتی سطح پر بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں تھیں۔ کتاب میں مطالعہ کے دوران نت نئے واقعات کو پڑھنے کا موقع ملتا ہے جس سے قاری اکتاہٹ کا شکار نہیں ہوتا۔
۱- سیاست : تمہید کے بعد پہلا عنوان ’’سیاست‘‘ سے شروع ہوتا ہے جس میں 13؍ جولائی 1931 کے خونین واقعات کا تذکرہ کرتے ہوئے موصوف نے لکھا ہے کہ اس ایک بڑے واقعے نے مرحوم شیخ محمد عبداللہ کو لوگوں کا چہیتا قائد بنا دیا تھا۔ مرحوم شیخ عبداللہ کی مزاحمت جیل کے اندر اور باہر بھی حکومتِ وقت کے لیے درد سر بن گئی تھی ۔اسی سلسلے میں مسلم کانفرنس کا وجود عمل میں بھی لایا گیا تاہم چند سالوں کے بعد مرحوم عبداللہ نے چند لوگوں کے کہنے پر مسلم کانفرنس کو 1939؍ میں نیشنل کانفرنس میں تبدیل کر دیا جو مجموعی طور پر کشمیری عوام کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئی۔ موصوف نے مرحوم شیخ عبداللہ کی سیاست کے متعلق زیادہ گفتگو کی ہے ۔1950 کی دہائی کے آس پاس جب شیخ عبداللہ وزارت عظمیٰ کی کرسی پر براجمان تھے تو اقوام متحدہ نے جموں وکشمیر میں صاف و شفاف طریقے سے راے شماری کرنے کا فیصلہ کیا تھا جہاں شیح عبداللہ نے ہی رائے شماری کے حق میں روڑے اٹکائے تھے۔ اس طرح کے اور بھی دلچسپ اور عبرت انگیز واقعات کا کتاب کے پہلے باب میں ذکر کیا گیا ہے۔
۲- ثقافت:۔ ثقافت کسی بھی سماج اور قوم کی شناخت ہوتی ہے۔ جو قوم اپنی تہذیب و ثقافت کو زندہ رکھنے میں کامیاب ہوتی ہے اسے دنیا کی کوئی قوم شکست نہیں دے سکتی اور غیروں کو بھی جب کسی قوم کو شکست یا ناکام کرنا ہو تو پہلے ان سے ان کی ثقافت و تہذیب پر حملے کیے جاتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ کشمیر کی ثقافت و تہذیب کے ساتھ کیا گیا جس کے سبب کشمیری قوم کو ایک ایسے نقصان کا سامنا کرنا پڑا جس کی تلافی مشکل ہے۔ اسی المیے کو مصنف نے باب ’ثقافت‘ میں ضمنی عناوین کے ذیل میں بیان کیا ہے۔ موصوف کتاب کے صفحہ نمبر 75 پر ایک چوری کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’شری پرتاپ سنگھ میوزیم بننے کے اُنیس سال بعد ایک بڑی چوری کی واردات پیش آئی جس میں 68 چیزیں جن میں انتہائی قیمتی ریشمی ملبوسات ،شاہ پسند کانی توسہ شال، پشمینہ لباس اور قیمتی پتھر شامل تھے، چوروں نے لوٹ لیں۔ گزرتے وقت کے ساتھ کشمیر کے مختلف مقامات سے انتہائی قیمتی اور نایاب اشیاء کو لوٹ کر ملک کی دوسری ریاستوں کے عجائب گھروں میں رکھا گیا اور آج تک کسی حکومت نے اس نقصان کا حساب کسی سے لینے کی زحمت گوارا نہیں کی بلکہ موقع کو غنیمت جان کے خود بھی اس لوٹ میں شامل رہے۔ جہاں تک فلم انڈسٹری کا تعلق ہے، سینما نے بھی وقتاً فوقتاً کشمیر میں منفی اور مثبت رول ادا کیا ہے۔ کشمیر میں سینما گھروں کی تاریخ پلاڈیم ٹاکیز 1932 سے شروع ہوتی ہے جہاں کشمیر کے سینما گھروں کا ایک مقصد کشمیر میں بے حیائی اور فحاشی کو فروغ دینا تھا وہیں کبھی کوئی ایسی فلم بھی چلائی جاتی ہے جس سے انسانوں کی زندگیاں بدل جاتی ہیں۔ مصنف کے مطابق 1985 میں ہالی ووڈ فلم نے کشمیری نوجوانوں کو متاثر کیا جس کے سبب یہاں عسکری دور کی شروعات ہوئی۔ پروڈوسر مصطفی اکڈس کی فلم صحرا کا شیر (lion of the desert) جو لیبیا کے آزادی پسند لیڈر اور استاذ عمر مختار کی زندگی پر بنائی گئی تھی، کشمیر میں خوب دیکھی گئی ہے۔ یہ فلم اٹلی کے قابض مسولینی کے خلاف مزاحمت پر مبنی ہے۔ خالد بشیر لکھتے ہیں کہ اس فلم نے لوگوں کو خاصا متاثر کیا اور انہوں نے عمر مختار کا موازنہ شیخ محمد عبداللہ کے ساتھ کرنا شروع کیا جو کہ ایک عوامی لیڈر تھے اور اپنے کرئیر کی شروعات بھی ایک استاذ کی حیثیت سے کی تھی جن پر لوگوں نے
