کورونا کی واپسی اور ماو نوازوں کا حملہ

زبانی جمع خرچ ناکافی۔ مؤثر حکمت عملی کی ضرورت

ڈاکٹر سلیم خان

 

ملک میں کورونا سے متاثرین کی تعداد نے جب ایک لاکھ کا عدد پار کیا تو وزیر اعظم کو اس کا خیال آیا ورنہ تو وہ انتخابی مٹرگشتیوں میں ایسے مست تھے کہ اگر کوئی کہتا کہ کورونا تو وہ پوچھتے کون کورونا؟ 56 انچ کا سینہ رکھنے والے اس سے نہیں ڈرتے۔ خیر اس جملہ معترضہ سے قطع نظر عرض کرنا یہ ہے کہ 4 اپریل سے قبل 16ستمبر کو ملک میں سب سے زیادہ 97 ہزار 860 مریضوں کی تشخیص ہوئی تھی یعنی ملک میں ایک دن کے اندر ایک لاکھ یا اس سے زیادہ مریض کبھی نہیں آئے تھے لیکن اب اس ریکارڈ کو ایک لاکھ 3 ہزار 794 کی تعداد نے توڑ دیا ہے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کیونکہ اس دن ہندوستان دنیا کا واحد ملک بن گیا تھا جہاں 24 گھنٹوں کے اندر اتنے زیادہ لوگ متاثر ہوئے تھے۔
اس بات نے غالباً وزیر اعظم مودی کو تھوڑا سا سنجیدہ بلکہ رنجیدہ کر دیا چنانچہ انہوں ملک میں کووڈ-19کی صورتحال کا جائزہ لینے کا ارادہ کیا ان کی صدارت میں ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ منعقد کی گئی اور ٹیکہ اندازی پروگرام پر بھی اس نشست میں گفتگو ہوئی۔ اس کے ساتھ کورونا کی واپسی سے پیدا شدہ صورتحال سے موثر طور پر نمٹنے کے ساتھ سماجی بیداری کی ضرورت کو محسوس کیا گیا۔ وزیر اعظم ہر موقع پر دو کام ضرور کرتے ہیں ایک تصویر کھنچوانا یا ویڈیو بنوانا اور دوسرے تقریر یا کم ازکم وعظ و نصیحت کرنا۔ اس موقع کے لیے شاید ان کی تقریر لکھنے والے تیار نہیں تھے اس لیے انہوں نے پرانی گھسی پٹی تقریر کا مسودہ پکڑا دیا۔ ویسے اتنی ساری تقریریں کرنے والے خطیب کو کہاں یاد رہتا ہے کہ اس نے کب کیا کہا تھا؟ ویسے بھی جن باتوں پر عمل کیا جائے وہی یاد رہتی ہیں ورنہ تو انسان خطا کا پتلا ہے۔
وزیر اعظم مودی نے اپنے خطاب میں کورونا کو پھیلنے سے روکنے کے لیے عزم و سنجیدگی، جانچ، علاج، احتیاط اور ٹیکہ اندازی پر مشتمل ایک پنج رخی حکمت عملی نافذ کرنے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے بجا طور پر کووڈ-19 سے نمٹنے کے لیے عوامی شراکت داری کی ضرورت کا احساس دلایا اور اس کی خاطر تحریک چلانے کا مشورہ دیا۔ وزیر اعظم چونکہ مہم جُو انسان ہیں اس لیے انہوں نے 100 فیصد ماسک کا استعمال اور کووڈ کی روک تھام کے دیگر اصولوں پر عمل آوری کے لیے اس ماہ کی 6 سے 14 تاریخ تک ایک خصوصی مہم کے اہتمام کا اعلان کیا۔ ویسے کسی مہم کے بغیر بھی وزیر اعظم کے ہر لفظ کو گودی میڈیا زمین پر گرنے نہیں دیتا بلکہ نہایت سعادتمندی سے اٹھا کر اسے اپنے اخبار یا ویڈیو کی زینت بنا دیتا ہے اس لیے امید ہے کہ انتخابی مہم کے شانہ بشانہ ایک ہفتہ تک یہ کام بھی زور و شور سے ہوگا اور کیوں نہ ہو روزی روٹی کا جو سوال ہے۔
