ڈاکٹر سلیم خان ، ممبئی
گؤ سیوا کے نام پر لوٹ مار کا ڈھونگ جاری۔ خود ساختہ گؤ رکھشک گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب
ایوان پارلیمان کے اندر جن لوگوں کی تقاریر بہت مقبول ہوتی ہیں ان میں سے ایک ٹی ایم سی کی رکن مہوا موئترا ہیں۔ اس بار انہوں نے ایک ٹویٹ کے ذریعہ اپنے بی جے پی مخالفین کو بڑے دلچسپ انداز میں خبردار بلکہ چیلنج کیا۔ انہوں نے لکھا کہ ’میں لوک سبھا میں صدارتی خطاب پر بولنے جارہی ہوں ۔ (اس موقع پر) بی جے پی سے کہنا چاہوں گی کہ وہ اپنے ہیکلر(رکاوٹ ڈالنے والی ) ٹیم کو تیار کرلیں اور گؤ موتر(گائے کا پیشاب)کے کچھ شاٹ(گھونٹ) بھی پی کر آئیں‘‘۔ ترنمول کانگریس کی اس تیز طرار رہنما کے ٹویٹ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ فی الحال گؤ موتر کس طرح ہندوستانی سیاست کے اندر سرائیت کرچکا ہے۔ ایک زمانے میں چائے پر چرچا ہوا کرتی تھی مگر اب گائے پرسیاست اور قتل و غارتگری تک ہوجاتی ہے ۔ مرکز اور کئی ریاستوں میں فی الحال ایک گؤ سیوک سرکار حکومت کررہی ہے اس وجہ سے خود ساختہ گؤ رکھشکوں کے حوصلے بہت بلند ہیں۔ اس تناظر میں ایک ساتھ مدھیہ پر دیش میں سامنے آنے والے دو واقعات قابلِ توجہ ہیں ۔
مدھیہ پردیش کے رتلام شہر میں وریندر راٹھوڑ نامی ایک بدمعاش نے سیف الدین نام کے ایک بزرگ کو گائے پر پیشاب کرنے کے الزام میں زدو کوب کیا اور خود ہی اس کی ویڈیو بنواکر وائرل کردی۔ اس ویڈیو میں سیف الدین کی ٹوپی اترواکر اسے قدموں تلے کچلنے کو کہا جارہا ہے اوربر ابھلا کہتے ہوئے تھپڑ برسائے جارہے ہیں۔ اس طرح زور زبردستی سے اسے ایک ایسا جرم قبول کرنے پر مجبور کیا گیا جس کا اس نے ارتکاب ہی نہیں کیا تھا۔ اس ویڈیو کے بعد راٹھوڑ کے خلاف پولیس نے شکایت درج کی اور پوچھا کہ گائے کی ویڈیو دکھاو تو وہ موجود نہیں تھی ۔ اب وریندر راٹھوڑ جیل کی ہوا کھا رہا ہے اور سیف الدین کا کہنا ہے کہ جس طرح ان کی تذلیل ہوئی اسی طرح کا سلوک وریندر راٹھوڑ کے ساتھ بھی ہونا چاہیے۔ یہ بالکل حق بجانب مطالبہ ہے ویسے انہوں یہ بھی کہا راٹھوڑ کو اپنی حرکت پر کھلے عام معافی مانگنی چاہیے۔
اس کے برعکس بھوپال کے قریب بیرسیا گاوں کے گؤ سیوا بھارتی گؤ شالا میں 100 سے زیادہ گایوں کے موت کی خبر ذرائع ابلاغ میں نمودار ہوگئی مگر کسی گؤ رکھشک کو ان کی مزاج پرسی کاخیال نہیں آیا ۔ اس خبر کی تفتیش کے لیے جب روزنامہ بھاسکر کا نمائندہ رات ایک بجے وہاں پہنچا تو 500 سے زیادہ گائیں ٹھنڈ سے ٹھٹھر رہی تھیں اور ان میں سے ایک سب کے سامنے لڑکھڑا کر گری اوردس منٹ میں دم توڑ دیا۔ صبح ٹرالی بھر کر گایوں کی ہڈیاں وہاں سے نکالی گئیں۔ کروڑوں دیش بھکتوں کی ان لاوارث ماتاوں کے سر پر چھت نہیں تھی اور نہ چارے و پانی کا کوئی انتظام تھا۔ جہاں چارہ ڈالاجاتا ہے وہاں مٹی پڑی ہوئی تھی۔ انتظامیہ نے رات دس بجے ایک ٹرک بھوسا تو بھیجا لیکن کسی دیکھ ریکھ کرنے والے کا انتظام نہیں کیا اس لیے وہ گاڑی سے اتارا نہیں جاسکا ۔ اس طرح ابتداء میں گؤ شالا کے اندر سو سے زیادہ گایوں کے فوت ہونے کی خبر آئی ۔ ان میں سے 29؍ جنوری کی شب میں 8 گایوں کی موت ہوئی۔ گؤ شالا کے کنوئیں میں 20 گایوں کی لاشیں 80 بنجر1 میدان میں ملیں۔
دس ایکڑسرکاری زمین پریہ بیرسیا گاوں کی گؤ شالا بنائی گئی ہے ۔ اس کو چہار دیواری سے گھیرا بھی گیا ہے۔ آس پاس کے کسان اس گؤ شالا میں اپنے مویشی چھوڑ کر جاتے ہیں اور ان کی دیکھ بھال کے لیے سو دوسو روپیہ چندہ بھی دیتے ہیں۔ اس وارادت کے بعدپولیس نے پچھلے 20 سالوں سے اس کی دیکھ ریکھ کرنے والی نرملا دیوی چنڈالیا کے خلاف مقدمہ درج کرلیا۔ اس کے بعد سرکاری انتظامیہ نےگؤ شالا کا انتظام و انصرام اپنے ہاتھ میں تو لیا لیکن کوئی نگراں مقرر نہیں کیا ۔ یہی وجہ تھی کہ گائیں بھوک پیاس سے تڑپتی رہیں۔ چارے کی تلاش میں جب وہ تالاب کی جانب نکل گئیں تو آوارہ کتوں نے ان پر حملہ کردیا۔ ’گؤ ماتا‘ کا یہ حال اس بھوپال سے قریب کے گاوں میں ہورہا ہے جہاں بی جے پی نے ایک شعلہ بیان گؤ بھگت سادھوی پرگیہ ٹھاکر کو رکن پارلیمان بنا رکھا ہے ۔
پرگیا ٹھاکر کا دعویٰ ہے کہ گؤ موتراینٹی بایوٹیک ہے۔ وہ ہرروز اسے پیتی ہیں اس لیے انہیں کورونا نہیں ہوا۔ ہوسکتا ہے وہ اسی گؤ شالا کی گائے کا پیشاب پیتی ہوں اس لیے وہاں گایوں کی موت کے بعد سادھوی پرگیا کو کورونا ہوگیا ہے۔ پرگیا ٹھاکر کے کورونا سے متاثر ہونے کی خبر کسی کانگریسی نے نہیں پھیلائی بلکہ خود انہوں نے ٹویٹ کرکے بتائی۔انہوں نے بتایا کہ وہ ڈاکٹروں کی نگرانی میں ہیں حالانکہ انہیں یہ بتانا چاہیے تھا کہ ہنومان چالیسا کا پاٹھ زور و شور سے ہورہا ہے اور گؤ موتر کی خوراک بڑھا دی گئی ہے۔ اس کے ساتھ انہوں نے پچھلے دو دنوں میں اپنے رابطے میں آنے والوں کو بھی جانچ کرانے کی گزارش کی اور ان کی صحت کے لیے دعا کی۔ اس پر کانگریس کے ترجمان نریندر سلوجا نے چٹکی لیتے ہوئے ٹویٹ پر لکھا کہ گؤ موتر کا استعمال کرنے والی اور ہرروز چار پانچ مرتبہ ہنومان چالیسا کے ورد سے کورونا کو بھگانے والی اور شراب کو دوا بتا کر اس کی مقدار بتانے والی رکن پارلیمان کو کورونا ہونے کی خبر تعجب خیز ہے۔ ان کی صحت کے لیے دعا کرنے کے بعد یہ بھی کہا کہ لگتا ہے انہوں (پرگیا ٹھاکر) نے اپنے ساختہ حل کا خودد ہی استعمال نہیں کیا۔
