کشمیر میں ’ انتخاب جیتنے کی مشین ‘کیوں بند ہوجاتی ہے؟

وزیراعظم کے پاس ننھے جہانگیرکی دلخراش تصویرپر ہمدردی کے دوبول نہیں!

ڈاکٹر سلیم خان،ممبئی

وطن عزیز میں کچھ اور ہو نہ ہو انتخابات بڑی پابندی سے ہوتے ہیں اور سال بھر کہیں نہ کہیں انتخابی بازارگرم رہتا ہے۔ کبھی قومی تو کبھی ریاستی، کبھی بلدیاتی تو کبھی پنچایتی ، کبھی ایوانِ بالا کے تو کبھی ایوانِ زیریں کے ، کبھی ضمنی تو کبھی روایتی ،کبھی وزیراعظم تو کبھی صدر مملکت کو منتخب کیے جانے کا عمل جاری رہتا ہے ۔ ہر انتخاب میں جی بھر کے دھاندلی ہوتی ہے اس کے باوجود ان سے متعلق خبروں کو بڑے ذوق و شوق سے پڑھا جاتا ہے , خوب تبصرے ہوتے ہیں اور بے شمار قیاس آرائیاں کی جاتی ہیں ۔ اس قومی مشغلے کےنشے میں پوری قوم سال بھر جھومتی رہتی ہے۔۔ انتخابی عمل میں مخالفین سمیت سب بالکل اس محاورے کی مانند جس میں ہندی، اردو ،فارسی اور عربی ساری زبانوں کے الفاظ شامل ہیں ’ دامے درمے سخنے قدمے‘ اپنا تعاون پیش کرتے ہیں۔ کسی اور میدان میں نہ سہی مگر انتخابی دنگل میں ہمارا ملک رستمِ زماں ہے۔ دنیا میں کم ممالک ہوں گے جہاں پیٹ پر پتھرباندھنے والا ووٹر لاکھوں روپیوں کی ووٹنگ مشین پر انگلی لگا کر اپنے آپ کو ’بھارت بھاگیہ ودھاتا ‘(یعنی ہندوستان کا تقدیر ساز) سمجھ لیتا ہے ۔ ای وی ایم پر تو بہت کچھ لکھا ، بولا، دیکھا اور سنا جاچکا ہے لیکن وزیراعظم نے ایک نئی مشین ’ای ڈبلیو ایم ‘ یعنی الیکشن وننگ مشین کا انکشاف بلکہ اعتراف کرلیاہے۔
من کی بات بہت سوچ سمجھ کر نہیں کہی جاتی ۔ ہر ماہ وزیراعظم آکاش وانی (ریڈیو) پر من کی بات کے نام پر جو کہتے ہیں وہ تو ان کی تقریر لکھنے والوں کے زورِ قلم کی کاوش ہوتی ہے مگر 04 جولائی2020کو اچانک ان کےدل کی بات زبان پر آہی گئی۔ مودی جی نے اپنی پارٹی کی اترپردیش، بہار، آسام، کرناٹک، مہاراشٹر، دہلی اور راجستھان کے خدمات کو سننے کے بعد کہا کہ ’’ان کے لیے یہ تنظیم صرف الیکشن جیتنے کی مشین نہیں ہے۔ کچھ لوگ تنظیم کو صرف انتخابات کے دائرے میں دیکھتے ہیں‘‘۔ یہ بات چونکہ مودی جی نے اپنے ہم جماعت لوگوں کے درمیان کہی اس لیے یقیناً بی جے پی کے بارے میں ہے۔ اس کا مطلب ظاہر ہے کہ جن لوگوں کویہ نصیحت کی جارہی ہے وہ تنظیم کو الیکشن جیتنے کی مشین سمجھتے ہیں ورنہ اپدیش کی ضرورت ہی کیا تھی؟ وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے بارے میں کہا کہ وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو انتخاب جیتنے کی مشین نہیں بلکہ خدمت کے جذبے سے دیکھتے ہیں۔