اس مہم کو سب سے زیادہ خطرہ خود وزیر اعظم سے ہے۔ اگر کہیں انہوں نے ایک ایسا پوسٹر نکال دیا کہ جس میں ٹوپی لگا کر کوئی مسلمان نظر آنے والا نوجوان ان کے کان میں کچھ کہہ رہا ہے تو سوشیل ڈسٹنسنگ یعنی سماجی فاصلے کی نیاّ ڈوب جائے گی اور اگر 3 اپریل کی مانند بغیر ماسک کے منھ اور دل کھول کر بولنا شروع کر دیا تب تو ماسکنگ کے اپدیش کا بھی جنازہ اٹھ جائے گا۔ ویسے بھکتوں کے لیے ان زبان کا زہر کورونا کے مضر اثرات کے لیے تریاق کا کام کرتا ہے اور وہ بے خوف و خطر پارٹی کے لیے اپنا تن من دھن سب کچھ جھونک دیتے ہیں۔ اسے کہتے ہیں جادو وہی جو سر چڑھ کر بولے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بنگال کا کالا جادو اس پر غالب ہوتا ہے یا نہیں؟ وزیر اعظم کی توجہ انتخاب سے ہٹا کر کورونا کی سنگین صورتحال کی جانب مبذول کرانے کے لیے منعقدہ میٹنگ میں پیش کیے جانے والے اعدادو شمار نے یہ بات اجاگر کر دی کہ ملک میں وبا کے کیس اور اموات میں اضافے کی شرح تشویش ناک ہے۔
اس کے علاو یہ افسوسناک صورتحال بھی سامنے آئی کہ کووڈ کی کُل اموات میں 91 فیصد سے زیادہ 10 ریاستوں میں ہوئیں۔ وزیر اعظم نے پبلک ہیلتھ ماہرین اور طبی ماہرین پر مشتمل مرکزی ٹیموں کو زیادہ معاملات اور اموات کے پیش نظر مہاراشٹر، پنجاب اور چھتیس گڑھ بھیجنے کی ہدایت کی۔ متاثرہ صوبوں میں مرکز کی ٹیم روانہ کرنے کے علاوہ بستروں کی دستیابی، ٹیسٹ کی سہولیات اور بروقت اسپتال میں علاج کو یقینی بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ وزیر اعظم نے صحت کے بنیادی ڈھانچے، آکسیجن اور وینٹی لیٹرز کی دستیابی میں اضافہ کر کے مشکل حالات میں مریض کو موت سے بچانے کی ضرورت کا اظہار کیا اور تمام اسپتالوں میں طبی علاج کے بندوبست کے پروٹوکولز کو یقینی بنانے کا تیقن دیا۔
اس طرح کی بھاشن بازی تو کوئی بھی کر سکتا ہے لیکن وزیر اعظم سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ عوام کو راحت پہنچانے کے لیے ٹھوس لائحہ عمل پیش کریں اور ان پر روبہ عمل ہونے کے لیے ضروری وسائل مہیا کیے جائیں ورنہ انتخابی وعدوں کی مانند یہ باتیں بھی ہوا میں تحلیل ہو کر غائب ہو جاتی ہیں۔ فی الحال ملک میں سے زیادہ متاثر ریاستوں میں چونکہ مہاراشٹر، پنجاب اور چھتیس گڑھ سر فہرست ہیں اور کانگریس کے ما تحت بھی ہیں اس لیے ان کی مدد کرنا مرکزی حکومت کے لیے ایک بڑا دھرم سنکٹ ہے۔ ایسے میں وفود کا جائزہ ہو جائے تب بھی معاملہ شاید ہی زبانی جمع خرچ سے آگے بڑھ کر مالی تعاون کی شکل اختیار کرے۔ سنگھی نقطہ نظر سے جس ریاست کے لوگوں نے بی جے پی کو ووٹ دینے کی غلطی نہیں کی وہ بھلا کسی قسم کی ہمدردی و غمخواری کے مستحق کیسے ہو سکتے ہیں؟
