ڈاسنا واقعہ کے آئینے میں فسطائیت کا عکس

آصف کے ساتھ مندر میں مارپیٹ قانون سے بے خوفی کا واضح ثبوت

ڈاکٹر سلیم خان

این سی آر یعنی دارالحکومت دہلی کے قرب و جوار میں غازی آباد کا ڈاسنا مندر اور اس کے اندر آصف کا سانحہ فی الحال ذرائع ابلاغ پر چھایا ہوا ہے۔ تقریباً ڈیڑھ سال قبل جولائی 2019 میں بھی مسوری ڈاسنا اسی طرح میڈیا میں زیر بحث آگیا تھا۔ اس وقت پردیپ نامی میں ایک شخص نے اپنی بیوی اور 3 بچوں کا بے رحمی سے قتل کرنے کے بعد خود کو پھانسی لگا کر خود کشی کر لی تھی۔ اس واقعہ کی سفاکی کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ اس درندہ صفت شوہر نے تینوں بچوں کو زہر دینے کے بعد اپنی دھرم پتنی کے سر پر ہتھوڑے سے حملہ کر دیا تھا۔ اس عورت کو نازک حالت میں علاج کے لیے قریبی اسپتال پہنچایا گیا جہاں اس کی بھی موت ہو گئی۔ اس دوران حملہ آور نے از خود پھانسی لگا لی تھی۔ اس سفاک نے اپنے سوسائڈ نوٹ میں لکھا تھا چونکہ بیوی اس پر شک کرتی تھی اس وجہ سے اس نے سب کا قتل کر کے ان کے منہ میں ٹیپ لگا دی۔ یہ نہایت نا معقول بات ہے کہ بیوی شک کرے تو اس کے ساتھ اس کے بچوں کو بھی قتل کر دیا جائے۔ اگر وہ خود شک کرتا ہو تو اور بات تھی لیکن پھر بھی اپنے بچوں اور بیوی کا قتل نہایت بے رحمی کی حرکت تھی جو معاشرے کے اندر پنپنے والے ظالمانہ رجحانات کی جانب اشارہ کرتی ہے۔
یہ رونگٹے کھڑا کر دینے والا واقعہ جس وقت رونما ہوا تھا اس سے دوچار دن گڑ گاؤں میں بھی ایک انجینئر نے اسی طرح اپنے خاندان کو قتل کرنے کے بعد خود کشی کر لی تھی۔ اس انجینئر کا نام پرکاش سنگھ تھا۔ پرکاش نے بیوی اور دو بچوں کا پہلے تیز دھاری ہتھیار سے قتل کیا اور پھر خود بھی پھانسی لگا کر جان دے دی۔ یہ ایک تعلیم یافتہ خوشحال خاندان تھا۔ شوہر خود انجینئر تھا اور اس کی بیوی ایک نجی اسکول میں منیجر کی خدمات انجام دے رہی تھی۔ جن بچوں کا قتل کیا گیا ان میں بیٹی کی عمر 18 سال اور بیٹے کی 15 سال تھی۔ جولائی 2019 میں جب یہ واقعات رونما ہو رہے تھے اس وقت اتر پردیش میں یوگی ادتیہ ناتھ کی حکومت تھی اور مرکز میں نریندر مودی وزیر اعظم تھے۔ ہندو احیاء پرستوں کو چاہیے تھا کہ ان سانحات پر سنجیدگی سے غور کر کے اپنے سماج سے سفاکی کے ناسور کی بیخ کنی کرتے لیکن انہوں نے اس بہیمیت کا رخ مسلمانوں کی جانب موڑ کر ذمہ داری سے راہِ فرار اختیار کرلی۔ اس میں اضافی نقصان یہ ہوا کہ اسلام سے انہیں متنفر کرکے ان کی خاطر دین رحمت کا دروازہ بھی بند کرنے کی کوشش کی گئی یعنی اپنے سیاسی مفاد کی خاطر اپنی ہی قوم کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا گیا۔
