چاول کی کاشت میں کمی ،ماحولیاتی تبدیلی اہم وجہ

انسان اپنی عارضی آسائشوں کے لیے اس کرہ ارض کے ماحول کو خراب کر رہا ہے

از : زعیم الدین احمد، حیدرآباد

ماہرین زراعت اور تاجران دھان نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ اس سال چاول کی پیداوار میں بھاری کمی واقع ہو گی۔ چند سال قبل دھان پیدا کرنے والی ریاستوں نے چاول کی ریکارڈ پیداوار کی تھی، جس میں پنجاب، تلنگانہ، بہار وغیرہ ریاستیں قابل ذکر ہیں۔ صرف ریاست تلنگانہ میں ایک اعشاریہ چھ کروڑ ٹن دھان کی پیداوار ہوئی تھی۔ ملک بھر میں اس سال خریف کے موسم میں تقریباً دس فیصد حصہ پر دھان کی بویائی کم کی گئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کم حصہ زمین پر بویائی کی وجہ سے پیداوار توقع کے مطابق نہیں ہو گی۔ چنانچہ اسی وجہ سے اس سال ملک میں چاول کی پیداوار میں بھاری کمی واقع ہو گی جس کا تخمینہ 80 لاکھ ٹن لگایا جا رہا ہے۔
پیداوار میں کمی کی کئی ایک وجوہات ہو سکتی ہیں جن میں سے ایک وجہ جو سب سے زیادہ اہم ہے وہ ہے ماحولیاتی تبدیلی۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پودوں پر اناج کی بالیں کم ہونے لگتی ہیں جو کم پیداوار کا سبب بنتی ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے موسم میں اچانک تبدیلی نوٹ جا رہی ہے، نہ صرف موسمی تبدیلیاں واقع ہو رہی ہیں بلکہ ان میں شدت بھی پیدا ہو رہی ہے۔ موسم کا شدت اختیار کرنا ایک غیر معمولی کیفیت ہے چاہے وہ کوئی بھی موسم ہو۔ پہلے موسم گرما اتنا شدید نہیں ہوتا تھا جتنا آج کل محسوس کیا جا رہا ہے۔ آپ نے پڑھا ہو گا یا خبروں کے ذریعے سنا ہوگا کہ اس سال گرمی کی شدت میں اضافہ ہوا ہے، اسی طرح موسم برسات میں بھی بارشیں بھی بہت زیادہ ہونے لگی ہیں۔ اور اب تو تقریباً ہر برسات کے موسم میں بڑے شہر گویا تیرنے لگتے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے ایک ہی ملک میں کہیں سیلاب آتے ہیں تو کہیں قحط سالی ہوتی ہے۔ یہ سب ماحولیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے۔ اسی وجہ سے موسموں میں شدت آتی جا رہی ہے۔ موسموں کی یہ کیفیت صرف ہمارے ہی ملک میں نہیں ہے بلکہ پوری دنیا میں پائی جاتی ہے۔ ہمارے ملک کے مشرقی خطے کا حال دیکھ لیجیے، مشرقی یو پی، بہار، بنگال میں ابھی تک بارش کا نہ ہونا تعجب خیز امر ہے۔ بعض علاقوں میں ہوئی بھی تو وہ ناکافی ہے جو معمول سے چالیس فیصد کم ہے۔ عام طور پر کسان جولائی و اگست کے مہینوں میں دھان کی بویائی کرتے ہیں۔ ان مہینوں میں بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے کسان اپنے وقت پر بویائی نہیں کر سکے۔ ان کسانوں نے دھان کی اس قسم کو بویا ہے جسے جزوقتی کہا جاتا ہے یہ دھان کی وہ قسم ہوتی ہے جس کی فصل دو سے ڈھائی ماہ میں تیار ہو جاتی ہے۔ اس قسم کے دھان کی فصل سے پیداوار کم ہوتی ہے اور وہ معیاری بھی نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس ہمہ وقتی بوئی جانے والی دھان کی قسم سے پیداوار اچھی ہوتی ہے اور اس کا معیار بھی بہت اچھا ہوتا یے۔ مثال کے طور پر خریف میں بوئی جانے والی دھان کی قسم سے ایک ایکڑ زمین پر عام طور پر تقریباً بائیس کوئنٹل دھان پیدا ہوتا ہے بشرطیکہ بارشیں اپنے وقت پر ہوں اور معمول کے مطابق ہوں۔ کیوں کہ اگر بارشیں اپنی وقت پر اور معمول کے مطابق ہوں گی تو کاشتکار جزوقتی قسم کی دھان بوئیں گے اور اگر وہ معیاری قسم کے دھان کی بویائی کرتے ہیں تو انہیں پیداوار کی کمی کے علاوہ مزید دوسرے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