کورونا کی ویکسین کی طرح وزیر اعظم کا یہ پروچن ان کی دوسری خوراک تھی۔ اس سے قبل انہوں نے 18 مارچ کو جبکہ کورونا کے مریضوں کی تعداد 40 ہزار کو چھونے والی تھی اسی طرح کا ایک بھاشن دیا تھا۔ اس وقت بھی انہوں نے ملک کی کچھ ریاستوں میں کورونا وائرس کی واپسی اور تیزی سے پھیلنے پر تشویش کا اظہار کر کے روک تھام کی تلقین کی تھی۔ کورونا کے خلاف مہم میں اب تک کی حصولیابیوں کو برقرار رکھنے پر زور دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا تھا کہ اب لاپروائی کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔کورونا کی لڑائی میں اب تک کی کامیابی سے آنے والا اعتماد، لاپروائی میں نہیں بدلنا چاہیے۔ عوام کو ’پینِک موڈ‘ میں لائے بغیر پریشانی سے نجات بھی دلانی ہے۔ ٹیسٹ، ٹریک اور ٹریٹ کے سلسلے میں بھی اتنا ہی سنجیدہ رہنے کی ضرورت ہے جیسا گزشتہ ایک برس سے ہیں۔ بدقسمتی سے تقریر کے بعد اپنے ان الفاظ کو بھول بھال کر وزیر اعظم خود انتخابی مہم میں لگ گئے۔
وزیر اعظم مودی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے نہ صرف بنگال، آسام اور کیرالا کا دورہ کیا بلکہ انتخابی مہم چلانے کی خاطر بنگلہ دیش بھی پہنچ گئے۔ ویسے مودی جی کے لیے یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے وہ اگر ٹرمپ کو کامیاب کرانے کے لیے امریکہ جا سکتے ہیں تو اپنی پارٹی کی خاطر بنگلہ دیش کیوں نہیں جا سکتے؟ وہ نہ صرف ٹرمپ کی خاطر امریکہ پہنچ گئے تھے بلکہ ہندوستان بلا کر انہیں نمسکار بھی کیا تھا۔ اس طرح گویا اپنے آدرشیہ سرزمین گجرات پر امریکی سابق صدر کو انتخابی مہم چلانے کا موقع بھی دیا تھا۔ اس کے باوجود بھی اگر ٹرمپ نا کام ہو گئے تو اس میں مودی جی کا کیا قصور؟ جہاں تک کورونا کا سوال ہے وزیر اعظم بنگلہ دیش میں خود کو سرکاری تقریبات تک کو محدود رکھنے کے بجائے مندروں کے درشن پر نکل پڑے جس کے دو خطرناک نتائج نکلے۔ اول تو ان کے خلاف مظاہروں نے یہ خوش فہمی دور کردی کہ پورا بنگلہ دیش ہنوز ہندوستان کا احسان مند ہے۔ اس احتجاج پر سفاکانہ گولی باری میں کئی جانیں تلف ہوئیں نیز کورونا کا زور اس قدر بڑھا کہ حسینہ واجد کو ایک ہفتہ کا لاک ڈاون لگانے پر مجبور ہونا پڑا۔ یہ سُوئے اتفاق ہے کہ ملک میں کورونا کی پہلی لہر ٹرمپ کی واپسی اور دوسری لہر بنگلہ دیش سے وزیر اعظم کے لوٹنے کے بعد آئی۔