ڈاسنا کے اندر آصف کے ساتھ کیا جانے والا ظلم اسی حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔ جمہوری نظام نے سماج میں امن و سلامتی اور عوام کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنے کی خاطر کئی بت تراش رکھے ہیں مثلاً مقننہ، انتظامیہ، عدلیہ اور ذرائع ابلاغ وغیرہ وغیرہ لیکن ڈاسنا کے سانحہ نے ان سب کو توڑ دیا۔ سب سے بڑا بت اکثریت اور اقلیت کا ہے۔ ۲۰۱۱ کی مردم شماری کے مطابق اس گاوں میں ۸۱ فیصد مسلمان اور ۱۹ فیصد ہندو رہتے ہیں۔ اس کے بعد سیاسی قوت کی بات آتی ہے تو ڈاسنا گاوں کے پنچایت کی سربراہ حجن ہنسار ہیں۔ رکن اسمبلی کی بات کریں تو بہوجن سماج پارٹی کے اسلم چودھری علاقے کی نمائندگی کرتے ہیں لیکن یہ سب لوگ مل کر بھی اس ظلم کو نہیں روک سکے۔ کچھ لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر اسلم چودھری کا تعلق بی ایس پی کے بجائے کسی مسلم سیاسی پارٹی سے ہوتا تو ایسا نہ ہوتا لیکن حیدرآباد کے سکریٹریٹ میں مساجد کی شہادت کو بہت زیادہ عرصہ نہیں گزرا جہاں مسلم جماعت کے رکن پارلیمان، رکن اسمبلی اور میونسپل کونسلر مساجد کو بچانے میں ناکام رہے اور وہی ہوا جو ان کی غیر موجودگی میں ہو سکتا تھا۔
ڈاسنا کی مندر سے آصف نامی لڑکا پانی پی کر لوٹ رہا تھا تو شرنگی نندن یادو نامی بدمعاش وہاں آگیا۔ اس نے آصف کو بلا کر اس کا اور اس کے والد کا نام پوچھا اور یہ کہہ کر اندر بلایا کہ ’آؤ تمہارے ساتھ ویڈیو بناؤں گا‘ اور پھر اس بچے کو گرا کر بری طرح زدوکوب کرنے لگا۔ کسی کمزور نہتے بچے کو مار پیٹ کر اس کی ویڈیو بنوانا اور اسے بے حیائی کے ساتھ پھیلانا دلیری نہیں بلکہ بزدلی ہے۔ لیکن جس سماج میں نفرت کے خمار میں مدہوش ایسے درندوں کو ہیرو ماننے والے لوگ موجود ہوں وہاں یہی سب ہوتا ہے۔ اس ویڈیو میں نظر آنے والے شرنگی نندن اور بنانے والے شیوانند نے یہ حرکت اس لیے بھی کی کہ انہیں یقین تھا کہ سرکار انہیں بچا لے گی۔ ان لوگوں کا اندازہ غلط نہیں تھا اس لیے کہ پہلے بھی وہ اس طرح کی اشتعال انگیز ویڈیوز سوشیل میڈیا پر ڈال چکے تھے اور حکومت نے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی تھی۔ اس کے برعکس پرکاش کنوجیا کو گرفتار کرنے کے لیے اتر پردیش کی پولس دلی آجاتی ہے اور سپریم کورٹ کی پھٹکار کے بعد ہی انہیں رہا کرنا پڑتا ہے۔
ڈاسنا کا ویڈیو وائرل ہونے کے بعد بدنامی سے بچنے کی خاطر مقامی پولیس نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے ایک مقدمہ درج کیا اور بعد میں بچے کے والد کی طرف سے داخل کی گئی تحریر کو بھی اس معاملے میں شامل کر کے شرنگی نندن یادو کو اس کے آبائی وطن بھاگلپور سے گرفتار بھی کر لیا۔ اس کے بعد شیوانند کی گرفتاری بھی عمل میں آئی اور اس بات کی امید بندھی کہ ملزمین پر جرم ثابت ہو گا اور انہیں سزا ملے گی لیکن پھر وہی ڈھاک کے تین پات۔ عدالت کے سامنے انہیں پیش کرتے ہی فوراً ضمانت مل گئی اور وہ رہا ہو گئے۔ انتظامیہ اگر اپنے سیاسی آقاوں کی خوشنودی کے لیے مقدمہ کو کمزور کردے اور عدالت بھی حکومت کی ناراضی سے بچنے کی خاطر نرمی دکھانے لگے تو لاکھ شواہد کے باوجود کسی کا کچھ نہیں بگڑتا۔ اس کے برعکس اسی اتر پردیش میں بے قصور صدیق کپن کا معاملہ ہے۔ اس کے تار انتظامیہ نے نہ جانے کسی عالمی سازش سے جوڑ دیے ہیں۔ عدلیہ بھی آنکھ موند کر سرکار کے بیانات پر یقین کرتی جا رہی ہے اور ایک ذمہ دار صحافی کو ضمانت دینے کی تک روادار نہیں ہے۔ یہی امتیازی رویہ فاشزم کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔
بعض سادہ لوح لوگ فرقہ پرستی کے فروغ کی خاطر ملک کے اندر پھیلی ہوئی جہالت کو ذمہ دار مانتے ہیں حالانکہ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ آصف کو بے رحمی سے پیٹنے والے بدمعاش شرنگی نندن یادو نے بھوپال سے سِول انجینئرنگ میں بی ٹیک کر رکھا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فی الحال ملک میں فاشزم کے علمبردار بے ضرر ناخواندہ ہندو نہیں بلکہ پڑھے لکھے نوجوان ہیں۔ ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران جب اس کی ملازمت چلی گئی تو وہ ڈاسنا کی دیوی مندر میں خدمات انجام دینے لگا۔ ہندو احیاء پرست موجودہ سرکار کے ذریعہ بیروزگاری سے اس لیے پریشان نہیں ہیں کہ ان کو ایک نیا کاروبار مل گیا ہے۔ اس کام میں بغیر محنت کے دولت اور شہرت کے ساتھ ساتھ سرکاری تحفظ بھی حاصل ہو جاتا ہے۔ اس مندر کے بڑے پجاری یتی نرسنگھانند سرسوتی کے بی جے پی رہنماوں سے قریبی تعلقات ہیں۔ اس نے ’ہندو سوابھیمان‘ نامی تنظیم بنا کر اس میں غنڈوں کے ایک مسلح گروہ کو داخل کر رکھا ہے۔ وہاں بلا روک ٹوک ان کی تربیت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ سرسوتی پہلے بھی اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں کئی اشتعال انگیز اور سخت بیانات کے ویڈیوز جاری کرتا رہا ہے۔ دلی کے فرقہ وارانہ فسادات میں وہ بہت سرگرم تھا لیکن مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی پناہ میں ہونے کے سبب محفوظ و مامون ہے۔
ملک میں بہت سارے لوگ دلت، مسلم، او بی سی اتحاد کی مدد سے فرقہ پرستی ختم کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ ان لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس تشدد میں ملوث دونوں نوجوان نہ تو برہمن ہیں اور نہ ٹھاکر بلکہ ان کا تعلق او بی سی سماج سے ہے۔ وہاں کے مسلمانوں کا نمائندہ رکن اسمبلی دلتوں کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بہوجن سماج پارٹی سے ہے اس کے باوجود کوئی آصف کی حمایت میں کھل کر آگے نہیں آیا۔ اس طرح دلت، مسلم اور او بی سی کے اتحاد کا بلبلہ بھی از خود پھوٹ گیا۔ ذرائع ابلاغ نے اس بابت کوئی بڑا ہنگامہ نہیں کیا کیونکہ گودی میڈیا اپنے آقاوں کے خلاف کم ہی منہ کھولتا ہے۔ اس کے علاوہ فرقہ پرست میڈیا میں شرنگی یادو کا یہ جھوٹا بیان بھی گردش کرنے لگا کہ آصف شیولنگ پر پیشاب کر رہا تھا۔ اپنے دعویٰ کے حق میں ان لوگوں نے اپریل 2018 کی ویڈیو پیش کردی۔ آلٹ چیک نامی مشہور ویب سائٹ کی تفتیش کے مطابق وہ واقعہ آندھرا پردیش کے وشاکھا پٹنم میں پیش آیا تھا لیکن اب تو جھوٹ گھڑنا اور اسے دھڑلے کے ساتھ پھیلانا ان فاشسٹوں کی شناخت بن گیا ہے اور یہ لوگ غلطی سے سچ بولیں تب بھی جھوٹ کا گمان ہوتا ہے۔ ان بزدل فاشسٹوں کا شعار یہ ہے کہ اپنے بھگتوں کو بیوقوف بنانے کے لیے تو خوب ڈینگ مارتے ہیں لیکن جب عدالت میں یا قومی ذرائع ابلاغ کے سامنے جاتے ہیں تو گھگھیانے لگتے ہیں۔ خود یاتی نرسنگھا نند اس بات سے انکار کر دیتا ہے کہ آصف کو پانی پینے کے سبب زدو کوب نہیں کیا گیا۔ پولیس نے جب خلاف توقع مقدمہ درج کر لیا تو شرنگی نندن یادو ڈاسنا چھوڑ کر فرار ہوگیا۔ اس کو گرفتار کرنے کے لیے پولیس کو بھاگلپور جانا پڑا۔ جس وقت وہ وہاں دم دبا کر روپوش تھا وہاں ایک ایسا بھیانک واقعہ رونما ہوا جو اسی کے سماج کی عکاسی کرتا ہے۔ بہار کے ضلع بیگو سرائے میں برونی تھانہ علاقہ کے اندر انسانیت کو شرمسار کرنے والے سانحہ کی تفصیل پڑھ کر روح کانپ اٹھتی ہے۔ وہاں پر پڑوس کی ایک 12 سالہ بچی کو گھر سے پودا اکھاڑنے کی سزا کے طور پر مٹی کا تیل ڈال کر نذر آتش کر دیا گیا۔ وہ بچی سنگین حالت میں اسپتال کے اندر زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی ہے۔ پولیس کے مطابق شیورونا گاؤں میں ایک 12 سالہ بچی اپنے گھر کے باہر کھیل رہی تھی۔ اس نے اپنے پڑوسی سکندر یادو کے گھر میں لگے کندری کا پودا اکھاڑ دیا۔ اس پر سکندر یادو اور اس کی بیوی کویتا دیوی نے بچی کی خوب پٹائی کی لیکن انہوں نے اس پر بس نہیں کیا بلکہ بچی کے اوپرمٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگا دی۔ بری طرح سے جھلسی ہوئی بچی کو علاج کے لیے اسپتال پہنچایا گیا جہاں اس کی حالت سنگین ہے۔ اس بربریت کے بعد شرنگی نندن یادو کی طرح سکندر یادو بھی اپنی بیوی کے ساتھ فرار ہو گیا اور پولیس ان کی گرفتاری کے لیے چھاپہ مار رہی ہے۔ ہم سایہ کنبوں کے درمیان پہلے سے ہی تنازعہ تھا لیکن کیا اس کا انتقام بے قصور بچی سے لیا جا سکتا ہے۔ جس معاشرے کے اندر اس طرح کی درندگی پائی جاتی ہو اس معاشرے کے علمبرداروں کو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اس کی اصلاح کی جانب فوری متوجہ ہو جانا چاہیے۔ لیکن ان لوگوں کا عجیب حال ہے کہ قوم کو بیدار کرنے کے بجائے الٹا انہیں نفرت کے نشے میں مدہوش رکھ کر ان کی مدد سے اپنی سیاسی دوکان چمکا نے میں مصروف ہیں۔ اس قوم کو جلد یا دیر سے جب بھی ہوش آئے گا تو انہیں پتہ چلے گا کہ وہ نادانی میں اپنے سب سے بڑے دشمن کو اپنا سب سے بڑا مسیحا سمجھ رہے تھے بلکہ اتر اکھنڈ کے وزیر اعلیٰ تیرتھ سنگھ راوت کے الفاظ میں بھگوان مان رہے تھے۔
