پولیس اصلاحات کو انتخابی موضوع بنانا چاہیے

پولیس کو سیاسی اثر سے الگ رکھنا ایک بڑا چیلنج

محمد نوشاد خاں

2006میں دیے گئے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل ندارد۔یوپی کے سابق ڈی جی پی پرکاش سنگھ سے انٹرویو
آئی پی ایس آفیسر پرکاش سنگھ اتر پردیش اور آسام میں ڈائرکٹر جنرل آف پولیس کی حیثیت سے خدمت انجام دے چکے ہیں اور وہ بارڈر سیکیوریٹی فورسس کی کمان بھی سنبھال چکے ہیں۔ پرکاش سنگھ ان چند شخصیتوں میں سے ایک ہیں جو بھارت میں پولیس اصلاحات پر زور دیتے آئے ہیں اور ان اصلاحات کی وکالت کرتے رہے ہیں۔ سنگھ کی جانب سے 1996میں داخل کردہ مفاد عامہ کی ایک درخواست (پی آئی ایل) کا جواب دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے 22دسمبر 2006ء کو مرکز اور ریاستی حکومتوں کو پولیس فورس سے ڈھانچہ جاتی اصلاحات کرنے کی خاص ہدایات دیتے ہوئے ایک اہم فیصلہ دیا۔ اس فیصلہ کے پس پردہ ذہن یہ تھا کہ پولیس فورس کو خارجی اثر سے الگ تھلگ کر کے عوام کے تئیں اس کی جوابدہی میں اضافہ کیا جائے۔
محمد نوشاد خان کو دیے گئے ایک انٹرویو میں سابق ڈی جی پی نے پولیس اصلاحات کے لیے اپنی کوششوں اور اس پر حکومت وعدلیہ کا ردعمل کیسا رہا، اس پر روشنی ڈالی ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلہ کے پندرہ برسوں بعد بھی کسی ایک ریاست اور مرکزی زیر انتظام علاقہ نے پرکاش سنگھ ججمنٹ میں عدالت کی ہدایات پر مکمل عمل نہیں کیا ہے۔ آپ کے خیال میں پیش رفت میں کمی کا نتیجہ کیا ہے؟
یقیناً کسی ریاست نے سپریم کورٹ کی ہدایات پر مکمل عمل نہیں کیا ہے لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ عمل آوری کی سمت انہوں نے خلل آمیز، مذبذب اور نیم دلانہ کوششں کی ہیں ہم نے بعض ریاستوں میں جزوی طور پر عمل درآمد دیکھا ہے۔ لہٰذا یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ عمل آوری صفر رہی ہے۔
دراصل ریاستیں اس بات کو یقینی بنانے کے لیے دفاعی موقف میں رہیں کہ سپریم کورٹ اس خصوص میں ان کی کارکردگی کا منفی نوٹ نہ لے۔ اور انہوں نے سوچا کہ کم از کم کاغذ پر ہی سہی انہیں عدالت عظمٰی کی ہدایات پر عمل پیرا نظر آنا چاہیے۔
ریاستوں نے بعض کام کیے ہیں لیکن ساتھ ہی اگر آپ گہرائی میں جائیں تو دیکھیں گے کہ زیادہ تر عمل آوری سرسری رہی ہے۔ عملاً اس کا کسی حد تک مذاق بنایا گیا ہے، جہاں کہیں ممکن ہوا انہوں نے ہدایات کو ہلکا کیا، ترمیم کی اور بعض معاملات میں تو ریاستوں نے انہیں تاراج یا سبوتاج کرنے کا کام کیا ہے۔ مثال کے طور پر:
۱۔ مرکزی حکومت اس امر کو لازمی کرتی ہے کہ ہر ریاست کے پاس پولیس فورس کو خارجی اثر سے الگ رکھنے کے مقصد کے تحت ایک اسٹیٹ سیکیوریٹی کمیشن (ایس ایس سی) ہونا چاہیے۔ یہ کمیشن اس طریقے پر قائم کیے جائیں کہ ان میں حکومت اور سیول سوسائٹی کے نمائندوں کا مساوی طور پر توازن موجود رہے جو سپریم کورٹ کا مقصد ہے۔ اب زیادہ تر ریاستوں میں جو چیز ہم نے دیکھی وہ یہ ہے کہ بیشتر ریاستوں میں یا تو سرکاری نمائندے برتر ہیں یا ان کی تعداد اگر مساوی بھی ہو تو ہم نے دیکھا ہے کہ سیول سوسائٹی سے منتخب کیے گئے نمائندے حکومت کے معروف حامی ہیں جس سے اسٹیٹ سیکیوریٹی کمیشن کی تشکیل کی اصل غرض وغایت ہی فوت ہوجاتی ہے۔
سپریم کورٹ نے پہلے ہی اس بات کو واضح کردیا ہے کہ ان کمیشنوں میں حکومت کا اثر غالب نہیں ہونا چاہیے لیکن اگر سیول سوسائٹی سے چنے گئے نمائندے حکومت کے معروف حامی ہوں تو پھر کمیشنوں کے ارکان کی حیثیت سے وہ خیالات کا آزادانہ اظہار نہیں کریں گے۔ اس طرح ایس ایس سیز کی تربیت پر اثر ڈالا جا رہا ہے۔
مرکزی حکومت نے کہا کہ ایس ایس سیز جو کچھ کہیں گی متعلقہ حکومتوں کو اس کا پابند ہونا چاہیے تاہم ریاستوں نے کہا ہے کہ ایس ایس سیز کی ہدایات کی پابندی لازمی نہیں بلکہ ان کی نوعیت محض سفارشات کی ہونی چاہیے۔ ایک مرتبہ اگر آپ اسے سفارشی بناتے ہیں تو پھر ایس ایس سیز کے ہونے سے ان کا نہ ہونا بہتر ہے۔
اگر اسے سفارشی بنایا جائے تو پھر حکومت کے سامنے اسے ماننے اور نہ ماننے کا آپشن ہوتا ہے جس کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ آیا یہ ہدایات حکومت کے لیے سیاسی طور پر سہولت بخش ہیں یا نہیں۔ ایس ایس سی کا مقصد ایک نگران کار کے طور پر اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ حکومت پولیس کے روز مرہ کے کام کاج میں مداخلت نہ کرے اور پولیس قانون کے حدود سے تجاوز نہ کرے۔
اسے حکومت اور پولیس کے درمیان دونوں کو ان کے مناسب حدود میں رکھنے والا ایک ادارہ سمجھا گیا ہے۔ لیکن آپ ایس ایس سی کی ہیئت ترکیبی کو ہی ہلکا کردیں گے اور اس کے اختیار کو کم کر دیں گے تو پھر اس طرح کے کمیشن کا مقصد ہی فوت ہوجائے گا۔
۲۔ ڈی جی پی کی میعاد، انتخاب پر سبکدوشی سے قطع نظر دو سال رکھی گئی ہے۔ بعض ریاستوں نے جو کام شروع کیا وہ یہ ہے کہ وہ ڈی جی پی کی حیثیت سے ان افسروں کو تعینات کررہے ہیں جن کے ریٹائرمنٹ کو چند ماہ ہی رہ گئے۔ ایسی مثالیں موجود ہیں کہ ان افسروں کو ڈی جی پی بنایا گیا جنہیں سبکدوش ہونے کے لیے محض ایک ماہ یا چند ہفتے باقی تھے۔ اس طرح کے افسروں کو ڈی جی پی بنانے کا مطلب دوسرے افسروں کو ترقی دینے سے انکار کرنا ہے۔
درحقیقت، یہ اس وقت کے چیف جسٹس رنجن گوگوئی کے نوٹس میں لایا گیا تھا جنہوں نے واضح کیا تھا کہ ڈی جی پی کے طور پر فہرست میں شامل ہونے کے لیے پولیس افسروں کی کم از کم چھ ماہ کی سروس باقی ہونی چاہیے۔ تاہم ڈی جی پیز کی تقرری سے متعلق اس اصول کی بھی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔
3۔ اب آئیے کمپلینٹس اتھارٹی کو دیکھتے ہیں۔ قانون کے مطابق، ایس ایس سی کی سربراہی ضلعی سطح پر ایک ڈسٹرکٹ سیشن جج اور ریاستی سطح پر سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج کے پاس ہونی چاہیے۔ کچھ ریاستوں نے ضلع مجسٹریٹس کو ریاستی سطح پر ایس ایس سی کا سربراہ بنا دیا ہے۔