ملک کے عوام گزشتہ سال ان دنوں میں دوہرے عذاب کا شکار تھے۔ ایک طرف کورونا زخم پر زخم دے رہا تھا اور دوسری جانب وزیر اعظم آئے دن ٹیلی ویژن پر آ کر ان زخموں کو کرید رہے تھے۔ اس روایت کو جاری رکھتے ہوئے اس بار بھی وزیر اعظم نے ملک میں کووڈ-19 کے بندوبست کے لیے پچھلے پندرہ مہینوں میں کیے جانے والے اجتماعی اقدام کو بیکار ہونے سے بچانے کا حکم دے دیا۔ ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ وطن عزیز میں سرکاری اقدامات کا آغاز صرف 12 ماہ قبل ہوا تھا وہ اچانک 15 ماہ کیسے ہو گئے یہ تو وزیر اعظم ہی بتاسکتے ہیں۔ خیر بڑے بڑے لوگوں سے چھوٹی موٹی غلطیاں ہوتی رہتی ہیں۔
اس وقت ذرائع ابلاغ میں کورونا کی مایوس کن خبروں سے لوگ پہلے ہی اکتا گئے تھے۔ چین کے حملے نے خبروں میں ایک ہیجان پیدا کر دیا۔ وزیر اعظم کو بھی ایک نیا موضوع مل گیا۔ ایسے میں ’کوئی آیا ہی نہیں مگر واپس چلا گیا‘ والا عظیم لطیفہ بھلا کون بھول سکتا ہے؟ خیر وزیر اعظم نے ملک کے لوگوں کو تفریح کی صنعت سے بے نیاز کرنے کا عظیم کارنامہ انجام دیا ہے۔ اس بار کورونا کی سنگینی سے قبل ماو نوازوں نے چھتیس گڑھ کے بیجاپور میں حملہ کر کے 24 حفاظتی اہلکاروں کو ہلاک کر دیا۔ یہ حملہ اس قدر شدید تھا کہ وزیر داخلہ کو آسام کی انتخابی مہم کے درمیان سے دہلی واپس آنا پڑ۔ امیت شاہ کو 4 اپریل کو تین ریلیوں سے خطاب کرنا تھا لیکن محض ایک کے بعد انہیں خیال آیا کہ وہ ملک کے وزیر داخلہ بھی ہیں۔ انتخابی جلسوں میں فرقہ پرستانہ خطاب کرنے کے بجائے ملک کی داخلی صورتحال کو قابو میں رکھنا ان کا فرض منصبی ہے۔
آسام سے دہلی لوٹتے ہوئے ان کا جہاز چھتیس گڑھ کے اوپر سے گزرا ہو گا لیکن انہوں نے صلاح و مشورہ کے لیے پہلے دارالحکومت دہلی جانا ضروری سمجھا۔ خیر اگر وہ دہلی آئے بغیر بھی اگر اس سانحہ کے لیے کانگریسی وزیر اعلیٰ کو ذمہ دار ٹھہرا کر اس کا انتخابی فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے تب بھی میڈیا ان سے سوال پوچھنے کی جرأت نہیں کرتا۔ میڈیا اگر ایسی غلطی کر دے تو وہ سرکاری اشتہارات کا حقدار نہیں رہے گا۔ نمک حلالی بھی کوئی چیز ہے۔ فی الحال ٹیلی ویژن انڈسٹری اپنی بقا کی خاطر سرکاری اشتہارات کی بے حد محتاج ہے اس لیے کہ نجی صنعتیں خستہ حالی کا شکار ہیں۔ سرکاری مہربانیوں سے اڈانی اور امبانی جیسے لوگ تو پھل پھول رہے ہیں مگر وہ بھی حکومت پر تنقید کرنے والوں کو اشتہار دے کر سرکاری ناراضی کا خطرہ نہیں مول لیں گے۔