وزیر اعظم کو ان وجوہات کا پتہ لگانا چاہیے کہ جن کے سبب ان کے اندھے بھکتوں نے پارٹی کو مشین سمجھ لیا ہے؟ اس سوال کا جواب ان کی تقریر کے آگے والے حصے میں پوشیدہ ہے جو کسی سمجھدار آدمی نے لکھ کر دی ہوگی۔ سب سے پہلے تو وہی پرانا گھسا پٹا جملہ دوہرا یا گیا کہ ’ان کی پارٹی کے لیے ملک سب سے مقدم ہے‘۔ ہر مرتبہ جب حزب اختلاف کے ارکان کو خریدنے کے لیے شاہ جی تجوری کا دہانہ کھولتے ہیں تو اس کے اندر ساری دنیا کونظر آ جاتا ہے کہ اس پارٹی کے لیے مقدم کیا ہے اور مؤخر کیا ہے؟ اب تو بی جے پی نہ صرف الیکشن جیتنے کی بلکہ دولت کمانے کی مشین بھی بن چکی ہے اور یہ مشین اپنے پرائے میں تفریق بھی نہیں کرتی بلکہ مخالفین اگران کی اپنی پارٹی سے غداری کرکے کمل تھام لیں تو ان کو زیادہ نوازتی ہے۔ اس سے ملک و قوم کی کون سے خدمت ہوتی ہے یہ تو صرف شاہ جی اور وہ ضمیر فروش رہنما جانتے ہیں جو پالا بدل کر بی جے پی سے بغلگیر ہوجاتے ہیں ۔ ابھی تک تو اس مشین کے صرف دو اوصاف ظاہر ہوئے ہیں آگے چل کر یہ اور کیا گُل کھلائے گی یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
وزیراعظم نے اپنی تقریر میں دوسرا چونکا دینے والا انکشاف یہ کیا کہ ’یہ تنظیم تمام طبقات کے لوگوں کی خوش حالی اور معاشرتی مفاد کے لیے کام کرتی ہے‘۔ اس کی چند شرائط جن کا ذکر وزیراعظم نے نہیں کیا مثلاً بی جے پی بلکہ اس میں بھی مودی جی سے وفاداری اور تنقید و مخالفت سے مکمل احتراز وگرنہ بلاتفریق مذہب و ملت، خدمت کے بجائے ذلت و تعذیب ہاتھ آتی ہے۔مرکزمیں پارٹی کے اندر اس کے نمونے اڈوانی اور سنجے جوشی ہیں اور پارٹی سے باہر صوبائی سطح پراس کے نمونے اتر پردیش میں آئے دن سامنے آتے رہتے ہیں۔وہاں ایک طرف کملیش تیواری جیسے مجرموں کے قتل پر سرکاری خزانے سے لاکھوں روپے نچھاور کردیے جاتے ہیں اور دوسری جانب این آر سی کے خلاف آواز اٹھانے والے پرامن مظاہرین سے ان کے نا کردہ گناہوں کی پاداش میں ان کے مکانات و دوکانات کی قرقی کرکے بھرپائی کی جاتی ہے۔
مودی جی نے اپنی تقریر میں کورونا بحران کے دوران پارٹی کارکنوں کی جانب سے غریبوں کی فلاح و بہبود اور مدد کے جذبے سے کیے جانے والے "کاموں” کو سراہا۔ اس پر لوگوں کو حیرت ہوئی کیوں کہ اس دوران بی جے پی کے ذریعہ خدمت خلق کا کوئی کام کسی کو کہیں نظر نہیں آیا۔ ہاں البتہ وہ اپنے مرکزی رہنماؤں کی حمایت اور مختلف ریاستوں میں اپنے سیاسی مخالفین کی مخالفت کرتے ہوئے ضرور نظر آئے۔ اترپردیش میں بارڈرسیل کرنے کے بعداپنے ہی صوبوں کے مہاجر مزدوروں پر ڈنڈے برسانے کے مناظر بھی دکھائی دیے۔ کانگریس کے ذریعہ مہیا کی جانے والی بسوں کو واپس کرنے کی سنگدلی کو بھلا کون بھول سکتا ہے؟ ویسے پارٹی تو دور سرکار نے بھی تارکین وطن مزدوروں کے تئیں جس بے رحمی و سفاکی کا مظاہرہ کیا وہ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ ان کی مدد کرنے کے بجائے الٹا عدالت عظمیٰ میں اپنے وکیل سے کہلوا دیا کوئی بھی مزدور سڑک پر نہیں ہے۔ کسی مسئلہ کے وجود کو اگر تسلیم ہی نہ کیاجائے تو وہ حل کیسےہوگا؟ اس کے بعد وزیراعظم نے اپنے روایتی انتخابی انداز کا آغاز کردیا اور اپنے ہی ارکان کو بتایا کہ ’بی جے پی کے اندر 52دلت، 43قبائلی اور 113پسماندہ طبقہ کے ممبران پارلیمنٹ ہیں۔ اس کے علاوہ پارٹی کے اندر ملک بھر میں 150قبائلی ممبران اسمبلی ہیں، جس کی وجہ سے پارٹی ہر طبقہ سے وابستہ ہے اور اسے معاشرے کے ہر طبقہ کا اعتماد حاصل ہے‘۔ کورونا وائرس سے لڑائی کا جائزہ لیتے ہوئے اس فضول کی معلومات فراہم کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا لیکن ہر موقع پر انتخابی فائدہ اٹھانے کی جو لت لگ گئی ہے اس سے وہ مجبور ہیں ۔ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ جن سنگھ سے بی جے پی تک کے سفر کا مقصد خدمت کے جذبے سے ملک کو خوشحال اور مستحکم بنانا ہے۔ وہ خدمت کے جذبے کے ساتھ سیاست میں آئے ہیں۔ خدمت ہی اقتدار کا ذریعہ ہے۔ پارٹی نے کبھی اقتدار کو اپنے مفادات کا وسیلہ نہیں بنایا‘۔سوال یہ ہے کہ اگر واقعی ایسا ہے تو اپنے ہی ارکان کو یہ بتانے کی ضرورت کیا ہے؟ سچ تو یہ پردھان منتری ہی جب پرچار منتری بن جائے تو اس کی پارٹی انتخابی مشین نہیں تو اور کیا بنے گی؟
وزیراعظم کی کم ظرفی انہیں ہر موقع کو انتخابی فائدہ اٹھانے پر اکساتی رہتی ہے مثلاً چین جیسے نازک مسئلہ پر ہونے والی کل جماعتی کانفرنس کے خطاب کو دوردرشن سے نشر کروادینا یا وزیر دفاع کے بجائے خود لیہہ پہنچ جانا وغیرہ ۔ اس دورے کے دوران زخمی فوجیوں سے وزیراعظم کی ملاقات کا جو ڈرامہ کھیلا گیا اس کی سماجی رابطوں کے ذرائع ابلاغ میں خوب ہنسی اڑائی گئی۔ ایک آڈیٹوریم کو اسپتال کے وارڈ میں ایسے بھونڈے طریقہ پر تبدیل کیا گیا تھاکہ عوام کو بے ساختہ’منا بھائی ایم بی بی ایس‘ کی یاد آگئی ۔منا بھائی نے توفلم کے پردے پر اپنے والدین کو دھوکہ دینے کے لیے ایک مصنوعی اسپتال تیار کروایا تھا لیکن وزیراعظم نے اپنی ہی قوم کو فریب دینے کے لیے اپنے ہی فوجیوں کا استعمال کیا ۔
اس معاملے میں جب ہنگامہ بہت بڑھ گیا تو فوج کو وضاحت کرنی پڑی کہ ’’وزیراعظم نے جس جگہ کا دورہ کیا وہ جنرل ہسپتال کمپلیکس کا کرائسس ایکسپانشن ہے اور اس میں 100بستر ہیں۔ یہ آڈیو ویڈیو ٹریننگ ہال تھا جسے ایک وارڈ میں تبدیل کر دیا گیا‘‘ لیکن اسپتال میں بستر کے علاوہ دیگر آلات بھی ہوتے ہیں ۔ اس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے سیکولر انڈین 72نامی صارف نےٹوئٹر پر وزیراعظم کی تصویرلگاکرلکھا: ’نہ دواؤں کی ٹیبل ہے، نہ ڈاکٹر، نہ مرہم، نہ کوئی مریض سو رہا ہے، نہ کسی کو ڈرپ لگی ہے، نہ آکسیجن سیلنڈر ہے، نہ ہی وینٹیلیٹر۔