کشمیر فائلز:نفرت سے بھرپور آدھا سچ
مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لیے جھوٹا پروپگنڈا۔پنڈتوں سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں دیگر برادریاں
خلیق احمد، نئی دہلی
نفرت ومذہبی منافرت کو عام کرنا، سچائی کو ڈھانک کر درد کی سیاست کرنا، وویک اگنی ہوتری کی فلم ’دی کشمیر فائلز‘ کا خلاصہ ہے۔
’دی کشمیر فائلز‘ دراصل ایسی فلم ہے جو مسلم مخالف نفرت کو معمول پر رکھنے کے لیے ’سنگھ پریوار‘ کے پروپیگنڈا مشین کے طور پر کام کرتی ہے۔ اگر دفعہ 370 کی منسوخی بی جے پی اور اس کے سنگھ پریوار کے لیے ایک اہم لمحہ تھا، تو ’دی کشمیر فائلز‘ نے سیاسی فائدے بٹورنے کے لیے اسے کافی آکسیجن فراہم کردی ہے۔
اب سنگھ پریوار کے پاس 2024 کے عام انتخابات سے پہلے فرقہ وارانہ صف بندی اور تیسری بار اقتدار تک پہنچنے کے لیے کافی توانائی موجود ہے۔ اپوزیشن یا دم توڑ چکی ہے یا نرم ہندوتوا کارڈ کھیل رہی ہے تاکہ اکثریتی ووٹ بینک ناراض نہ ہو۔
جہاں تک کشمیری پنڈتوں کا تعلق ہے وہ بلاشبہ بہت نقصان اٹھا چکے ہیں۔ 32 سالوں سے اپنے ہی ملک میں پناہ گزینوں کی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔ جب کشمیر میں عسکریت پسندی کا دور شروع ہوا تو کشمیری پنڈت گولیوں اور بموں سے بچنے کے لیے رات کے اندھیرے میں جموں کی طرف بھاگے۔ وہ نئی زندگی شروع کرنے سے پہلے جموں اور دہلی کے کیمپوں میں رہے، اس دوران کشمیری پنڈتوں کی نقل مکانی اور بے گھر ہونے کو مختلف ہدایت کاروں نے فلمایا ہے۔ مثال کے طور پر، ’شین‘، ’شکارہ‘، ’آئی ایم‘ اور اسی طرح کی دیگر فلمیں کشمیری پنڈتوں کے المیے پر مرکوز تھیں۔ بالی ووڈ کے دائیں بازو کے فلم ساز ایک عرصے سے کشمیر کے مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلا رہے ہیں اور پروپیگنڈا کر رہے ہیں تاہم، ’دی کشمیر فائلز‘ کشمیری پنڈتوں پر بننے والی سابقہ فلموں سے مختلف ہے۔ یہ نفرت اور جھوٹے پروپیگنڈے کو ایک قدم آگے لے جاتی ہے۔ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے تعاون سے فلم کے سو کروڑ کے کلب میں داخل ہونے کا امکان ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی سے لے کر مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ تک حکمران اتحاد کا ہر لیڈر فلم کی شان میں رطب اللسان ہے۔تھیٹروں میں کشمیر فائلز کو دیکھنے کے بعد دائیں بازو کے مشتعل لوگوں کی طرف سے مسلم نسل کشی کے مطالبات کے ویڈیوز نہایت پریشان کن ہیں۔ اس فلم کے ذریعے ہندوستانی ناظرین کو ادھورا سچ دکھایا گیا ہے۔ فلم میں دکھایا گیا ہے کہ عسکریت پسندی کے 32 سالہ دور میں صرف کشمیری پنڈتوں کو نقصان پہنچا ہے، جب کہ وزارت داخلہ کے اعداد وشمار سے پتہ چلتا ہے کہ 1990 سے 31 مارچ 2017 تک 40,000 سے زیادہ لوگ مارے گئے، جن میں 22,000 عسکریت پسند اور 5,055 سیکورٹی اہلکار شامل ہیں۔
2017 کے آر ٹی آئی کے جواب میں، مرکزی وزارت داخلہ کے چیف پبلک انفارمیشن آفیسر نے کہا کہ کشمیر میں مختلف دہشت گردانہ حملوں میں 13,491 شہری اور سیکورٹی فورسز کے 5,055 اہلکار مارے گئے۔ سیکورٹی فورسز نے گزشتہ 27 سالوں میں تقریباً 21,965 دہشت گردوں کو بھی ہلاک کیا ہے اور ان سے لڑتے ہوئے 13,502 فوجی زخمی بھی ہوئے ہیں۔
