چین کے خلاف عالمی گھیرا بندی ۔ ملکی معیشت کے لیے نوید

امن وامان قائم کر کے صنعتکاری کے لیے فضا ساز گار کی جا سکتی ہے

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

سوویت روس کے خاتمہ کے بعد امریکہ اور چین قطبی دنیا کی طرف بڑھ رہے تھے مگر کورونا وائرس کے وبا کے خاتمہ کے بعد اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے کسی کو نہیں معلوم۔ امریکہ کے کمزور پڑنے کے بعد اب بھارت ہی چین کے سامنے اپنے جغرافیائی محل وقوع اور کروٹ لیتی ہوئی عالمی طاقت میں ثابت قدمی سے کھڑے رہنے کے قابل ہو سکتا ہے، کیوں کہ مرکزی حکومت نے معیشت کی تباہی کی پروا کیے بغیر عام شہریوں کے جان بچانے کو ترجیحات میں رکھا ہے۔ اس سے انتہائی کمزور معیشت بری طرح بکھر کر فچ شلوشنس کے اندازے کے مطابق شرح نمو 0.8 فیصد پر پہنچ گئی ہے۔ پہلی ملک گیر تالہ بندی اکیس دنوں کی رہی پھر اسے مزید انیس دنوں کی وسعت دے کر ۳ مئی تک بڑھا دیا گیا تاکہ پہلے مرحلے کی تالہ بندی کی وجہ سے جو معاشی نقصان ہوا اس پر روک لگے۔ اس لیے تالہ بندی۲ میں محدود پیمانے پر معاشی سرگرمیوں کے احیا کے لیے کوششیں بھی ہو رہی ہیں۔ جانے انجانے سارے جہاں میں گریٹ لاک ڈاؤن کے وقت چین کی حیثیت کمزور اور اس کی شبیہ خراب ہونے کی وجہ سے بھارت کی ایک الگ تصویر ابھر کر سامنے آرہی ہے کیوں کہ اس نے ساری دنیا کو مصیبت کے وقت فراخ دلی سے ملیریا کی دوا ہائیڈروکسی کلوروکوئن برآمد کرنا شروع کر دیا جس سے کورونا وائرس کے علاج میں تھوڑی بہت سہولت ملی۔ اس کے علاوہ بہت سارے ملکوں کو مرکزی حکومت نے اپنی ضرورتوں کی پروا کیے بغیر طبی آلات کی برآمدات کا سلسلہ ۲۴ ماہ تک جاری رکھا۔ مزید دیگر ملکوں کی طرح بھر پور طریقے سے کورونا وائرس کے ویکسین کی تیاری پر تحقیق کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ چین پر موجودہ ماحول میں وائرس کے پھیلاؤ میں لاپروائی اور راز داری برتنے کے شک کا دائرہ بڑھتا جا رہا ہے۔ اس لیے وہاں سے اپنا بوریا بستر باندھنے والے دوسرے ممالک کے لیے بھارت قدرے دل پسند بھی جگہ بن سکتا ہے اس لیے بلیکٹون گروپ کے چیرمین اور کوفاؤنڈر اسٹیو شوارجمین کا کہنا ہے کہ سبھی کمپنیاں اس بحران کے بعد اپنا پورا کاروبار چین سے بند کردیں گی اور یہ طے ہے کہ ایک بڑا حصہ چین کو خیر باد کہے گا۔ اسٹیو شوار جمین کی بات اس لیے بھی اہم ہے کہ وہ چین وامریکہ کے مابین جاری تجارتی جنگ کو ختم کرنے والے ثالث کی حیثیت رکھتے ہیں۔ فی الوقت چین میں مینو فیکچرنگ پلانٹ لگانے والے کافی متفکر ہیں۔ کیونکہ ایک ہی جگہ پر تمام کاروبار مرتکز ہونے کی وجہ سے ضرورتوں کو پورا کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ شیوار جمین کہتے ہیں کہ بھارت کو اس موقع کا فائدہ اٹھانے کے لے بڑے پیمانے پر تغیر لانے کی ضرورت ہے۔ بھارت کے لیے اچھی بات یہ ہے کہ کئی ملکوں کی حکومتیں چین سے نکلنے کے لیے مدد بھی دے رہی ہیں۔ حال ہی میں جاپان کے وزیر اعظم شنزو آبے نے چین میں قائم کمپنیوں کو بوریا بستر باندھنے کق حکم دیا ہے۔ آبے نے جاپانی کمپنیوں کو واپس جاپان لوٹ کر پیداوار شروع کرنے کی ترغیب دی ہے۔ اس کے لیے ۲ ارب ڈالر خصوصی معاشی مدد دینے کا بھی لالچ دیا ہے اور چین چھوڑ کر دیگر ممالک میں تجارت قائم کرنے پر جاپانی کمپنیوں کو مزید 21.5 کروڑ ڈالر مدد کے طور پر دینے کا بھروسہ دلایا ہے۔ اس کے علاوہ یوروپی ممالک بشمول امریکہ، چین سے اپنی اپنی کمپنیوں کو کسی دوسری جگہ منتقل کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ امریکی صدر بار بار کہتے آرہے ہیں کہ کورونا وائرس کا چین سے نکلنا محض ایک اتفاق نہیں بلکہ ایک حیاتیاتی تجربہ ہے، اس لیے ٹرمپ نے کئی بار اسے چینی وائرس ہی کہا ہے۔ کورونا وائرس کے معاملے پر چین کی سخت سرزنش ہونے والی ہے۔ چین شک کے دائرہ میں ہے۔ اب ضرورت ہے کہ وہاں جو کچھ ہوا اس کی مکمل اور غیر جانبدارانہ طور پر تفتیش ہو۔ امریکہ بین الاقوامی عدالت میں چین کے خلاف مقدمہ چلانے کی تیاری میں ہے کیونکہ چین نے صدر ٹرمپ کی تفتیشی ٹیم کو کووڈ-۱۹ کی پیدائش کی جگہ کا معائنہ کرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ امریکی ریاست مِسوری نے کورونا وائرس کے معاملے کو خفیہ رکھنے پر چین پر مقدمہ دائر کر دیا ہے۔ ساتھ ہی امریکہ نے چین کے ساتھ تجارتی تعلقات توڑنے کی بھی دھمکی دی ہے۔ فی الوقت چین سے کورونا وائرس نکلنے کے بعد عالم انسانیت پر جان ومال کے علاوہ جو سماجی واخلاقی تباہی آئی ہوئی ہے وہ سب پر ظاہر ہے۔ امریکہ ویوروپ جیسے ترقی یافتہ ملکوں میں جس طرح بڑے پیمانے پر تباہی دیکھنے کو ملی ہے وہ ان ممالک کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ اب تجارتی جنگ فیصلہ کن موڑ پر آگئی ہے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا کی سب سے بڑی معیشت نڈھال ہوگئی ہے۔ 2.2 کروڑ سے زیادہ امریکی بے روزگار ہوگئے ہیں۔ 46611 افراد کی موت ہوچکی ہے۔ دنیا بھر میں 1.82 لاکھ انسان اس وبا میں ہلاک ہوچکے ہیں۔
آئی ایم ایف کے اندازے کے مطابق جی ۲۰ ملکوں میں بھارت کے ساتھ محض تین ممالک ہیں جن کا گروتھ ریٹ امسال بھی مثبت رہ سکتا ہے۔ اس کی رپورٹ کے مطابق 21-2020 میں بھارت کی شرح نمو 7.4 فیصد تک جا سکتی ہے۔ عالمی وبا کے تباہ کن معاشی اثرات سے کوئی ملک یا خطہ نہیں بچا ہے۔ اب جی ۲۰ ممالک میں سب سے اچھی حالت میں بھارت ہی کے رہنے کا امکان ہے۔ امریکہ جان ومال کی بڑی تباہی سے بہت ہی کمزور ہوگیا ہے۔ اسی جھنجھلاہٹ میں امریکی صدر نے ورلڈ ہیلت آرگنائزیشن کی مالی امداد کو روک دیا ہے۔ پھر بھی ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ڈائرکٹر جنرل ٹیڈروس چین ہی کی حمایت میں بولے جا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی مکمل تالہ بندی کے ذریعے بھارت کورونا وائرس سے دفاع کے لیے جو کوششیں کر رہا ہے اس کی کئی بار ستائش بھی کی ہے۔ عالمی معاشی طاقتوں کی طرح BRICS جس میں برازیل انڈیا، روس، چین اور افریقہ ایک متوازی معاشی گروپ ہے۔ کورونا کے بعد کے حالات میں عالمی دباو کی وجہ سے چین کی پوزیشن بہت کمزور ہو سکتی ہے۔ برازیل نے بھی چین کی حرکت پر اسے بہت برا بھلا کہا ہے۔ بین الاقوامی معاشی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے بھارت کو بھی برازیل کے ساتھ کھڑا ہونا پڑے گا۔ چین کو مستقبل کی اس صف بندی کا پورا ندازہ ہے کیونکہ اسے علم ہے کہ وہ حالات کی تبدیلی میں گِھر سکتا ہے۔ ایسے حالات میں چین کی برآمدات کم ہو سکتی ہیں اور اس کا فائدہ بھارت اٹھا سکتا ہے لیکن یہ سب بھارت کی تیاری اور چین کے خلاف عالمی گھیرا بندی پر منحصر ہوگا۔ کورونا وائرس معاملے پر چین آج ساری دنیا کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے۔ چین نے نہ صرف وائرس کے متعلق صحیح اطلاعات چھپائی ہیں بلکہ مختلف ملکوں کو بھیجے گئے میڈیکل کٹس بھی گھٹیا قسم کے تیار کیے ہیں۔ اسپین نے حال ہی میں ۵۰ ہزار کٹس چین کو واپس کیے ہیں۔ نیدر لینڈ کو بھیجے گئے ماسک بھی خراب نکلے۔ اٹلی کے ساتھ بھی چین نے وہی حرکت کی۔ اٹلی G7 ملکوں میں بولٹ اینڈ روڈ انشیٹھ میں شامل واحد ملک ہے۔ بھارت کو بھیجے گئے ۶۰ ہزار پی پی ای کٹس بھی صحیح نتائج نہیں دے رہے تھے۔ اس لیے حکومت کو دو دنوں کے لیے جانچ کو روک دینا پڑا تھا۔
موجودہ حالات میں کاروبار کی نئی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ مرکزی حکومت نے فارن ڈائرکٹر انوسٹمنٹ (ایف ڈی آئی) کے اصولوں میں تبدیلی کرتے ہوئے ملکی صنعتوں اور کمپنیوں کی حفاظت کے لیے نیا راستہ اپنایا ہے۔ جس سے چین حواس باختہ ہو گیا ہے۔ اس تبدیلی سے ایف ڈی آئی کے اصولوں میں سختی آئی جس سے چین کو سرمایہ کاری کرنا آسان نہیں ہوگا۔ پچھلے ہفتہ ہی حکومت نے واضح کر دیا ہے کہ بھارت کی زمینی سرحد سے منسلک کسی بھی ملک کی کمپنی کو ہندوستانی کمپنیوں میں حصہ داری بڑھانے کے لیے پہلے مرکزی حکومت سے اجازت لینی ہوگی۔ فی الوقت کورونا وائرس کے قہر سے پریشان بھارت کے سامنے ملک کی تباہ حال معیشت اور صنعتوں کی حفاظت بھی ہے۔ اس لیے بھارت کو ایک بڑا اور سخت قدم اٹھانے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ اس لیے چین نے اس بڑے خطرے کو بھانپ کر آواز اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ کیونکہ دنیا کی ابھرتی ہوئی بڑی معیشت معاشی سامراج میں وسعت کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتا۔ کورونا کے قہر سے صرف بھارت ہی نہیں بلکہ امریکہ اور یوروپ بہت ہی زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ وہاں بڑی تعداد میں اموات کے ساتھ ان ممالک کی معیشت بھی بالکل بیٹھ گئی ہے۔ ان کی زیادہ تر کمپنیوں کے حالات برے ہو گئے ہیں۔ کئی کمپنیوں کے شیئرز کو چین نے اونے پونے داموں میں خرید کر اپنا تسلط جمالیا ہے۔ اسی طرح کا کھیل وہ بھارت میں کھیلنا چاہتا ہے وہ بھارتی معیشت کی ابتری کو دیکھتے ہوئے ایف ڈی آئی کے سہارے کمپنیوں میں حصہ داری بڑھا کر بھارتی بازار پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ ملک کے شیئر بازاروں میں چین بھاری نہ پڑے اس کے لیے باہری سرمایہ کاری کی جانچ پڑتال اور ان کے سرمایہ کاروں کو قوت خرید طے کرنا کا بھی عندیہ بھی دے دیا گیا ہے۔ حال ہی میں چینی سرمایہ کاروں نے بھارت کی آئی ٹی کمپنیوں، ای کامرس کمپنیوں اور نئے چھوٹے کاروبار اسٹارٹ اپ میں بڑا سرمایہ لگایا ہے۔ اس کے علاوہ آٹو موبائل کمپنیوں، بجلی کے کل پرزوں کی پیداوار میں چین نے بڑی حد تک قبضہ جمالیا ہے۔ حقیقتاً اس سے روزگار میں اضافہ تو ضرور ہوا ہے مگر خطرہ بھی ہے کہ موجودہ تباہی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نے ہماری ملکی کمپنیوں پر قبضہ جمانا شروع کردیا تو بازار پر بھی اسی کا مالکانہ قبضہ ہو جائے گا۔ اسی کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت نے ایک اقتصادی کمیٹی بنا کر اپنی پالیسی میں بڑی بنیادی تبدیلیاں کی ہے۔ حکومت نے صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں کو اپنی طرف راغب کرنے کے لیے مینو فیکچرنگ پالیسی میں نمایاں تبدیلی کا اشارہ دیا ہے جس میں پیداوار پر کم لاگت، زمین کی مناسب قیمت، لیبر قانون کو آسان بنانا اور کنٹریکٹ کی آسان ضابطہ بندی شامل ہے تاکہ بھارت دنیا کے نقشے پر مینو فیچکرنگ ہب کے طور پر ابھر سکے۔ یہ بھی تجویز آرہی ہے کہ پاور ریٹس اور ٹیکسوں میں بڑی کمی کی جائے اور زمینیں بھی سستے داموں پر دی جائیں، کنٹریکٹ کوسٹ میں بھی تبدیلیاں ہوں۔ پرمٹ راج کا خاتمہ ہو تاکہ ملک میں صنعتکاروں اور سرمایہ کاروں پر دہشت اور خوف کا ماحول بالکل ختم ہو۔ معاشی خوشحالی اور دنیا کے نقشے پر مینو فیچکرنگ ہب بنانے کی منصوبہ بندی اس وقت تک محض ایک خوشنما خواب ہوگا جب تک کہ ملک کی فضا پرامن، پرسکون، اخوت، بھائی چارگی اور بقائے باہم کے اصول پر مبنی نہ ہو۔ مگر ہمارے ملک کا اصل بحران تو نفرت اور بھوک کا ہے۔ اسلامو فوبیا اس ملک کا مقدر بن گیا ہے۔ اس کی وجہ سے ساری دنیا میں عموماً اور عرب دنیا میں خصوصاً شدید برہمی پائی جارہی ہے۔ مذہبی منافرت پھیلانے والی منو وادی حکومت زہر آلود اندھ بھکت اور پالتو گودی میڈیا کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کی غلیظ حرکتوں سے لاکھوں نہیں کروڑوں بھارتیوں کا روزگار جو عرب ممالک سے وابستہ ہے، ان کے وہاں سے نکالے جانے کی صورت میں ہماری بدحال معیشت مزید قریب از مرگ ہو جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم مودی کے چھ سالوں کی کوششوں کے باوجود ملک میں خوف ودہشت کے ماحول میں بیرونی کاروباری اور سرمایہ کار بھارت میں صنعت کاری سے گریزاں رہے۔ اور ہمارے ملک کے سرمایہ کار بیرون ملک تجارت کو ترجیح دینے لگے ہیں جیسا کہ راہول بجاج نے کہا کہ صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں کو خوف ودہشت کے ماحول میں رکھا گیا ہے۔ فرقہ وارانہ منافرت، دنگا فساد، مار دھاڑ، لوٹ، آتشزنی، ماب لنچنگ قتل وغارت گری، خون خرابے کے ماحول میں کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی۔ جب تک ملک میں امن وامان قائم نہیں ہوگا ملک میں ترقی کی بلیٹ ٹرین کبھی نہیں دوڑ سکے گی۔ ضرورت ہے کہ پردھان سیوک زبانی جمع خرچ کے بجائے عملی طور پر ملک میں امن وامان قائم کر کے صنعتکاری کے لیے فضا ساز گار کریں۔
***

حکومت نے صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں کو اپنی طرف راغب کرنے کے لیے مینو فیکچرنگ پالیسی میں نمایاں تبدیلی کا اشارہ دیا ہے جس میں پیداوار پر کم لاگت، زمین کی مناسب قیمت، لیبر قانون کو آسان بنانا اور کنٹریکٹ کی آسان ضابطہ بندی شامل ہے تاکہ بھارت دنیا کے نقشے پر مینو فیچکرنگ ہب کے طور پر ابھر سکے۔ یہ بھی تجویز آرہی ہے کہ پاور ریٹس اور ٹیکسوں میں بڑی کمی کی جائے زمینیں بھی سستے داموں پر دی جائیں، کنٹریکٹ کوسٹ میں بھی تبدیلیاں ہوں، پرمٹ راج کا خاتمہ ہو تاکہ ملک میں صنعتکاروں اور سرمایہ کاروں پر دہشت اور خوف کا ماحول بالکل ختم ہو۔