ایسا لگتا ہے کہ یہ منا بھائی ایم بی بی ایس کا کوئی سین ہے‘۔ڈاکٹر جوالا نے لکھا یہاں ’مریضوں کا آئی ڈی بینڈ نہیں ہیں، پلس آکسی میٹر نہیں ہیں۔ ای سی جی کے تار نہیں ہیں۔ مانیٹر نہیں ہیں۔ آئی وی کینولا نہیں ہے۔ ایمرجنسی کریش کارٹ نہیں ہے۔ اور نہ ہی کوئی ڈاکٹر مریض کی کیفیت بتا رہا ہے۔ اس طرح کے تصاویر بنانے سے قبل کسی ڈاکٹر کی خدمات ہی حاصل کر لیتے۔‘ ٹوئیٹر کے صارفین میں سے ایک اتل ترپاٹھی نے شدید اعتراض کرتے ہوئے لکھا ’جس جوان کو ملک کی حفاظت کے لیے بندوق اٹھائے رکھنا چاہیے تھا وہ وزیراعظم کی تشہیر کے لیے کیمرہ اٹھائے ہوئے ہے۔اس وزیراعظم نے فوجیوں کو اپنی گندی سیاست کے لیے استعمال کیا ہے۰۰۰ منا بھائی ایم بی بی ایس۔‘ جس پارٹی کا وزیر اعظم ایسی اوچھی حرکت کرے تواس کو اگر لوگ انتخابی مشین سمجھیں تو اس میں کیا غلط ہے؟
وزیراعظم اپنی مشین والی تقریر سے ایک دن قبل لداخ گئے تھےجہاں چینیوں نے۲۰ فوجیوں کو ہلاک کردیا ۔ ایک سال قبل تک لداخ جموں کشمیر کا حصہ تھا۔کشمیر میں پچھلے 11ماہ سے لاک ڈاؤن ہے۔ دفع 370ختم کرنے کے بعد وزیراعظم نے کہا تھا کہ ایک ہفتہ بعد لوگ عیدالاضحیٰ معمول کے مطابق منائیں گے لیکن اگلی عید آنے والی ہے حالات ابھی تک ٹھیک نہیں ہوئے۔ وہاں پر حالات کو قابو میں کرنے کے لیے 400لوگوں پر قومی سلامتی ایکٹ کا مقدمہ درج کیا گیا اور 300پر کارروائی کرکے نظر بند کردیا گیا۔ عوام کوہونے والی پریشانی کا کوئی حساب نہیں ہے ۔ کورونا کے پھیلاؤ سے قبل ۶ فروری 2020 کو وزیر مملکت برائے امور خارجہ کشن ریڈی نے ایوانِ پارلیمان میں بتایا تھا کہ جموں کشمیر کے پرتشدد واقعات میں 73 فیصد کمی آئی ہے اور حفاظتی دستوں کے 22 جوانوں نے اپنی جان گنوائی ہے۔ کیا وزیراعظم کو ان جوانوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے کشمیر نہیں جانا چاہیے تھا؟ کشمیر میں 32عسکریت پسندوں کے علاوہ 19شہری بھی مارے گئے کیا وہ وزیراعظم کی ہمدردی کے مستحق نہیں ہیں یا سیاسی مفاد ان کو روکتا ہے؟
پچھلے سال یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ کشمیر میں دفع ۳۷۰ کے ختم ہوتے ہی امن قائم ہوجائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ 2019 کے ماہ جون میں 22 جنگجو ہلاک ہوئے تھے ۔ یہ تعداد جولائی میں گھٹ کر 8پر آگئی ۔ اس کے بعد اگست کے پہلے ہفتے میں کشمیر کی حیثیت بدل گئی اور اس ماہ صرف 5جنگجو ہلاک ہوئے۔ اس کے یہ معنیٰ لیے گئے کہ اب فضا پرامن ہوگئی ہے۔ ستمبر میں7اکتوبر8اور نومبر میں5 ہلاکتیں ہوئیں اور دسمبر میں کوئی ہلاک نہیں ہوا اس کو بہت اچھی علامت سمجھا گیا لیکن جنوری میں یہ تعداد اچانک بڑھ کر 18 ہوگئی اور فروری و مارچ میں بھی 7جنگجو حفاظتی دستوں کے ہاتھوں مارے گئے اس کا مطلب یہ ہے کہ جو دعویٰ کیا گیا تھا وہ غلط تھا کیونکہ یہ سب سخت ترین کرفیو کے باوجود ہوگیا تھا ۔ مارچ کے اواخر میں تو کورونا والا لاک ڈاون بھی لگ گیا اس کے باوجو اپریل میں ہلاک ہونے والے عسکریت پسندوں کی تعداد بڑھ کر 28ہوگئی تو اس کو کیا سمجھا جائے؟ اس تعداد کا گھٹنا اگر مثبت پیش رفت ہے تو بڑھنا کیا ہے؟ مئی کی شروعات ہی 4 ہلاکتوں سے ہوئی اور جون میں وقتاً فوقتاً اس طرح کی خبریں آتی رہیں ۔ اس سال کا پچھلے سال سے موازنہ کریں تو پہلے پانچ ماہ میں اس سال 78 ہلاکتیں ہوئیں جبکہ پچھلے سال 101 ہوئی تھیں ۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے اس 11ماہ کے لاک ڈاؤن سے کیا حاصل ہوا؟ اس صورت حال کے لیے کون ذمہ دار ہے؟
وزیراعظم جس روز لداخ گئے اس سے دو دن قبل کشمیر سے ایک تین سالہ بچہ عیاد جہانگیر کی اندوہناک تصویر سوشیل میڈیا میں سامنے آئی جو اپنے نانا بشیر احمد خان کی لاش پر بیٹھا رورہا تھا ۔ اس جگر سوز تصویر پر سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی صاحبزادی التجا مفتی نے ٹوئٹ میں کہا کہ ’دو طرح کے ویڈیوز گردش کر رہے ہیں ایک ویڈیو میں دکھایا جارہا کہ تین سالہ بچہ جس کے نانا کو مارا گیا، کو بچایا جارہا ہے اور دوسرے ویڈیو میں دکھایا جارہا ہے کہ مہلوک کا بیٹا سی آر پی ایف پر اس کے باپ کو دن دہاڑے مارنے کا الزام عائد کر رہا ہے۔ کشمیر میں سچائی بڑی شکار بن گئی ہے‘۔جموں و کشمیر اتحاد المسلمین کے صدر و حریت لیڈر مولانا مسرور عباس انصاری اپنے ایک ٹوئٹ میں ان تصاویر کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ’اس بچے کی آنکھوں میں آنسو جگر کو پارہ پارہ کرتے ہیں۔ یہ حد درجہ تکلیف دہ ہے۔ میں اس تکلیف کو الفاظ میں بیان کرنے سے قاصر ہوں‘۔
یہ اندوہناک خبر کشمیر کے سارے اخبارات پر چھائی ہوئی تھی ۔ معروف صحافی ماجد حیدری اپنے ایک ٹوئٹ میں لکھا کہ ’خون آلود بسکٹ ہاتھوں میں لیے یہ بچہ اس بات سے بے خبر ہے کہ بسکٹ دلانےوالا مرچکا ہے، کشمیر میں ایک بچے کا بچپن یہی ہے‘۔ اتنا کچھ ہونے کے باوجود حکومت کے کسی ذمہ دار کی زبان سے ہمدردی کا ایک لفظ نہیں پھوٹا۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ65 سالہ بشیر احمد عسکریت پسندوں کی فائرنگ سے مارے گئے۔ کشمیر کے آئی جی پولیس کے حوالے سے بتایا گیا کہ مسجد سے جن دو ’دہشت گردوں‘ نے سیکیورٹی اہلکاروں پر حملہ کیا تھا ان کی شناخت ہو گئی ہے۔سیکیورٹی اداروں نے دونوں مبینہ حملہ آوروں کا تعلق لشکرِ طیبہ سے بتایا ہے جب کہ ان کے نام عادل اور عثمان ہیں۔پولیس نے عثمان کو غیر ملکی در انداز بتایا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس حملےکی زد میں بشیر احمد خان کیسے آگئے؟
