پولیس تھانے انسانی حقوق کے لیے بڑا خطرہ

چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا کی تشویش بجا

زعیم الدین احمد حیدرآباد

انصاف رسانی کو آسان اور قابل دسترس بنانے کی ضرورت
چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا نے گزشتہ دنوں نیشنل لیگل سرویس اتھاریٹی (ین اے یل یس اے) کے ایک پروگرام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’انسانی حقوق کے لیے خطرہ پولیس تھانوں میں سب سے زیادہ ہے کیونکہ ملک میں اب بھی حراستی تشدد اور پولیس کے دیگر مظالم ان تھانوں میں رائج ہیں یہاں تک کہ مراعات یافتہ افراد بھی "تھرڈ ڈگری سلوک سے نہیں بچ پاتے‘‘۔ انہوں نے وگیان بھون میں لیگل سروس موبائل ایپلی کیشن اور نالسا کے اغراض و مقاصد کے بیانیے کی اجرائی کے موقع پر اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’’پولیس افسروں میں حساسیت کو بڑھانے کے لیے ملک گیرسطح پر کوششیں ہونی چاہئیں‘‘ ۔ یہ موبائل ایپ غریب اور نادار لوگوں کی قانونی مدد کے لیے ہے، یہ انہیں درخواست دینے اور معاوضہ حاصل کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔
نالسا ایک ایسا ادارہ ہے جو معاشرے کے کمزور طبقات کو مفت قانونی خدمات فراہم کرتا ہے تاکہ تنازعات کا پُرامن حل نکالا جاسکےاور لوک عدالتوں کا قیام بھی عمل میں لایا جاسکے۔ یہ ادارہ قانونی خدمات بھی لیگل سروس اتھارٹی ایکٹ ۱۹۸۷ کے تحت تشکیل دیاگیا تھا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہر تھانے اور جیل خانوں کے باہر مفت قانونی امداد سے متعلق تختیاں (ڈسپلے بورڈز اور آؤٹ ڈور ہورڈنگس) نصب کی جانی چاہئیں تاکہ کمزور افراد اس سے فائدہ اٹھاسکیں، انہوں نے مزید کہا کہ نالسا کو پولیس افسروں کی ملک گیر حساسیت کو بھی پروان چڑھانے کے لیے فعال طور پر کام کرنا چاہیے۔
چیف جسٹس آف انڈیا نے اپنی تقریر کو جاری رکھتے ہوئے کہاکہ معاشرے میں قانون کی حکمرانی ہونی چاہیے۔ یہ ضروری ہے کہ انصاف ہر ایک کے لیے ہو۔ وہ جو مراعات یافتہ ہیں اور وہ جو انتہائی کمزور ہیں ان کے درمیان انصاف کے حصول میں کوئی فرق باقی نہیں رہنا چاہیے ۔ اگر ہم بطور ادارہ شہریوں کا اعتماد حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں کمزوروں کو یقین دلانا ہوگا کہ ہم ان کی خدمت کے لیے موجود ہیں، کیوں کہ ایک طویل عرصے سے کمزور افراد نظام انصاف سے اپنے آپ کو باہرمحسوس کرتے رہے ہیں ۔ ماضی کی غلطیاں مستقبل کے لیے مثال نہیں بننی چاہئیں، اس کے بجائے ہم سب کو مساوات کے لیے کام کرنا چاہیے ۔
انسانی حقوق اور انسانی سالمیت کے لیے خطرہ تھانوں میں سب سے زیادہ ہے۔ حراستی تشدد اور پولیس کے دیگر مظالم اب بھی ہمارے ملک میں ہوتے ہیں۔ دستوری و آئینی تحفظات اور ضمانتوں کے باوجود پولیس تھانوں میں تشدد اور مظالم ہوتے ہیں اور گرفتار یا زیر حراست افراد کے پاس موثرقانونی نمائندگی کے فقدان کی وجہ سے وہ بڑا نقصان اٹھاتے آئے ہیں ۔ وقت آگیا ہے کہ انتہائی مراعات یافتہ اور انتہائی کمزور افراد کے درمیان انصاف تک رسائی کے فرق کو ختم کیا جائے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ سماجی اور معاشی فرق جو ہمارے ملک میں پایا جاتا ہے حق وانصاف کے حصول میں رکاوٹ نہیں بن سکتا۔ مزید برآں قانونی امداد کے دستوری حق اور مفت قانونی امداد کی خدمات کی دستیابی کے بارے میں معلومات ہونے کی وجہ سے پولیس کی زیادتیوں کو بھی روکنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ رکاوٹیں جیسے انٹرنیٹ کنیکٹویٹی، طویل مشقت سے پُر اور قانونی لڑائی مہنگی ہونے کی وجہ سے کمزور افراد کے لیے حصولِ انصاف میں مشکلات وپریشانیوں میں اضافہ ہورہا ہے ۔ ہندوستان میں انصاف تک رسائی حاصل کرنا انتہائی مہنگا عمل بن
