کتابیں :عقل کی کنجیاں

ڈاکٹر رضا الرحمن عاکف ، سنبھل

بیٹا انور۔ ! تم روز ہی اسکول آتے ہو پورے ٹائم کلاس میں موجود بھی رہتے ہو۔ پھر آخر کیا وجہ ہے کہ تمہیں سبق یاد نہیں ہوپاتا؟‘‘ انور کے پاس ہیڈ ماسٹر صاحب کے اس سوال کا جواب ہی کیا تھا۔ اس لیے وہ خاموش رہا۔ احتشام صاحب نے پھر انور سے کہنا شروع کیا ’’بیٹا انور، آج ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ تمہارے سبق یاد نہ ہونے کی اصل وجہ کیا ہے؟ سنو اور حوب غور سے سنو! تم بظاہر اسکول تو آتے ہو۔ سبق بھی پڑھتے ہو۔ مگر تم اسکول میں ہوتے ہوئے بھی دماغی اعتبار سے اسکول سے غیر حاضر ہی رہتے ہو۔ سبق پڑھنے کے دوران بھی تمہارا ذہن کتاب اور سبق میں نہیں رہتا۔ بلکہ تمہارا خیال کھیل یا اور غیر ضروری باتوں میں رہتا ہے۔ یہ کہہ کر احتشام صاحب تھوڑی دیر کے لیے رکے اور انہوں نے پھر انور سے کہنا شروع کیا ’’انور! شاید ابھی تک میری باتیں تمہاری سمجھ میں نہیں آرہی ہوں گی۔ میں تمہیں پوری طرح سے صاف صاف کھول کر سمجھا دینا چاہتا ہوں۔ تمہیں چاہیے کہ ذہنی اعتبار سے خود کو بیدار کرو۔ جو بات بھی تمہارے استاد سمجھائیں یا پڑھائیں اس کو اپنے دماغ میں بٹھانے کی کوشش کرو۔ اسی طرح جو بھی سبق پڑھایا جائے۔ اس کو خوب اچھی طرح ذہن نشین کرلیا کرو۔ جو بات سمجھ میں نہ آسکے۔ اسے معلوم کرلینا اور اسے خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔ اور اس مضمون کو بھی گہرائی کے ساتھ دل میں اتارلینا چاہیے۔ اتنا کہہ کر احتشام صاحب نے تھوڑا توقف کیا۔ اور وہاں موجود اساتذہ کو بھی مخاطب کرتے ہوئے کہنا شروع کیا ’’بچوں کا ذہن ایک صاف شفاف آئینے کی طرح ہوتا ہے۔ اس پر آپ جس طرح کے نقش و نگار بنانا چاہیں بناسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہمیں سب سے زیادہ تعاون کتابوں سے مل سکتا ہے۔ کیوں کہ کتابیں عقل کی کنجیاں ہیں اور عقل کے بند تالوں کو انہی سے کھولا جاسکتا ہے۔ اس کی مثال اس طرح سمجھو کہ اگر کسی تالے کو زیادہ دن تک نہ کھولا جائے تو وہ زنگ آلود ہوجاتا ہے اور آسانی سے نہیں کُھل پاتا۔ بالکل اسی طرح وہ ذہن جس کے اندر عرصے سے کوئی اچھا مضمون یا نصیحت آمیز بات نہ پہنچی ہو، اس میں غور و خوض کرنے کی عادت ختم سی ہوجاتی ہے اور وہ زنگ آلود تالے کی مانند بند ہوکر رہ جاتا ہے۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے ذہن کو اچھی غذا فراہم کرتے رہیں تاکہ وہ صحتمند بھی پیدا ہو‘‘۔ اُس طرح بچوں کی نفسیات اُن کے سامنے پیش کرتے ہوئے انور کی اصلاح کا ایک طریقہ اساتذہ کے سامنے رکھا۔ پھر انہوں نے انور کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’انور! ایک بات خوب اچھی طرح اور سمجھ لو کہ کتاب پڑھنے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم جو بھی کتابیں ہاتھ لگے اس کو پڑھنے لگیں۔۔ نہیں۔۔ پہلے ہمیں اپنے اساتذہ سے معلوم کرنا چاہیے کہ اس کتاب کا مطالعہ تمہارے لیے فائدہ مند ہوگا بھی یا نہیں؟ کیوں کہ بازار میں ہر قسم کی ہی کتابیں ملا کرتی ہیں۔ جن میں اچھی بھی ہوتی ہیں اور بری بھی۔ پھر اسے یوں سمجھو کہ جب ہم نے اس حقیقت کو تسلیم کرہی لیا ہے کہ ہمارا ذہن تالے کی طرح ہے اور کتابیں اس کی کنجیاں ہیں تو پھر اس بات کو بھی جان لو کہ ہر تالے کے اندر ہر ایک کنجی لگائی نہیں جاسکتی۔ ہر تالے کی کنجی مخصوص ہوا کرتی ہے۔ اس طرح ہر عمر، صلاحیت اور ذہن کے اعتبار سے کتاب کا انتخاب کیا جانا چاہیے۔ اگر یہ کام توجہ ذمہ داری اور سوجھ بوجھ کےساتھ کیا گیا تو ہم عقل کے بند تالوں کو بآسانی کھول سکتے ہیں‘‘۔
احتشام صاحب نے یہ باتیں اتنی خوبصورت اور دل نشین انداز سے سمجھائیں کہ انور کے دماغ میں ان کی ہر ایک بات بیٹھتی چلی گئی۔ اساتذہ نے بھی ان کی ہر ایک بات سے اتفاق کیا اور اس خوبصورت انداز کو بہت پسند کیا اور ہیڈ ماسٹر صاحب کے حسن اخلاق اور اصلاح کے اس خوبصورت انداز نے واقعی انور کی زندگی بدل دی۔
کورونا وائرس کی آفت: وادی میں فورجی انٹرنیٹ کا مطالبہ