بشیر احمد خان کے اہل خانہ کا الزام ہے کہ حفاظتی دستوں نے انہیں دانستہ طور پر نشانہ بنایا۔ ’کشمیر ریڈر‘ نامی اخبار نے ان کی بیٹی اور دیگر اہل خانہ کے بیان کو صفحہ اول پر شائع کیا۔اس میں ان کی بیٹی ارم جان کا کہنا تھا کہ میں چاہتی ہوں کہ میرے والد کو مارنے والے کو بھی اسی طرح گولیاں ماری جائیں۔انہوں نے مزید کہا کہ میرے والد کو مجھ سے چھین لیا گیا ہے۔ یہ جبر کی ہی ایک قسم ہے۔ مجھے انصاف چاہیے۔بشیر احمد خان کے بھتیجے اعجاز خان نے کہا کہ سیکیورٹی اداروں کی جانب سے میرے چچا کے فائرنگ کے تبادلے میں ہلاک ہونے کی بات میں صداقت نہیں ہے کیوں کہ شواہد اس کے برخلاف ہیں۔اعجاز خان کے مطابق گاڑی پر گولیوں کے نشان نہیں ہیں۔اس کا مطلب ہے انہیں گاڑی سے اتار کر گولیاں ماری گئی ہیں ۔اس لیے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر عسکریت پسند ان کو گاڑی سے اتار کر کیوں ہلاک کریں گے؟
یہی بات ننھا جہانگیر اپنی ویڈیو میں کہتا ہے جس کوساری دنیا نے ٹوئیٹر پر دیکھا ۔ تین سال کا بچہ جس کو کوئی بات سمجھائی نہیں جاسکتی، کہتا ہے کہ بابا کوپولیس نے گاڑی سے اتارا اور ٹھائیں ٹھائیں کردیا۔ کاش کہ وہ وزیراعظم جنہوں نے بڑے طمطراق سے اپنے پارٹی کارکنان کے درمیان یہ دعویٰ کیا کہ ’ یہ تنظیم تمام طبقات کے لوگوں کی خوشحالی اور معاشرتی مفاد کے لیے کام کرتی ہے‘ لیہہ سے واپسی میں سوپور جاتے اور اس بچے کو اپنی گود میں لے کرجھوٹ مو ٹ ہی سہی کہہ دیتے کہ تیرے نانا کو پولیس نے نہیں مارا۔ اس کے آنسو پوچھتے گھر والوں کو پرسہ دے کر کشمیریوں کو یہ بتاتے کہ ان کا یہ غیر معینہ لاک ڈاون آخر کب ختم ہوگا اور انہیں اور کتنے دن اس طرح کسمپرسی کا شکار رہنا پڑے گا؟ ہندوستان کی پیشانی جموں کشمیر فی الحال لہو لہان ہے۔ کیا اس پر مرہم رکھنا وزیراعظم کی ذمہ داری نہیں ہے؟ یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ ظلم کو دوام نہیں ہے۔ جن مظلوموں کی فریاد کو زمین والے نظر انداز کردیتے ہیں ان کو آسمان والا سنتا ہے اور ظالموں کو اپنے اذنِ خاص سے کیفرِ کردار تک پہنچاتا ہے۔
***


کاش کہ وزیراعظم جنہوں نے بڑے طمطراق سے اپنے پارٹی کارکنان کے درمیان یہ دعویٰ کیا کہ ’ یہ تنظیم تمام طبقات کی خوشحالی اور معاشرتی مفاد کے لیے کام کرتی ہے‘ لیہہ سے واپسی میں سوپور جاتے اور اس بچے کو اپنی گود میں لے کرجھوٹ موٹ ہی سہی کہہ دیتے کہ تیرے نانا کو پولیس نے نہیں مارا۔ اس کے آنسو پوچھتے گھر والوں کو پرسہ دے کر کشمیریوں کو یہ بتاتے کہ ان کا یہ غیر معینہ لاک ڈاون آخر کب ختم ہوگا اور انہیں اور کتنے دن اس طرح کسمپرسی کا شکار رہنا پڑے گا؟