گیا ہے ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ میں نے ڈیجیٹل تقسیم کو ترجیحی بنیادوں پر ختم کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے حکومت کو خط لکھا ہے۔ وہ لوگ جن تک انصاف کی رسائی نہیں ہو پاتی ان کی اکثریت دیہی اور دور دراز علاقوں میں رہتی ہے جس کے پاس وسائل کی کمی ہے جس کے پاس آمدورفت کی سہولتیں موجود نہیں ہیں۔ دیہی اور شہری آبادی کے درمیان ڈیجیٹل تقسیم کے فرق کو ختم کرنا چاہیے۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ ڈاک کے نظام کو استعمال میں لاتے ہوئے عوام میں شعور بیدار کرنا چاہیے کہ وہ اب مفت قانونی امداد حاصل کر سکتے ہیں۔ اسی طرح ملک کے دور دراز علاقوں میں بسنے والے افراد تک قانونی خدمات کی رسائی کو وسعت دینے کے لیے بھی اس ڈاک کے نظام کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس موقع پر انہوں نے وکلاء اور بالخصوص تجربہ کار وکلاء سے کہا کہ وہ ایسے افراد کی مدد کریں جن کو قانونی مدد کی ضرورت ہو۔ انہوں نے میڈیا پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ نالسا کی خدمت کے پیغام کو پھیلانے کے لیے اپنی بے مثال صلاحیتوں کا استعمال کریں۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی گفتگو میں سب سے زیادہ تشویش ناک بات یہ معلوم ہوئی کہ پولیس تھانوں میں انسانی حقوق کا حصول ممکن نہیں ہے اور وہاں بڑا خطرہ لاحق ہے۔ کیا واقعی ہمارے ملک کے پولیس تھانے اتنے پُر خطر ہوگئے ہیں کہ وہاں انصاف کا حصول ممکن نہیں رہا ؟ ہمارے پاس محترم جج صاحب کی باتوں کو ماننے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے کہ پولیس سے متعلق جس طرح کی باتیں آئے دن ہم اخبارات میں پڑھتے اور ٹی وی پر سنتے ہیں اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں انصاف کا حصول ممکن نہیں ہے ۔ کئی مقامات پر تو مظلوم کی رپورٹ تک لکھی نہیں جاتی بلکہ الٹا اسے ہی ملزم بناکر پیش کردیا جاتا ہے۔ اس طرح کے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں واقعات موجود ہیں کہ پولیس نے مظلومین کو ہی ملزمین بنا کر پیش کردیا ، ان پر جھوٹے مقدمات دائر کردیے گئے انہیں سالوں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا ان پر ناقابل بیان ظلم و تشدد کیا گیا، ان کے ساتھ وہ سلوک کیا گیا جو جانوروں کے ساتھ بھی نہیں کیا جاتا۔ اپنی زندگی کے قیمتی سال گنوانے کے بعد آخر میں عدالتوں کی جانب سے انہیں باعزت بری بھی کردیا گیا۔
پولیس کے اس رویہ سے کئی ایک سوالات ذہن میں اٹھتے ہیں مثلاً: کیوں اتنے زیادہ اختیارات پولیس کو دے دیے گئے ہیں؟ کیوں اب تک ہمارے ملک میں انگریزوں کے بنائے ہوئے فرسودہ قوانین کا چلن ہے جبکہ وہ خود اپنے ملک میں ان قوانین کو نافذ نہیں کرتے؟ کیوں قصوروار پولیس والوں کو سزا نہیں ہوتی؟ کیوں انہیں سیاسی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے؟ آخر ہمارے ملک میں انصاف کا حصول اتنا مشکل اور مہنگا کیوں ہوتا جا رہا ہے؟ ایک غریب شخص یہ تصور بھی نہیں کرسکتا کہ وہ عدالتوں میں اپنا مقدمہ لڑسکے گا۔ اب وقت آگیا ہے کہ ان فرسودہ و انسان دشمن قوانین کو ختم کیا جائے اور ان کی جگہ نئے قوانین مدون کیے جائیں اور پولیس ضابطوں میں بھی تبدیلی لائی جائے۔ ان کاموں میں جدید کاری لانے کے ساتھ ساتھ ان کے اندر حساسیت کو بھی پیدا کرنا چاہیے۔ پولیس والے اپنے ہم وطنوں کے ساتھ اسی طرح پیش آئیں جس طرح وہ اپنے عزیزوں کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ وہ انسانوں کے ساتھ مہذب طریقہ سے پیش آئیں تاکہ انسانیت کی قدر باقی رہے اور ساتھ ہی انصاف کا حصول بھی آسان ہو۔
***

 

***

 معاشرے میں قانون کی حکمرانی ہونی چاہیے۔ یہ ضروری ہے کہ انصاف ہر ایک کے لیے ہو۔ وہ جو مراعات یافتہ ہیں اور وہ جو انتہائی کمزور ہیں ان کے درمیان انصاف کے حصول میں کوئی فرق باقی نہیں رہنا چاہیے ۔ اگر ہم بطور ادارہ شہریوں کا اعتماد حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں کمزوروں کو یقین دلانا ہوگا کہ ہم ان کی خدمت کے لیے موجود ہیں، کیوں کہ ایک طویل عرصے سے کمزور افراد نظام انصاف سے اپنے آپ کو باہرمحسوس کرتے رہے ہیں ۔ ماضی کی غلطیاں مستقبل کے لیے مثال نہیں بننی چاہئیں، اس کے بجائے ہم سب کو مساوات کے لیے کام کرنا چاہیے ۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 22 تا 28 اگست 2021