ایک بار جب کوئی انتظامی افسر (ضلع مجسٹریٹ یا کمشنر) ایس ایس سی کا سربراہ بن جاتا ہے تو کمیشن ایک حد تک اپنے کام کو معروضی طور پر انجام دینے سے رک جاتا ہے۔ اتر پردیش نے کہا ہے کہ اسے سیکیورٹی کمیشن کی ضرورت نہیں ہے۔ وہاں کی ریاستی حکومت کا کہنا ہے کہ اس کے پاس شکایات کو دیکھنے کے لیے پہلے سے ہی کافی نگران موجود ہیں۔ اڈیشہ میں حکومت نے لوک آیوکت کو ایس ایس سی کا چیئرمین بنایا ہے۔ یہاں ہر قسم کے انحرافات موجود ہیں۔ درحقیقت، سپریم کورٹ کے حکم پر نہ تو لفظاً اور نہ ہی اس کی روح کے مطابق عمل کیا گیا ہے۔
آپ کے خیال میں ان ہدایات کو نافذ کرنے میں کیا چیلنجز درپیش ہیں؟
چیلنجز چار سطحوں پر ہیں:
اول، سیاسی طبقہ پولیس اصلاحات کے حوالے سے سپریم کورٹ کی ہدایات پر عمل درآمد کے لیے اس سادہ سی وجہ سے مائل نہیں ہے کہ ایسا کرنے سے پولیس پر اس کا ریگولیٹری اختیار کم ہو جاتا ہے۔ کوئی بھی حکومت بشمول اپوزیشن میں بیٹھے ہوئے لوگ پولیس اصلاحات کی بات نہیں کرتے۔ اپوزیشن، مخالف سرے پر ہونے کے باوجود، پولیس اصلاحات کی مکمل حمایت نہیں کرتی۔
دوسرا چیلنج ہماری بیوروکریسی کا ہے۔ ہندوستان کی بیوروکریسی پولیس کے لیے شرائط طے کرنے کی عادی ہو چکی ہے۔ میں سیول انتظامیہ کی برتری پر سوال نہیں اٹھا رہا ہوں۔ تاہم یہ سمجھنا ہوگا کہ سیول انتظامیہ کو رہنما خطوط وضع کرنے، مقاصد اور پالیسیوں کا تعین کرنے کا مکمل اختیار حاصل ہے لیکن ان مقاصد کے حصول اور ان پالیسیوں پر عمل درآمد کا ’آپریشنل پارٹ‘ پولیس پر چھوڑ دیا جانا چاہیے۔
میں اسے’ آپریشنل اٹانومی‘ (کام کرنے کی خود مختاری) کہتا ہوں۔ پولیس کو ان کی طرف سے دی جانے والی کسی بھی پالیسی پر کوئی اعتراض نہیں ہے، لیکن جو چیز پولیس کو مشکل لگتی ہے وہ ان کے کام کاج میں آئے دن کی مداخلت ہے۔ لہٰذا کام کرنے کے خود مختاری کی کمی موجود ہے ۔
کیا آپ پولیس کے لیے ’کام کرنے کی خود مختاری‘ کی وضاحت کر سکتے ہیں؟
دیکھیے، کوئی پولیس فورس سے کہہ سکتا ہے کہ وہ امن وامان برقرار رکھے اور فرقہ وارانہ فسادات نہ ہوں۔ تاہم یہ کہتے ہوئے کہ X اور Y کا ایف آئی آر میں ذکر نہیں ہونا چاہیے، X اور Y کے خلاف الزامات عائد نہیں کیے جا سکتے اور کچھ لوگوں کے خلاف شواہد جمع نہیں کیے جانے چاہئیں، قابل قبول نہیں ہے۔ یوروکریسی کو یہ اختیار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ پولیس کو یہ حکم دے۔ پولیس کے لیے کام کرنے کی خود مختاری کی کمی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اور بیوروکریسی کی جانب سے پولیس پر اس اختیار کو چھوڑنے کے لیے زبردست مزاحمت کی جارہی ہے۔
