’’پوشیدہ مصرعوں میں ہے دردِ شکم کا راز‘‘

ایک طرحی مصرع مگر مزاح سے بھرپور رنگ برنگی گرہیں

ابنِ اعجاز اعظمی، بھیونڈی

 

روایت رہی ہے مصرعِ طرح کی ایک مصرع موضوعِ نشست ہو اور اس پر شعر یا پوری غزل کہی جائے۔
پھر تذکرہ ہوتا ہے شعر مکمل کرنے کا کوئی اچھا مصرع موجود ہو اور اس کے استعمال سے شعر کہا جائے (نہ کہ کسی گلی کوچے سے مصرع اٹھایا اور یوں اشعار چسپاں کردیے کہ… خیر! جذباتی ہونا اچھا نہیں)
تکمیلِ شعر کے بہت سے دلچسپ قصے مشہور ہیں، غالب اور اقبال کے قصے۔آپ کو معلوم ہی ہوں گے (ہم تو خیر نہیں جانتے) ایسے موقعوں پر کبھی مصرع پھنس جاتا ہے (آپ مصرع اٹک جانا بھی کہہ سکتے ہیں) مثلاً ایک صاحب کا مصرع اٹک گیا …
اشک سے دشت بھرے، آہ سے سوکھے دریا
اب پیٹ میں درد اور نیند حرام، پھر کسی نے مکمل کیا
مچھلیاں دشت میں پیدا ہوں، ہرن پانی میں
کسی شاعر نے مصرع پڑھا ….
ادھر چلمن سے تم جھانکو ادھر چلمن سے ہم جھانکیں
پھر اسی کی تکرار کرتے چلے گئے، کسی دوسرے نے طیش میں آکر کہہ دی
لگادو آگ چلمن کو نہ تم جھانکو نہ ہم جھانکیں
ایک پریشان حال روزانہ دریا کنارے جا کر طرح کا مصرع الاپتے
چمن سے آرہی ہے بوئے کباب
جگر‌ مراد آبادی نے جو ابھی کمسن تھے مکمل کیا
کسی بلبل کا دل جلا ہوگا
ایک نابینا شاعر کا مصرع پھنس گیا
اس زلف پہ پھبتی شبِ دیجور کی سوجھی
ان کے دوست انشاء نے گرہ لگائی
اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی
لکھنؤ والوں کو دہلی کے طرف سے مصرع دیا گیا
رگِ گل سے بلبل کے پر باندھتے ہیں
لکھنؤ سے جواب آیا ..
سنا ہے کہ دلی میں الّو کے پٹھے
رگِ گُل سے بلبل کے پر باندھتے ہیں
اب شوخی تقدیر کی کرامت دیکھیے کہ احسن پر بھی جنونِ شاعری کا مرض حملہ آور ہوا لیکن آغاز ہی شعر اور غزل سمجھنے میں غلطی ہوگئی، کہیں پڑھا اور خلافِ معمول صحیح پڑھا کہ غزل کا ہر شعر معنیٰ و مفہوم میں دوسروں سے جدا ہوتا ہے، لیکن ذہن میں غزل کی جگہ شعر رہ گیا۔ غلط فہمی کا احساس ہوا تو پس منظر میں کئی بکھرے ہوئے مصرعے موجود تھے۔ سع پیہم رہی کہ کوئی ایک مصرع ہی مکمل شعر کی آرزو پوری کردے، نہ ہو سکا۔ پھر خیال آیا کہ واحد شخص کی استعداد ایک ہی مصرع تک ہے، تکمیلِ شعر کے لیے دوسرے کی شرکت ضروری ہے ۔
ہنگامی طور بڑے بھائی کی طرف توجہ کی (آپ "یقیناً” قسم کے شاعر جانے جاتے ہیں) تعمیلِ احکام کی یقین دہانی کے بعد اپنے مسئلے پر آتے ہوئے مصرع بتایا
’’ستم ہے اس پری رُو کی نگاہیں‘‘
بڑے صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا ،
’’کہ ناگن ہو کوئی غیض و غضب میں‘‘
’’یہ کیا … ؟ کہاں پری رُو اور آپ ناگن؟‘‘
حضرت کچھ مزاحیہ مزاج میں تھے (مضمون کی مناسبت سے) کہنے لگے
ستم ہے اس پری رُو کی نگاہیں
کہ بکرے خیر اب اپنی منائیں
’’اتنے اچھے شعر میں بکرا وغیرہ؟‘‘ احسن نے شکایت کی۔