دہلی میں غالباً وزیر داخلہ کو کسی نے احساس دلایا کہ انہیں چھتیس گڑھ جا کر شہید ہونے والے جوانوں سے اظہار عقیدت کرنا چاہیے ورنہ انتخابی مہم کے دوران بدنامی ہو سکتی ہے۔ جگدل پور جا کر زخمی فوجیوں سے ملاقات کی خبر انتخابی فائدے کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ آئندہ صوبائی انتخاب میں اسے بھنایا جاسکتا ہے۔ اس لیے غالباً انہوں نے چھتیس گڑھ جانے فیصلہ کیا۔ وہاں پر انہوں نے وزیر اعلیٰ بھوپیش بگھیل کے ساتھ بیجاپور کے باس گڑا کیمپ میں افسروں سے ملاقاتیں کیں اور واپسی میں رائے پور میں بھی زخمیوں سے ملے۔ وزیر اعلیٰ بھوپیش بگھیل تو پہلے ہی یہ کام کر چکے تھے اور اس کے بعد انہوں نے کہا تھا کہ یہ مڈبھیڑ نہیں جنگ ہوئی ہے۔ یہ نکسلیوں کی آخری لڑائی ہے ان کے خیمہ میں گھس کر ہمارے جوانوں نے انہیں مارا ہے۔ یہ وہی لب و لہجہ ہے جو لداخ کے بعد وزیر اعظم استعمال کیا کرتے تھے اور کسی کی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔
وزیر اعلیٰ سے پہلے مرکزی وزیر امت شاہ نے آسام سے یہ بیان دیا تھا کہ ’چھتیس گڑھ میں نکسلیوں سے لڑتے ہوئے شہید ہونے والے ہمارے بہادر سیکیورٹی اہلکاروں کی قربانی کو میں سلام کرتا ہوں۔ ملک ان کی بہادری کو کبھی نہیں بھولے گا۔ میری ہمدردی ان کے اہل خانہ کے ساتھ ہے۔ ہم امن کے ان دشمنوں کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھیں گے۔ دعا ہے کہ زخمی جوان جلد ٹھیک ہوں‘۔ اس رسمی بیان کے بعد سرچ آپریشن جاری ہونے کے سبب اعدادو شمار کی بابت کچھ کہنے کے بجائے یہ انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ دونوں طرف کا نقصان ہوا ہے۔ میں شہید جوانوں کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں اور ان کے گھر والوں اور ملک کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ان جوانوں نے جو خون بہایا ہے وہ ضائع نہیں جائے گا اور ہماری لڑائی مزید مضبوطی کے ساتھ جاری رہے گی اور اسے نتیجہ تک لے جایا جائے گا۔ سرجیکل اسٹرائیک سے پہلے تو ملک کے عوام اس طرح کے بیانات سن کر مطمئن ہوجاتے تھے لیکن اب ہضم نہیں ہوتے اس لیے وہ پوچھتے ہیں کہ گھر میں گھس کر مارنے والے آخر کہاں چلے گئے؟
وزیر اعظم کے بارے میں میڈیا نے یہ تاثر قائم کر رکھا ہے کہ ان سے ساری دنیا ڈرتی ہے اور پڑوسی ممالک تو تھر تھر کانپتے ہیں۔ ویسے چین کی لداخ میں در اندازی اور بنگلہ دیش کے احتجاج نے اس خیال کو بڑی حد تک غلط ثابت کر دیا ہے۔ وزیر داخلہ امیت شاہ بھی اس خمار میں رہتے ہیں کہ سارا ملک ان سے خوفزدہ ہے اور کوئی ان سے اونچی آواز میں بات نہیں کر سکتا۔ پارٹی کی حد تک یہ بات درست ہو سکتی ہے لیکن نکسلی حملے نے اس خیال کی بھی تردید کر دی ہے۔ بھیما کورے گاوں سانحہ کا بہانہ بنا کر انہوں نے نامور اشتراکی دانشوروں کو جیل میں ٹھونس دیا۔ جے این یو میں انہیں ٹکڑے ٹکڑے گینگ کا نام دے کر خوب بد نام کیا ۔ دہلی فساد سے لے کر کسان تحریک تک کی آڑ میں بھی کمیونسٹوں پر رکیک حملے کر کے یہ خیال کر لیا گیا کہ انہیں پوری طرح کچل دیا گیا ہے لیکن اس تازہ حملے نے یہ پیغام دیا ہے کہ ٹائیگر اب بھی زندہ ہے۔
بیجاپور میں 400 سے زیادہ نکسلیوں نے حملہ کیا تھا لیکن اس مہم میں سرگرم عمل حفاظتی دستوں کی تعداد بھی 800 سے ایک ہزار تک بتائی جاتی ہے۔ اس تصادم میں زخمی جوان بلراج نے نیوز 18 کو بتایا کہ جدید ہتھیاروں سے لیس نکسلی دیسی گولہ بارود سے حملہ کر رہے تھے۔ بلراج کے مطابق ہفتہ کی صبح اپنے ہدف کو نشانہ بنا کر لوٹتے وقت انہیں بہت بڑی تعداد میں نکسلیوں کے پیچھا کرنے کی اطلاع ملی۔ اس کے بعد جب وہ پوزیشن لے کر آل راونڈ ڈیفنس میں بیٹھ گئے تو کچھ دیر میں نکسلیوں نے حملہ کر دیا۔ اس حملے کے جواب میں دستوں نے نکسلیوں کو کئی کلو میٹر پیچھے دھکیل دیا۔ اس دوران دونوں کا نقصان ہوا۔ بلراج کے برعکس دیو پرکاش نامی جوان نے اسی چینل کو بتایا کہ اس تصادم کے دوران وہ چاروں طرف سے گھر چکے تھے نکسلی گولہ باری کے ساتھ گولے داغ رہے تھے۔ اس کے بعد ہم ایک طرف فائرنگ کرتے ہوئے آگے بڑھے، اس دوران وہ ہمارا پیچھا کر رہے تھے۔ دیوپر کاش نے بتایا کہ نکسلیوں کو بھی بھاری نقصان ہوا، لیکن ان لوگوں نے حفاظتی دستوں کو مہلوکین کی لاشیں اپنے ساتھ لانے کاموقع نہیں دیا۔ ملک میں ماونوازوں کے حملے نئے نہیں ہیں۔ سال 2013 میں چھتیس گڑھ کے جھرم گھاٹی میں انہوں نے کانگریس کے ایک معمر رہنما سمیت 30 افراد کو ہلاک کردیا تھا۔ اپریل 2019 کو بارودی سرنگ کے دھماکے سے بی جے پی کے ریاستی رکن اسمبلی بھیما منڈاوی اور 5 سیکیورٹی اہلکاروں کو ہلاک کردیا تھا۔ حالیہ حملے سے 10 دن قبل 23 مارچ کو بھی نرائن پور میں سرنگ لگا کر حملہ کیا گیا جس میں 5 اہلکار ہلاک اور 14 زخمی ہوئے۔ اس سے کچھ دیر پہلے اسی سڑک سے انڈو تبت بارڈر فورس کی دو بسیں گزر چکی تھیں اگر تھوڑی سی بھی تاخیر ہو جاتی تو پلوامہ جیسا حادثہ رونما ہو سکتا تھا۔ مذکورہ حملے کے بعد بھی وزیر اعلیٰ بھوپیش بگھیل نے کہا تھا کہ نکسلی کمزور ہو گئے ہیں اب پھر یہی کہا ہے حالانکہ ان کے حملے تیز تر ہو گئے ہیں اور اس سے ہونے والا جانی نقصان بھی کئی گنا بڑھ گیا ہے۔