پہلے دو چیلنجز کا ذکر پچھلے سوال کے جواب میں آچکا ہے۔ تیسرا چیلنج جو سپریم کورٹ کی ہدایات پر عمل درآمد میں درپیش ہے وہ یہ ہے کہ پولیس افسروں کا ایک حصہ خود پولیس اصلاحات کے حق میں نہیں ہے۔ وہ اعلیٰ درجے میں ہیں اور ساری زندگی انہوں نے اقتدار کے اعلیٰ ترین طبقے والوں کے ساتھ احسان کیا ہے جو اس قربت کے ذریعے محکمہ پولیس میں اعلیٰ ترقیوں کی توقع رکھتے ہیں۔ ایسے اعلیٰ پولیس افسر پولیس اصلاحات کے خواہشمند نہیں ہیں۔
چوتھا، عام طور پر عوام پولیس اصلاحات سے لا تعلق ہیں۔ تاہم، بیداری کی سطح میں اضافہ ہوا ہے اور جب بھی ملک میں کوئی بحران آتا ہے، آپ دیکھیں گے کہ اخباری اداریوں میں ہمیشہ پولیس اصلاحات پر بات ہوتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پولیس اصلاحات نہ ہونے کے نتائج ہم بھگت رہے ہیں اور ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔
آپ کے خیال میں ریاستیں پولیس اصلاحات کے خلاف کیوں مزاحمت کر رہی ہیں، اور کیوں بعض ریاستوں نے کچھ دفعات کو نافذ کیا ہے جبکہ دیگر ریاستیں ان پر عمل پیرا نہیں ہیں؟
یہ ریاستی سطح پر قیادت کی نوعیت پر منحصر ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ ریاست جتنی بڑی ہوتی ہے وہاں پولیس اصلاحات کے خلاف داداگیری اور مزاحمت ہوتی ہے۔ آپ کو حیرت ہوگی کہ شمال مشرقی ریاستوں (ناگالینڈ، میزورم اور اروناچل پردیش) نے خاص طور پر اس سلسلے میں سپریم کورٹ کی ہدایت کا زیادہ احترام کیا ہے اور ان کی تعمیل کی سطح اتر پردیش، بہار اور مہاراشٹر سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔
بڑی ریاستیں سوچتی ہیں کہ انہیں تعمیل کی ضرورت نہیں ہے اور وہ اس سے بچ سکتی ہیں۔ یہ سب ریاستی سطح پر قیادت پر منحصر ہے کہ وہ کتنی روشن خیال ہے۔ کیرالا میں جب اے کے انٹونی چیف منسٹر تھے انہوں نے پولیس اصلاحات کو حقیقی طور پر متعارف کرانے کی کوشش کی۔ لیکن ان کے عہدہ چھوڑنے کے بعد ایک بار پھر رجعت کا آغاز ہوا ہے اور ریاست پہلے کی پوزیشن پر چلی گئی ہے۔ دراصل ریاستی قیادت کی روشن خیالی پولیس اصلاحات کی قبولیت اور استرداد کا تعین کرتی ہے۔
کیا کوئی ایسا طریقہ کار ہے جس کی تعمیل نہ کرنے والی ریاستوں پر لفظاً اور معناً دونوں پہلوؤں سے ہدایات پر عمل پیرا ہونے کے لیے دباؤ ڈالا جائے؟
عمل نہ کرنے والی ریاستوں پر دباؤ ڈالنے کے کئی طریقے ہیں۔
1. سپریم کورٹ یہ کہہ کر توہین کے الزام کے تحت ان پر گرفت کرسکتی ہے کہ یا تو آپ تعمیل کریں گے یا آپ پر توہین عدالت کا الزام عائد کیا جائے گا۔
2. مرکزی حکومت پولیس کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے اور دیگر امور کے لیے ان ریاستوں کو جو پولیس اصلاحات کو نافذ کرتی ہیں، مزید گرانٹس کے ذریعہ ترغیب دے سکتی ہے
3. لوگوں کو پولیس اصلاحات کا شد ومد کے ساتھ مطالبہ کرنا چاہیے۔ ایک بار جب لوگ اس موضوع پر آواز اٹھانا شروع کر یں گے تو عدم تعمیل والی ریاستوں پر دباؤ پڑے گا۔ اگر یہ انتخابی مسئلہ بن جاتا ہے اور لوگ کہتے ہیں کہ ’ہم آپ کو ووٹ نہیں دیں گے، اگر آپ پولیس اصلاحات کی حمایت نہیں کریں گے‘ تو تمام سیاسی جماعتیں دباؤ میں آئیں گی۔ ہمارے سیاستدان الیکشن ہارنے کو تیار نہیں۔ اقتدار میں رہنے کے لیے وہ کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں۔