’’عاشقوں کے لیے قربانی کا بکرا نہایت موزوں لفظ ہے‘‘
’’میں پری رُو کہہ رہا ہوں اور آپ قصائی بنانے پر تلے ہوئے ہیں، کچھ اور …‘‘
ستم ہے اس پری رُو کی نگاہیں
کہ چوہے بھاگ کر اب بل میں جائیں
”جنابِ عالی! میں نے اتنا اچھا مصرع کہا اور آپ چوہا بلی کھیل رہے ہیں‘‘
’’بلی ہم نے کب کہا؟‘‘
’’ارے ناگن، بکرا وغیرہ ….‘‘
’’دیکھو! عاشقی کا مقام خطِ استوا سے نہایت بلند ہے اور صفاتِ انسانی سطح زمین سے نیچے بلکہ تحت الثریٰ تک …. تحت الثریٰ جانتے ہو؟‘‘
’’جی …. ؟‘‘
’’جانے دو، ہاں تو عاشق و معشوق کے لیے انسانوں سے یا ان کی صفات سے تشبیہ مناسب نہیں اس لیے حیوانوں کا سہارا لیا گیا، یوں بھی شاعری میں بے انتہا محبت کے لیے بلبل اور جاں نثاری کے لیے پروانے رائج ہیں، کہیں انسانوں کا بھی ذکر ہے؟‘‘
(ہم نہ موجود ہوئے ورنہ بتاتے مجنوں اور فرہاد کے بارے میں، انسانیت کا لبادہ اوڑھے اسی مخلوق پر طنز، دل جلے کہیں کے)
خیر! احسن کا ہاضمہ اتنا قوی نہیں کہ ایسی باتیں برداشت کر سکے لہٰذا آپ کی تشریف ہماری طرف وارد ہوئی۔
ہم نے بھی کسی زمانے میں خود کو ’’مصلحتاً‘‘ شاعر کہا تھا۔
حضرت نے بطورِ تمہید ادب کا تذکرہ چھیڑا پھر شعر و شاعری اور آخر کہہ بیٹھے …
’’میں نے بھی اس باب میں کچھ کہا ہے‘‘
’’جی … ؟ سنائیں” ہم نے تعجباً کہا کہ نہ جانے کون سا باب تھا‘‘
’’وہ … دراصل … میں نے بھی تھوڑی شاعری کی ہے ایک مصرع ہے مکمل کریں‘‘
فرعون کی ’’زندہ سلامت‘‘ لاش جاننے کے بعد یہ دوسرا موقع تھا کہ ہم حیرانی سے زیادہ خوف میں مبتلا ہوئے ہوں۔
بہر کیف! احسن نے بھی زیادہ دیر کرنا مناسب نہ سمجھا اور گویا ہوئے
خوب! اچھا مصرع کہا آپ نے، ابتدا ہی اتنی اچھی ہے تو آگے آپ اچھے شاعر ہو سکتے ہیں … ، اس طرح کی اور باتیں کہ ذہن میں کچھ آہی جائے اور دوستوں کی محفل میں برجستہ شاعر کا خطاب بھی مل جائے اور کامیاب بھی ہوئے (یا واقعی ہم برجستہ شاعر … خیر!)
ستم ہے اس پری رُو کی نگاہیں
جو ذہن و عقل کو مدہوش کردے
واہ! کیا کہنے، احسن اچھل پڑے (محاورتاً، ورنہ ڈیل ڈول بالکل اجازت نہیں دیتا) آپ تو کمال کے شاعر ہیں۔ اچھا آگے بھی سوچیے، معدے میں طوفان برپا ہے۔
’’ آگے … ؟ کیوں؟‘‘ ہم نے اچنبھے میں سوال کیا۔
جی … دوسرا مصرع سن کر لگ رہا ہے شاعر آگے بھی کچھ کہے گا۔
وہ … اے … اے بوکھلاہٹ میں ہم نے دوبارہ ذہنی گردش شروع کی لیکن کچھ نہ بن پڑا، سو کچھ اور ہی بنا دیا۔
بات یہ ہے کہ … آپ نے مصرعے پر غور نہیں کیا، ذہن و عقل مدہوش ہیں، اب مدہوشی میں ڈھنگ کی بات سوچنا یا آگے کچھ کہنا خلافِ مصرع ہو جائے گا۔ (گہری ٹھنڈی سانس)
’’نہیں کچھ اور … ‘‘ احسن نے بے اطمینانی ظاہر کی۔
اب ہم چونکہ برجستہ شاعر ہیں، سوچتے ہوئے ایک اور مصرع کہا
ستم ہے اس پری رُو کی نگاہیں
کہ نظریں چار ہوں تو موت لازم
واہ واہ! بہت اچھے احسن نے پھر محاورے کا استعمال کیا۔