’دی کشمیر فائلز‘ نے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ کشمیر میں صرف کشمیری پنڈتوں کی وحشیانہ نسل کشی کی گئی ہے۔ حکومتی اعداد وشمار اکثر حقیقت سے مختلف ہوتے ہیں، لیکن پھر بھی وزارت داخلہ کے فراہم کردہ اعداد وشمار کو ہی لیا جائے تو اس کے مطابق، زیادہ تر متاثرین کشمیری مسلمان ہیں۔
غیر مہاجر پنڈتوں کے ایک گروپ ’’کشمیر پنڈت سنگھرش سمیتی‘‘ (کے پی ایس ایس) کی جانب سے 2011 میں کی گئی ایک تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ کشمیر میں 1990 سے 2010 تک 399 پنڈت مارے گئے۔ یہ تعداد ہلاک ہونے والے 219 پنڈتوں کے اعداد وشمار سے کہیں زیادہ ہے۔ حکومت کی طرف سے دیگر پنڈت گروپوں نے دعویٰ کیا ہے کہ 1989 سے 1991 تک کشمیر میں 1500 سے زیادہ ہندو مارے گئے، جس کی وجہ سے وہ نقل مکانی کر گئے۔
’دی کشمیر فائلز‘ نے کشمیری مسلمانوں کو شیطانوں کے طور پر دکھانے کی کوشش کی ہے۔ جے این یو کو ملک دشمنوں کا گڑھ قرار دیا گیا ہے۔ فلم کا دوسرا کردار، کشمیری پنڈت اور طالب علم کرشنا (درشن کمار) کا ہے جس کی ذہن سازی جے این یو کی ٹیچر رادھیکا مینن (پلّوی جوشی) کی جانب سے کی جاتی ہے اور یہ باور کرایا جاتا ہے کہ کشمیر میں علیحدگی پسندی کی تحریک ہندوستان کی تحریک آزادی سے مماثلت رکھتی ہے۔ رادھیکا کا کردار کشمیر کے لیے برسر پیکار ایک مشہور مصنف کے طور پر تراشا گیا ہے۔ فلم میں اس کردار کو نصف سچائی کے ساتھ منفی دکھایا گیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ کردار جے این یو کی پروفیسر نویدیتا مینن سے متاثر ہے۔
فلم کا آغاز کشمیری زبان میں نفرت اور گالیوں سے ہوتا ہے۔ مسلمانوں کو سچن تنڈولکر کا جوش وخروش سے نام لینے والے ایک کشمیری پنڈت لڑکے کی پٹائی کرتے ہوئے دکھایا گیا۔ اس فلم میں مسلمانوں کو شیطان کے طور پر پیش کیا گیا ہے جو کشمیری پنڈتوں کے لیے ناشائستہ الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ جب مرکزی کردار کرشنا کے دادا پشکر ناتھ (انوپم کھیر) کا انتقال ہو جاتا ہے تو وہ اس کی راکھ کو ڈبونے کے لیے کشمیر جاتا ہے۔ وہ اپنے دادا کے چار دوستوں سے ملتا ہے جو کرشنا کو کشمیر کی ’حقیقی‘ کہانی سناتے ہیں۔
فلم میں ایک ایسی کہانی پیش کی گئی ہے جو آدھی سچی ہے۔ کشمیری پنڈتوں کے ساتھ سانحہ کے وقت وی پی سنگھ وزیر اعظم تھے اور مفتی محمد سعید وزیر داخلہ۔ سنگھ کی قیادت میں نیشنل فرنٹ کو بی جے پی کی حمایت حاصل تھی جس کے ایوان میں 80 ارکان پارلیمنٹ تھے۔ وادی میں تشدد کے بعد فاروق عبداللہ نے استعفیٰ دے دیا تھا اور وادی سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مرکز نے جگموہن کو گورنر مقرر کیا تھا۔ وہی بی جے پی جو آج نیشنل کانفرنس سے نفرت کرتی ہے، نیشنل کانفرنس کے ساتھ تھی جب اس نے اٹل بہاری واجپائی حکومت کی حمایت کی تھی۔ حتی کہ عمر عبداللہ واجپائی حکومت میں جونیر وزیر خارجہ تھے۔