اس کے علاوہ، ریاستی سطح پر، این جی اوز، روشن خیال شہری جو پولیس اصلاحات کی ضرورت کے بارے میں قائل ہیں، وہ ہائی کورٹس کا رخ کرسکتے ہیں۔
سپریم کورٹ اصلاحات کی تعمیل کو یقینی بنانے کے لیے کیا کر سکتی ہے؟
سپریم کورٹ نے تعمیل کو یقینی بنانے کے لیے تمام اختیارات استعمال نہیں کیے ہیں۔ اس نے صرف ہدایات جاری کی ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ معزز جج صاحبان نے پولیس اصلاحات کے حق میں اظہار خیال کیا ہے۔ سپریم کورٹ کے پاس ریاستوں کو توہین کی سزا دینے کا اختیار ہے، لیکن اس نے ابھی تک ایسا نہیں کیا ہے۔ اس نے اب تک کیوں ایسا کیوں نہیں کیا، میں سمجھنے سے قاصر ہوں۔
ایک عرضی گزار کے طور پر، میں نے متعدد مواقع پر ان ریاستوں کے خلاف توہین عدالت کی درخواستوں کے ساتھ عدالت عظمیٰ کا رخ کیا جو سب سے زیادہ خلاف ورزی کے طور پر سامنے آئیں۔ لیکن عدالت نے تعمیل نہ کرنے والی ریاستوں کو کبھی کوئی نوٹس جاری نہیں کیا۔
حال ہی میں چیف جسٹس آف انڈیا نے پولیس فورس کے کردار پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ کیا آپ کو یقین ہے کہ پرکاش سنگھ کے فیصلے پر عمل درآمد ان کی تشویش کو دور کر سکتا ہے؟
یہ بڑی حد تک ہوسکتا ہے، لیکن مکمل طور پر نہیں. لیکن میں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ پچھلے دو سالوں سے اس معاملے کو سپریم کورٹ نے لسٹ نہیں کیا ہے۔ درحقیقت، میں اسے درج کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ موجودہ چیف جسٹس کے سامنے سپریم کورٹ میں معاملہ درج ہونے کا ذکر ہوا۔ ہمیں یہ یقین دہانی بھی کرائی گئی کہ اسے اکتوبر 2021ء میں درج کر دیا جائے گا، لیکن اب تک ایسا کچھ نہیں ہوا۔
جہاں تک ہدایات پر عمل درآمد کی نگرانی کا تعلق ہے سپریم کورٹ کو اس پٹیشن کو بحال کرنا چاہیے۔ میں اب بھی انتظار کر رہا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ عدالت اس معاملے کو سنجیدگی سے لے گی۔
آخر میں، آپ کو موجودہ چیف جسٹس آف انڈیا سے کیا امید ہے؟
میں پر امید ہوں اور چیف جسٹس رمنا سے بہت توقعات رکھتا ہوں کیونکہ وہ بہت مثبت بیانات جاری کر رہے ہیں۔ وہ تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ وہ پولیس افسر جو ایک حکومت کے وفادار ہیں جب دوسری حکومت اقتدار سنبھالتی ہے تو انہیں ان کا راگ سننا پڑتا ہے۔ میں توقع کرتا ہوں کہ اگر معاملہ ان کے سامنے آتا ہے تو وہ مزید سخت نقطہ نظر اختیار کر سکتے ہیں لیکن جب تک ایسا نہیں ہوتا، صرف ایک امید ہی رہ جاتی ہے۔(بشکریہ: دا وائر)
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  19 تا 25 دسمبر 2021