کشمیر میں تیزاب چھڑکنے کا انسانیت سوزواقعہ

مجرموں کو عبرت ناک سزا ئیںنہ ملنے سے گھناونے جرائم بڑھ رہے ہیں

غازی سہیل خان،سرینگر

پچھلے دنوں وادی کشمیر ،سرینگر میں ایک درد انگیز اور شرمناک واقعے میں ایک ۲۴ ؍ سالہ دوشیزہ کے چہرہ پر ایک درندہ صفت نوجوان نے تیزاب چھڑک کر اُس کی زندگی کو عذاب بنا دیا ۔وہ لمحہ دردمند دل رکھنے والے انسانوں کے لیے انتہائی اذیت ناک ہوتا ہے جب خواتین پر تیزاب چھڑکنے جیسی درندگی کی خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں ۔ تیزاب سے متاثرہ خواتین دنیا کی بد نصیب ترین خواتین بن جاتی ہیں جن کے ارمان ،خواہشیں اور حسین خواب پل بھر میں چکنا چور ہو جاتے ہیں ۔وہ لمحات ان متاثرہ خواتین کے لیے کتنے اذیت ناک اور دل و جاں کو تڑپا دینے والے ہوں گے جب وہ اپنے حسین چہروں کو آیئنے کے سامنے چند لمحوں میں جھلسا ہوا دیکھتی ہوں گی شاید ہی کوئی اس کا ادراک کرسکے ۔
بھارت میں ۲۰۱۴ء سے ۲۰۱۸ء کے درمیان نیشنل کرائم ریکارڈ ز بیورو کے مطابق 1483؍ تیزاب چھڑکنے کے واقعات درج ہوئے ہیں جن میں 85؍فی صد خواتین اور لڑکیاں شکار بنیں ہیں ۔۲۰۱۸ء میں 523 معاملات عدالت پہنچے ۔ اس میں افسوسناک بات یہ ہے کہ ان میں سے محض 19؍ مجرموں کو ہی سزا مل پائی ہے ۔اسی کے مطابق کشمیر میں گزشتہ سال شوپیان میں ایک 19؍ سالہ دوشیزہ پر تیزاب چھڑکا گیا لیکن ابھی تک وہ مجرم قانون کی گرفت سے بچ کر اپنی زندگی عیش و عشرت سے گزار رہا ہے ۔وہیں ۲۰۱۴ء میں سرینگر کے ایک لاء کالج میں 24؍ سالہ لڑکی کو اسی تیزاب کا نشانہ بنایا گیااور ابھی تک یہ مجرمین ر نشان عبرت نہیں بنائے گئے ہیں۔
بھارت کے ساتھ ساتھ وادی کشمیر میں اس طرح کے واقعات کیوں تیزی سے بڑھنے لگے ہیں اس کے متعلق ماہرین طرح طرح کی وجوہات بیان کرتے ہیں ۔سب سے اہم اور بُنیادی وجہ یہ ہے کہ جب بھی کوئی اس طرح کی درندگی کا مظاہرہ کرتا ہے تو اُسے عبرتناک سزا نہیں ملتی بلکہ پہلے تو اکثر ان میں سے قانون کی ہی پکڑ میں نہیں آتے اور چند ایک جو آجاتے ہیں اُن کے خلاف عدالتوں کے ذریعے سے نشان عبرت بنانے والی سزائیں نہیں سُنائی جاتیں ۔دوسری وجہ اس طرح کے واقعات کے بعد جانب داری سے کام لیا جاتا ہے یعنی جس طرح سے عوام کی جانب سے مذمت کی جانی چاہیے اُس طرح نہیں کی جاتی ۔ مثال کے طور پر گزشتہ سال شوپیان کی بیٹی کو تیزاب کا شکاربنا کر اُس کے چہرے کو بُری طرح جھلسا دیا گیا تھا ۔وہ بچی ابھی تک انصاف کی منتظر ہے جو ایک غریب اور اپاہج باپ کی بیٹی ہے ۔ اس کے مجرموںکو ابھی تک پکڑا نہیں گیا۔بعض لوگ کہہ رہے ہیں اگر شوپیاں کی اُس بچی کو انصاف ملا ہوتا تو آج سرینگر کی یہ بہن اس درندگی کا شکار ہونے سے بچ گئی ہوتی ۔ایک اور طبقے کا کہنا ہے کہ معاشرے میں اس طرح کے درد ناک واقعات اسی لیے رونما ہوتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں اخلاقیات ،اور انسانیت کو تین طلاقیں دے دی گئی ہیں ۔جب کسی سماج میں دین و ایمان کا دن دہاڑے جنازہ نکالا جائے ،جب کسی ملک و قوم میں عدل و انصاف کو دفن کر دیا گیا ہو اور مجرمین عیش و عشرت کی زندگی گزارتے ہوں ،جب کسی قوم کے لوگ انصاف کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانے پہ مجبور ہوں ،جہاں بے شرمی کو جدیدیت اور ترقی کا نام دیا گیا ہو ،جہاں تعلیم و تعلم کے نام پر ملت کے بچوں کے اذہان میں گندگی بھری جا رہی ہو ،جہاں اخلاقیات اور عزت و وقار کو دقیانوسیت سے تعبیر کیا جا رہا ہو ،جہاں بے حیائی اور زنا کو فروغ دیا جا رہا ہو ،جہاں بے پردگی عام کی جا رہی ہو ،جہاں گھریلو نظام کا شیرزاہ بکھیر دیا گیاہو وہاں ہماری بہنوں اور بیٹیوں کو متا ثر ہونا ہی ہے ۔وہاں ان بچیوں کو اس قسم کی درندگی کا شکار ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے ۔