کورونا وائرس کی آفت ایسی ہے کہ ملک میں ایمرجنسی جیسی صورتحال پیدا ہو گئی ہے، 50 فیصد ہی دفتروں میں ملازمین کے جمع ہونے کے تعلق سے حکومت کی ایڈوائزری نے لوگوں میں مزید تشویش پیدا کردی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گھروں سے ہی لوگ کام کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ اس صورت میں ہائی اسپیڈ انٹر نیٹ کی اشد ضرورت ہوتی ہے، لیکن وادی کشمیر میں فورجی انٹرنیٹ سہولت نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو دقتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کا مشہور چہرہ رہی لدیدہ فرزانہ ٹویٹر ہینڈل پر لکھتی ہیں کہ اگر فور جی انٹرنیٹ ہوگا تو وادی کشمیر کے لوگ کورونا وائرس کے حوالے سے زیادہ معلومات فراہم کر سکیں گے۔
مسجد الحرام میں پرندوں کے طواف ِ کعبہ کی خبریں وائرل
ساری دنیا میں لاکھوں افراد کو متاثر کرنے اور ہزاروں افراد کی ہلاکت کا سبب بننے والے کوروناوائرس سے احتیاطی اقدامات کے طور پرسعودی حکومت نے کورونا وائرس کے باعث خانہ کعبہ میں زائرین کے طواف کرنے پر عارضی طور پر پابندی عائد کی ہوئی ہے تاہم پہلی اور دوسری منزل پر طواف جاری ہے۔ اس موقع پر ایک زائر نے ایک نہایت خوبصورت منظر اپنے کیمرے میں قید کیا جس میں پرندے اللہ کے گھرکا طواف کررہے ہیں۔ زیادہ تر لوگوں کو گھروں میں نماز ادا کرنے کی ترغیب دی جارہی ہے۔ گزشتہ دنوں امام کعبہ کی بیت اللہ میں نماز جمعہ کے دوران پھوٹ پھوٹ کر رونے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مطاف میں بہت ہی کم لوگ نماز جمعہ کی ادائیگی کررہے ہیں اور امام کعبہ سورہ رحمان کی تلاوت کررہے ہیں۔تاہم دوران تلاوت امام صاحب آنسوئوں پر قابو نہ رکھ سکے۔نماز جمعہ کے بعد انہوں نے دعا کرائی کہ اے اللہ ہمارے حال پر رحم فرما، بلائوں اور آفتوں سے ہماری حفاظت فرما۔اس سے قبل خانہ کعبہ کی ایک اور ویڈیو سوشل میڈیا پر بڑی تعداد میں شیئر کرائی گئی تھی جس میں خالی مطاف میں نماز عشا کے بعد پرندوں کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ حالانکہ سرکاری سطح پر اس ویڈیو کی صداقت کی ابھی تصدیق نہیں ہوئی ہے ۔
راہل گاندھی فرشتہ صفت انسان ہیں! -نربھیا کے والد
وہ کہتے ہیں نا کہ ایک ہاتھ سے دو تو دوسرے ہاتھ کو پتہ نہ چلے، کچھ ایسی ہی خبر کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی کے تعلق سے آئی ہے۔ سات سال بعد 20 مارچ کی صبح ساڑھے پانچ بجے نربھیا اجتماعی عصمت ریزی کے مجرموں کو سزائے موت دی گئی لیکن اب انکشاف ہوا ہے کہ اس لمبے عرصے میں نربھیا کے اہل خانہ کی راہل گاندھی مالی مدد کیا کرتے تھے، اور اس خاندان سے جذباتی طور پر جڑے ہوئے تھے، لیکن انہوں نے اس راز کو پوشیدہ رکھنے کو کہا تھا۔ یہ تمام باتیں نربھیا کے والد بدریناتھ سنگھ نے بتائیں، انہوں نے مزید کہا کہ سیاست میں چاہے جو بھی ہو مگر ہمارے لیے راہل گاندھی ایک فرشتہ صفت انسان ہیں۔اگر دیکھا جائے تو سیاست میں اس طرح کے واقعات کم کم ہی سننے میں آتے ہیں۔ سیاسی لوگوں کی حالت تو یہ ہے کہ فٹ پاتھ پر پڑے ہوئے لوگوں میں کمبل، چادر، اشیائے خوردنی وغیرہ تقسیم کرتے ہوئے بھی تصویریں کھنچواتے ہیں۔
احتجاج جمہوری حق ہے 19 مارچ کو سپریم کورٹ میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ہو رہے احتجاجات کے تعلق سے مفاد عامہ کی عرضی داخل کی گئی، جس میں کورونا وائرس کے سبب پورے ملک میں سی اے اے کے خلاف مظاہرے پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا گیا، اور سیاسی، مذہبی سمیت دیگر احتجاجوں کے سلسلے میں گائیڈ لائن جاری کرنے کی بھی اپیل کی گئی ہے۔ یہ مفاد عامہ کی عرضی ہندو دھرما پریشد کی جانب سے داخل کی گئی ہے۔ عرضی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سی اے اے کے خلاف آواز بلند کرنے کا جواز نہیں ہے کیونکہ یہ قانون پہلے ہی پارلیمنٹ میں منظور ہو چکا ہے۔
مگر سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جمہوری ملک میں اگر آئینی اقدار کے خلاف کوئی قانون ہو تو اس کے خلاف احتجاج کرنا غلط نہیں ہے۔ اس قانون کے خلاف آواز اٹھانے کا ہر کسی کو جمہوری حق ہے۔