’چمن میں ہر طرف بِکھری ہُوئی ہے داستاں میری‘

ڈری سہمی سرکاریں، کالے قوانین اورضمانتوں پر ہیں حقوق کے رکھوالے

ڈاکٹر سلیم خان،ممبئی

جمہوری اقدار اور حقوق انسانی کی بات کس زبان سے کی جائے؟
عالمی سطح پر دس دسمبر کوانسانی حقوق کا دن منایا جاتا ہے۔ حقوقِ انسانی کے تحفظ کی خاطر تو سال میں ایک دن مخصوص ہے مگر اس کی پامالی بلاتکلف سال بھر ہوتی رہتی ہے۔ امسال اس دن کے اہتمام کی تیاری کرنے والے ویسے تو کسان تحریک کی کامیابی پر پہلے ہی شاد تھے اوپر سے انہیں یکے بعد دیگرے دو خوشخبریاں ملیں۔ ان میں سے پہلی معروف سماجی کارکن سدھا بھاردواج کی ضمانت پر رہائی اور دوسری ابھرتے ہوئے دانشور وجہدکار شرجیل امام کی دلی میں بھی ضمانت تھی۔ ان دونوں کو ایسے کالے قوانین کے تحت گرفتار کیا گیا تھا جن میں عدلیہ کی آنکھوں کی پٹی کو کھول کر اس کے ہاتھوں کو باندھ دیا جاتاہے۔ یعنی عدالت اپنی کھلی آنکھوں سے ناانصافی کو دیکھے تب بھی اس کے خلاف اپنا قلم چلانے سے معذور ہوتی ہے ۔ اس کے ذریعہ انتظامیہ کو انسانی حقوق کی پامالی کی کھلی چھوٹ مل جاتی ہے اور وہ اپنے سیاسی آقاوں کی خوشنودی اور اپنی ترقی کے لیے خوب من مانی کرتی ہے۔ اوٹ پٹانگ الزامات سے لے کر عجیب وغریب دلائل اور بے بنیاد شواہد کی مدد لی جاتی ہے۔ حقائق پیش کرنے کے بجائے کہانیاں گھڑی جاتی ہیں اور ٹال مٹول کی مدد سے برسوں تک بے قصور لوگوں کو پابندِ سلاسل کیا جاتا ہے۔
حکمرانی کی عمارت ہر زمانے میں تین پیروں پر چلتی رہی ہے۔ باطل نظام میں مقننہ من مانے قوانین وضع کرکے حاکموں کے لیے آسانی اور محکوموں کی خاطر مشکلات کھڑی کرتا ہے ۔ بغاوت اور یو اے پی اے جیسے قوانین بناکر اپنے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو کچلنے کا اہتمام کرتا ہے۔ اس من مانی کو روکنے کے لیے اگر ناقابلِ تنسیخ الہامی ہدایت کا حوالہ دیا جائے تو اس پر سیکولر جمہوریت کی خلاف ورزی کا الزام لگا کر مسترد کردیا جاتا ہے۔ بظاہر آزاد نظر آنے والے انتظامیہ کے افسر اپنی بقاء اور ترقی کی خاطر پوری طرح مقننہ پر منحصر ہوتے ہیں اس لیے وہ اپنے سیاسی آقاوں کی رضاجوئی کے لیے سرکار کے باجگزار بن جاتے ہیں اور ان میں سے جو اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے انصاف کی آواز اٹھاتا ہے اسے سنجیو بھٹ کی مانند عمر قید کی سزا سناکر نشانِ عبرت بنادیا جاتا ہے۔انتظامیہ گواہوں کو پیش کرنے کے بجائے انہیں ڈرا دھمکا کر خاموش کردیتا ہے۔ اس طرح عدلیہ کے باضمیر جج بھی بے یارو مددگار ہوجاتے ہیں اور ہوس پرست اس کا فائدہ اٹھا کر عدل وقسط قائم کرنے کے بجائے ظلم وجبر کا بازار گرم کردیتے ہیں۔
