چین بے چَین اورپرسکون بھارت
اروناچل پردیش میں چین کی شرارت پر حکومت کی خاموشی چہ معنی دارد۔۔؟
ڈاکٹر سلیم خان،ممبئی
سرحدوں پرفوجیوں میں مٹھائیوں کی تقسیم مگر حکمرانوں میں کرواہٹ
سال کے آخر میں لوگ گزرے برس کا جائزہ لیتے ہیں اور آئندہ سال کا منصوبہ بناتے ہیں یا کم ازکم کچھ مصمم ارادے کرتے ہیں ۔انگریزی میں اسے نیو ائیر ریزولیوشن کہا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا کے زمانے میں فیس بک یا واٹس ایپ وغیرہ کی مدد سے اس کا اعلان بھی کیا جاتا ہے تاکہ متعلقہ لوگوں کو اس کا علم ہوجائے اور وہ تعاون کریں ۔ گزشتہ سال 31 دسمبر کو چین نے ہندوستان کے تئیں اپنے خطرناک ارادوں کا اظہار کردیا ہے۔چینی کمیونسٹ پارٹی کے زیر اثر شائع ہونے والے انگریزی روزنامہ گلوبل ٹائمز نے یہ خبر شائع کی کہ چین میں شہری امور کی وزارت نے اروناچل پردیش کے چینی ہم نام زنگنان صوبہ میں 15 مقامات کی حد بندی کر کے تبدیل شدہ نئے نام چینی، تبتی اور رومن میں جاری کردیے ہیں۔ ان میں سے آٹھ رہائشی مقامات، چار پہاڑ، دو دریا اور ایک پہاڑی درہ شامل ہے۔ گلوبل ٹائمز نے بیجنگ میں قائم سینو تبت ریسرچ سنٹر کے ایک ماہر لیین ژیانگمن کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ یہ تبدیلی ایک قومی سروے کے بعد کی گئی۔
اس طرح گویا چینی سانتا کلاز نے جاتے جاتے مودی جی کی خدمت میں یہ تحفہ پیش کردیا۔ وزیر اعظم چونکہ آج کل انتخابی مہم کے نشے میں مدہوش ہیں اس لیے ممکن ہے انہیں اس کا احساس نہ ہوا ہو لیکن ملک کے سنجیدہ عوام میں اس سے بے چینی کا پیدا ہونا فطری امر ہے۔اس خبر پر نہ ہی وزیر اعظم کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے آیا اور نہ ملک کی خاطر جان لڑانے کا اعلان کرنے والے وزیر داخلہ کچھ بولے یہاں تک وزیر دفاع نے بھی خاموش رہنے میں عافیت سمجھی لیکن کسی نہ کسی کو تو کچھ نہ کچھ بولنا ہی تھا۔ اس لیے سناٹے کو توڑنے کی ذمہ داری وزارت خارجہ کو سونپی گئی اور وہاں بھی وزیر خارجہ جئے شنکر خود آگے نہیں آئے بلکہ اپنے ترجمان ارندم باغچی کو بڑھا دیا۔ باغچی نے نہایت محتاط اندا زمیں کہا ’ہم نے اسے دیکھا ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے، جب چین نے اروناچل پردیش کا نام تبدیل کرنے کی کوشش کی ہو۔ چین اپریل 2017 میں بھی ایسے نام رکھنا چاہتا تھا‘۔
یہ حقیقت ہے کہ چین کی جانب سے یہ مذموم حرکت دوسری بار کی گئی ہے۔ اس سے قبل چین نے اروناچل پردیش میں 6 مقامات کے نام بدلنے کا اعلان کیا تھا۔ اس کا اعتراف کرکے وزارت خارجہ نے گویا یہ عندیہ دے دیا کہ پہلےبھی ہم نے لفظی احتجاج کے سوا کچھ نہیں کیا تھا اور اس مرتبہ بھی بات زبانی جمع خرچ تک ہی محدود رہے گی ۔لیکن یہ سوال تو ضرور پیدا ہوتا ہے کہ آخر مودی حکومت بعد چین کے حوصلے اس قدر بلند کیوں ہوگئے؟ ان لوگوں کومودی جی کی لال لال آنکھوں سے ڈر کیوں نہیں لگتا؟ وزیر اعظم آنکھیں موند کر یہ سب کیوں برداشت کرلیتے ہیں؟ باغچی نے مزید کہا کہ ’اروناچل پردیش‘ ہمیشہ سے انڈیا کا اٹوٹ انگ رہا ہے اور ہمیشہ رہے گا، اروناچل پردیش میں تجویز کردہ نئے ناموں سے حقیقت نہیں بدلتی۔ یہ درست بات ہے لیکن نام تو ہندوستان میں بھی بڑے شور وشور کے ساتھ بدلے جارہے ہیں۔ یو پی میں یوگی کوئی نیا شہر نہیں بسا سکے تو پرانے شہروں کے نام بدلنے لگے۔ شیوراج سنگھ نے بھی حبیب گنج اسٹیشن کا نام تبدیل کردیا۔ سوال یہ ہے کہ اگر چین کے ذریعہ تبدیل شدہ ناموں سے حقیقت نہیں بدلتی تو کیا یوگی یا شیوراج سنگھ جو نام بد ل رہے ہیں ان سے حقیقت بدل جاتی ہے؟ الٰہ آباد ہائی کورٹ کا نام بدلنے میں ناکام ہونے والے کیا اکبر الٰہ آبادی کو پریاگ راجی بنا دیں گے؟ یوگی یا چوہان کی سیاسی تماشوں کے برعکس چین ایک منصوبہ بند حکمتِ عملی کے تحت یہ سب کر رہا ہے۔ اس مقصد کے تحت 23؍ اکتوبر کو چین کے اعلیٰ قانونی بلدیہ نیشنل پیپلز کانگریس کی اسٹینڈنگ کمیٹی نے ملک کی زمینی سرحدی علاقوں کے تحفظ اور استحصال کا حوالہ دیتے ہوئے ایک نیا قانون منظور کیا اور اس کے نفاذ کی تاریخ یکم جنوری بتائی ۔ اس قانون کے اثرات کا اندازہ لگا کر اگر پہلے سے چینی حکام سے گفت وشنید کر کے عالمی دباو بنایا جاتا تو ممکن تھا کہ وہ آئندہ اقدامات سے باز رہتا لیکن ایسا نہیں ہوا کیونکہ حکومت غفلت یا پھر مایوسی کا شکار رہی ۔ چین کو کہنے سننے سے کچھ ہوتا نہیں ہے اس لیے ممکن ہے کہ بلاوجہ اپنی توانائی ضائع کرنے سے گریز کیا گیاہو؟
نئے سال کی ابتداء بھی چین نے بے وجہ اشتعال انگیزی سے کی ۔ اخبار گلوبل ٹائمز نےیکم جنوری کو نئے سال کے موقع پر وادی گلوان میں چینی پرچم لہرائے جانے کی خبر شائع کرکے حکومت ہند کو حیرت کا نیا جھٹکا دیا ۔ اس رپورٹ میں کہا گیا کہ سال 2022 کے پہلے دن چین کا پرچم پورے ملک میں لہرایا گیا۔ ان میں ’ہانگ کانگ اور گلوان وادی کا خصوصی زیرِ انتظام علاقہ‘ بھی شامل تھا۔ مذکورہ اخبار نے اپنی رپورٹ کی تائید میں ایک ایسی ویڈیو منسلک کی جس میں چینی فوجی ہندوستانی سرحد کے قریب وادی گلوان میں ایک پتھر کے سامنے کھڑ ےنظر آتے ہیں۔ اس پتھر پر لکھا ہوا جملہ ’ایک انچ بھی زمین نہ چھوڑیں گے۔‘ مودی سرکار کے لیے خطرناک دھمکی سے کم نہیں ہے۔ اس ویڈیو کے میں چینی فوجی قوم کو نئے سال کی مبارکباد دیتےہوئے پرجوش انداز میں کہتے ہیں کہ ’ہم اپنی مادر وطن سے یہ وعدہ کرتے ہیں کہ ہم اپنی سرحد کا دفاع کریں گے۔‘ گلوبل ٹائمز کے مطابق اس کے بعد ایک ڈرون کے ذریعہ چینی پرچم بلند کیا گیا اورمغربی کمانڈ کے فوجیوں نے سلامی دے کر ملک کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔
حزب اختلاف کے رہنما راہل گاندھی کے لیے مودی حکومت پر تنقید کرنے کا یہ نادر موقع تھا چنانچہ اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے نئے سال کے موقع پر گلوان میں چینی پرچم لہرانے کی خبر سے متعلق وضاحت طلب کی۔ اپنے ٹویٹ میں راہل گاندھی نے لکھا کہ ’ہمارا ترنگا گلوان پر اچھا لگ رہا ہے۔ چین کو جواب دینا پڑے گا۔ مودی جی، خاموشی توڑیں!‘۔ وزیر اعظم کو اپنی دادی کی یاد دلاتے ہوئے راہل نے یہ بھی لکھا کہ ’ابھی کچھ دن پہلے ہی ہم 1971 میں انڈیا کی شاندار فتح کو یاد کر رہے تھے۔‘ حزب اختلاف کے رہنما نے سرکار پر ہلّہ بولتے ہوئے کہا کہ ’ملک کی سلامتی اور کامیابی کے لیے جامع اور مضبوط فیصلوں کی ضرورت ہے۔ کھوکھلی بیان بازی سے فتح حاصل نہیں ہوتی!‘۔ بھکتوں کے علاوہ اب تو پوری قوم کو احساس ہوچکا ہے جامع اور دور رس فیصلے کرنا کم ازکم اس حکومت کے بس کی بات نہیں ہے۔ اس کو تو صرف کھوکھلے بیانات اور جھوٹے وعدے کرکے انتخاب جیتنے میں مہارت حاصل ہے اور اسی کا استعمال کرکے وہ اقتدار پر قابض ہے۔
راہل کے اس تیز وتند نشتر پر قومی بحث چھڑ جانی چاہیے تھی لیکن چونکہ اس سے مودی حکومت کی سبکی اور کمزوری کا اظہار ہوتا تھا اس لیے حکومت کے چاپلوس گودی میڈیا نے اسے پوری طرح نظر انداز کردیا لیکن چار دن بعد اس کا دباو محسوس کرتے ہوئے ہندوستانی فوجیوں کی بھی کچھ تصاویر منظر عام پر آئیں جن میں نئے سال کے موقع پر گلوان وادی میں ترنگا جھنڈا لہراتاہوانظر آیا۔ اس کے ساتھ یہ دعویٰ کیا گیا کہ وادی گلوان کے متنازعہ علاقے میں اپنا جھنڈا لہرانے کی چینی خبر جھوٹی تھی اور وادی گلوان میں لہرائے گئے ترنگے کے ساتھ ہندوستانی فوجیوں کی تصویر نے گویا چین کے جھوٹ کو بے نقاب کرکے سچائی کا پردہ فاش کردیا ۔ اس خبر کے ساتھ ایک ایسی خبر کی نفی کردی گئی کہ اس نے ہندوستان کے سخت موقف کو پوری طرح زائل کردیا ۔ ہندوستانی خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی نے حکام کے حوالے سے تصدیق کی کہ نئے سال کے دن ہندوستان اور چین کے فوجیوں نے مشرقی لداخ کی پوسٹوں سمیت ایل اے سی کے ساتھ متعدد پوسٹوں پر مٹھائیاں تقسیم کیں اور ایک دوسرے کو مبارکباد دی۔
گلوان وادی میں تشدد کے بعد پہلی بار ہندوستان اور چین کی فوجوں نے لائن آف ایکچوئل کنٹرول کے ساتھ کل دس مقامات پر ایک دوسرے کو مٹھائیاں اور تحائف دینے کی نئی روایت قائم کی۔ دونوں ممالک کی فوجوں کے فیلڈ کمانڈرس نے مشرقی لداخ میں ایل اے سی کی شاہراہ قراقرم، ڈی بی او، چشول، ڈیمچوک، ہاٹ اسپرنگ، بوٹل نیک اور کونگرالہ کے علاقے سمیت کل سات مقامات پر ملاقات کی۔ اس کے علاوہ سکم کے ناتھولا سیکٹر اور اروناچل پردیش کے بوملا اور وچائی-دمائی میں بھی ہندوستان اور چین کے فوجیوں نے ایک دوسرے کو نئے سال کی مبارکباد اور تحائف کا تبادلہ کیا۔ بڑے فخر کے ساتھ دونوں فوجوں کے درمیان ہونے والی ملاقات اور تحائف کی تصاویر بھی جاری کی گئیں۔ سوال یہ ہے ایک طرف تو چین کی جانب سے مسلسل اشتعال انگیزی کا مظاہرہ ہورہا ہے اس کے جواب میں ان مٹھائیوں اور تحائف کا تبادلہ کس حدتک درست ہے؟