اس بابت سب سے اہم بات یہ ہے کہ مذکورہ حملے سے پہلے 17 مارچ کو نکسلیوں نے امن مذاکرات کی پیشکش کی تھی۔ ماو نوازوں کی جانب سے یہ پیشکش حیرت انگیز ہونے کے باوجود حقیقت پر مبنی ہے۔ انہوں نے ایک پریس ریلیز میں کہا تھا کہ عوامی بھلائی کے لیے وہ چھتیس گڑھ سرکار سے بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ ماو نوازوں نے مذاکرات کے لیے تین شرائط رکھی تھیں۔ پہلی مسلح حفاظتی دستوں کا انخلاء، دوسرے ماونواز تنظیموں پر لگی پابندی کا خاتمہ اور آخری شرط جیل میں بند رہنماوں کی بلاشرط رہائی۔ یہ شرائط بظاہر سخت نظر آتی ہیں لیکن گفت و شنید اور حسن اخلاق سے انہیں نرم کیا جا سکتا تھا۔ اس بابت ریاستی وزیر داخلہ تامر دھوج ساہو سے نامہ نگاروں نے استفسار کیا تو وہ آگ بگولہ ہو گئے۔ انہوں نے کہا یہ واردات نکسلیوں کے دوہرے کردار کو اجاگر کرتی ہے۔ انہوں نے الٹا سوال کر دیا کہ نکسلی اگر عدم تشدد کے قائل ہیں تو اس طرح کا تشدد کیوں کرتے ہیں؟
کسی سوال کا اطمینان بخش جواب کبھی سوال نہیں ہوتا بلکہ بیشتر اوقات وہ راہِ فرار کا چور دروازہ ہوتا ہے۔ وزیر موصوف نے یہ نہیں بتایا کہ مذاکرات کے موقع کو کیوں گنوا دیا گیا؟ بعید نہیں کہ مذاکرات کے دوران کوئی درمیان کا راستہ نکل آتا اور اس نقصان کی نوبت ہی نہیں آتی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ موجودہ مغرور حکومتیں مخالفین سے گفت و شنید کو اپنی پسپائی یا شکست گردانتی ہیں اور مسائل کو بات چیت کے ذریعہ سنجیدگی سے حل کرنے کے بجائے مذاکرات کی آڑ میں سیاسی کھیل کھیلتی ہیں۔ کسانوں کی عظیم الشان تحریک ساری دنیا کے سامنے ہے۔ ان مظاہرین کے جائز مطالبات کو منظور کرنے کے بجائے پہلے انہیں گھمایا ٹہلایا گیا، پھر بدنام کیا گیا اور اب نظر انداز کر کے تھکایا جا رہا ہے۔
حالیہ حملے کو ماہرین آپریشنل پلاننگ کی ناکامی قرار دیتے ہیں اس لیے کہ 700جوانوں کو گھیر کر تین گھنٹے ان پر گولیاں چلانا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ ریسکیو ٹیم کو لاشوں کے حصول کے لیے ۲۴ گھنٹوں کا وقت لگانا بھی ناقابلِ فہم ہے۔ یہ حملہ اچانک نہیں ہوا بلکہ وہاں پر نکسلیوں کی موجودگی کا پتہ چل چکا تھا اور دس دن قبل حملہ بھی ہو چکا تھا۔ مقامی ماہرین کے مطابق جونا گڑھ جیسے پہاڑی علاقہ میں گوریلا جنگ کی حکمت عملی اختیار کی جاتی ہے ایک ساتھ اتنے سارے فوجیوں کو نہیں روانہ کیا جاتا۔ حملے والے دن روپوش نکسلی فوجیوں کا انتظار کر رہے تھے اور جب حفاظتی دستے ان کے نشانے پر تین جانب سے گھِر گئے تو اس کے بعد حملہ کر کے اتنی بڑی تعداد میں جوانوں کو ہلاک کر دیا گیا۔