اس شر انگیزی کے دوران ایک ایسا خیر کا معاملہ پیش آگیا جس سے فاشسٹوں کے سینے پر سانپ لوٹنے لگے۔ آصف اور اس کی والدہ نے انٹرویو میں کہا کہ آصف ناخواندہ ہے اگر وہ تعلیم یافتہ ہوتا تو مندر کا بورڈ پڑھ کر پانی پینے کے لیے اندر نہیں جاتا۔ اس جملے سے ترغیب پا کر فرقہ پرستوں کے ذریعہ پھیلائے جانے والے جھوٹے پروپیگنڈے کی جانچ کر کے حقائق کو پیش کرنے والی ویب سائٹ آلٹ نیوز کے ایک بانی نے آصف کے اہل خانہ کو مالی مدد دے کر اس کی تعلیم شروع کروانے کے لیے عوامی چندہ جمع کرنے کی ایک مہم شروع کر دی اور اس مقصد کے لیے اس نے آن لائن پلیٹ فارم ’کیٹو‘ کی خدمات حاصل کیں۔ اس مہم میں 648 لوگوں نے حصہ لے کر دو دنوں میں تقریباً 10 لاکھ روپے جمع کر دیے۔ آصف کے لیے ہونے والی یہ کراؤڈ فنڈنگ اس بات کا اعلان ہے کہ بھگوائی طاقتیں کتنی ہی کوششیں کر لیں وہ ہرگز اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکیں گی۔ اور جس بچے کو جسمانی نقصان پہنچا کر انہوں نے اپنا سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی تھی بالآخر اسے معاشی سہارا مل گیا۔ اس طرح کے معاملات میں انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ مجرمین کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ ان ڈھیٹ ملزمین کے ساتھ بھی سرِ عام وہی سلوک کر کے اس کی ویڈیو کو عام کیا جانا چاہیے تاکہ دوبارہ کوئی ایسی درندگی کرنے کی جرأت نہ کر سکے۔ قانون کا خوف اچھے اچھوں کو ٹھیک کر دیتا ہے۔ ارنب گوسوامی کی مثال سب کے سامنے ہے۔ پچھلے سال اس نے پالگھر اور سوشانت سنگھ کے معاملے میں آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا۔ اس کی فتنہ پروری تمام اخلاقی حدود کو پھلانگ گئی تھی لیکن جب ٹی آر پی کے معاملے میں سرکار نے اسے گھیرا اور انوئے نایک خود کشی میں جیل بھیجا تو وہ سیدھا ہو گیا۔ فی الحال سچن وزے کے معاملے میں مہاراشٹر حکومت پوری طرح گھرِ چکی ہے لیکن ارنب کی چیخ پکار غائب ہے کیونکہ اس کو پتہ ہے کہ اگر وہ اچھل کود کرے گا تو اس کے پول کھول دیے جائیں گے اور پھر سے قانونی کارروائی ہو گی۔ ڈاسنا سانحہ کے پیچھے قانون سے بے خوفی کا عنصر کار فرما ہے۔ اپنے جرائم کی سزا کا خوف ہی شر پسندوں کو فتنہ انگیزی سے باز رکھ سکتا ہے۔ یہ لاتوں کے بھوت ہیں جو باتوں سے ماننے والے نہیں ہیں۔