پرگیا ٹھاکر اور ان گوڈسے پریم کے بارے میں قارئین پہلے بھی بہت کچھ جانتے ہیں لیکن لوگ سوچ رہے ہوں گے کہ آخر اس گؤ شالا کی منتظم نرملا دیوی کون ہیں؟ اپنا تعارف کراتے ہوئے نرملا کہتی ہیں کہ وہ بی جے پی کی رہنما ہیں اور گزشتہ تیس سال سے سرگرمِ عمل ہیں ۔ وہ بی جے پی کی بلاک صدر رہی ہیں ۔منڈی کی کمیٹی کی رکن بھی تھیں اسی لیے ان کو منڈی والی یا گؤ شالا والی میڈم کے نام سے یا د کیا جاتا ہے۔ وہ اس بات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ اتنی ساری گائیں موت کے منہ میں چلی گئیں۔ ان کا کہنا ہے ٹھنڈ کے سبب صرف 3-4 گائیں مری ہیں ۔ گؤ شالا میں چونکہ چھت نہیں اس لیے پولی تھین سے ڈھانپا جاتا ہے جو کافی نہیں ہے اور اس سے موت ہوجاتی ہے۔ نرملا دیوی کے بیان میں نہ تو کوئی افسوس ہے اور نہ تعجب ہے۔ اس بیان کو پڑھنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ ان کے لیے یہ ایک معمولی بات ہے۔
نرملا دیوی کو اپنی پارٹی کی حکومت سے یہ شکایت بھی کی کہ ایک گائے کی خدمت کے لیے انتظامیہ کی جانب سے ڈیڑھ روپئے ملتا ہے۔ اتنی کم رقم میں گائے کی خدمت کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس کے باوجود وہ اپنی سطح پر گؤ سیوا کررہی ہیں ۔ انہوں نے یہ الزام بھی لگایا کہ جو پولی تھین لگائی گئی تھی اس کو انتظامیہ نے نکال دیا۔ ایک گؤ بھکت سرکار کے اوپر یہ بہت ہی سنگین الزام ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’میں ایک عمر رسیدہ خاتون ہوں ۔ میرے خلاف الزامات لگائے جارہے ہیں اور مجھے پریشان کیا جارہا ہے‘‘۔ ایک بی جے پی کی کارکن کا اپنی سرکار کے خلاف یہ الزام نہایت شرمناک ہے۔ اس کے بعد گرفتاری کے ڈر سے وہ روپوش ہو گئیں ۔ نرملا دیوی نے دعویٰ تو خوب کیا مگر جب اس کی تفتیش شروع ہوئی تو دلچسپ حقائق سامنے آئے اور گؤ شالا کے نام پر چلنے والا گورکھ دھندا بھی بے نقاب ہوگیا ۔
2001 سے اس گؤ شالا کو چلانے والی نرملا دیوی کی کذب گوئی کو مسترد کرنے کے لیے آر ٹی آئی کے ذریعہ سامنے آنے والی ایک معلومات ہی کافی ہے جس میں بتایا گیا کہ پچھلے دو سالوں کے دوران انہیں سرکار کی طرف سے 21.09 لاکھ روپئے کی امداد مل چکی ہے۔ یہ رقم اس کے علاوہ ہے جو خود ان کے مطابق کسان دے جاتے ہیں اور اس کا کوئی حساب کتاب نہیں رکھا جاتا۔ ویسے مقامی ایس ڈی ایم دستاویز کی جانچ کررہے ہیں اور ممکن ہے ان کی رپورٹ میں اور بھی حیرت انگیز انکشافات ہوں مثلاً جے سی بی چلانے والے ڈرائیور شاہ رخ کا بیان ہے کہ صرف 100 نہیں 850 گایوں کی لاشوں کو دفنایا گیا ہے۔ ویسے سرکاری رپورٹ تو جب آئے گی تب آئے گی اور اس میں نرملا دیوی کو بچانے کی خاطر جو کیا جائے گا تو سو کیا جائے گا اس سے قطع نظر صحافیوں کے ذریعہ بھی بہت ساری عجیب و غریب تفصیلات ذرائع ابلاغ میں آرہی ہیں ۔
