ڈاکٹر کفيل کی رہائی، بے گنا ہ قيديوں کےليے اميد کی کرن
’’آزاد ملک ميں غلامي کے دور کے قانون پر عمل ‘‘۔مجرمانہ انتقام کے ليے حکومت کو جوابدہ بنانا ضروری
افروز عالم ساحل،دہلی
حکومتیں جس طرح سے اپنے اقتدار اور طاقت کا غلط استعمال کرتی ہیں اور اپنے خلاف اٹھنے والی ہر مخالف آواز کو دبانے کے لیے ہر طرح کے حربے استعمال کرتی ہیں اس سے نہ صرف ان کا اخلاقی دیوالیہ پن ظاہر ہوتا ہے بلکہ یہ بھی ثابت ہوجاتا ہے کہ ان کے نظریہ و کردار میں وہ طاقت نہیں ہے جو انسانوں کے دلوں کو جیت سکے۔ اب ملک میں ایک ایسا دور آچکا ہے کہ جس میں ایوان پارلیمان کے اندر حزب اختلاف سے سوال پوچھنے کا حق وبا کے بہانے سے چھینا جا رہا ہے۔ ایک ایسے دور میں ڈاکٹر کفیل خان کو رہا کرنے کا الہ آباد ہائی کورٹ کا تازہ فیصلہ نہ صرف ناامیدی کے کفر کو توڑنے والا ہے بلکہ عدالت کا یہ فرمان سلاخوں کے پیچھے ناکردہ گناہوں کی سزا جھیلنے والے ہزاروں مجبور و بے بس لوگوں کے لیے امید کی ایک کرن ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈاکٹر کفیل خان کی جس تقریر کو ملک کے لیے خطرہ اور نفرت انگیز بتا کر ان پر نیشنل سیکیوریٹی ایکٹ (این ایس اے) لگا کر انہیں جیل میں ڈال دیا گیا عدالت نے اسی تقریر کو نہ صرف معاشرے کو جوڑنے والا قرار دیا بلکہ ڈاکٹر کفیل خان کی قید کو غلط بتاتے ہوئے فوری طور پر انہیں رہا کرنے کا حکم بھی جاری کر دیا۔ عدالت کے اس فیصلے کے بعد یہ سوال اٹھنے شروع ہوگئے ہیں کہ اگر حکومت کسی بے گناہ کو قید کرتی ہے یا انتقامی کارروائی کے طور پر غلط الزام میں جیل بھیجتی ہے تو کیا اب وقت نہیں آگیا ہے کہ اس طرح کے معاملے میں حکومت کو جواب دہ بنایا جائے اور اسے ہرجانہ ادا کرنے کے لیے مجبور کیا جائے۔ بلکہ ایسا قانون لایا جائے کہ کوئی بھی حکومت کسی بے گناہ کو جیل میں ڈالنے کی جراءت نہ کر سکے۔ انہی سوالوں کے ساتھ ہفت روزہ دعوت نے قانون کے کئی ماہرین سے بات کی ہے۔
کیا مقدمہ آگے بھی چلے گا؟
بے گناہ لوگوں کو ہماری حکومتیں کیوں جیل میں ڈال دیتی ہے؟ کیا اس طرح کے معاملوں کو روکنے کے لیے ملک میں قانون نہیں ہونا چاہیے؟ کیا ان بے گناہ قیدیوں کو معاوضہ نہیں ملنا چاہیے؟ ان سوالات پر سپریم کورٹ کے سینئر نامور وکیل سنجے ہیگڑے نے ہفت روزہ دعوت کو بتایا کہ ایسا قانون ملک میں ضرور ہونا چاہیے۔ جو بھی بے گناہ قیدی عدالت سے باعزت بری ہوتے ہیں انہیں معاوضہ ملنا چاہیے لیکن فی الحال تو اس طرح کا قانون ملک میں نہیں ہے۔