آصف کے والد نے اپنے بیٹے کے ساتھ بد سلوکی کے بعد جو کہا تھا کہ ‘پانی کے لیے میرے بیٹے کو اتنی بے رحمی سے مارا گیا اور ذلیل کیا گیا۔ کیا پانی کا بھی کوئی مذہب ہوتا ہے؟ مجھے نہیں معلوم کہ ایسا بھی کوئی مذہب ہے جو کسی پیاسے کو پانی دینے سے انکار کرے۔‘ وہ ایک ناخواندہ مزدور کی جانب سے فرقہ پرستوں کے چہرے پر ایک زور دار طمانچہ تھا۔ الٹ نیوز کے ذریعہ ملنے والی مدد کے بعد انہوں نے کہا کہ میں اس رقم سے پانی کی سبیل بناوں گا تاکہ کسی پیاسے کو اپنی تشنگی مٹانے کی خاطر مندر میں نہ جانا پڑے اور اس کے ساتھ اس طرح کی بد سلوکی نہ ہو۔ یہ فاشسٹوں کے گھناونے چہرے کو بے نقاب کرنے والا ایک دانشمندانہ بیان ہے۔ آج ساری دنیا یہ دیکھ رہی ہے ایک طرف پاکھنڈی دھرم گرو پانی پینے سے جن مسلمانوں کو روک رہے ہیں وہی مسلمان ساری عالم انسانیت کو پانی پلانے کا اہتمام کر رہے ہیں۔ بظاہر معمولی سی نظر آنے والی اس بات نے ایمان اور طغیان کے درمیان کا فرق واضح کر دیا ہے۔
اس سے قبل تبلیغی جماعت کی آڑ میں مسلمانوں کو بدنام کرنے کی حرکت کے بعد بھی یہ ہوا کہ مسلمانوں نے مہاجر مزدوروں کی مدد کر کے ساری دنیا کو حیران کر دیا۔ اسلام کے نظام رحمت کی اس عملی ترجمانی نے دشمنان اسلام کو بے نقاب اور ان کے حامیوں کو شرمندہ کر دیا تھا۔ آصف کے والد نے اسے پھر ایک بار دوہرا دیا ہے۔ یہ عجیب منظر ساری دنیا دیکھ رہی ہے کہ مسلمان دوسروں کو اپنی مسجد میں بلا کر اسلام کی دعوت دے رہے ہیں اس کے برعکس ہندو انہیں اپنے سے دور بھگا رہے ہیں۔ اس لیے کہ ان کے پاس لوگوں کو قریب کرنے والا نہ کوئی عقیدہ ہے اور نہ عمل ہے۔ مودی جی کے اقتدار میں آتے ہی سنگھ پریوار نے گھر واپسی کی تحریک کا آغاز کیا۔ انہیں امید تھی کہ مسلمان اقتدار سے فائدہ اٹھانے کی خاطر اپنے دین سے دستبردار ہو جائیں گے لیکن اس کوشش میں وہ بری طرح ناکام رہے۔ اس ناکامی کے بعد وہ دشمنی پر اتر آئے ہیں اور مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے کی مہم چلا رہے ہیں۔
باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم
سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا
***

آصف کے والد نے اپنے بیٹے کے ساتھ بدسلوکی کے بعد جو کچھ کہا وہ ایک ناخواندہ مزدور کی جانب سے فرقہ پرستوں کے چہرے پر ایک زور دار طمانچہ تھا ۔’پانی پینے کے لیے میرے بیٹے کو اتنی بے رحمی سے مارا گیا اور ذلیل کیا گیا۔ کیا پانی کا بھی کوئی مذہب ہوتا ہے؟ مجھے نہیں معلوم کہ ایسا بھی کوئی مذہب ہے جو کسی پیاسے کو پانی دینے سے انکار کرے۔۔۔۔ آج ساری دنیا یہ دیکھ رہی ہے ایک طرف پاکھنڈی دھرم گرو پانی پینے سے جن مسلمانوں کو روک رہے ہیں وہی مسلمان ساری عالم انسانیت کو پانی پلانے کا اہتمام کر رہے ہیں۔ بظاہر معمولی سی نظر آنے والی اس بات نے ایمان اور طغیان کے درمیان کا فرق واضح کر دیا ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 28 مارچ تا  3 اپریل 2021