الزام لگایا کہ اس نے اپنی کرسی کی خاطر کشمیر کی قربانیوں کا سوادا کیا۔ وہیں عبداللہ تین سال پہلے ہی بھارت کے ساتھ مزاحمت کے سلسلے کو ترک کر کے اقتدار کو گلے لگا کر وفات پا چکے تھے۔ سینما گھر سے نوجوانوں کا پہلا مشتعل جتھا باہر نکل کر شیخ عبداللہ کے خلاف نعرہ بازی کرنے لگا اور لال چوک میں جہاں بھی شیخ عبداللہ کے نام کا پوسٹر اور بینر لگا ہوا تھا اُس کو اکھاڑ پھینکا۔ اس فلم کے ہر ایک شو کے بعد نوجوان مشتعل ہوتے رہے، چنانچہ انتظامیہ نے یہ فلم دکھانی بند کر دی لیکن تب تک ایک نئی عسکری مزاحمتی تحریک نے 1989 میں جنم لے لیا تھا۔ان ہی میں سے ایک نوجوان ایک عسکری گروپ کا کمانڈر تھا جو اسی فلم سے متاثر ہوا وہ نوجوان محمد یسین ملک تھا جو کہ آج دہشت گردی کے الزام میں جیل میں ہے (صفحہ 112)
کشمیر میں جگہوں کے نام بدلنے کا سلسلہ بھی پُرانا ہے جیسے کہ اسلام آباد کا نام بدل کر اننت ناگ رکھا گیا ہے اور اس کا جواز یہ بتایا گیا کہ اس کا نام پہلے اننت ناگ ہی تھا لیکن پھر کچھ اسلام پسندوں نے اس کا نام اسلام آباد رکھا۔ لیکن جب ہم تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو وہاں اننت ناگ نام کا کوئی وجود نہیں ملتا۔ صاحب کتاب نے اس کے متعلق لکھا ہے کہ اورنگ زیب کے ایک گورنر نے 1658-1707 میں ایک باغ بادشاہ کے لیے بنایا جہاں بادشاہ سیر و تفریح کے لیے آتے تھے پھر اس کے بعد اس قصبے کا نام اسلام خان کے نام کے ساتھ اسلام آباد رکھا گیا۔اس کے ساتھ ساتھ مصنف موصوف نے کشمیر کی ایسی جگہوں کا خلاصہ کیا جن کا نام یہ کہتے ہوئے بدل دیا گیا ہے کہ ان جگہوں کا نام پہلے اسلام پسندوں نے بدلا تھا لیکن تاریخ میں ہمیں اس کی شہادت کہیں نہیں ملتی جس کو انہوں نے اپنی کتاب میں ثابت بھی کرنے کی کوشش کی ہے۔
۳- تاریخ :۔ اس عنوان میں پہلے ڈاکڑ علامہ اقبال مرحوم کی زندگی اور ان کے کشمیری النسل ہونے کے متعلق انتہائی اہم معلومات بیان کی ہیں۔ کتاب میں کشمیر کی مظلومیت کے لیے علامہ اقبال کی بے چینی کا ذکر کیا گیا ہے ۔
مصنف نے کشمیر میں صحافت کے رول پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ انہوں نے خاص طور پر کشمیر کے سیاسی و سماجی منظر نامے میں اردو صحافت کے رول کو نہایت اہم قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اردو اخبارات میں ڈوگروں کے خلاف اور عوام کے تئیں حکمرانوں کی ناانصافیوں کے خلاف بڑی ہی بے باکی سے لکھا جاتا تھا۔ مصنف نے چند موجودہ اردو اور انگریزی اخبارات کا مختصر تعارف بھی پیش کیا جس میں خاص طور سے گریٹر کشمیر، کشمیر عظمیٰ، رائزنگ کشمیر ،کشمیر ریڈر ،کشمیر لائف ،آفتاب، سرینگر ٹائمز وغیرہ کا تذکرہ پڑھنے کو ملے گا۔ آخر میں ضمیمہ جات کے عنوان سے شیخ محمد عبداللہ اور ایران کے ایک لیڈر سید عبدالقاسم کاشانی کے درمیان ایک خط کے ساتھ ساتھ مہاراجہ ہری سنگھ کے خطوط بنام صدر ہند ڈاکٹر راجندر پرساد کے نام بھی درج کیے ہیں ۔
مجموعی طور پر کتاب دلچسپ واقعات اور عبرت انگریز تاریخ کا مجموعہ ہے۔ چند ایسی باتوں کو بھی پیش کیا گیا ہے جو قومی سطح پر کشمیری قوم کے لیے نشان راہ بن سکتی ہیں۔ کتاب املا کی غلطیوں سے پاک ہے تاہم بعض واقعات کو ضرورت سے زیادہ طول دیا گیا ہے۔
کتاب کل 418 صفحات پر مشتمل ہے جس کو اٹلانٹک پبلیشرز نے شائع کیا ہے۔ کتاب کی قیمت 995 روپے ہے جو کچھ زیادہ معلوم ہوتی ہے۔ کتاب اپنے اندر بعض انتہائی اہم واقعات کو سموئے ہوئے ہے جس کو جاننا ہر کشمیری، خاص کر نئی نسل کے لیے ضروری ہے۔ کتاب سرینگر میں کسی بھی بُک سیلر سے حاصل کی جا سکتی ہے۔
رابطہ نمبر 9906664012

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  26 جون تا 02 جولائی 2022