دوسری جانب وسطی ہند کی ریاستیں جیسے مدھیہ پردیش اور مہاراشٹر میں شدید بارشوں کا سلسلہ جاری ہے اور سیلاب جیسی صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔ یہاں بارشیں تو اپنے وقت پر شروع ہوئیں اور کسانوں نے بھی اپنے وقت پر دھان کی بویائی کی لیکن بہت زیادہ بارشوں نے ان کی بوئے ہوئے دھان کو تباہ کر دیا۔ جب بارشیں رکیں تو کسانوں نے دوبارہ دھان کی بویائی کی لیکن اس مرتبہ انہوں نے وہی کم معیاری دھان بویا جس کا اوپر ذکر آ چکا ہے جسے جز وقتی کہا جاتا ہے۔ چنانچہ یہاں بھی وہی مسئلہ درپیش ہو گا یعنی پیداوار میں کمی واقع ہو گی۔ ملک کے ایک حصے میں کم بارشیں اور خشک سالی ہے تو دوسری طرف سیلابی صورتحال ہے۔ اسی کو سخت موسم یعنی extreme weather کہا جاتا ہے۔ یہ ماحولیاتی تبدیلی ہی کا نتیجہ ہے کہ موسموں میں توازن درہم برہم ہوتا جا رہا ہے۔
پنجاب و ہریانہ ایسی ریاستیں ہیں جہاں بڑے پیمانے پر چاول کی پیداوار ہوتی ہے لیکن یہاں بھی ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پیداوار میں کمی واقع ہوئی ہے۔ پچھلے سال ربیع کے موسم میں نہ صرف دھان بلکہ گندم کی پیداوار میں بھاری کمی دیکھی گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں پر کسان ربیع کے موسم میں گندم کی کاشت کرتے ہیں کیوں کہ یہ موسم سرد ہوتا اور گندم کی کاشت کے لیے موزوں ہوتا ہے، لیکن پچھلے سال ربیع کے موسم میں شدت کی گرمی ہونے کی وجہ سے گندم کی پیداوار میں بھاری کمی واقع ہوئی۔ سرما کا موسم اور شدت کی گرمی! یہ ماحولیاتی تبدیلی کا ہی نتیجہ ہے۔ جنوبی ریاستوں میں بھی ربیع کے موسم میں باریک چاول کی کاشت نہیں کی جاتی کیوں کہ یہاں موسم شدید ہوتا ہے جس سے چاول میں ٹوٹ زیادہ ہوتی ہے اسی وجہ سے یہاں کے کسان موٹے چاول کی کاشت کرتے ہیں، اگرچہ موٹے چاول میں بھی ٹوٹ ہوتی ہے لیکن اتنی نہیں ہوتی جتنی باریک چاول میں ہوتی ہے۔ ربیع میں بھی پیداوار کم ہوئی اور موجودہ حالات کے تناظر میں خریف میں بھی پیداوار کم ہونے کا قوی اندیشہ ہے۔ پیداوار کی کمی کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ چاول مزید مہنگے ہو جائیں گے۔ ساہو کار اس موقع کا استحصال کریں گے، جبکہ پہلے ہی ہمارا ملک افراط زر کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے اس پر یہ اناج کی پیداوار میں کمی کیا ظلم ڈھائے گی اس کا اندازہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اور یہ کمی صرف چاول کی پیداوار کی حد تک نہیں ہے بلکہ دالوں کی پیداوار میں کمی واقع ہو گی۔ ہمارا ملک دالوں کی پیداوار میں آج تک بھی خود مکتفی نہیں ہو پایا ہے۔ ہمارا ملک دالوں کو درآمد کرتا ہے۔ پیداوار میں کمی کی وجہ سے ان کی قیمتیں بھی آسمان کو چھونے لگیں گی جو پہلے ہی سے آسمان پر ہیں۔ مہنگائی نے پہلے ہی سے عام شہریوں کی کمر توڑ دی ہے اس پر مزید پیداوار میں کمی ان کو بدترین حالات کی طرف لے جائے گی۔ اس وقت حکومت عوامی تقسیم کے نظام کے تحت صرف چاول مہیا کرتی ہے دیگر اشیائے خوردونوش تو عوام کو خرید کر ہی استعمال کرنا پڑتا ہے۔ حکومت اس چاول کو بھی صحیح طریقے سے تقسیم نہیں کرتی، اسے گوداموں میں ذخیرہ کرکے رکھتی ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ وہ عوام کے لیے سستے داموں پر مہیا کرتی، لیکن اسے عوام کا کہاں خیال، اسے تو اپنے ساہو کاروں کی فکر رہتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اس ہائی انفلیشن کو کنٹرول کرے، قیمتوں کو قابو میں رکھنے کے اقدامات کرے تاکہ عوام کو راحت ملے۔
ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے عوام میں بھی شعور پیدا ہونا چاہیے، عوام کو سوچنا چاہیے کہ آخر ان موسموں میں اتنی حیرت انگیز تبدیلیاں کیوں آ رہی ہیں؟ ہر سال شہروں میں سیلاب کیوں آ رہے ہیں، بارشیں اتنی شدید کیوں ہو رہی ہیں یا پھر تاخیر سے کیوں ہو رہی ہیں، کسی جگہ سیلاب ہے تو کہیں قحط سالی، ہر سال موسم گرما میں شدت کی گرمی اور دھوپ کی تمازت میں اضافہ کیوں ہوتا جا رہا ہے۔ آخر اتنے بڑے پیمانے پر ماحولیاتی تبدیلی کیوں واقع ہوئی ہے؟ یقیناً یہ قدرتی نظام میں مداخلت ہی کا نتیجہ ہے۔ اس پر ہم سب کو غور کرنا چاہیے اور ماحولیاتی نظام کو درست کرنے کے اقدامات کرنے چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کرہ ارض کو انسانوں کے فائدے کے لیے بنایا ہے اسے مفید بنائے رکھنا ہمارے فرائض میں داخل ہے۔ انسان اپنی عارضی آسائشوں کے لیے اس کرہ ارض کے ماحول کو خراب سے خراب تر کر رہا ہے۔ وہ اس بات کو سمجھ نہیں رہا ہے یا تجاہل عارفانہ سے کام لے رہا ہے کہ اس کرہ ارض کی خرابی کے اثرات راست اسی پر مرتب ہوتے ہیں۔ اپنی سہولتوں اور ضرورتوں کے لیے وہ غیر فطری طریقے اختیار کرتا جا رہا ہے۔ دریاؤں پر بڑے بڑے ڈیم بنانا اس کی ضرورت تو ہو گی لیکن ان کے فطری بہاؤ کو روک کر نہیں۔ دریاؤں کے بہاؤ کو موڑ کر ڈیموں کی تعمیر سے کچھ سالوں تک فائدہ تو ہو گا لیکن اس کے دور رس نتائج بھی اسے بھگتنے پڑیں گے۔ جہاں ڈیم ہوں گے وہاں پر رطوبت کی وجہ سے گرمی میں اضافہ ہو گا۔ وہی شہر جہاں کا ماحول ڈیم کی تعمیر سے پہلے معمول کے مطابق ہوا کرتا تھا اب اس میں غیر معمولی تبدیلی رونما ہو گئی ہے۔ ایک اور مسئلہ دریاؤں کو مربوط کرنا بھی ہے، دریاؤں کو آپس میں مربوط کرنا بھی ایک خطرناک منصوبہ ہے۔ اس پر ایک مضمون ‘ہفت روزہ دعوت’ کے اگلے شماروں میں پیش کیا جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ فطری قوانین میں انہی بے جا مداخلتوں کی وجہ سے ماحولیاتی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ ملک کے تمام شہریوں کی خاص طور پر مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ماحولیاتی بگاڑ کو ہر سطح پر روکیں اور ساتھ ہی ساتھ اخلاقی بگاڑ کو بھی۔
***

 

***

 پیداوار کی کمی کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ چاول مزید مہنگے ہو جائیں گے۔ ساہو کار اس موقع کا استحصال کریں گے، جبکہ پہلے ہی ہمارا ملک افراط زر کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے اس پر یہ اناج کی پیداوار میں کمی کیا ظلم ڈھائے گی اس کا اندازہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اور یہ کمی صرف چاول کی پیداوار کی حد تک نہیں ہے بلکہ دالوں کی پیداوار میں کمی واقع ہو گی۔ ہمارا ملک دالوں کی پیداوار میں آج تک بھی خود مکتفی نہیں ہو پایا ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  11 ستمبر تا 17 ستمبر 2022