اس سارے منظر نامے کے بیچ کشمیر میں اس متاثرہ بچی کو انصاف دلانے کے لیے بغیر کسی مسلک و جماعت کی تفریق کے لوگوں نے انتظامیہ اور عدلیہ سے فریاد کی بلکہ اپنی ناراضگی کا بھی اظہار کیا۔چند سیاسی لیڈروں نے تو اس بچی کے علاج کا سارا خرچ برداشت کرنے کا ذمہ بھی لیا ۔اپنے بیانات کے ذریعے اس درندگی کی مذمت بھی کی۔وہیں کشمیر کے مفتیان کرام اور علماء حضرات نے بھی اس مجرم کو کڑی سے کڑی سزا کا پُر زور مطالبہ کیا ۔بلکہ اُس کے اگلے روز شمع جلا کے اس بچی کے ساتھ ہمدردی اور اس کے خاندان کے دکھ میں شریک ہونے کا احساس دلایا ۔پولیس نے بھی معمول کے برخلاف اس واقعہ کے چند گھنٹوں میں ہی اصلی مجرم کو پکڑ ا اور اگلے روز دو اور ملزمین کو گرفتار کیا گیا ۔ پولیس نے اپنے ایک بیان میں کہا ’’اس معاملے میں پولیس اسٹیشن نوہٹہ میں مختلف دفعات کے تحت کیس درج کیے گیے ہیں اور تحقیقات شروع کی گئی ہیں ۔تاہم اسی دوران ایک سماجی کارکن نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس لڑکی کو پہلے سے ہی اس لڑکے نے تیزاب چھڑکنے کی دھمکی دی تھی بلکہ اس بچی کے ساتھ منگنی ٹوٹنے کے بعد راستے میں تنگ بھی کرتا تھا جس کو اس کے گھر والوں نے سنجیدگی سے لیتے ہوئے پولیس تھانہ میں شکایت بھی درج کروائی تھی لیکن پولیس نے اُس پر کوئی کارروائی کیوں نہیں کی وہ ابھی واضح نہیں ہوا ہے۔ ایک سماجی کارکن کا کہنا ہے کہ اگر پولیس نے پہلے ہی اس شکایت کو سنجیدگی سے لیا ہوتا ،یا اُس مجرم کو تھانے بُلایا ہوتا اور وہاں نصیحت ہی کی ہوتی تو شاید یہ بچی اس درندگی کا شکار نہ ہوتی ۔اس واقعہ کو مقامی و قومی میڈیا بھی اچھی کوریج دے رہا تھا تاہم چند سماجی کارکن اپنی سیاست بھی چمکا رہے رہیں اور چند نام نہاد فیمنسٹ اس واقعے کے بعد عورتوں کے حقوق کے نام پر اخلاقیات کا جنازہ نکال رہی ہیں ۔اسی طرح کی ایک نام نہاد نسوانیت پسند لڑکی نے مذکورہ متاثرہ بچی کے ساتھ پیش آئے واقعہ کے تناظر میں ایک افسوسناک بیان میڈیا کو دیتے ہوئے کہا کہ ایک لڑکی یہ حق رکھتی ہے کہ وہ شادی کے بعد اپنا بوائے فرینڈ رکھ سکتی ہے ۔اس بیان کے بعد سماجی رابطہ کی ویب سائٹس پر موصوفہ کے خلاف شدید غم و غصے کا اظہار کیا گیا جس کے بعد مجبوراً اسے اپنا بیان واپس لے کر عوام سے معافی مانگنی پڑی تھی۔اس طرح کے واقعات کے بعد اکثر سماج کو بانٹنے کے عناصر پنپتے ہیں اور چندخواتین کے حقوق کے نام پر بھی اسلامی قوانین کی مخالفت اور سماجی تانے بانے کو بکھیرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔تاہم ہمیں اس دوران بہت ہی بیدار رہنے کی ضرورت ہے کہ کوئی ہماری اجتماعیت اور گھریلو نظام کو مغربی تہذیب کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش نہ کرے ۔
اس حادثے کے بعد وادی کشمیر درد و غم میں ڈوب گئی ہے ۔چہار جانب بے چینی ومایوسی ہے اور ہماری بہنیں اور بیٹیاں عدم تحفظ کا شکار ہو گئی ہیں۔اللہ رحم فرمائے کہ ان بچیوں کی نفسیات پر کیا اثرات پڑتے ہوں گے ۔ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے سماج میں اخلاقی تعلیم کو عام کریں ،ہمارے علماء کو چاہیے وہ محلوں میں درسگاہوں کے ذریعے عوام میں بیداری لائیں ،اسلام کی تعلیمات کو عام کریں۔ہمارے سرکاری اور غیر سرکاری تعلیمی اداروں میں اخلاقی تعلیم کو عام کرنے کی ضرورت ہے بلکہ ایک منظم پروگرام کے تحت طلبہ کو اسلامی تعلیمات اور مقصد زندگی سے آشنا کیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ حکومتوں کو بھی چاہیے کہ جب اس طرح کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو اس کے اصل مجرموں کو عبرتناک سزائیں دی جائیں تاکہ دیگر لوگ بھی سبق حاصل کر یں اور اس طرح کی درندگی کے بارے میں سوچ بھی نہ سکیں۔اگر آج بھی ہم اجتماعی طور پربیدار نہ ہوئے تو ہمارے گھر بھی اس طرح کی حیوانیت سے متاثر ہوسکتے ہیں۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  20 فروری تا 26فروری 2022