ایڈووکیٹ سنجے ہیگڑے یہ بھی بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر کفیل خان کی گرفتاری کسی سزا کے طور پر نہیں تھی بلکہ یہ ایک احتیاطی حراست (Preventive Detention) تھی۔ یہ وہ قانون ہے جس کے تحت کسی بھی شخص کو اس اندیشے سے اندر ڈالا جاتا ہے کہ وہ کوئی غلط کام نہ کر بیٹھے۔ ڈاکٹر کفیل خان کو ابھی اس احتیاطی حراست سے رہائی ملی ہے۔ باقی ان کے خلاف جو مقدمے ہیں وہ آگے بھی چلیں گے۔ علی گڑھ کا مقدمہ علی گڑھ کی عدالت میں چل رہا ہے، اس میں ابھی ڈاکٹر کفیل خان کو ضمانت ملی ہوئی ہے۔ سپریم کورٹ میں پریکٹس کرچکے سینئر وکیل اے رحمٰن کے مطابق الہ آباد ہائی کورٹ نے واضح طور پر کہا ہے کہ ڈاکٹر کفیل خان نے علی گڑھ میں شہریت ترمیمی ایکٹ مخالف پروگرام میں جو تقریر کی تھی اس میں ایسی کوئی بات نہیں تھی جس کی بنا پر کوئی مقدمہ درج ہو۔ ایسے میں علی گڑھ انتظامیہ کو اب وہ مقدمہ ختم کرنا ہی ہوگا۔
لکھنؤ میں قیام پذیر ایڈووکیٹ محمد شعیب کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر کفیل خان کا معاملہ پوری طرح سے سیاسی معاملہ بن گیا ہے۔ یہ محض انتقامی کارروائی تھی۔ ڈاکٹر کفیل خان کے خلاف نہ کوئی جرم ثابت ہوا ہے اور نہ ہی کوئی مقدمہ بنتا ہے۔ ایسے ہی کسی پر این ایس اے لگا کر جیل میں نہیں رکھا جا سکتا ورنہ عدالت اسے رہا کرنے کا حکم کیوں صادر کرتی؟
ذاتی انتقام کے لیے این ایس اے کا استعمال
ایڈووکیٹ اے رحمٰن بتاتے ہیں کہ الہ آباد ہائی کورٹ نے بالکل صاف الفاظ میں کہا ہے کہ یہ منتقمانہ کارروائی تھی اور ڈاکٹر کفیل خان نے ایسا کوئی کام نہیں کیا جس کی بنا پر اس پر کوئی مقدمہ درج ہو۔
خیال رہے کہ الہ آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں ڈاکٹر کفیل خان کی پوری تقریر نقل کر دی ہے۔ اس تقریر کو عدالت نے کہیں سے بھی قابل اعتراض نہیں پایا، بلکہ یہ کہا کہ ’’ڈاکٹر کفیل خان کی تقریر کسی طرح کی نفرت یا تشدد کو فروغ دینے والی نہیں تھی بلکہ لوگوں کے درمیان قومی اتحاد کا مطالبہ تھا۔ لہذا ڈاکٹر کفیل خان کو این ایس اے کے تحت گرفتار کیا جانا ’غیر قانونی‘ ہے۔ ڈاکٹر کفیل خان نے اپنی تقریر میں ملک میں بچوں کی گرتی ہوئی صحت، بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور کمزور ہوتی معیشت کا بھی ذکر کیا تھا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا ’ہم آپ سے خوفزدہ نہیں ہوں گے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ آپ ہمیں کتنا ڈراتے ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ آپ ہمیں کتنا دبائیں گے، ہم ہر بار ابھریں گے۔‘
ایڈووکیٹ اے رحمٰن کہتے ہیں کہ ڈاکٹر کفیل خان پر این ایس اے کا لگایا جانا اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی کی انتقامی کارروائی تھی کیونکہ گورکھپور کےبی آر ڈی میڈیکل کالج میں بچوں کی موت کے معاملے میں ڈاکٹر کفیل خان کے اچھے کاموں کی وجہ سے یوگی کی بدنامی ہوئی تھی، ایسے میں یوگی خود اس معاملے میں بے عزتی محسوس کر رہے تھے۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ ذاتی انتقام کے لیے این ایس اے کا ایسا استعمال نہ صرف غیر قانونی بلکہ مجرمانہ ہے۔ الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ان تمام لوگوں کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہیے جو اس میں ملوث ہیں۔
