پریس کلب آف انڈیا نےبانی بنگلہ دیش کی قد آدم تصویر کیوں لگائی؟

سید خلیق احمد،نئی دلّی

پریس کلب آف انڈیا (PCI) کی عمارت کی پہلی منزل پر پریس کانفرنس ہال تک پہنچنے کے لیے لکڑی کے سیڑھیوں پر چڑھتے ہی یو سائز (U-shaped) کی سیڑھیوں پر لینڈنگ اسپیس کے دائیں جانب دیوار پر ایک فریم میں سجی ہوئی لائف سائز تصویر آویزاں نظر آتی ہے، اور جب آپ وہاں سے لوٹتے ہوئے زینوں سے نیچے اترتے ہیں تو وہ تصویر بالکل آپ کے سامنے ہوتی ہے لیکن اکثر لوگوں کی توجہ اس طرف نہیں جاتی ہے اور وہ بغیر دیکھے ہی نیچے اتر جاتے ہیں۔ کیوں کہ زیادہ تر صحافی اور نامہ نگار اپنی رپورٹ کردہ خبریں (stories) فائل کرنے کے آخری وقت (deadline) کو پورا کرنے کے چکر میں جلد بازی میں رہتے ہیں۔
دلی میں جب میں نیا تھا تو اس وقت پریس کلب آف انڈیا کی رکنیت کی دستیابی کے بعد میں نے PCI کے مختلف گوشوں کامعائنہ کیا۔ میری نظریں فوری طور پر اس شخص کی تصویر پر ٹک گئی جو سفید بنگالی کرتے کے ساتھ بغیر آستین والی کالی صدری اور پائجامہ میں ملبوس جس کی پشت پر لوگوں کا ایک جم غفیر ہے۔ سیڑھی کے آرام گاہ پر پہنچنے کے بعد میں نے تصویر میں موجود آدمی کو شناخت کرنے کی کوشش کی اور بالآخر تصویر کے اوپری حصہ پر لگے عنوان (caption) سے میرے تجسس کی پیاس بجھی۔دراصل وہ تصویر بنگلا دیش کے بابائے قوم ’بنگا بندھو‘ شیخ مجیب الرحمان کی ہے۔
بھارتی لوگ خواہ ان کا عقیدہ جو بھی ہو، بنگلا دیش اور بالخصوص مجیب الرحمان سے ایک جذباتی رشتہ رکھتے ہیں۔ بھارتی آزادی تحریک کے دوران جب تک وہ دلی میں رہے بھارت کے قریبی دوست ہونے کی حیثیت سے انہوں نے گاندھی جی کے تمام مذہبی پروگراموں میں شرکت کی۔ کئی تصاویر میں مجیب الرحمان تمام مذہبی پروگراموں میں گاندھی جی کے پیچھے کھڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔ مجیب الرحمان ہمیشہ ملک میں بنا ہوا لباس (کھادی) کا کپڑا زیب تن کیا کرتے تھے۔اس لحاظ سے وہ ایک حقیقی گاندھیائی اور ’سودیشی‘ فکر میں پختہ یقین رکھنے والے تھے۔ لہٰذا، حکومت ہند کے لیے یہ کافی مناسب تھا کہ وہ انہیں مارچ 2021 میں ان کی پیدائش کے سو سال پورے ہونے اور بنگلہ دیش کی آزادی کے پچاسویں سال کے موقع پر بعد از مرگ گاندھی پیس پرائز (Gandhi Peace Prize) سے نوازتی۔
مگر میری کھوج بین اس تعلق سے تھی کہ آخر کیا وجہ رہی ہے کہ شیخ مجیب الرحمان کی تصویر اب بھی یہاں پر آویزاں ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے سابق صدر اور حکومت کے لیے نمبر دو کی حثیت رکھنے والے امت شاہ نے بنگلہ دیشی تاریکین وطن کو ’دیمک‘ سے تشبیہ دی تھی جو دیمک کی طرح بھارت کو اندر سے کھوکھلا کر رہے ہیں۔ امیت شاہ اس طرح کے قابل اعتراض تبصرے مستقل کرتے آئے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے مشرقی افریقہ کے روانڈا میں نسل کشی شروع ہونے سے پہلے تتسی قبیلے کو کاکروچ کہہ کر پکارا گیا تھا۔ بھارت میں کچھ لوگ یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ مودی حکومت کے ذریعہ لائے گئے شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) اور آسام کے بعد باقی ہندوستان میں نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی) کی مشق میں توسیع کا مطالبہ، مسلمانوں کو ’غیر ملکی‘ کے طور پر بدنام کرنے کے لیے ان کی سرزمین بھارت میں سب سے بڑی مذہبی اقلیت کی بڑے پیمانے پر نسل کشی کا باعث بن سکتی ہے۔
میں نے بی بی سی کے سابق نامہ نگار اور پریس کلب آف انڈیا کے سابق صدر ستیش جیکب سے سوال کیا تھا لیکن میں ان کی وضاحت سے مطمئن نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ میرے کچھ پرانے صحافی ساتھی جو دلی میں تقریباً نصف صدی سے کام کر رہے ہیں اور تقریباً ایک دہائی سے PCI انتظامیہ سے جڑے ہوئے ہیں، ان کے پاس بھی کوئی تشفی بخش جواب نہیں تھا۔ ان میں سے ایک نے مجھ سے یہاں تک پوچھا کہ میں پی سی آئی کے احاطے میں بنگلا دیش اور شیخ مجیب الرحمان کی تصویر کا مسئلہ کیوں اٹھانا چاہتا ہوں۔