سی آرپی ایف کے سابق ڈی جی پی وجئے کمار اور موجودہ آئی جی نلت پربھات کی ۲۰ دنوں سے موجودگی نے نکسلیوں کو چوکنا کر دیا تھا اور یہ بھی حملے کی ایک وجہ بتائی جاتی ہے۔ ماہرین کے خیال میں اس طرح کی صورتحال حکمت عملی میں تبدیلی کا مطالبہ کرتی رہتی ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو ماونوازوں کے لیے حملہ کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ اتنے بڑے آپریشن کے لیے تکنیکی ڈرون کی مدد سے ملی جانکاری کو بنیاد بنانا مناسب نہیں ہے کیونکہ سو دو سو نکسلیوں کی نقل و حرکت عام بات تھی۔ یہ رائے بھی ہے نکسلیوں کی بابت معلومات جمع کرنے کے لیے ہتھیار ڈالنے والوں پر انحصار کیا جا رہا ہے جبکہ ان کی فراہم کردہ معلومات 6 ماہ بعد بے کار ہو جاتی ہیں۔ ماو نوازوں کے خلاف پانچ طرح کی الگ الگ فورسیز کو استعمال کرنے سے یہ دقت پیش آتی ہے کہ وہ اپنے اپنے انداز میں کام کرتے ہیں اور ان کے درمیان یکسانیت اور تال میل کا فقدان ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس ماو نواز متحد ہو کر ایک کمان کے تحت کام کرتے ہیں۔
وزیر داخلہ نے الیکشن کے میدان میں تو اب تک بہت مہارت حاصل کرلی ہے۔ وہ مختلف ذاتوں و گروہوں کے درمیان جوڑ توڑ کے ماہر ہونے کی وجہ سے چانکیہ کہلانے لگے ہیں لیکن یہ تلخ حقیقت ہے کہ اپنی وزارتی ذمہ داریاں کماحقہ ادا کرنے کے لیے جو صلاحیت درکار ہے اس کی جانب وہ ہنوز توجہ نہیں کر سکے ہیں۔ ان کی قومی ذمہ داری کا تقاضہ ہے کہ پارٹی چلانے کا کام جے پی نڈا کو سونپ کر وہ خود وزارتی کاموںپر یکسوئی سے دھیان دیں۔ ان کے لیے یہ کام مشکل تو ہے مگر ضروری ہے کیونکہ ملک کی سلامتی اور تحفظ الیکشن جیتنے سے زیادہ اہم ہے۔ اب اگر وزیر اعظم اور وزیر داخلہ دونوں ہی اپنی ساری توجہات انتخاب پر مرکوز کردیں تو ملک کون چلائے گا اور کورونا کون بھگائے گا؟ یہ سانحہ اگر کانگریس کی حکومت میں رونما ہوا ہوتا تو بی جے پی والے آسمان سر پر اٹھا لیتے اور وزیر داخلہ کا استعفیٰ طلب کرتے نیز وزیر اعظم کو سرجیکل اسٹرائیک کی یاد دلاتے۔ لیکن اب اگر کانگریس نے ایسی غلطی کی تو اس کے وزیر اعلیٰ کو ہٹا کر اسے دیش دروہی قرار دے دیا جائے گا۔ میڈیا کی مدد سے جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔

اگر وزیر اعظم اور وزیر داخلہ دونوں ہی اپنی ساری توجہات انتخاب پر مرکوز کردیں تو ملک کون چلائے گا اور کورونا کون بھگائے گا؟ یہ سانحہ اگر کانگریس کی حکومت میں رونما ہوا ہوتا تو بی جے پی والے آسمان سر پر اٹھا لیتے اور وزیر داخلہ کا استعفیٰ طلب کرتے نیز وزیر اعظم کو سرجیکل اسٹرائیک کی یاد دلاتے۔ لیکن اب اگر کانگریس نے ایسی غلطی کی تو اس کے وزیر اعلیٰ کو ہٹا کر اسے دیش دروہی قرار دے دیا جائے گا۔ میڈیا کی مدد سے جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 11 تا 17 اپریل 2021