گلوبل ٹائمز نے ان تصاویر کو شائع کرکے اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی بھی کوشش کی۔ اس نے نہایت قابل اعتراض تبصرہ کرتے ہوئے ایک جانب تو لکھا کہ ’اگر یہ سچ ہے تو اسے ایک مثبت قدم کے طور پر دیکھا جانا چاہیے‘ لیکن خوشی کی وجہ یہ بتائی کہ اکتوبر میں دونوں ممالک کے درمیان کور کمانڈر کی سطح پر بات چیت ہندوستان کی جانب سے نامناسب مطالبے کے سبب تعطل کا شکار ہو گئی تھی یعنی تعریف کے پردے میں تنقید کرتے ہوئے مذاکرات کی ناکامی کے لیے الٹا ہندوستان کو ذمہ دار ٹھہرا دیا ۔ گلوبل ٹائمز کے تبصرے کا لب لباب یہ ہے کہ فوجی تو ایک دوسرے سے خیر سگالی چاہتے ہیں مگر کور کمانڈر بیجا مطالبہ کرکے تعلقات کشیدہ کردیتے ہیں ۔ اس طرح مٹھائی کے اندر کڑواہٹ پیدا کرنا کسی طور پر درست نہیں ہے اور اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ اگر یہ نئی روایت قائم نہ کی گئی ہوتی تو اچھا تھا۔
سرحد پر مٹھائی کے تقسیم کی شیرینی ابھی ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ 6؍ جنوری کو مشرقی لداخ میں چین کے ذریعہ سرحد کے قریب پینگونگ جھیل پر ایک پُل بنائے جانے کی خبر آگئی ۔ اس پُل کی تعمیر کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ہندوستان نے سخت اعتراض ظاہر کیا ۔ وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باغچی نے کہا کہ حکومت اس سرگرمی کی باریکی سے نگرانی کر رہی ہے۔ اس پُل کی تعمیران علاقوں میں کی جا رہی ہے جو تقریباً 60 سال سے چین کے غیر قانونی قبضے میں ہیں لیکن ہندوستان نے کبھی بھی اس قبضے کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ باغچی نے سیکیورٹی مفادات کےدفاع کو یقینی بنانے کے لیے کیے جانے والے اقدامات کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ حکومت نے گزشتہ سات سالوں کے دوران سرحد سے ملحق بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے لیے بجٹ میں قابل ذکر اضافہ کیا ہے اور پہلے سے کہیں زیادہ سڑکوں اور پُلوں کا کام پورا کیا ہے۔ اس سے مقامی لوگوں کے ساتھ ساتھ مسلح افواج کو ضروری رابطہ کی سہولت ملی ہے۔ حکومت اس مقصد کے لیے پرعزم ہے۔
اس بیان میں یہ پتہ نہیں چلتا کہ غیر قانونی چینی تعمیر کو روکنے کے لیے نگرانی کے علاوہ اور کیا ٹھوس اقدامات کیے جارہے ہیں جبکہ چین پینگونگ جھیل کے شمالی اور جنوبی کناروں کو جوڑنے والے پُل کا تعمیری کام کم از کم دو مہینے سے کر رہا ہے۔ یہ پُل چینی فوج کے لیے معاون ہوگا اس لیے ہندوستان کی سیکیورٹی کی خاطر سنگین تشویش کا باعث ہے۔ موقر اخبار انڈین ایکسپریس نے چین کی نیشنل پیپلز کانگریس کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے ذریعہ ’ملک کی زمینی سرحدوں کے تحفظ اور استحصال سے بچاؤ‘ کے لیے منظور کیے جانے والے نئے قانون پر تشویش کا اظہار کیا اور حالیہ واقعات کے تناظر میں اس موضوع پر اداریہ بھی لکھا۔ اس قانون کی بابت چینی حکومت کا موقف یہ ہے کہ ’چین کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت مقدس اور ناقابل تسخیر ہے اور ان کے تحفظ کے لیے ریاست کو اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، نیز قانون ریاست کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ سرحدی علاقوں میں دفاع سمیت معاشی اور سماجی سرگرمیوں کو مضبوط کرنے کے لیے اقدامات کرے اور وہاں پبلک سروسز اور بنیادی ڈھانچے کی فراہمی کو بہتر کرے۔‘