اور آخر کار مجھے پی سی آئی کے صدر اوماکانت لکھیرا سے معقول جواب مل گیا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں بنگلا دیش ہائی کمیشن (BHC) بنگلہ دیش کے بابائے قوم شیخ مجیب الرحمن کی صد سالہ تقریب کے دوران ہندوستان اور بنگلا دیش کے درمیان دو طرفہ تعلقات کو مزید بہتر بنانے کے لیے PCI میں کچھ تعاون کرنا چاہتا ہے۔ یہ (BHC) کا ’بنگا بندھو‘ کی میراث کو یاد کرنے کا اشارہ تھا۔ وہ انسانی حقوق اور آزادی کے ہیرو تھے جس نے انہیں پاکستان سے باہر ایک آزاد بنگلا دیش کے لیے لڑنے پر اکسایا۔ کیونکہ مغربی پاکستان کے سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ مغربی پاکستانیوں کے زیر تسلط فوج نے شیخ مجیب الرحمان کو پاکستان کا وزیر اعظم بننے کی اجازت نہیں دی۔جبکہ ان کی پارٹی نے 1971 میں قومی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔ مزید برآں، شیخ مجیب الرحمان نے کل وقتی کریئر کے طور پر سیاست میں آنے سے پہلے ایک صحافی کے طور پر اپنے کریئر کا آغاز کیا تھا۔
بھارت اور بنگلا دیش کے درمیان ایک مضبوط ثقافتی اور جذباتی رشتہ بھی ہے۔ مثال کے طور پر جیسے ہی شیخ مجیب الرحمان نے 26 مارچ 1971 کو بنگلا دیش کی آزادی کا اعلان کیا مغربی پاکستان نے مشرقی پاکستان پر حملہ کر دیا۔ اس وقت بھارت نے بنگلا دیش بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
 اوماکانت لکھیرا نے کہا ’’مجیب الرحمان ایک مضبوط جمہوریت پسند، انسانی حقوق اور آزادی کے چیمپئن ہونے کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے عظیم دوست تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے ان کی قد آدم (life-size picture) کو نصب کرنے کے لیے ایک مناسب جگہ کا انتخاب کیا ہے، جہاں PCI آنے والا کوئی بھی شخص اسے دیکھ سکے‘‘۔ وہیں پی سی آئی کے صدر نے نشاندہی کی کہ ’’اس کے علاوہ بنگلا دیش کے ساتھ بھارت کے سفارتی تعلقات بھی بہترین ہیں‘‘۔
بھارت بنگلا دیش کے ساتھ چار ہزار کلومیٹر طویل سرحد کا اشتراک کرتا ہے جو عالمی سطح پر پانچویں طویل زمینی سرحد ہے۔ ہندوستان کی پانچ ریاستیں مغربی بنگال، آسام، تریپورہ، میگھالیہ اور میزورم بنگلہ دیش کے ساتھ سرحد کا اشتراک کرتی ہیں۔
بنگلا دیش ہائی کمیشن نے PCI کے پریس کانفرنس ہال کی تزئین وآرائش اور مزید سہولتوں کی فراہمی کے لیے سات لاکھ روپے کی پیشکش کی۔ لیکن پی سی آئی نے اسے مناسب نہیں سمجھا کیونکہ وزارت دفاع نے پریس کانفرنس ہال کو تیس لاکھ روپے میں بنایا تھا۔ وہیں وزارت دفاع سے مشاورت درکار تھی۔
پالیسی میٹر کے حوالے سے بات کی جائے تو PCI کبھی بھی عطیات یا امداد کو نقد میں قبول نہیں کرتا ہے۔ PCI نے BHC سے گراؤنڈ فلور پر میڈیا سنٹر کی تعمیر نو اور PCI کے آرکائیوز ہال میں سہولت فراہم کرنے کی تجویز دی۔ بی ایچ سی نے اس تجویز سے اتفاق کیا۔ BHC نے بنگلا دیش کے بانی صدر شیخ مجیب الرحمان کی صد سالہ پیدائش کے موقع پر PCI میں میڈیا سنٹر بنایا جسے ’بنگا بندھو‘ (بنگال کا دوست) میڈیا سنٹر کہا جاتا ہے۔ BHC نے ایک پروجیکٹر، چار ایئر کنڈیشنر، اور ایک بڑا ٹیلی ویژن سیٹ بھی نصب کیا۔
میڈیا سنٹر کا افتتاح اس سال ستمبر میں بنگلا دیش کے وزیر اطلاعات و نشریات حسن محمود نے بنگلا دیش کے صحافیوں کے وفد کے علاوہ بھارتی وزارت خارجہ کے حکام کی موجودگی میں کیا تھا۔ پی سی آئی نے دونوں دوست ممالک کے صحافیوں کے درمیان باہمی تعاون کے لیے بنگلا دیش نیشنل پریس کلب کے ساتھ مفاہمت کی ایک یادداشت پر بھی دستخط کیے۔
(بشکریہ: انڈیا ٹومارو)
***

 

***

 بھارت بنگلا دیش کے ساتھ چار ہزار کلومیٹر طویل سرحد کا اشتراک کرتا ہے جو عالمی سطح پر پانچویں طویل زمینی سرحد ہے۔ ہندوستان کی پانچ ریاستیں مغربی بنگال، آسام، تریپورہ، میگھالیہ اور میزورم بنگلہ دیش کے ساتھ سرحد کا اشتراک کرتی ہیں۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  19 تا 25 دسمبر 2021