2002 کے گجرات فسادات کے دوران عمر عبداللہ واجپائی کی کابینہ میں ٹکے رہے، جب کہ رام ولاس پاسوان اس واقعے کے خلاف احتجاجاً مستعفی ہوگئے تھے۔ لیکن اب وہی نیشنل کانفرنس بی جے پی کے مطابق ملک دشمن ہے۔ 1990 میں کانگریس کہیں نظر نہیں آرہی تھی لیکن اس وقت اس کے لیڈر راجیو گاندھی بوفورس کی تحقیقات کا سامنا کر رہے تھے۔
اس کے باوجود فلم کے مصنف اور ہدایت کار وویک اگنی ہوتری فلم کے ذریعے لوگوں کو یہ باور کراتے ہیں کہ کانگریس اقتدار میں تھی۔ فلم کے پلاٹ میں آرٹیکل 370 کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
وادی سے صرف کشمیری پنڈت ہی نہیں بھاگے بلکہ مسلمان اور سکھ بھی بھاگے تھے۔ نیشنل کانفرنس کی پوری قیادت جموں میں پناہ گزینوں جیسی زندگی گزار رہی تھی۔ یہاں تک کہ وادی سے فرار ہونے کے بعد سابق وزیر ولی محمد ایٹو کا بھی جموں کی ایک مسجد کے باہر قتل کر دیا گیا تھا۔
سرکاری اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ کشمیر سے تقریباً 41,117 مہاجر خاندان جموں میں درج رجسٹر ہیں، اور مزید 21,000 دہلی اور دیگر ریاستوں میں رجسٹر ہیں۔ جموں میں رہنے والے کل مہاجر خاندانوں میں سے 37,128 ہندو، 2,246 مسلمان اور 1,758 سکھ ہیں۔
درد کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ کشمیری مسلمانوں اور پنڈتوں دونوں کو نقصان پہنچا۔ گو کدال قتل عام، کنن پوش پورہ اجتماعی عصمت دری اور سوپور تشدد حال حال کے واقعات ہیں جن میں متاثرین صرف کشمیری مسلمان ہیں۔ لیکن پھر بھی بالی ووڈ میں کوئی نہیں ہے جو ان واقعات میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو دکھانے کی ہمت کر سکے۔ 8000 کے قریب زیر حراست کشمیری لاپتہ ہیں۔ کوئی ہے جو اس پر فلم بنائے؟ جیلیں بھری ہوئی ہیں، اور مسلمانوں کے خلاف یو اے پی اے کا بے تحاشہ ستعمال کیا جا رہا ہے۔ جاں بحق ہونے والے کشمیری رہنماؤں کے اہل خانہ بھی جیلوں میں بند ہیں۔ جمہوریت نے کشمیری مسلمانوں پر اپنے دروازے بند کر رکھے ہیں۔ پھر بھی کوئی ان کی حالت زار کو اجاگر نہیں کرے گا کیونکہ اس سے انہیں ووٹ نہیں ملیں گے۔
***
درد کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ کشمیری مسلمانوں اور پنڈتوں دونوں کو نقصان پہنچا۔ گو کدال قتل عام، کنن پوش پورہ اجتماعی عصمت دری اور سوپور تشدد حال حال کے واقعات ہیں جن میں متاثرین صرف کشمیری مسلمان ہیں۔ لیکن پھر بھی بالی ووڈ میں کوئی نہیں ہے جو ان واقعات میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو دکھانے کی ہمت کر سکے۔ 8000 کے قریب زیر حراست کشمیری لاپتہ ہیں۔ کوئی ہے جو اس پر فلم بنائے؟ جیلیں بھری ہوئی ہیں، اور مسلمانوں کے خلاف یو اے پی اے کا بے تحاشہ ستعمال کیا جا رہا ہے۔ جاں بحق ہونے والے کشمیری رہنماؤں کے اہل خانہ بھی جیلوں میں بند ہیں۔ جمہوریت نے کشمیری مسلمانوں پر اپنے دروازے بند کر رکھے ہیں۔ پھر بھی کوئی ان کی حالت زار کو اجاگر نہیں کرے گا کیونکہ اس سے انہیں ووٹ نہیں ملیں گے۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 27 تا 02 اپریل 2022