کس بات کا انتقام؟
اگست 2017 میں گورکھپور کے ایک سرکاری اسپتال ’ بابا رگھو داس میڈیکل کالج‘ میں آکسیجن سلنڈرز ختم ہو جانے کی وجہ سے اسپتال میں زیر علاج 70سے زیادہ بچوں کی موت ہوئی تھی۔ ان اموات کی تعداد کو مزید بڑھنے سے روکنے کی خاطر ڈاکٹر کفیل خان نے جو یہاں جونیئر ڈاکٹر کی حیثیت سے کام کر رہے تھے اپنی جیب سے رقم خرچ کر کے درجنوں آکسیجن سلنڈرز کا انتظام کیا تھا۔ تبھی وہ اچانک ملک کے انسانیت دوست عوام کی نظروں میں ہیرو بن گئے تھے۔ ان کی کوششوں کی بدولت کئی گھرانوں کے چراغ بجھنے سے بچ گئے تھے۔ ان بچوں کے ماں باپ آج بھی انہیں دعائیں دیتے ہیں اور ان کے دل آج بھی اس مسیحا کے لیے دھڑکتے ہیں۔ لیکن چونکہ ڈاکٹر کفیل خان نے اس پورے معاملے میں اتر پردیش حکومت کی کوتاہی پر سے پردہ اٹھایا تھا، اس حقیقت کو اجاگر کیا تھا کہ زیادہ تر اموات اسپتال کو آکسیجن سپلائی منقطع ہو جانے کے باعث ہوئی تھیں کیونکہ جو کمپنی آکسیجن سیلنڈرز سپلائی کرتی تھی حکومت کی جانب سے اس کا بقایا بل ادا نہیں کیا گیا تھا۔ یوگی حکومت نے ان کو بچوں کے مجرمانہ قتل اور غفلت کے الزامات کے تحت سات ماہ کے لیے جیل بھیج دیا تھا۔ اسپتال کے پرنسپل سمیت آٹھ دیگر کارکنوں کو بھی انہیں الزامات کے تحت قید کیا گیا تھا۔ لیکن ستمبر 2019میں سرکاری تحقیق میں انہیں کسی بھی غفلت برتنے کے الزام سے بری کر دیا گیا۔ ان کے بری ہونے سے ایک بار پھر یوگی حکومت کی کافی بدنامی ہوئی تھی۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں آگے آئیں
ایڈووکیٹ اے رحمٰن کہتے ہیں کہ جیل سے باہر آنے کے بعد ڈاکٹر کفیل خان نے جو کچھ کہا ہے، اگر اس کا آدھا حصہ بھی سچ مان لیا جائے تو یہ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تمام تنظیموں کے لیے غور وفکر کا مقام ہے۔ اس کے خلاف ہر حال میں آواز اٹھنی چاہیے۔ اس کے لیے ملک کے تمام ہیومن رائٹس تنظیموں کو سامنے آنا چاہیے کیونکہ ایسا سلوک تو کسی مجرم کے ساتھ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ایسی کارروائی غیر قانونی اور غیر انسانی ہے۔
واضح رہے کہ ڈاکٹر کفیل خان نے 12دسمبر 2019کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف جاری مظاہرے میں تقریر کی تھی۔ ان کی اس تقریر کے خلاف پہلے مذہبی جذبات بھڑکانے کے لیے 153A کے تحت ایک مقدمہ درج ہوا تھا۔ بعد میں ان پر دفعہ 153B قومی اتحاد کے خلاف بیان بازی، 109اکسانے، 505(2) کوئی بھی ایسا بیان جس سے نفرت پھیلے اور امن کا ماحول خراب ہو، جیسی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ اس مبینہ اشتعال انگیز تقریر کے تقریباً 45دن بعد 29جنوری کو ڈاکٹر کفیل خان کو گرفتار کرنے کے بعد متھرا جیل بھیج دیا گیا اور اس کے دو ماہ بعد 13فروری کو کفیل خان پر این ایس اے لگا دیا گیا۔ ڈاکٹر کفیل خان کے ساتھ جیل میں کافی بدسلوکی کی گئی، جس کی داستان جیل کے اندر سے ایک خط لکھ کر اور جیل سے باہر آنے کے بعد وہ خود سنا چکے ہیں۔
