پردھان منتری آواس یوجنایا فراڈ کی یوجنا؟
وزیراعظم سے موسوم اسکیم میں خرد برد ہو تو پھراعتبار کس پر کیا جائے؟
زعیم الدین احمد، حیدرآباد
سی بی آئی نے دیوان ہاؤزنگ فائنانس کارپوریشن لمیٹڈ (ڈی ایچ ایف ایل) کے مالکان اور دیگر افراد پر پردھان منتری آواس یوجنا میں بڑی بھاری چوری، دھوکہ دہی اور جعلسازی کے الزامات پر مقدمہ درج کیا ہے۔ سی بی آئی کی چارج شیٹ میں شامل افراد میں کپل اور دھیرج ودھاون بھی شامل ہیں جن کا سابقہ ریکارڈ یہ ہے کہ ان لوگوں پر متعدد بینکوں کو دھوکہ دینے کے الزامات لگے ہوئے ہیں اور ساتھ ہی نیشنل ہاؤزنگ بینک (این ایچ بی) کے نامعلوم عہدیداروں کے نام بھی اس میں شامل ہیں۔ ایجنسی نے کہا کہ ڈی ایچ ایف ایل جو پہلے ہی سے مختلف ایجنسیوں کی متعدد تحقیقات کا سامنا کر رہی ہے اس نے پی ایم اے وائی کے تحت دو لاکھ ساٹھ ہزار جعلی قرضوں کے اکاؤنٹ کھولے اور ان اکاؤنٹس سے جملہ چودہ ہزار چھیالیس کروڑ روپے فرضی قرضے بھی دیے اور حکومت سے اس کے عوض سبسڈی بھی وصول کی۔
اپنے ادارہ کے سرمایہ کاروں کے اجلاس کے دوران کمپنی کے ان ذمہ داروں نے (جو اب ملزم بن چکے ہیں) دعویٰ کیا تھا کہ ڈسمبر 2018 تک کمپنی نے پی یم اے وائی اسکیم کے تحت 88,651 درخواستوں یا مکانات سے متعلق کارروائی پوری ہونا بتایا ہے۔ 53,940 کروڑ روپے بطور سود سبسڈی وصول ہو چکے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ مرکزی حکومت کی جانب سے بطور سبسڈی کے 1,34,780 کروڑ روپے طلب تھے جس کی جملہ رقم 18,872 کروڑ روپے ہوتی ہے۔ PMAY اسکیم کا اعلان مرکزی حکومت نے اکتوبر 2015 میں کیا تھا اور اس کا انتظام وزارت ہاؤسنگ اور شہری ترقیاتی کے سپرد کیا گیا تھا۔ اس اسکیم کے تحت معاشی طور پر کمزور طبقات کو زمین خریدنے، ان پر مکانات تعمیر کرنے کے علاوہ کچی آبادیوں میں ترقیاتی اسکیموں کے تحت رہائشی مکانات تعمیر کرنا ہوتا ہے۔ اسی اسکیم کے تحت لوگوں کو مکانات کی تعمیر کے لیے قرض لینے کی سہولت دی گئی جسے سرکاری ہاؤسنگ کمپنیوں کے ساتھ ساتھ خانگی ہاؤزنگ کمپنیوں کو بھی اجازت دی گئی کہ وہ بھی قرض فراہم کرسکتے ہیں۔ یہ قرضہ جات رعایتی شرح سود کے ساتھ دیے جاتے ہیں جس کی سالانہ شرح سود 3 فیصد سے 6.5 فیصد تک ہوتی ہے۔ اس اسکیم کو روبہ عمل لانے کے لیے (ڈی ایچ ایف ایل) نے بھی رہائشی مکانات کی تعمیر کے لیے قرض فراہم کیا تھا۔ اس اسکیم کے تحت زیادہ سے زیادہ چوبیس لاکھ روپے قرض دیا جاتا ہے جس پر سبسڈی دو لاکھ تیس ہزار سے دو لاکھ ستر ہزار روپے تک ہوتی ہے جو الگ الگ زمروں کے لیے ہوتی ہے۔ اس رعایت کی ادائیگی مرکزی حکومت نیشنل ہاؤسنگ بینک کے ذریعہ ہاؤزنگ ادارہ کو کرتی ہے جس نے قرض فراہم کیا ہے۔ نیشنل ہاؤسنگ بینک، وزارت خزانہ مرکزی حکومت کی ایک ریگولیٹری ایجنسی ہے۔ نیشنل ہاؤسنگ بینک جولائی 1988 کو نیشنل ہاؤزنگ ایکٹ 1987 کے تحت قائم کیا گیا ہاؤسنگ کا اعلیٰ مالیاتی ادارہ ہے۔
سی بی آئی کی ایف آئی آر میں اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ اس ادارے نے پی یم اے وائی کے تحت متعدد جعلی (بوگس) اکاؤنٹ کھولے تاکہ اس سے سبسڈی حاصل کی جا سکے۔ سی بی آئی نے کہا کہ یہ کام این یچ بی کے عہدیداروں کی ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتا لہٰذا انہی لوگوں نے مل کر سرکاری خزانے کو لوٹا اور حکومت کو دھوکہ دیا۔