موجودہ مادر پدر آزاد سیکولر جمہوری نظام چونکہ خدا خوفی سے بے نیاز ہے اس لیے ان اداروں کی نگرانی کرنے کی ذمہ داری ذرائع ابلاغ کو سونپی گئی ہے ۔ وہ اگر راہِ راست سے بھٹک جائیں تو خبردار کرنا بھی اسی کا کام ہے لیکن افسوس کہ جو باڑھ فصل کی حفاظت کے لیے لگائی گئی تھی وہی کھیت کو چٹ کرنے لگی ہے۔ اس سے پہلے کہ کوئی مقدمہ عدالت میں زیرِ سماعت آئے ضمیر فروش میڈیا اس قضیہ پر میڈیا ٹرائل کا ہل چلانے لگتا ہے۔ تبلیغی جماعت اور کسانوں کے معاملے میں عدالت اور خود میڈیا کے نگراں ادارے این بی ایس اے نےمعروف ٹیلی ویژن چینلس ٹائمز ناو اور زی ٹی وی کی سرزنش تو کی مگر کوئی سزا نہیں سنائی جو انہیں مستقبل میں اس طرح کی مذموم حرکت سے باز رکھ سکے۔ اس لیے یہ شتر بے مہار من گھڑت کہانیوں کی مدد سے بے قصور ملزمین کو مجرم قرار دے کر ان پر ظلم وجور کی راہ ہموار کردیتا ہے۔ عام لوگوں کا ماورائے قتل جیسے معاملات پر خوشیاں منانا ذرائع ابلاغ کی کرشمہ سازی ہے ۔یہ ناجائز گٹھ جوڑ عوام کی نظروں میں حقوق انسانی کی پامالی کو خوشنما بناکر پیش کرتا ہے اس لیے عوام نہ ہی اس کی نزاکت کو محسوس کرپاتے ہیں اور نہ اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کی خاطر میدان میں آتے ہیں۔ اس طرح انسانی حقوق کو مہذب انداز میں مذکورہ چاروں قوانین کے قدموں تلے کچلا جاتا ہے۔
سدھا بھاردواج اور شرجیل امام جیسے بے شمار لوگ فی الحال سرکاری ظلم وزیادتی کے شکار ہیں۔ یہ نہایت خوشی کا مقام ہے کہ ممبئی کی ایک خصوصی این آئی اے عدالت نے سدھا بھاردواج کو پچاس ہزار روپے کے مچلکے پر جیل سے رہا کرنے کا حکم دے دیا ہے لیکن اس کی راہوں میں جو قانونی موشگافیاں ہوئیں انہیں دیکھ کر اگر شرم نہیں تو کم ازکم ہنسی ضرور آتی ہے۔ اس مخلص سماجی کارکن کو تین سال اور چار ماہ بعد باعزت بری نہیں کیا گیا بلکہ صرف ضمانت دینے کا احسان کیا گیا اور یہ کام اس لیے نہیں کیا گیا کہ یہ ان کا حق ہے بلکہ اس لیے کہ ان کی گرفتاری کے وقت عدلیہ سے ایک تکنیکی غلطی ہوگئی تھی جس کی بنیاد پر انہیں ضمانت مل گئی۔ یعنی اگر سرکار سے وہ بھول چوک نہیں ہوئی ہوتی تو انہیں نہ جانے کب تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہنا پڑتا۔ سرکار کی یہ غلطی بھی کم دلچسپ نہیں ہے۔ ہائی کورٹ کی نظر میں قومی تفتیشی ایجنسی طے
شدہ مدت میں چارج شیٹ داخل کرنے میں ناکام رہی۔ اس بنیاد پر انہیں ’’ڈیفالٹ بیل‘‘ (از خود ضمانت) کا حقدار قرار دیا گیا ۔
یلغار پریشد کے معاملے میں سدھا بھاردواج کے علاوہ ان کے دیگر ساتھیوں مثلاً سدھیر ڈاؤلے، ورورا راؤ، رونا ولسن، سریندر گاڈلنگ، پروفیسر شوما سین، مہیش راؤت،ورنن گونزالویس اور ارون فریرا کی ضمانت درخواستوں کو خارج کردیا گیا حالانکہ ان کی فردِ جرم بھی تاخیر سے داخل کی گئی تھی لیکن عدالت عالیہ انہیں ضمانت نہیں دی، اس لیے کہ ان کے تعلق سے وہ نسیان سرزد نہیں ہوا تھا جو سدھا بھاردواج کے معاملے میں ہوا تھا۔ بامبے ہائی کورٹ میں جسٹس ایس ایس شندے اور جسٹس این جے جمعدار کے مطابق یو اے پی اے ( انسداد غیر قانونی سرگرمیاں ایکٹ) کے تحت درج کردہ مقدمہ میں چارج شیٹ فائل کرنے میں طے شدہ وقت کی توسیع کا اختیار اس خصوصی عدالت کو ہی تھا جو اس معاملے کی شنوائی کی اہل ہے۔ تفتیشی ایجنسی این آئی اے (پونے) کی عدالت کے جج کشور وڈانے کو یہ اختیار ہی نہیں تھا لیکن چونکہ انہوں نے غیر اختیاری طور پر اپنے حدود کو پامال کر دیا اس لیے سدھا چھوٹ گئیں۔ جسٹس وڈانے اگر معذرت چاہتے اور خصوصی عدالت سے رجوع کرنے کے لیے کہتے تو اب بھی وہ جیل میں بند ہی رہتیں۔ اس مقدمہ میں سرکاری سفاکی کا یہ عالم ہے کہ 82 سالہ فادر اسٹین سوامی کاعدالتی حراست میں ہی انتقال ہوگیا لیکن انہیں صحت کی بنیاد پر ضمانت نہیں دی گئی۔
مرکزی حکومت کے اشارے پر ناچنے والی این آئی اے نے ضمانت کی مخالفت میں عدالت عظمیٰ سے رجوع کرنے کا شرمناک فیصلہ کیا مگر وہاں بھی اسے منہ کی کھانی پڑی۔ سپریم کورٹ نے این آئی اے کی عرضی خارج کر دی اور بامبے ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا ہےکیونکہ اس کے مطابق اس معاملے میں مداخلت کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ عدالتِ عظمیٰ نے تسلیم کیا کہ زیریں عدالت کے پاس این آئی اے کیس کی سماعت کا اختیار نہیں تھا۔ یہ سوال بھی ہوا کہ جو عدالت یو اے پی اے کے تحت نظر بندی کی مدت بڑھانے کی اہل نہیں تھی اس نے ایسی حرکت کیوں کی اور اگر زیریں عدالت نے وقت نہ دیا ہوتا تو کیا ہوتا؟ یہ ایک تکلیف دہ صورتحال ہے۔ کسی بھی ضمانت کو مخصوص شرائط کے تحت منظور کیا جاتا ہے۔ اب جو این آئی اے اس ضمانت سے ہی اتفاق نہیں کرتی اس کی عدالت کو شرائط وضع کرنے کا عجیب وغریب فیصلہ بھی عدالتِ عالیہ نے دے دیا ہے حالانکہ یہ کام بھی اسے خود کرنا چاہیے تھا۔ ممکن ہے ایک حد سے زیادہ سرکار کی ناراضی مول لینے سے یہ احتیاط کا معاملہ ہوا ہو؟ بہرحال
این آئی اے کی خصوصی عدالت نے اس موقع کا خوب فائدہ اٹھایا اور مچلکہ کے علاوہ کئی نامعقول پابندیاں لگا دیں مثلاً یہ کہ وہ عدالت کے دائرہ اختیار میں رہیں اور اس کی اجازت کے بغیر ممبئی سے باہر نہ جائیں ۔اس پابندی کے خلاف بھاردواج کے وکیل کی دلیل تھی کہ چونکہ سدھا بھاردواج پیشے سے وکیل ہیں اس لیے انہیں اپنے روزگار کے لیے چھتیس گڑھ، ممبئی اور دلی جیسے مقامات پر جانے کی ضرورت پیش آتی ہے لیکن کورٹ نے اس جائز مطالبے کو خارج کر دیا۔ مسئلہ روزگار کا نہیں بلکہ ان مقدمات کی نوعیت کا ہے جن کی پیروی وہ کرتی ہیں۔ حکومت نہیں چاہتی کہ ان دبے کچلے لوگوں کی آواز بلند ہو جن کے لیے سدھا بھاردواج لڑتی ہیں۔ اس کے ساتھ انہیں اپنے گھر کا پتہ، فون نمبر اور ہمراہ رہنے والے لوگوں کی تفصیلات بھی دینے کے لیے کہا گیا جیسے وہ کوئی خطرناک مجرم ہوں اور مشکوک لوگوں کے درمیان رہتی بستی ہوں۔ سماعت کے دوران عدالت میں موجود رہنے کی تلقین بے معنیٰ ہے کیونکہ وہ خود بری ہونے کے لیے ایسا ہی کریں گی۔ سدھا بھاردواج پر عدالت کے ذریعہ اس معاملے میں عوامی طور پر کوئی تبصرہ کرنے اور میڈیا سے گفتگو پر روک لگانا کھلی زیادتی معلوم ہوتی ہے۔ ایسے میں ان کے حالات اور کیفیت پر علامہ اقبال کے یہ دونوں اشعار پوری طرح صادق آتے ہیں؎
یہ دستورِ زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری
اُٹھائے کچھ وَرق لالے نے، کچھ نرگس نے، کچھ گُل نے
چمن میں ہر طرف بِکھری ہُوئی ہے داستاں میری
ایک طرف تو سدھا بھاردواج اور ان کے ساتھیوں پر اس قدر پابندیا ں لگائی جارہی ہیں اور دوسری جانب بھیما کوریگاؤں تشدد کی سازش رچنے والے اصل ملزم سمبھاجی بھڑے اور ملند ایکبوٹے جن کو سپریم کورٹ تک نے حکومتی دباو کے باوجود پیشگی ضمانت دینے سے انکار کردیا تھا، آزاد گھوم رہے ہیں ۔سدھا بھاردواج کی سماجی خدمات کا اعتراف خود بی جے پی سرکار بھی کرچکی ہے۔ چھتیس گڑھ میں بی جے پی کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر رمن سنگھ نے2014ء میں انہیں ہائی کورٹ کے اندر صوبائی قانونی خدمات کمیٹی کا رکن مقرر کیا تھا۔ مودی یگ میں انہوں نے 2016ء تک یہ ذمہ داری نبھائی۔ جگدلپور بستر کی زیادتی کے معاملے میں قومی انسانی حقوق کمیشن نے گرفتاری سے قبل سدھا بھاردواج کو تفتیشی رپورٹ تیار کرنے کی ذمہ داری تفویض کی تھی مگر اچانک ایک سال کے بعد وہ ملک کی غدار قرار دے دی گئیں اور حکومت کا تختہ الٹنے کا الزام لگادیا گیا ۔ کیا حکومت کے خفیہ اداروں کو اس بات کا علم نہیں تھا؟ کسی معاشرے میں اگر انسانی حقوق کے رکھوالوں کو ہی جیل بھیج دیا جائے تو عام لوگوں کے حقوق کی حفاظت کون کرے گا؟
سدھا بھاردواج کی ذاتی زندگی بھی سماج میں کام کرنے والوں کے لیے مشعل راہ ہے۔ وہ کسی ریلوے اسٹیشن پر چائے بیچتے بیچتے محل میں نہیں پہنچیں بلکہ نہایت خوشحال گھرانے سے نکل کر غریبوں میں آئیں۔ انہوں نے اپنی ساری زندگی مفلس قبائلی لوگوں کی فلاح وبہبود کے لیے وقف کر دی اور عمر کا ایک طویل عرصہ مزدوروں کے کیمپ میں گزارا۔ ان کی پیدائش امریکا میں ہوئی اس لیے ان کے پاس امریکی شہریت تھی۔ ان کے والدین ماہرین معیشت تھے۔ والدہ کرشنا بھاردواج کو جے این یو میں معاشیات اور منصوبہ بندی کا شعبہ قائم کرنےکا اعزاز حاصل ہے۔ ان کی ابتدائی تعلیم برطانیہ کے کیمبرج میں ہوئی اور پھر وہ دلی آگئیں۔ آئی آئی ٹی کانپور سے انہوں نے گریجویشن میں اول مقام حاصل کیا اور پھر دلی پبلک اسکول میں دوسال معلمہ کی حیثیت سے ذمہ داری نبھائی لیکن اس کے بعد اپنا کرئیر بنانے کے بجائے خدمت خلق کے لیے اپنی زندگی لگا دینے کا جرأتمندانہ فیصلہ کیا۔
