پرکشش جملے!بےاثر اقدامات !!

خود کفیل بھارت کے لیے معاشی استحکام کی ٹھوس کوشش ضروری

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

 

کورونا قہر کو قابو میں کرنے کے لیے وزیر اعظم مودی نے بغیر منصوبہ بندی اور رائے مشورہ کے محض 4 گھنٹوں کی نوٹس پر دنیا کا سب سے سخت ترین لاک ڈاون نافذ کر دیا۔ اس طریقہ کار پر ملکی اور غیر ملکی ماہرینِ اقتصادیات اور نوبل انعام یافتگان نے حکومت کی زبردست تنقید کی جن میں پروفیسر رگھو رام راجن، ارجت پٹیل، پروفیسر کاوشک باسو، پروفیسر ابھیجیت بنرجی اور ورلڈ بینک کے سابق چیف اکانومسٹ، کولمبیا یونیورسٹی میں اکانومکس کے استاد اور اکانومکس کے نوبل انعام یافتہ پروفیسر جوزف اسٹگلز وغیرہ ہیں۔ پروفیسر جوزف نے کہا کہ بھارت نے ایک ہی راستہ چُنا اور وہ ہے سخت لاک ڈاؤن۔ حکومت نے سوچا تک نہیں کہ یہ ایک غریب ملک ہے لوگ گھروں میں بند رہ کر زندہ کیسے رہ پائیں گے جب کہ حکومت اس وبا کو قابو میں کرنے کے لیے ضروری رقم اکٹھا کرنے میں ناکام رہی۔ اس سے برا کوئی راستہ نہیں ہوسکتا تھا جس کی وجہ سے ملکی معیشت بہت بڑی مصیبت کی شکار ہو گئی۔ اس مصیبت سے نکلنے کے لیے حکومت نے تیسرے راحت پیکیج کا اعلان کیا۔ خود کفیل بھارت کے اس تیسرے پیکیج میں 2 لاکھ 15ہزار کروڑ روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ اس سے قبل حکومت نے گزشتہ ماہ درگا پوجا کے موقع پر 20 لاکھ سے زائد سرکاری ملازمین کو بلا سودی 10 ہزار روپوں کا فیسٹیول ایڈوانس اور ایل ٹی سی ووچر دیا تاکہ لوگوں کی قوتِ خرید بڑھے اور بازار میں طلب پیدا ہو۔ بہت دنوں سے ماہرین اقتصادیات 3 تا 4 لاکھ کروڑ روپے کی راحت پیکیج کا مطالبہ کرتے آرہے تھے تاکہ دیہی علاقوں میں گھر لَوٹے مہاجر مزدوروں کو جو بے روزگار ہوگئے ہیں 2 ہزار روپے نقد اور 10 کیلو خوردنی اشیا دیے جائیں۔ دیر آید درست آید کے مصداق اگر اس میں پردھان منتری غریب کلیان پیکیج، دیگر منصوبوں اور آر بی آئی کی کوششوں کے ساتھ خود کفیل بھارت منصوبوں کو جمع کیا جائے تو یہ مرکزی راحت پیکیج تقریباً 30 لاکھ کروڑ روپیوں کا ہوتا ہے جو جی ڈی پی کا 15 فیصد بنتا ہے جس سے توقع ہے کہ معیشت کو سنبھالنے اور پٹری پر لانے میں کافی مدد مل سکے گی۔ پردھان منتری کلیان یوجنا کے تحت غریب خاندانوں اور معاشی طور سے کمزور لوگوں کو جو بھی امداد دی گئی وہ کافی نہیں تھی اس لیے خود کفیل بھارت کے دوسرے اور تیسرے راحت پیکیجوں کے ذریعے دی جا رہی امداد سے کمزور طبقوں کی مصیبت میں بڑی حد تک کمی آئے گی اس لیے یہ قدم قابل ستائش ہے۔ قرض کی رقم میں اضافہ نہ ہونا بڑی تشویش کی بات ہے کیونکہ چھوٹے اور متوسط صنعت کار اور کارخانہ دار ابھی بھی سرمایہ کی کمی سے پریشان ہیں کیونکہ صنعت میں تیزی سے ہی معیشت میں بہتری آئے گی۔ تعمیر اور رئیل اسٹیٹ کا حال ابھی بھی برا ہے کیونکہ اس پر 28 فیصد کی شرح سے جی ایس ٹی نافذ ہے۔ اس لیے صنعت کاروں کے لیے ایمرجنسی قرض کا انتظام اور کسانوں کے لیے کھاد وغیرہ میں زیادہ سبسیڈی ضروری ہو جاتی ہے۔ توقع ہے کہ حکومت صنعتوں کے پہیوں کو گھمانے کے لیے ضروری قدم اٹھائے گی۔ زرعی شعبہ پہلے سے ہی زیادہ مشکل حالات سے گزر رہا ہے اور کورونا قہر میں اس پر کافی دباؤ بڑھ گیا ہے اس کے باوجود بہترین پیداوار اور برآمدات میں اضافہ کی وجہ سے ان شعبوں نے معیشت کی خوب یعنی 65 ہزار کروڑ روپیوں کی مدد کی ہے۔ کھاد کے لیے سبسیڈی جس سے 14کروڑ کسانوں کو فائدہ ملنے کی توقع ہے اور دیگر ذرائع مثلاً غریب کلیان یوجنا کے کچھ حصے سے زراعت اور کسانوں کو بڑی راحت مل سکتی ہے۔ زراعت میں معاون بجلی، بیج وغیرہ میں بھی راحت ملنی چاہیے۔ ٹی ایم آواس یوجنا کے ذریعے 18ہزار کروڑ روپے کی تقسیم بھی وزیر خزانہ کے اعلان کا اہم جز ہے۔ غریب کلیان روزگار یوجنا میں الگ سے 10ہزار کروڑ روپیہ خصوصی طور پر دفاع سے منسلک شعبوں کی بہتری کے لیے مختص کیا گیا ہے۔ امید ہے کہ مستقبل قریب میں معاشی سرگرمیوں کو تحریک ملنے میں تاخیر ہو کیونکہ بنیادی ڈھانچے بہت ہی مشکلات سے دوچار ہیں حکومت کو بھی اس کا شدید احساس ہے اس لیے وہ مال فراہم کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے جو رقم بھی فراہم کی جارہی ہے وہ ضرورت سے کافی کم ہے۔ اگر کمپنیاں حکومت سے مالی فائدہ حاصل کرنا چاہتی ہیں تو اس سے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی سوال ہے کہ کیا ایسے مشکل حالات میں کمپنیاں نئے لوگوں کو رکھ کر اپنا خرچ بڑھانے کا خطرہ مول لیں گی جب کہ بازار ابھی بھی غیر مستحکم ہے؟ راحت پیاکیج کی فوری ضرورت ہے وہ ابھی ملے گی تب ہی معیشت کو جلدی معمول پر لایا جا سکے گا۔ وزیر خزانہ کے سابقہ اور تازہ اعلان میں فوری تقسیم اور تعاون کی بہت زیادہ کوششیں ہیں لیکن کئی اسکیموں کو دوچار سال کی مہلت دی گئی ہے اس کا مطلب ہے راحت کی تمام اعلان شدہ رقوم فوری طور پر مہیا نہیں کرائی جاسکتیں یا انہیں ابھی خرچ نہیں کیا جاسکے گا۔ اسی کے ساتھ گزشتہ منصوبوں پر خرچ کیے گئے نئی مالی مدد کو جمع کیا جائے گا۔ اسی وجہ سے کہا جاسکتا ہے کہ معیشت کو براہ راست دھکا دے کر متحرک کرنے کی جو کوششیں ہونی چاہئیں وہ اس پیکیج میں موجود نہیں ہیں۔ فچ ہولوشن نے بھی اسی کا عندیہ دیا ہے۔ فی الوقت حکومت کی براہ راست مزید مالی مدد اور تقسیم کی ضرورت ہے۔ ظاہراً لاک ڈاؤن کھولنے کے بعد معیشت میں بہتری کے کچھ آثار ضرور ہیں لیکن سستی اور مصیبت کی حقیقت ایسی ہے کہ معیشت کو پٹری پر لانے میں بہت وقت لگ سکتا ہے کیونکہ کورونا قہر کا پھیلاؤ اب بھی نہیں تھما ہے۔ روزآنہ 50 ہزار سے زیادہ نئے کیسز سامنے آرہے ہیں۔ ہمارے ملک کی طرح عالمی معیشت بھی غیر یقینیت کا شکار ہے۔ فی الوقت طلب بڑھانا ضروری ہے۔ اس لیے لوگوں کو نقد فراہم کرنا ہوگا کیونکہ طلب، پیداوار، سپلائی اور روزگار کا آپس میں قریبی تعلق ہے۔ واضح رہے کہ حکومت نے وقتاً فوقتاً معیشت کی بہتری کے لیے کئی قدم اٹھائے ہیں اور آئندہ بھی مالی امداد دینے کے لیے بہتر طریقے اختیار کرے گی۔ اس طرح کی کوششوں میں گزشتہ کوششوں کے اعداد و شمار کو سامنے رکھا جائے گا تاکہ دیکھا جاسکے کہ خود کفیل بھارت پیکیج کا کیا اثر ہوا ہے تاکہ اندازہ کیا جاسکے کہ معیشت کے کن پہلوؤں پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے؟ معیشت کی بہتری کے لیے کی جا رہی کوششوں پر مہنگائی کے تیور بھاری پڑ رہے ہیں۔
مہنگائی جس طرح گزشتہ چار ماہ سے لگاتار بڑھ رہی ہے اور تمام تر کوششیں معیشت میں سستی دور کرنے کی جارہی ہیں، اس پر پانی پھرتا نظر آرہا ہے۔ فی الوقت خردہ مہنگائی کی شرح 7.61فیصد ہے جو پچھلے چھ سالوں میں سب سے اونچائی پر ہے۔ ویسے پوری معیشت پر جس طرح دباو ہے اس میں مہنگائی ایک بڑا خطرہ ہے۔ ایسے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے نومبر کے بلیٹن میں آر بی آئی نے اقرار کیا ہے کہ بھارت میں ٹیکنیکل ریسیشن آگیا ہے ۔ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ ریسیشن کے ساتھ ٹیکنیکل جوڑا گیا ہے۔ آر بی آئی نے کہا ہے کہ تاریخ میں پہلی بار بھارت میں ٹیکنیکل ریسشن آیا ہے۔ اپنے سالانہ بلیٹن کے ایک حصہ کے طور پر آر بی آئی نے ناو کاسٹنگ (now casting) یا معیشت کی حالت کے حال یا بہت مستقبل قریب کی پیش گوئی کردی ہے۔ پہلے ناو کاسٹنگ کی پیش گوئی یہ ہے کہ بھارت کی معیشت جاریہ مالی سال کی دوسری سہ ماہی جولائی تا ستمبر 8.6فیصد گرسکتی ہے ۔ آر بی آئی کی ڈکشنری میں نائو کاسٹ لفظ کا استعمال کیا گیا ہے جیسے فار کاسٹ کا استعمال پیشن گوئی ہوتا ہے ویسے ہی ناو کاسٹ کا مطلب موجودہ حالات کی تفصیل بتانا ہے چونکہ پہلی سہ ماہی کے مقابلے دوسری سہ ماہی میں گراوٹ کافی کم ہے لیکن یہ اہم بھی ہے کیونکہ بھارت اپنی تاریخ کی پہلی ششماہی میں تکنیکی سستی یا ٹیکنیکل ریسیشن میں داخل ہوگیا ہے ۔عام طور پر سستی چند سہ ماہیوں تک چلتی ہے اگر سستی سالوں تک وسیع ہوئی ہے تو اسے Depression کہا جاتا ہے۔
***

راحت پیاکیج کی فوری ضرورت ہے وہ ابھی ملے گی تب ہی معیشت کو جلدی معمول پر لایا جا سکے گا۔ وزیر خزانہ کے سابقہ اور تازہ اعلان میں فوری تقسیم اور تعاون کی بہت زیادہ کوششیں ہیں لیکن کئی اسکیموں کو دوچار سال کی مہلت دی گئی ہے اس کا مطلب ہے راحت کی تمام اعلان شدہ رقوم فوری طور پر مہیا نہیں کرائی جاسکتیں یا انہیں ابھی خرچ نہیں کیا جاسکے گا۔ اسی کے ساتھ گزشتہ منصوبوں پر خرچ کیے گئے نئی مالی مدد کو جمع کیا جائے گا۔ اسی وجہ سے کہا جاسکتا ہے کہ معیشت کو براہ راست دھکا دے کر متحرک کرنے کی جو کوششیں ہونی چاہئیں وہ اس پیکیج میں موجود نہیں ہیں۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020