فرانزک آڈٹ گرانٹ تھورنٹن (جی ٹی) سے انکشاف ہوا ہے کہ کپل اور دھیرج ودھاون نے دو لاکھ ساٹھ ہزار جعلی ہاؤسنگ لون کھاتے کھولے جن میں کئی کھاتے PMAY اسکیم کے تحت کھولے گئے۔ یہ کھاتے نہ صرف یہ کہ فرضی ہیں بلکہ دو لاکھ ساٹھ ہزار گھروں کی تعمیر بھی فرضی ہے اور ان گھروں کی تعمیر کے لیے چودہ ہزار کروڑ روپے قرض فراہم کرنے کا جھوٹا دعویٰ بھی فرضی ہے جس کے لیے اس ادارے نے ایک جعلی وفرضی شاخ بندرا برانچ کے نام سے قائم کی اور پورے قواعد کے ساتھ اس نے مرکزی حکومت سے ایک ہزار آٹھ سو اسی کروڑ روپے بطور سود سبسڈی وصول کیے۔ پچھلے سال جون میں سی بی آئی نے ودھاون برادرز اور یس بینک کے بانی رانا کپور کے خلاف ایک چارج شیٹ داخل کی تھی۔ رانا کپور پر یہ الزام عائد کیا تھا کہ ان کے اہل خانہ کو ڈی ایچ ایف ایل میں سرمایہ کاری کرنے پر خطیر رقم بطور رشوت دی گئی ہے۔
یہ دھوکہ دہی گھوٹالہ ماہ اپریل اور جون 2018 کے درمیان پیش آیا جب یس بینک نے ڈی ایچ ایف ایل کے قلیل مدتی دستاویزی قرض ڈیبینچرس میں تین ہزار سات سو کروڑ روپے کی خطیر رقم کی سرمایہ کاری کی تھی جو یقیناً عوام کا پیسہ ہی تھا۔ اس سرمایہ کاری کے عوض ودھاوان نے رانا کپور کی اہلیہ اور بیٹیوں کے مختلف کاروباری اداروں کو مبینہ طور پر قرض کی شکل میں چھ سو کروڑ روپوں کی رشوت ادا کی تھی۔ ڈی ایچ ایف ایل نے کبھی بھی بینک سے لی گئی تین ہزار سات سو کروڑ روپے قرض کی رقم واپس نہیں کی۔ ودھاوان بھائیوں کو گزشتہ سال اپریل میں گرفتار کیا گیا اور رانا کپور کو مارچ میں گرفتار کیا گیا۔ اس مالیاتی ادارے میں متعدد بے ضابطگیوں کے منظر عام پر آنے کے بعد ریزرو بینک آف انڈیا نے اسے اپنےقبضے میں لے لیا ہے اور اپنا ایک نگران کار مقرر کر دیا ہے۔
سی بی آئی کی چارج شیٹ میں تین بنیادی باتیں درج ہیں جس کی بنیاد پر ہی ان پر مقدمہ درج کیا گیا ہے:
سی بی آئی کے مطابق ڈی ایچ ایف ایل نے مبینہ طور پر ’’جعلی اور فرضی‘‘ ہوم لون اکاؤنٹ بنائے جن کی مالیت چودہ ہزار کروڑ روپوں سے زیادہ ہے اور اس نے حکومت سے مبینہ طور پر ایک ہزار آٹھ سو اسی کروڑ روپے بطور سود سبسڈی کے حاصل کیے۔
دسمبر 2018 میں ڈی ایچ ایف ایل نے سرمایہ کاروں کو بتایا کہ اس نے پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت اٹھاسی ہزار چھ سو اکاون قرضوں پر عملدرآمد کیا ہے اور پانچ سو انچالیس اشاریہ چار کروڑ روپے بطور سبسڈی وصول کیے ہیں اور ایک ہزار تین سو سیتالیس اشاریہ آٹھ کروڑ روپے واجب الادا ہیں۔
فرانزک آڈٹ نے انکشاف کیا ہے کہ اس نے ممبئی میں ایک فرضی ادارہ کھولا جس کا نام باندرا برانچ ہے جس میں جعلی ہاوزنگ قرض کے کھاتے کھولے گئے۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ ہمارے ملک کے وزیر اعظم مودی جنہوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ملک سے رشوت کے چلن کا خاتمہ کر دیں گے اور اپنے انتخابی جلسوں میں بآوازِ بلند کہا تھا کہ نہ کھاؤں گا نہ کھانے دوں گا ایسا لگتا ہے کہ وہ صرف زبانی وعدے ہی تھے اور نعرے بھی ہوا میں تحلیل ہو گئے۔ ان کی ناک کے نیچے ایک کے بعد دیگرے اتنے بڑے بڑے گھوٹالے ہوتے چلے جا رہے ہیں لیکن ان کی کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ وہ سابق وزیر اعظم کو ’’مون موہن‘‘ کا طعنہ دیا کرتے تھے کہ وہ گھوٹالوں پر کچھ نہیں بولتے اور کارروائی نہیں کرتے پھر انہیں کیا مجبوری لاحق ہو گئی کہ ان کی زبان گنگ ہے۔ پردھان منتری آواس یوجنا میں اتنی بھاری مالی خرد برد ہوتی رہی اور معلوم نہیں کیوں اتنے بڑے پیمانے پر سبسڈی دی گئی؟ کیوں ان دستاویزات کی جانچ نہیں کی گئی؟ جب زمین پر گھروں کا وجود ہے نہ ہی قرض فراہم کرنے والے اداروں کا وجود ہے اور نہ ہی کھاتے ہیں نہ کھاتے دار!! تعجب خیز بات یہ ہے کہ ایک ایسے ادارے کو جس کی سابقہ کارکردگی مشکوک رہی ہے جس نے یس بینک سے قرض لے کر آج تک واپس نہیں کیا جو مختلف دھوکہ دہی معاملات میں ملوث ہے اس پر کس طرح اعتبار کیا گیا؟ سبسیڈی دیتے وقت کیوں تحقیقات نہیں کی گئیں؟
مرکزی حکومت کی اسکیمات میں ایسے اور کتنے معاملات ہوں گے جن میں مالی خرد برد کیا گیا ہوگا؟ یہ تو ایک معاملہ ہے جو منظر عام پر آنے سے عوام کو خبر ہوئی ہے ورنہ عوام کو اندھیرے میں رکھ کر کیا کیا گل کھلائے جاتے ہوں گے یہ کسی کو نہیں معلوم۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنی بڑی دھوکہ دہی کا معاملہ بغیر حکومتی سرپرستی کے انجام پائے؟ یقیناً اس میں حکومتی کارندوں کا ہاتھ ہو گا اور ساتھ ہی سیاست دانوں کی سرپرستی بھی شامل ہو گی تب ہی یہ ممکن ہو سکتا ہے۔ چونکہ یہ اسکیم وزیر اعظم سے موسوم ہے اسی لیے انہیں چاہیے کہ اس پر کھل کر واضح الفاظ میں بیان دیں اور اس کی مکمل تحقیقات کا حکم دیں۔ اگر یہ حکومتی کارندوں کی کارستانی ہو تو ان پر سخت سے سخت کارروائی کرنے کا تیقن دیں۔ اگر یہ ڈی ایچ یف ایل ادارے کی کارستانی ہو تو ان پر کارروائی کریں اور انہیں کیفر کردار تک پہنچائیں۔ اگر اسی طرح حکومت کی اسکیموں پر ہی دھوکہ دیا جاتا رہا تو عام مالی معاملات میں تو اور بہت سے دھوکے دیے جا سکتے ہیں لہٰذا حکومت کو اس کی صفائی دینی چاہیے۔ یہ وزیر اعظم مودی اور ان کی سرکار پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کیوں کہ عوام نے کانگریس کو حکومت سے بے دخل اسی لیے کیا تھا کہ وہ رشوت خوری میں لت پت ہو چکی تھی اگر وہی حالت اس حکومت کی بھی رہی تو پھر ان کے رہنے کا کیا فائدہ؟ عوام کو بھی چاہیے کہ وہ حکومت سے سوال کرے، اسے کٹہرے میں کھڑا کرے اور اگر وہ جواب نہیں دیتی ہو تو اسے بھی اسی مقام پر پہنچا دیا جائے جہاں پچھلی حکومتوں پہنچا دیا گیا ہے۔
***
پردھان منتری آواس یوجنا میں اتنی بھاری مالی خرد برد ہوتی رہی اور معلوم نہیں کیوں اتنے بڑے پیمانے پر سبسڈی دی گئی؟ کیوں ان دستاویزات کی جانچ نہیں کی گئی؟ جب زمین پر گھروں کا وجود ہے نہ ہی قرض فراہم کرنے والے اداروں کا وجود ہے اور نہ ہی کھاتے ہیں نہ کھاتے دار!! تعجب خیز بات یہ ہے کہ ایک ایسے ادارے کو جس کی سابقہ کارکردگی مشکوک رہی ہے جس نے یس بینک سے قرض لے کر آج تک واپس نہیں کیا جو مختلف دھوکہ دہی معاملات میں ملوث ہے اس پر کس طرح اعتبار کیا گیا؟ سبسیڈی دیتے وقت کیوں تحقیقات نہیں کی گئیں؟
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 11 تا 17 اپریل 2021