بے گناہ محروسین کو معاوضہ کا ملک میں کوئی قانون نہیں
کیا آپ کو نہیں لگتا کہ ملک میں ایسا قانون ہونا چاہیے کہ اگر حکومت کسی بھی قانون کا غلط استعمال کر کے کسی بھی شخص کو جیل میں ڈالتی ہے اور وہ شخص عدالت سے بے گناہ ثابت ہوتا ہے تو اس کے رہائی کے فوراً بعد اسے معاوضہ ملے؟ اس سوال پر ایڈووکیٹ اے رحمٰن کہتے ہیں کہ بالکل! ہر بے گناہ کو معاوضہ ضرور ملنا چاہیے۔ لیکن ملک میں ایسا میکانزم ابھی تک بنا نہیں ہے۔ جبکہ دنیا کے زیادہ تر ملکوں میں ایسا قانون یا میکانزم موجود ہے۔ امریکہ میں اگر غلطی سے بھی کسی کو گرفتار کیا جائے تو وہاں کی عدالتیں نہایت سخت نوٹ لیتی ہیں۔ حکومت کو کروڑوں روپے معاوضہ میں دینے پڑتے ہیں۔ اپنے ملک میں بھی سخت ضرورت ہے کہ ایسا کوئی قانون بنے کہ جب کسی شخص کی بے گناہی پر جب عدالت کی مہر لگ جائے تو اس کو ہرحال میں معاوضہ دیا جائے۔
وہ مزید بتاتے ہیں کہ ملک کے تمام ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ حکومت کو ہرجانہ دینے کا آرڈر دے۔ کچھ معاملوں میں عدالتیں اپنے اس خصوصی اختیار کے تحت معاوضہ دلوا بھی چکی ہیں۔ واضح رہے کہ انٹرنیشنل کووینینٹ آن سول اینڈ پولیٹیکل رائٹس (آئی سی سی پی آر) کے آرٹیکل 14(6) میں غلط طرح سے سزا پانے والوں کے حقوق کا ذکر ہے یعنی وہ لوگ جو بعد میں بے گناہ ثابت ہوتے ہیں یا پختہ سچائی سامنے آنے پر انہیں معاف کر دیا جاتا ہے۔ ان کے معاملہ میں نظام انصاف سے جو کوتاہی ہوئی ہے یا ایک بے گناہکو سزا دینے سے نظام عدل کی ناکامی سامنے آئی ہو تو جرمِ بے گناہی کی سزا پانے والے شخص کو کوئی معاوضہ نہ دینا اس کے ساتھ مزید نا انصافی ہے۔ آئی سی سی پی آر کے آرٹیکل 14(6) میں بے گناہ افراد کو قانون کے مطابق معاوضہ ادا کرنے سے متعلق قاعدہ موجود ہے۔
’’آئی سی سی پی آر کا آرٹیکل 9(5) کہتا ہے، ’’غیر قانونی طریقے سے گرفتار کیے گئے یا حراست میں لیے گئے کسی بھی شخص کو معاوضہ لینے کا قانونی حق حاصل ہے۔‘‘
آئی سی سی پی آر کا آرٹیکل 15یہ بھی کہتا ہے کہ کسی بھی شخص کو ایسے کسی بھی ایکٹ کے تحت گرفتار نہیں کیا جائے گا جو کہ قومی یا بین الاقوامی قانون کے تحت مجرم نہیں ہے۔
دنیا بھر کے تمام ممالک آئی سی سی پی آر کے آرٹیکل 14(6) کے تحت کیے گئے وعدے کو اپنے یہاں قانونی شکل دے چکے ہیں۔ ان ممالک نے یا تو انہیں نافذ کرنے کے لیے قانون بنائے ہیں یا پھر انتظامی یا عدالتی اداروں کی صوابدید پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ کس معاملے میں معاوضے کا اعلان کرتے ہیں اور کس میں نہیں۔ہندوستان نے بھی آئی سی سی پی آر کو منظور کیا ہے۔ لیکن یہاں غلط طریقے سے جیل میں ڈالے گئے یا جھوٹے معاملوں میں سزا کاٹنے والے لوگوں کے معاوضہ کے لیے کوئی گھریلو قانون اب تک نہیں بنایا گیا ہے۔