ہندو سماج انسانوں کے اندر نسل کی بنیاد پر تفریق و امتیاز کرتا ہے مگر گایوں کے درمیان یہ فرق افادیت کے سبب کیا جاتا ہے۔ اس گؤ شالا کے اندر گایوں کو دو حصوں میں یعنی دودھ دینے والی اور بانجھ گائے کے بیچ بھید بھاو برتا جاتا تھا ۔ نرملا دیوی دودھاری گایوں کا توخوب خیال رکھواتی تھیں ۔ ان کو بھرپور چارہ دیا جاتا اور سردی سے تحفظ کے لیے پلاسٹک سے ڈھانپا جاتا مگر دودھ نہیں دینے والی گایوں کو سوکھا چارہ اور گھاس تک سے محروم رکھا جاتا تھا ۔ اس لیے وہ گائیں بھوک سے بیمار ہوکر دم توڑ دیتی تھیں حالانکہ دونوں کی دیکھ ریکھ کے لیے سرکار کی مدد میں کوئی فرق نہیں ہوتا ہے۔ ایسا امتیاز تو قصائی بھی نہیں کرتے کجا کہ گائے کو ماں کا درجہ دینے والے کریں ۔ یہ گؤ بھگت گائے کو ماں کہہ کر اس کے نام پربڑی بڑی سرکاری زمینوں کو اپنی تحویل میں لیتے ہیں ۔ حکومت سے ان کی پرورش کے لیے مدد لے کر ان کے ساتھ ایسا برا سلوک کرتے ہیں ۔
سوال یہ ہے کہ کیا کوئی ماں اپنے بچوں کے ساتھ اس طرح کی تفریق کرسکتی ہے اور بچوں کو یہ زیب دیتا ہے ماں اور باپ میں فرق کریں ۔ ان میں سے جو کماتا ہو اس کا خیال کریں اور جو نہیں کماتا اسے بھوکا ماردیں؟ اس تناظر میں کانگریس کے رہنما دگ وجئے سنگھ کا الزام درست معلوم ہوتا ہے کہ کئی سالوں سے بی جے پی کی شنڈلیا کے زیر انتظام گؤ شالا میں چمڑے اور ہڈی کا کاروبار چل رہا تھا اور اسی وجہ سے وہاں 500پنجر ملے ہیں ۔ان کا مطالبہ ہے کہ نرملا پر گائے کے قتل کا مقدمہ درج کیا جائےنیز ہڈیوں اور چمڑے کے کاروبار کےعلاوہ گزشتہ سالوں میں ملنے والی سرکاری امداد کی بھی جانچ ہو۔ اس تنازع میں سیاستدانوں کے علاوہ سادھو سنت بھی شامل ہوگئےہیں۔ مرچی بابا نے گؤ شالا کا دورہ کرکے کہا کہ 500گائیں تڑپ تڑپ کر مرگئیں۔ انہوں نے وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ اور بہت بڑا ٹیکہ لگاکر خود کو یوگی کا وارث ثابت کرنے والے وزیر داخلہ نروتم مشرا کے طریقۂ کار کا موازنہ راون سے کردیا۔ مرچی بابا نے کہا کہ بی جے پی سرکار میں بھوک سےگائیں مررہی ہیں اس لیے اب وہ خود ریاست کی ساری گؤ شالاوں کا جائزہ لیں گے ۔
اس معاملے میں سرکار نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے ۔یہ وارادات اگر کانگریس کے دور میں وقوع پذیر ہوئی ہوتی تو بی جے پی والے آسمان سر پر اٹھالیتےمگر فی الحال گیروا ٹولہ گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہے ۔ ضلع کلکٹر اویناش لوانیا موقع واردات پر پہنچ کرمظاہرین کاغم و غصہ کو ٹھنڈا کرنے میں لگے ہیں۔ مرنے والی گایوں کی گنتی کرنی شروع کردی گئی ہے اور گؤ شالہ کا انتظام و انصرام اب انتظامیہ کے ہاتھوں میں ہے۔ وہ گؤ رکھشک جو گائے کے نام پر دنگا فساد کرتے ہیں ان میں سے کوئی بھی رضا کارانہ طور پر ان لاوارث گایوں کی دیکھ بھال کے لیے آگے نہیں آیا ہے۔ اس سے ان کے گؤ پریم کی پول کھل جاتی ہے۔ سرکاری افسروں نے گایوں کی موت کا سبب معلوم کرنے کی خاطر جانچ کرانے کا اعلان کیا اور کچھ پنجر تفتیش کے لیے بھیجے حالانکہ یہ وہ موت بھوک اور سردی سے ہوئی اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ انتظامیہ عوام کی توجہ ہٹانے اور ان کا غصہ کم کرنے کے لیے یہ لیپا پوتی کررہا ہے۔