1986ء میں قبائلی مزدوروں کے حقوق کی خاطر لڑنے کے لیے وہ چھتیس گڑھ جاکر ٹریڈ یونین سے منسلک ہوگئیں اور آگے چل کر ملک میں انسانی حقوق کی سب سے بڑی تنظیم پیوپلس یونین فارسول لبرٹیز کی جنرل سکریٹری کی اہم ذمہ داری نبھائی۔ اس طرح انہوں نے اپنا معیار زندگی تباہ کرکے دوسروں کی ترقی کے لیے غیر معمولی قربانی پیش کی۔ ان کی وکالت کا معاملہ بھی بہت دلچسپ ہے۔ 1992ء میں معروف صنعتی شہر بِھلائی میں پولیس کی گولیوں سے 17 مزدور بھون دیے گئے۔ ان لوگوں کو انصاف دلانے کی خاطر سدھا بھاردواج نے 1997ء سے 2000ء کے درمیان وکالت کی ڈگری حاصل کی اور بڑی یکسوئی کے ساتھ 2015ء تک ان غریبوں کے مقدمات کی پیروی کرتی رہیں۔ یہ کس قدر شرمناک بات ہے کہ ایسی بے لوث اور جانباز خاتون جہدکار کو جسے دورانِ گرفتاری معروف عالمی ادارے ہارورڈ لاء اسکول نے یوم خواتین کے موقع پر اعزاز سے نوازا تھا ہماری بے حس سرکار نے جیل بھیج دیا۔ مودی سرکار ناانصافی کے اس داغ کو اپنے دامن سے کبھی نہیں دھو پائے گی ۔
شرجیل امام کی ضمانت بھی اتفاق اسی دن منظور ہوئی جس دن سدھا بھاردواج کو رہائی ملی۔ شرجیل کی عمر تو کافی کم ہے مگر ان کی قربانی سدھا بھاردواج سے کم نہیں۔ شرجیل امام کو جس وقت گرفتار کیا گیا وہ جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے اسکالر تھے۔ ان کا بچپن پٹنہ میں گزرا، انہوں نے سینٹ زیویرز اسکول پٹنہ سے دسویں پاس کیا۔ شرجیل کے اساتذہ ان کی کتب بینی سے حیران تھے اور انہیں کتابی کیڑا کہا کرتے تھے۔ وسنت کنج کےدلی پبلک اسکول سے انہوں نے بارہویں کے بورڈ کے امتحانات امتیازی نمبروں سے پاس کیے۔ انہیں کمپیوٹر سائنس میں غیر معمولی یعنی 98 فیصد نمبر ملے۔ اس کے بعد شرجیل نے بھی آئی آئی ٹی ممبئی سے کمپیوٹر سائنس میں بی ٹیک اور ایم ٹیک کیا۔ انہیں اسی ادارے میں اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے تدریسی خدمات انجام دینے کا موقع ملا جو معمولی اعزاز نہیں ہے۔ قسمت نے شرجیل کا ساتھ دیا اور ان کو ڈنمارک میں ملازمت مل گئی جہاں وہ ہر ماہ دس ہزار امریکی ڈالر سے زیادہ کماتے تھے مگر ان کا دل نوکری میں نہیں لگا اور مزید اعلیٰ تعلیم کے لیے وطن لوٹ آئے۔ جے این یو میں علوم تاریخ میں ایم اے کے بعد پی ایچ ڈی میں داخلہ لینے والے ہونہار جہد کار کو مودی سرکار نے بغاوت اور دیگر کئی بےبنیاد الزامات میں جیل بھیج دیا۔
این آر سی تحریک کے دوران آسام کے بارے میں علی گڑھ یونیورسٹی میں ایک تقریر کا بتنگڑ بنا کر شرجیل امام کو بہار کے جہاں آباد سے گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا گیا حالانکہ ان کے وکلا نے اسے خودسپردگی کہا ہے۔ شرجیل امام پر اتر پردیش میں بغاوت کا مقدمہ دائر کیا گیا مگر نومبر کے اواخر میں انہیں الٰہ آباد ہائی کورٹ نے ضمانت دے دی۔ علی گڑھ سول لائنز تھانہ میں درج ایف آئی آر میں ان پر ملک سے بغاوت اور مذہبی منافرت کو بڑھاوا دینے کا الزام لگایا گیا تھا۔الٰہ آباد ہائی کورٹ نے اپنے ضمانتی حکم نامے میں صاف کہا کہ شرجیل امام نے جنوری 2019ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اپنی تقریر میں تشدد پر ابھارنے یا ہتھیار اٹھانے کی ترغیب نہیں دی تھی۔ یہ یوگی سرکار کے لیے یہ فیصلہ کرارا طمانچہ تھا۔ جسٹس سومِترا دیال سنگھ نے یہ بھی تسلیم کیا کہ شرجیل امام کی تقریر کے نتیجے میں کوئی تشدد برپا نہیں ہوا تھا۔
اس فیصلے پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ان کے چھوٹے بھائی مزمل امام نے کہا تھاکہ یہ ان کی رہائی کی سمت میں ایک اور قدم ہے جو ثابت کرتا ہے کہ آخرکار جھوٹے پروپیگنڈے اور انتقامی مخاصمت پر سچائی کی فتح ہوتی ہے۔ شرجیل امام کو اروناچل پردیش اور آسام میں اسی تقریر کے معاملہ میں پہلے ہی ضمانت مل چکی تھی تاہم وہ دلی کی تہاڑ جیل میں دلی فسادات کی سازش سے متعلق کیس اور جامعہ تشدد سے متعلق مقدمہ میں قید ہیں۔ یہ عجیب الزام ہے کہ پولس حراست میں ہونے کے باوجود بھی شرجیل نے سازش رچی تھی اور اس کو عملی جامہ بھی پہنا دیا تھا۔ مگر پولیس نے الزام لگانے یا فرد جرم عائد کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا۔ ایسا تو ہندی فلموں میں بھی نہیں ہوتا۔ اب دلی کی عدالت نے بھی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں مبینہ طور پر اشتعال انگیز تقریر کرنے کے الزام میں شرجیل امام کو ضمانت دے دی۔ اس بے بنیاد مقدمہ میں دلی پولیس نے ان کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 124 اے (بغاوت) اور 153 اے (مذہب، نسل، جائے پیدائش، رہائش کی بنیاد پر بدامنی یا دشمنی کے جذبات کو فروغ دینے یا فروغ دینے کی کوشش) کے تحت ایف آئی آر درج کی تھی۔ اکتوبر 2021ء میں شرجیل امام نے اپنی ضمانت کی درخواست میں دلی کی ایک عدالت کو بتایا تھا کہ وہ دہشت گرد نہیں ہیں اور ان کا مقدمہ ’قانون کے ذریعے قائم حکومت کا قدم نہیں بلکہ آمریت کا کوڑا ہے۔‘ شرجیل امام کا سرکار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ کہنا بتاتا ہے کہ وہ ظالموں سے بالکل خوفزدہ نہیں ہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب سرکار ان سے ڈر گئی ہے۔ سدھا بھاردواج اور شرجیل امام ملک میں انسانی حقوق کی جدوجہد کے حوالے سے امید کی وہ کرن ہیں جن سے ملک کا مستقبل روشن نظر آتا ہے۔ ان رہنماوں پر علامہ اقبال کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
میں ظُلمتِ شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شررفشاں ہوگی آہ میری، نفَس مرا شعلہ بار ہو گا

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  19 تا 25 دسمبر 2021