کالے قوانین کو ختم کرانے کے لیے مہم کی ضرورت
اتر پردیش کی سماجی و سیاسی تنظیم رہائی منچ کے سکریٹری راجیو یادو اس پورے معاملے کو ایک الگ نظر سے دیکھتے ہیں۔ ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں وہ کہتے ہیں کہ ہمیں شخصیتوں پر بات نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس وقت حکومتوں کی غلط پالیسیوں کو ختم کرانے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ بار بار ہم کہہ دیتے ہیں کہ این ایس اے کا غلط استعمال ہوا ہے تو کوئی ہمیں بتائے کہ کیا کبھی اس کا صحیح استعمال بھی ہوا ہے یا کبھی مستقبل میں ہو سکے گا؟ شہریت ترمیمی ایکٹ مخالف مہم کا ایک اہم نعرہ تھا، ’ہم ملک بچانے نکلے ہیں، آؤ ہمارے ساتھ چلو۔‘ لیکن یہ ملک بچے گا کیسے؟ جو ملک بچانے نکلے تھے، ان پر تو ہماری اپنی حکومت این ایس اے، یو اے پی اے اور گینگسٹر ایکٹ جیسے کالے قوانین لگا رہی ہے۔ اس لیے سب سے پہلے ضرورت اس بات کی ہے کہ سی اے اے کی مخالفت کے ساتھ ملک میں موجود تمام کالے قوانین کو ختم کرانے کے لیے مہم چلائی جائے کیونکہ سارے کالے قوانین کا استعمال حکومتیں صرف اور صرف اپنے فائدے کے لیے کرتی ہیں۔
وہ مزید کہتے ہیں ’جو سیاسی لوگ اس وقت ڈاکٹر کفیل خان کے ساتھ ہیں، ان کو سوچنا چاہیے کہ انہوں نے ہی تو یہ سارے قوانین اس ملک میں نافذ کیے ہیں۔ اس لیے جس طرح سے جلیانوالہ باغ واقعہ کے بعد برٹش حکومت نے معافی مانگی تھی، اسی طرز پر اس سیاسی جماعت کو بھی معافی مانگنی چاہیے کہ جب ہم اقتدار میں تھے تو ہم نے ان کالے قوانین کو نافذ کرکے غلط کام کیا تھا۔ دراصل راجیو یادو کا اشارہ کانگریس پارٹی کی طرف ہے۔
ایک خبر کےمطابق جمعہ کے دن ڈاکٹر کفیل خان کی اہلیہ شبستاں خان سے کانگریس کی قومی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے فون پر گفتگو کی اور ڈاکٹر کفیل خان اور ان کی ضعیف ماں و بچوں کی خیریت دریافت کی۔ اس بات چیت کے بعد انہوں نے شبستاں خان کو اپنا پرائیویٹ نمبر بھی دیا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ جب بھی کوئی ضرورت ہو بلا جھجھک فون کریں۔ ڈاکٹر کفیل خان کی اہلیہ سے پرینکا گاندھی کی یہ گفتگو کانگریس اقلیتی شعبہ کے ریاستی چیئرمین شاہنواز عالم نے کرائی تھی جو پرینکا گاندھی کی ہدایت پر ہی متھرا سے ڈاکٹر کفیل خان کے ساتھ جے پور آئے ہوئے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ڈاکٹر کفیل خان جلد ہی کانگریس میں شامل ہونے والے ہیں اور وہ آنے والے 2020 اترپردیش انتخابات میں اپنی قسمت آزما سکتے ہیں۔ اس سے پہلے انہوں نے دہلی انتخابات سے پہلے دلی کے جامعہ نگر سے انتخاب لڑنے کی کوشش کی تھی لیکن اس سے پہلے ان کی گرفتاری ہوگئی۔