گائے کے نام بی جے پی رہنما کی بدعنوانی تو اس مسئلہ کا پہلو ہے مگر ریاست اپنی ذمہ داری کس طرح ادا کررہی اس کی معلومات دے کر مدھیہ پردیش میں مویشیوں کی پرورش بورڈ کے نائب صدر اکھلیشور انند گری نے دے کر شیوراج چوہان سرکار کو ننگا کردیا۔ انہوں نے حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اول تو 20 روپئے میں گائے کا پیٹ نہیں بھرتا اور دوسرے کورونا کے بہانے اس کی ادائیگی میں تاخیر کی جاتی ہے۔اکھلیشورانند نے اعدادو شمار کی بنیاد پرگائے بھگت سرکار کی قلعی کھول دی ۔ انہوں نے بتایا 2018 میں کانگریس کی کمل ناتھ سرکار نے گؤ شالاوں کی دیکھ بھال کے لیے 150 کروڈ روپئے کا بجٹ رکھا لیکن اس کے بعد جب بی جے پی اقتدار میں آئی تو اس نے2021-22میں اسے گھٹا کر صرف 60 کروڈ کردیا۔ اس سے بڑا پاکھنڈ اور کیاہوسکتا ہے؟
اکھلیشورانند کے مطابق صوبے میں فی الحال 627نجی 951سرکاری گوشالائیں ہیں جن میں تقریباً2لاکھ 55 ہزار سے زیادہ گائے پلتی ہیں۔ ان کی دیکھ بھال کے لیےتقریباً 184 کروڑ روپیہ درکار ہے لیکن کسی سرکار نے اتنا بجٹ کبھی نہیں دیا۔ بیرسیا گاوں کی واردات کے بارے میںان کا خیال ہے چونکہ گائےڈھانچہ چند دنوں میں نہیں بنتا اس لیے یہ طویل مدت سے جاری لاپرواہی کا نتیجہ ہے۔ اب گؤ شالا کے خلاف ملنے والی شکایتوں کے ساتھ جانوروں کے ڈاکٹروں کی لاپرواہی کی بھی تفتیش کا حکم دیا گیا ہے۔ حکومت نےعوام سے ایک گائے کی خاطر یومیہ 10 روپیہ چندہ جمع کرنے کے لیے آن لائن انتظام کیا مگر گؤ رکھشکو ںنے اس میں دلچسپی نہیں لی۔ اس کا مطلب ہے کہ سرکار کے ساتھ افسران اور سماج سبھی اس میں حصہ دار ہیں۔
سرکاری کارکردگی کی تفصیل یہ ہے کہ اس نے ہر گؤ شالا کے لیے پانچ ایکڑ زمین کے حساب سے جملہ12,500؍ایکڑ زمین مہیا کرادی ۔ ان کی تعمیر کے لیے سرکاری اسکیم منریگا سے 900 کروڑکا اہتمام کیا مگر بدانتظامی کا کوئی حل نہیں ڈھونڈ سکی ۔ وسیع و عریض زمین دینے کا مقصد وہیں پر گائے کے لیے چارہ اگانا تھا لیکن ایسا نہیں ہوپایا یعنی باہر سے چارہ گری کرنی پڑی ۔ اکھلیشورانند کو یہ شکایت بھی ہے کہ سرکاری امداد کبھی پوری نہیں ملتی ۔ اس الزام کی حمایت میں انہوں نے ضلع شیو پوری کی مثال دی جہاں 31 گؤ شالاوں میں 3203 گائیں ہیں۔ان کے لیے 20 روپیہ یومیہ کے حساب سے76 لاکھ 80 ہزار کی رقم بنتی ہے مگر اس میں سے صرف 23 لاکھ کی ادائیگی ہوسکی ہے۔ اس الزام کی تصدیق کئی سرکاری افسر بھی کرتے ہیں کہ ادائیگی میں تاخیر ہوتی ہے جس سے گائیں بیمار ہوجاتی ہیں۔ ایسے میں اگر گائیں بھوک سے موت کے منہ میں چلی جائیں تو اس کے لیے سرکار بھی ذمہ دار ہے اور اس پر بھی گؤ ہتیا کا مقدمہ چلنا چاہیے۔
