جعفر تابش،
کشتواڑ، جموں وکشمیر
زندگی ایک ایسے سفر کا نام ہے جس میں ہر آنے والے مقام سے آپ بالکل بے خبر ہوتے ہیں۔ شام کے تخت نشیں صبح کو مجرم ٹھہرتے ہیں اور صبح کے مجرم شام کو تخت نشین ہو جاتے ہیں۔ صبح کو راہِ راست پر ہونے والا انسان شام کو اپنے راستے سے بھٹک چکا ہوتا ہے اور سالوں سے بھٹکتا مسافر اچانک اپنی منزل کو پہنچ جاتا ہے۔ ہر انسان زندگی کے اس سفر پر رواں دواں ہے جس کی منزل موت ہے۔ موت کے بعد قبر، اس کے بعد حشر اور پھر اس کی آخری قیام گاہ جس کا انحصار انسان کے اعمال پر منحصر ہے جنت ہو گی یا جہنم ہوگی۔ اسی سیدھے اور سچے راستے کی تلاش میں نکلا سونی بل ولیمس بھی آخر کار اپنے مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔
سونی بل ولیمس (Sonny Bill Williams) کی پیدائش 3 اگست 1985 کو نیوزی لینڈ کے شہر آکلینڈ میں ہوئی۔ ولیمس کا تعلق ایک عیسائی گھرانے سے تھا۔ ابتدائی تعلیم آکلینڈ کے مختلف اسکولوں میں حاصل کی۔ جن میں نیوزی لینڈ کا مشہور اسکول Mount Albert Grammer School بھی شامل ہے۔
پیشہ، کامیابیاں اور اعزازات
ولیمس نے 2004 میں رگبی کے کھیل میں نیولینڈز کی نمائندگی شروع کی اور اس کے علاوہ دیگر کئی مقامی لیگوں میں بھی حصہ لینا شروع کر دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ولیمس رگبی کے کھیل کا ایک مایہ ناز کھلاڑی بن کر دنیا کے سامنے آ گیا۔ اس کے علاوہ ولیمس نے 21 اکتوبر 2009 کو باضابطہ طور پر باکسنگ کے میدان میں بھی قدم رکھا ایک پیشہ ورانہ باکسر کی حیثیت سے ولیمس نے کل7 مقابلے کھیلے اور ساتوں میں فتح حاصل کی۔ ولیمس کا شمار دنیا کے ان 20 کھلاڑیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے 1 سے زائد مرتبہ رگبی ورلڈ کپ جیتے ہوں۔ باکسنگ کی دنیا میں بھی ولیمس ایک مرتبہ Newzeland Professional Boxing Champion اور ایک مرتبہWorld Boxing Association Champion رہ چکے ہیں۔ لیکن بعد میں عالمی باکسنگ ایسوسی ایشن کے قوانین پر پورا نہ اتر پانے کی وجہ سے ان سے یہ دونوں اعزازات واپس لے لئے گئے۔
ولیمس نے ابھی تک رگبی کے کھیل میں انفرادی طور پر 12 اعزاز حاصل کئے ہیں۔ جن میں RLIF Award for Rookie Of The Year 2004اورInternational Player Of The Year 2013بھی شامل ہیں۔
ولیمس نے 2016 میں اولمپکس میں بھی نیوزی لینڈ کی نمائندگی کی تھی۔ اس کے علاوہ انہیں 2011 اور 2015 میں عالمی رگبی کپ جیتنے والی ٹیم کا حصہ ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ ولیمس نے مختلف ٹیموں کا حصہ رہتے ہوئے اجتماعی طور پر 21 اعزاز حاصل کئے۔ جن میں 2011 اور 2015 کے عالمی کپ بھی شامل ہیں۔
5 اکتوبر 2014 کو ایڈیڈاس (Adidas) نے ان سے اپنے کھیلوں کے لباس کے لئے برانڈ ایمبیسڈر (Brand Ambassador) کے طور معاہدہ کیا۔ وہ رگبی کی دنیا کے پہلے کھلاڑی تھے جنہیں اس کام کے لئے چنا گیا تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے Just Jeans اور BMW کے لئے بھی برانڈ ایمبسیڈر کے طور پر کام کیا ہے۔ عالمی کھیل رسالہ Sports Pro کے مطابق 2014 میں ولیمس عالمی مایہ ناز کھلاڑیوں کی فہرست میں 41ویں مقام پر تھے۔ دسمبر 2015 میں انہیں اقوامِ متحدہ کے ادارے UNICEF کی جانب سے اپنا برانڈ ایمبیسڈر منتخب کیا گیا۔ جس کے بعد انہوں نے مختلف ممالک کا دورہ بھی کیا۔ ولیمس کے والد، بہن اور بھائی کا تعلق بھی رگبی کے کھیل سے ہے۔
قبولِ اسلام