’’جی … آگے کہیں‘‘ غالباً شدتِ جذبات سے کہا گیا۔
"کیا … پھر آگے؟” ہم نے سخت لہجے میں کہا۔
’’ارے جناب … دوسرا … مصرع … ‘‘احسن نے اٹکتے ہوئے کہا۔
’’خاک مصرع … اس میں سیدھے مرنے کا ہی تذکرہ ہے ، پھر کیا آگے؟‘‘
ہم نے مصنوعی غصے میں کہا اور اٹھ کر جانے لگے البتہ جاتے ہوئے زعمِ قابلیت ایک نصیحت کر بیٹھے ،
’’ دیکھیے … ابھی شروعاتی معاملہ ہے، تو عشقیہ شاعری نہ کریں، لوگ خواہ مخواہ شک کریں گے، اس کے علاوہ جو بھی‘‘
’’ تب تو … ایک مزاحیہ شعر بھی بنایا ہے، البتہ معنیٰ مکمل ہونے کے لیے شاید ایک شعر اور لگے … یعنی کہ … وہ قطعہ غالباً‘‘
دیدنی ہے شکستگی دل کی
کیا عمارت غموں نے ڈھائی ہے
’’یہ تو میر کا شعر ہے‘‘
’’جی … اسی کی تکفین کی ہے میں نے‘‘
’’تکفین؟‘‘
’’ہاں وہی … جو کسی کا مصرع لے کر اپنا شعر بنادیتے ہیں‘‘ احسن نے سادگی سے جواب دیا۔
’’خیر! سنائیں … ‘‘
دیدنی ہے شکستگی دل کی
عمارت یوں تو بلڈوزر نے ڈھائی
’’ یہ مزاحیہ شعر کہا آپ نے؟‘‘
’’جی ہاں‘‘ جلدی سے کہا گیا۔
’’دیکھیے، مزاح کے ساتھ طنز بھی ضروری ہے، ورنہ آپ اچھے ادیب یا شاعر نہیں ہو سکتے‘‘
’’اوہ! تو یہ طنز، مزاح سے مختلف کوئی چیز ہے؟ ‘‘
’’جی‘‘
’’پھر یہ ’طنز‘ کہاں تلاش کرتا پھروں؟‘‘
طنز … ذہن پر زور دیتے ہوئے
’’طنزیات بہت جگہ مل سکتے ہیں، غربت و بے روزگاری میں، امراء و حکومت کے عشرت اور وحشیانہ پن میں، نوجوانوں کی بے راہ روی میں، سماج کی مظلوم اور کچلی ہوئی جنس نازک میں … بلکہ کسی ناکامِ روزگار گریجویٹ کے یہاں طنزیات کا بوریا ہاتھ آجائے گا‘‘
’’اب طنز تلاش کریں پھر یہ قطعہ مکمل ہوگا‘‘
’’ایک … اور … ‘‘
’’قمر کا کھیل ستاروں سے آنکھ منچولی‘‘
’’کیا! آنکھ منچولی؟‘‘
’’وہ … دراصل وزن بٹھانے کے لیے ’منچولی‘ کہا ہے۔ میں نے اکثر اشعار میں ایسی تبدیلی دیکھی ہے۔
’’ٹھیک … آگے؟‘‘ ہم نے قائل ہوتے ہوئے کہا۔
’’آگے … تو نہیں ایک ہی مصرع بنایا ہے، آپ مکمل کردیں‘‘
’’جی … ؟ دیکھیے، شروعاتی دور میں مکمل شعر بنائیں، پھر کسی اچھے شاعر یا مجھ سے ہی اصلاح کروالیں، یہ کیا معمہ بنارکھا ہے بھلے لوگوں کو تنگ کرنے کا۔
اگلے روز پاس کے دواخانے میں نظر آئے، پوچھنے پر کہنے لگے،
تمام رات ان "کنوارے مصرعوں” نے اپنی تنہا حسرت کو تسلیاں دیتے گزار دیں اور میں نے ان کی جوڑیاں لگانے میں۔ درمیان کئی دفعہ بیت السّکون کی زیارت ہوئی، غالباً لا شعور کی کسی گرہ نے سمجھایا ہو کہ وہاں ذہنی موشگافیوں میں تیزی آتی ہے۔ اب معدے کی تکلیف سمجھ آگئی، یہ مصرعوں کا کھیل اصل میں نظامِ انہضام کا ردِ عمل ہوتا ہے، میں نے تحقیق کی ہے کہ شاعری لفظ لاشعور سے ماخوذ ہے اور لاشعور کی نسبت شکم سے ہے یعنی خالی معدے کی پکار یا وزنی معدے کی تکلیف ……. ”
’’ہمیں راہِ فرار میں عافیت نظر آئی‘‘
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 29 مئی تا 05 جون 2021