اس ملک کو ابھی حال میں کچھ سادھو سنتوں نے ہندوراشٹر قرار دے دیا اور وہ اس کا آئین لکھنے میں مصروف ہیں لیکن اس ہندو راشٹر کے ایک صوبے میں جہاں ڈبل انجنبھگوا دھاری سرکار ہے تین سال کے اندر 200 گؤ شالاوں کو بند کردیا گیا ان میں سے تین سرکاری بھی ہیں۔ ایک طرف تو یہ حالت ہے دوسری جانب سرکار کا مویشیوں کی پرورش کا شعبہ جملہ 627 میں سے 25 کے ہائی ٹیک ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ ان کا حال یہ ہے کہ وہاں گوبر کو کھاد بنانے کے لیے مشین تو لگائی گئی مگر بجلی کا بندو بست نہیں کیا گیا۔ اس لیے کئی مشینیں واپس چلی گئیں۔ اس کے علاوہ وزارت جنگلات کو 50 گؤ شالائیں بنانے کا ہدف دے کر30-30 لاکھ روپیوں کا بجٹ دیا گیا مگر ان میں 25 اس رقم کا استعمال ہی نہیں کرسکے اور وہ واپس ہوگئی کیونکہ انہیں زمین ہی مہیا نہیں کرائی گئی۔ اس طرح ڈھائی سال میں اب تک صرف 10 گؤ شالائیں ہی بن سکیں اور 15 زیر تعمیر ہیں۔
اس سے نام نہاد ہندو راشٹر کے اندر گائے کے تئیں محبت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔وزیر اعلیٰ شیوراج چوہان نےاس سال جنوری میں گؤ شالاوں کو خود مختار بنانے کے لیے جو بلند بانگ دعویٰ کیا تھا ان کی ہوا نکل چکی ہے۔ گوبر اور گؤ موتر کے حوالے سے ان کے سارے تجربات ناکام ہوچکے ہیں کیونکہ وہ ایک غیر فطری پروجکٹ پر کام کررہے ہیں۔ مدھیہ پردیش سے متصل تلنگانہ میں چونکہ گؤ کشی کا قانون نہیں ہے وہاں نہ تو کسان کو شکایت ہے اور نہ عوام کو ۔نہ سرکار پر دباو ہے اور نہ اس قسم کی بدعنوانی کا وجود ہے ۔ آخری بات یہ ہے کہ انتخابی پوسٹرس میں گائے کے ساتھ تصویر کھنچوا کر ووٹ مانگنے والوں کو اب اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہیے اور عام لوگوں کو ان کے فریب میں آنے کی بجائے ان سے سوال کرنا چاہیے کہ ’گؤ ماتا ‘کی خدمت کے نام پر لوٹ مار کا ڈھونگ آخر کب تک چلے گا؟۔
***
ہندو سماج انسانوں کے اندر نسل کی بنیاد پر تفریق و امتیاز کرتا ہے مگر گایوں کے درمیان یہ فرق افادیت کے سبب کیا جاتا ہے۔ اس گؤ شالا کے اندر گایوں کو دو حصوں میں یعنی دودھ دینے والی اور بانجھ گائے کے بیچ بھید بھاو برتا جاتا تھا ۔ نرملا دیوی دودھاری گایوں کا توخوب خیال رکھواتی تھیں ۔ ان کو بھرپور چارہ دیا جاتا اور سردی سے تحفظ کے لیے پلاسٹک سے ڈھانپا جاتا مگر دودھ نہیں دینے والی گایوں کو سوکھا چارہ اور گھاس تک سے محروم رکھا جاتا تھا ۔ اس لیے وہ گائیں بھوک سے بیمار ہوکر دم توڑ دیتی تھیں حالانکہ دونوں کی دیکھ ریکھ کے لیے سرکار کی مدد میں کوئی فرق نہیں ہوتا ہے۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 13 فروری تا 19فروری 2022