واضح رہے کہ ڈاکٹر کفیل خان متھرا جیل سے رہائی کے بعد اپنی سیکورٹی کے پیش نظر کانگریس زیر اقتدار ریاست راجستھان کے شہر جے پور چلے گئے ہیں۔ یہاں ان کے کنبہ کا قیام ایک ریسارٹ میں ہے۔ اس سے قبل جمعرات کے دن ڈاکٹر کفیل خان نے پریس کانفرنس کی جس میں انہوں نے پرینکا گاندھی اور کانگریس کے تعاون کے لیے شکریہ ادا کیا تھا۔
ہفت روزہ دعوت کے ساتھ طویل گفتگو میں راجیو یادو کہتے ہیں، ’سیڈیشن کے معاملے پر شیاما پرساد مکھرجی نے مخالفت کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ آزاد ملک میں غلام دیش کا قانون نہیں رہنا چاہیے۔ جب یو اے پی اے آیا تو اٹل بہاری واجپائی نے اس کی مخالفت کی تھی۔ آج جو ’کانگریسی ناچ گا رہے ہیں اور کفیل کے انصاف کی بات کر رہے ہیں وہ اس ملک کو بتائیں کہ این ایس اے کس نے اس ملک میں نافذ کیا تھا۔ وہ مزید کہتے ہیں، ’میری ڈاکٹر کفیل خان سے ذاتی طور پر گزارش ہے کہ وہ اب اپنی رہائی کے بعد اندرا گاندھی کے فیصلے کو غلط ٹھہراتے ہوئے این ایس اے جیسے کالے قوانین کو ختم کرنے کی مہم چلائیں کیونکہ ایمرجنسی کے بعد اس ملک میں اندرا گاندھی نے انگریزوں کے رولٹ ایکٹ کے طرز پر ’نہ وکیل نہ دلیل اور نہ اپیل‘ والا این ایس اے جیسا کالا قانون اس ملک میں نافذ کیا تھا۔ اس مہم میں سب سے آگے میں آپ کے ساتھ رہوں گا۔‘
راجیو یادو آخر میں کہتے ہیں کہ اتر پردیش میں آئے دن دلتوں اور مسلمانوں پر این ایس اے لگ رہا ہے۔ گؤ کشی کے نام پر یہاں ہر دن این ایس اے لگا دیا جاتا ہے لیکن اس کا چرچا کہیں نہیں ہوتا۔ یوگی کے دور میں سب سے زیادہ این ایس اے یہاں کے دلت اور مسلمانوں پر ہی لگا ہے۔ بس ایک جگہ اور ایک بار تین ٹھاکروں پر این ایس اے لگا تھا، جس کو یوگی سرکار نے خود ہی واپس لے لیا، انہیں عدالت جانے کی بھی ضرورت نہیں پڑی۔
حکومت کے مخالفین فرضی مقدموں سے پریشان
ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں لکھنؤ کے رہنے والے ایڈووکیٹ محمد شعیب بتاتے ہیں کہ پورے اترپردیش میں کوئی بھی شخص یوگی حکومت یا ان کے کسی وزیر یا لیڈر کے خلاف بولتا ہے تو اس پر سازش کر کے جھوٹے مقدمے درج کیے جا رہے ہیں اور انہیں ہر طرح سے پریشان کیا جا رہا ہے۔ فرضی مقدمے میرے خلاف بھی درج کیے گئے ہیں۔ خیال رہے کہ خود ایڈووکیٹ شعیب بھی ضمانت پر ہیں۔ وہ بتاتے ہیں حکومت نے میرے ساتھ کانگریس کی رہنما صدف جعفر اور تھیٹر آرٹسٹ دیپک کبیر کی ضمانت کو منسوخ کرانے کے لیے لکھنؤ کورٹ میں ایک درخواست داخل کی ہے۔ الزام ہے کہ ہم نے ضمانت کی شرائط کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس معاملے کی سماعت 5 ستمبر کو ہونا ہے۔ایڈووکیٹ شعیب بتاتے ہیں کہ ہم سے نقصانات کی بھرپائی کے لیے حکومت کی درخواست ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے۔ ہائی کورٹ کے منع کرنے کے باوجود بھی بار بار نوٹس بھیجتے رہتے ہیں۔ اب تحصیل کے تمام افسران میرے گھر آچکے ہیں۔
عمر سے43 سال کم۔۔!
