پسماندہ طبقہ پر تعلیم کی تجارتکاری کے سنگین اثرات
ہر سطح کی تعلیم کو عام کرنے کے لیے جدوجہد آزادی کے طرز کی کاوشیں درکار
ممبئی: (دعوت نیوزڈیسک)
اعلیٰ تعلیم تک صرف خوشحال طبقے کی رسائی افسوسناک۔ مہاراشٹر میں دو روزہ قومی کانفرنس کا انعقاد
ریسرچ اکیڈمی آف سوشل سائنسز (RASS) ممبئی نے مہاراشٹر کالج آف آرٹس، سائنس اینڈ کامرس کے تعاون سے 27 اور 28 اگست 2022 کو مہاراشٹر کالج آڈیٹوریم میں ’’معاشرے کے پسماندہ طبقات پر تعلیم کی تجارت کاری کے اثرات‘‘ کے موضوع پر دو روزہ قومی کانفرنس کا انعقاد عمل میں لایا۔ مہاراشٹر کالج کے پرنسپل ڈاکٹر سراج الدین چوگلے نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں جی ڈی پی کا صرف تین فیصد تعلیم پر خرچ کیا جاتا ہے، جبکہ تیرہ فیصد دفاع پر خرچ ہوتا ہے۔ اس تفاوت کی نشاندہی کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہندوستان کی سب سے اوپر دس فیصد آبادی کل آمدنی کا دو تہائی حصہ رکھتی ہے۔ اس طرح سرکاری شعبے کی کم سرمایہ کاری اور دوسری طرف آمدنی کی کمی تعلیم کے ذریعے پسماندہ طبقات کے امکانات کو متاثر کرتی ہے۔ انہوں نے سیلف فائنانس کورسز کے لیے گرانٹ کی کمی کے رجحان کی طرف بھی نشاندہی کی۔
ڈاکٹر سراج الدین چوگلے نے مہاراشٹر کالج کے بانیوں کے خواب کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ انسٹی ٹیوٹ اقلیتی برادری کی لڑکیوں کو گھر پر تعلیم فراہم کرے گا۔ اس وقت مہاراشٹر کالج میں مختلف فیکلٹیوں میں 4500 طلباء ہیں جن میں سے 70 فیصد لڑکیاں ہیں۔ یہ کالج شخصیت کی تعمیر کے لیے مختلف پلیٹ فارمس بھی پیش کرتا ہے جیسے کہ این سی سی، این ایس ایس اور لائف لانگ لرننگ پروگرام۔ آئی آئی ٹی اور آئی آئی ایم کی طرح مہاراشٹر کالج میں آئیڈیاز کو انٹرپرینیورشپ میں تبدیل کرنے کے لیے انکیوبیشن سنٹر بھی ہے۔تقریب کے کلیدی مقرر ممبئی یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر اور راجیہ سبھا کے سابق رکن پارلیمنٹ ڈاکٹر بھالچندرا منگیکر تھے جو پلاننگ کمیشن کے رکن رہ چکے ہیں۔ پسماندہ طبقات کے حقوق کے علم بردار ڈاکٹر منگیکر نے موجودہ سیاسی منظر نامے میں اقلیتوں کے مقام پر تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے سیلف فائنانس کورسز میں نجکاری کی اقسام اور فنڈز کے انتظام کی وضاحت کی اور نجکاری اور کمرشلائزیشن کے درمیان فرق کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ مؤخر الذکر کا مقصد صرف منافع کمانا ہوتا ہے۔ انہوں نے ان مسائل پر بھی روشنی ڈالی جو تعلیم کی نجکاری کی وجہ سے پیدا ہو رہے ہیں۔ ڈیمڈ یونیورسٹیوں اور پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں آسمان کو چھوتی ہوئی فیسوں سے ثابت ہوتا ہے کہ تعلیم معاشرے کے صرف خوشحال طبقے تک محدود ہے۔ انہوں نے اقلیتوں کے لیے مختلف تعلیمی اسکیموں اور عوامی خدمات اور دیگر سرکاری ملازمتوں میں پسماندہ طبقات کی کم بھرتیوں پر بھی روشنی ڈالی۔