چینی حکومت مطابق اس قانون کا مقصد ہمسایہ ممالک کے ساتھ سرحد سے متعلق معاملات کو بات چیت سے حل کرنا ہے تاکہ زمین کے حوالے سے تنازعے یا طویل مدتی سرحدی تنازعات کو حل کیا جا سکے لیکن اس کی آڑ میں چینی حکومت اپنے سارے غیر قانونی منصوبوں مثلاً مذکورہ پُل کی تعمیر کو جواز فراہم کرے گی۔ اس قانون سے صدر شی جن پنگ کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوگا اور وہ بآسانی تیسری بار عہدے پر منتخب ہو جائیں گے۔ اسی مقصد کے تحت ممکن ہے چین کے صدر شی نے گزشتہ جولائی میں ارونا چل پردیش کی سرحد کے قریب تبت میں واقع گاؤں کا دورہ بھی کیا تھا۔اس نئے قانون کے نفاذ کی خاطر چین پر مشرقی لداخ کے تعطل پر مذاکرات کو روکنے کا بھی الزام لگ رہا ہے۔
دونوں پڑوسی ممالک کے کور کمانڈرز کی آخری ملاقات گزشتہ سال اکتوبر میں ہوئی تھی اور ہندوستان پرامید تھا کہ چین ہاٹ سپرنگز میں پٹرولنگ پوائنٹ 15 سے پیچھے ہٹنے پر راضی ہو جائے گا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا یہاں تک کہ ملاقات کے بعد مشترکہ بیان بھی نہیں جاری کیا گیا جیسا کہ پہلے ہوتا تھا۔ اگلی مذاکرات کی تاریخ کا بھی ہنوز اعلان نہیں ہوا اور اب تو یہ مزید خدشات کی شکار ہوگئی ہے۔ اس دوران بعض ’نام نہاد شہریوں‘ کے دمچوک میں حقیقی لائن آف کنٹرول پر ہندوستانی علاقے میں خیمے لگانے کی خبر آئی جس کو خالی کرنے سے چین نے انکار کر دیا ہے۔ چین کا یہ نیا قانون اس کی اجازت کے بغیر سرحد کے قریب مستقل بنیادی ڈھانچے کی تعمیر پر پابندی لگاتا ہے۔ اس طرح ہندوستان کے ذریعہ اس علاقے میں تیزی سے تعمیر ہونے والی سڑکیں، پل اور دیگر سہولیات پر بھی تنازع کھڑا ہوسکتا ہے۔
سبکدوش میجر جنرل اشوک کمار نے دسمبرمیں تھنک ٹینک سنٹر فار لینڈ وارفیئر اسٹڈیز کے لیے ایک تحریر میں لکھا تھا کہ نیا قانون ’چین کی جانب سے بھارت اور بھوٹان کے ساتھ علاقائی حدود کا یک طرفہ طور پر تعین اور حد بندی کرنے کی تازہ ترین کوشش ہے۔‘اس قانون میں بھارت کے لیے بہت زیادہ مضمرات ہیں۔ متنازعہ زمینی سرحدوں اور ان کے اندر تیزی سے 624 ’جدید‘ دیہاتوں کی تعمیر کے پیش نظر یہ مسئلہ خالصتاً فوجی طریقے سے حل کرنے کے بجائے قومی سطح پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ چینی کمیونسٹ پارٹی نے ’سرحدی تنازعہ فوجی طور پرحل کرنے کے حالات پیدا کر دیے ہیں۔‘ یہ نیا قانون چین کی جانب سے حقیقی لائن آف کنٹرول کے ساتھ سرحدی دفاع کے نام پر ’جدید‘ دیہات تعمیر کرنے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔
سرحدی تنازعات کے علاوہ چین نے اب ہندوستان کے داخلی معاملات میں بھی مداخلت شروع کردی ہے۔ اس کی تازہ مثال 22 دسمبر کو جلاوطن تبتی اراکینِ پارلیمان کے زیر اہتمام نئی دہلی کے ایک عشائیے میں شرکاء پر اعتراض ہے۔ اس تقریب میں ہندوستان کے متعدد ارکان پارلیمنٹ نے بھی شرکت کی تھی۔ دہلی میں واقع چینی سفارت خانے نے اس پر گہری’’تشویش‘‘کا اظہار کرتے ہوئے ایک خط تحریر کرکے ان سے کہا کہ وہ ’’تبت کی آزادی کے لیے سرگرم قوتوں کو مدد فراہم کرنے سے گریز کریں۔‘‘ ہندوستانی وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باغچی نے اس بابت غم وغصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ،’’اس خط کا مواد، لہجہ اور طریقہ کار غیر مناسب ہے۔ چین کو یاد رکھنا چاہیے کہ بھارت ایک فعال جمہوریت ہے اور عوام کے نمائندے کے طور پر معزز اراکین پارلیمنٹ اپنے خیالات اور نظریات کے مطابق سرگرمیاں انجام دیتے ہیں۔‘‘انہوں نے چین سے توقع ظاہر کی کہ وہ اراکین پارلیمنٹ کی معمول کی سرگرمیوں میں دخل اندازی سے گریز کرے گا اور دو طرفہ تعلقات کی صورتحال کو مزید پیچیدہ نہیں بنائے گا۔ اس بات کا امکان نہیں کہ چین پر اس نصیحت کا کوئی اثر ہو گا۔
چین کے ارادے کس قدر ناپاک ہیں اس کا اندازہ گزشتہ سال یکم اکتوبر کے ایک واقعہ سے کیا جاسکتا ہے۔ یہ معاملہ اسی اتراکھنڈ میں پیش آیا جہاں بدنام زمانہ دھرم سنسد کا انعقاد کیا گیا۔ بی جے پی کی صوبائی حکومت والی ریاست اتر اکھنڈ میں چینی فوج کے تقریباً سو گھڑسوار ایل اے سی سے تقریباً پانچ کلو میٹر اندر تک داخل ہو گئے لیکن نئی دہلی نے اس پر کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا کیونکہ چند گھنٹوں بعد وہ ازخود واپس لوٹ گئے۔ گودی میڈیا میں تو اس پر خاموشی چھائی رہی مگر سوشل میڈیا پر بہت سے لوگوں نے سوال اٹھایا کہ آخر اتنی بڑی تعداد میں چینی فوجیوں کے اتنا اندر تک آجانے کے باوجود حکومت خاموش کیوں ہے؟ حکومت نے اگر سفارتی مجبوریوں کے تحت اس کو نظر انداز کردیا تو کم ازکم دھرم سنسد کے لوگ اس پر لب کشائی کرتے اور چینیوں کو سبق سکھانے کا حلف لیتے لیکن ان لوگوں نے تو شاید اسی کی جانب سے توجہ ہٹانے کے لیے مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کی تھی۔ مودی حکومت اور سنگھ پریوار کب تک اس طرح کے تماشوں سے کام چلائیں گے ۔ آج نہیں تو کل انہیں چین کے خلاف ایک مضبوط حکمت عملی بناکر توانا آواز اٹھانی پڑنے گی بصورتِ دیگر ملک کے عوام ان کو جھولا سمیت گھر بھیج دیں گے۔
***
***
یہ حقیقت ہے کہ چین کی جانب سے یہ مذموم حرکت دوسری بار کی گئی ہے۔ اس سے قبل چین نے اروناچل پردیش میں 6 مقامات کے نام بدلنے کا اعلان کیا تھا۔ اس کا اعتراف کرکے وزارت خارجہ نے گویا یہ عندیہ دے دیا کہ پہلےبھی ہم نے لفظی احتجاج کے سوا کچھ نہیں کیا تھا اور اس مرتبہ بھی بات زبانی جمع خرچ تک محدود رہے گی ۔لیکن یہ سوال تو ضرور پیدا ہوتا ہے کہ آخر مودی سرکارکے بعد چین کے حوصلے اس قدر بلند کیوں ہوگئے؟ ان لوگوں کومودی جی کی لال لال آنکھوں سے ڈر کیوں نہیں لگتا؟ وزیر اعظم آنکھیں موند کر یہ سب کیوں برداشت کرلیتے ہیں؟
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 16 جنوری تا 22 جنوری 2022