ایڈووکیٹ شعیب ہنستے ہوئے کہتے ہیں کہ اس معاملے کا فائدہ یہ ہوا کہ 73سال کی عمر میں یوگی حکومت مجھے 30سال کا نوجوان ماننے لگی ہے۔ لکھنؤ کے گھنٹہ گھر کیس میں میری پیدائش 1990کی بتائی گئی ہے۔ یعنی میں ابھی محض 30سال کا ہوں۔ یہ تو واقعی میری زندگی میں عجوبہ ہوگیا۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ 19دسمبر 2019کے معاملے میں میرے اوپر الزام لگا کہ میں نے گھنٹہ گھر جا کر لوگوں کو بھڑکایا، آگ لگوائی اور پولیس پر حملہ کروایا ہے۔ جبکہ 18سے 19دسمبر کی رات تک پولیس نے مجھے میرے گھر میں قید کر رکھا تھا۔ اور وہی پولیس والے وہاں میری موجودگی بھی ثابت کر رہے ہیں۔ یوگی ہے تو کچھ بھی ممکن ہے۔
واضح رہے کہ ایڈووکیٹ محمد شعیب طویل عرصے سے دہشت گردی کے نام پر گرفتار مسلم نوجوانوں کا مقدمہ اتر پردیش کے مختلف عدالتوں میں یہ لڑتے رہے ہیں۔ بے گناہوں کے مسائل پر مسلسل بولنے اور ان کے مقدمے لڑنے کی وجہ سے ان پر کئی بار جان لیوا حملے بھی ہوئے لیکن انہوں نے کبھی ہار نہیں مانی۔ انصاف کے لیے اور ظلم کے خلاف ان کی جنگ اب بھی جاری ہے۔
انہیں مل چکا ہے معاوضہ
جھوٹے معاملوں میں محروس متاثرین ،نقصان کی بھرپائی یا معاوضے کے لیے مقدمہ دائر کرسکتے ہیں۔ کیونکہ ہندوستانی عدالتیں ذاتی زندگی اور ان کے آزادی کے حق کا احساس کرتے ہوئے مناسب معاملوں میں معاوضے اداکا فیصلہ دیتی رہی ہیں۔تاہم متاثرین کے تجربہ سے پتہ چلتا ہے کہ اس میں سالوں جدوجہد کرنا پڑتا ہے، اوراس کے نتیجے میں بعض کو راحت مل جاتی ہے۔
مثال کے طور پر 2018میں سپریم کورٹ نے اسرو کے سابق سائنسدان نامبی نارائنن کو 50 لاکھ روپے معاوضہ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ انہیں آج سے 26سال قبل سرکاری خفیہ معلومات کا افشا کرنے کے معاملے میں حراست میں لیا گیا تھا۔ اس سے قبل سال 2015 میں دلی کے محمد عامر خان کو 5 لاکھ روپے معاوضہ ملا تھا۔ یہ معاوضہ قومی انسانی حقوق کمیشن نے دلی پولیس سے دلوایا تھا۔ شاید ملک میں یہ پہلا معاملہ تھا، جس میں دلی پولس معاوضہ دینے پر مجبور ہوئی۔ عامر 14سال جیل میں رہنے کے بعد عدالت سے بے گناہ ثابت ہوکر باعزت بری ہوئے تھے۔
سب سے شروعاتی معاملوں میں 1983میں سپریم کورٹ نے رودال شاہ کو 14 سال تک غلط طور پر جیل میں رکھنے پر 30,000روپے معاوضہ دینے کا حکم دیا تھا۔
جیل سے رہائی کے بعد ملتی ہے مالی امداد
نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ سال 2019میں پورے ملک کے 2008قیدیوں کو جیل سے رہائی کے بعد مالی امداد دی گئی ہے۔ وہیں 1827قیدیوں کو بازآباد کیا گیا۔ اس کے علاوہ سال 2019میں 167469قیدیوں کو قانونی امداد بھی مہیا کرائی گئی تھی۔دوسری طرف اعداد و شمار یہ بھی بتاتے ہیں کہ سال 2018میں 1346قیدیوں کو جیل سے رہائی کے بعد انھیں مالی امداد ملی۔ 2250قیدیوں کو بازآباد کیا گیا اور 147605قیدیوں کو قانونی امداد بھی فراہم کی گئی۔