پروفیسر کاظم ملک نے ریسرچ اکیڈمی آف سوشل سائنسز (RASS) کا تعارف کراتے ہوئے اسے ایک NGO قرار دیا جس کا مقصد سماجی علوم کے شعبے میں علم کا فروغ ہے۔ انہوں نے کوویڈ-19 کے بعد سیکھنے کی غربت کے خلا کو پر کرنے کی اہمیت کی وضاحت کی جو تعلیم کی نجکاری اور کمرشلائزیشن کے ساتھ شروع ہو رہی ہے۔ مولانا آزاد کالج اورنگ آباد کے پروفیسر حسیب احمد نے موضوع کی اہمیت اور مناسبت پر روشنی ڈالی اور کہا کہ تعلیم یافتہ طبقہ اور ماہرین تعلیم اس موضوع کی اہمیت کو سمجھیں۔ انہوں نے ان وجوہات پر تبادلہ خیال کیا کہ سرکاری اسکولوں میں داخلے کیوں کم ہو رہے ہیں اور اعلیٰ تعلیم کو تجارتی کیوں بنایا جا رہا ہے؟ میدان میں مزید نقصانات کو کم کرنے کے لیے کیا حل اور اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے اس مسئلے کو تعلیم کی آزادی کی خاطر ایک اور جدوجہد کے طور پر بیان کیا۔ پروفیسر حسیب احمد نے کہا کہ تمام سطحوں پر تعلیم کو حکومت کی کفالت (اسپانسر شپ) وہ چیز ہے جس کے لیے ہم سب کو جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ کانفرنس کے مہمان خصوصی تمل ناڈو کے ایم ایل اے ڈاکٹر ایم ایچ جواہر اللہ نے جو ممتاز سماجی کارکن، خطیب اور ماہر تعلیم بھی ہیں، ایک بہت ہی اہم موضوع پر قومی کانفرنس کے انعقاد میں RASS اور مہاراشٹر کالج کی کوششوں کی تعریف کی۔ آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم اور بہادر مجاہد آزادی ڈاکٹر مولانا ابوالکلام آزاد کے کام اور تعلیم کے بارے میں ان کے خیالات کو یاد کرتے ہوئے پروفیسر جواہر اللہ نے ہندوستان میں سرکاری امداد سے چلنے والے تعلیمی اداروں کی بحالی کی اہمیت کو بیان کیا تاکہ مولانا ابوالکلام آزاد، اے پی جے عبدالکلام، ماہر تعلیم آنند کرشنن اور ان جیسے لوگ پیدا ہو سکیں۔
کانفرنس نے ایک اور مہمان خصوصی ٹی آئی ایس ایس میں فیکلٹی آف ایجوکیشن کی ڈین ڈاکٹر دیشا نوانی نے جو قومی تنظیموں میں مختلف عہدوں پر کام کرچکی ہیں، معاشرے کے مظلوم طبقے کے اندر بنیادی تعلیم کی اہمیت کو بڑھانے کے لیے مختلف عملی مثالیں پیش کیں تاکہ ان کی ترقی اور انہیں مرکزی دھارے میں لایا جا سکے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ صرف تعلیمی نظام میں تبدیلی سے دنیا نہیں بدل سکتی۔ دیگر سماجی عوامل کو بھی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح تعلیمی نظام اچھے اساتذہ، اچھے انفراسٹرکچر اور دیگر سہولیات کے ساتھ باقی رہ سکتا ہے۔KIHE سوسائٹی کے جنرل سکریٹری پروفیسر ایچ این کالانیہ نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ تعلیم کسی کی ملکیت نہیں ہے۔ تعلیم حاصل کرنے کا حق سبھی کو ہے۔ ہندوستان کی آزادی کی 75ویں سالگرہ پر یہ بات ہمارے لیے باعث شرم ہے کہ ہم آج بھی لوگوں کے درمیان ذات پات، فرقہ، مذہب اور نسل کی بنیادوں پر امتیازی سلوک کر رہے ہیں۔ بلاشبہ یہ ایک حساس مسئلہ ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ ماہرین تعلیم اکٹھے ہوں اور اس پر بات کریں۔ افتتاحی تقریب کی میزبانی مہاراشٹر کالج کے پروفیسر مجاہد خان نے کی اور آر اے ایس ایس کے صدر ڈاکٹر سلیم خان کے شکریہ کے ساتھ کانفرنس کا اختتام عمل میں آیا۔
***
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 11 ستمبر تا 17 ستمبر 2022