سونی بل ولیمس نے سن 2009 میں اعلانیہ طور پر اسلام قبول کیا۔ اس وقت ولیمس فرانس میں ہو رہے رگبی مقابلوں میں ایک (Towloon) نامی مقامی کلب کے لئے کھیل رہے تھے۔ ایک ویب سائٹ پر موجود ولیمس کے ایک دوست کے بیان کے مطابق ولیمس نے 2008 میں آسڑیلیا کے شہر سڈنی کی ریجینٹس پارک نامی مسجد میں ایک تقریب کے دوران اسلام قبول کر لیا تھا۔ وہ رگبی میں نیوزی لینڈ کی نمائندگی کرنے والے پہلے مسلمان کھلاڑی تھے۔ ولیمس نے 2018 میں عمرہ بھی ادا کیا اور مدینہ کا سفر کیا۔
2013 میں ولیمس کا نکاح الینا رافی (Allana Rafie) سے ہوا۔ رافی کا تعلق جنوبی افریقہ سے تھا جو اس سے پہلے ایک نائٹ کلب میں کام کرتی تھیں۔ ولیمس سے نکاح کے بعد رافی نے بھی اسلام قبول کر لیا۔ ولیمس اس وقت 4 بچوں کے والد ہیں۔جن میں دو بیٹے اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔ولیمس کے بقول جب انہوں نے اسلام قبول کیا تھا اس وقت وہ اسلام کے بارے میں بہت کم جانتے تھے۔ آسٹریلیا میں ایک (Bulldogs) نامی مقامی کلب کے ساتھ کھیلتے ہوئے انہیں پہلی بار اسلام کا تعارف حاصل ہوا تھا۔ ولیمس کے مطابق میرے آس پاس جو لوگ تھے جن میں اکثر مسلمان تھے وہ بہت خوش رہتے تھے، انہیں وہ کبھی بھی اداس نظر نہیں آئے۔ وہ ولیمس کو اپنے ہاں بلایا کرتے تھے۔ جن میں ایک ایسا خاندان بھی تھا جس نے ولیمس کے اسلام قبول کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ولیمس کے بھائی نے بھی کچھ وقت بعد اسلام قبول کر لیا تھا اور پھر نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں ایک مسجد پر حملے کےبعد ولیمس کی والدہ نے بھی اسلام قبول کر لیا تھا۔ ولیمس اگرچہ پیدائشی عیسائی تھے لیکن ان کے بقول انہیں گرجا گھروں کے ماحول سے نفرت تھی۔ایک رپورٹ کے مطابق ولیمس کے پاس 2019 تک تقریباً 3 کروڑ امریکی ڈالر موجود تھے۔ (Source : NZ Herald)
ولیمس کی شہرت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر انہیں 8 لاکھ 95 ہزار لوگ فالو کر رہے ہیں جب کہ انسٹاگرام پر یہ تعداد 9 لاکھ 87 ہزار ہے۔
اسلام قبول کرنے کے بعد ایک انٹرویو میں ولیمس کا کہنا تھا:
"دیکھیں، میں لڑکیوں کا پیچھا کرتا رہتا تھا، شراب پیتا تھا، پیسے خرچ کرتا تھا اور خود کو وہ کچھ سمجھتا تھا جو کہ میں نہیں تھا۔ میں نے وہ زندگی جی تو لی لیکن اب سوچتا ہوں کہ اس نے مجھے کیا دیا؟ میرے دل میں پیدا ہونے والی بے چینی اور خلا کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ مجھے اس مرحلے میں چند سال ضرور لگے لیکن بالآخر میں نے اپنے حقیقی معبود کو پالیا میں نے اسلام کو پا لیا۔ جس انداز سے میں ایک کامیاب کھلاڑی بننے کے لئے نکلا تھا اللہ نے میری مدد کی، وہاں پہنچنے میں جہاں مَیں اس وقت ہوں”
(Source : BBC Sport)
ولیمس کی باتیں پڑھ کریں ہمیں ضروری اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ سکون دولت میں نہیں بلکہ اللہ کی طرف لوٹنے میں اور اپنے رب سے تعلق مضبوط کرنے میں ہے۔اور جو شخص ولیمس کی طرح اس راز کو پا گیا اصل میں وہی کامیابی پانے والا ہے۔
***
ولیمس کے مطابق میرے آس پاس جو لوگ تھے ان میں اکثر مسلمان تھے وہ بہت خوش رہتے تھے اور انہیں وہ کبھی بھی اداس نظر نہیں آئے۔ وہ ولیمس کو اپنے ہاں بلایا کرتے تھے۔ جن میں ایک ایسا خاندان بھی تھا جس نے ولیمس کے اسلام قبول کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ولیمس کے بھائی نے بھی کچھ وقت بعد اسلام قبول کر لیا تھا اور پھر نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں ایک مسجد پر حملے کے بعد ولیمس کی والدہ نے بھی اسلام قبول کر لیا تھا۔ ولیمس اگرچہ پیدائشی عیسائی تھے لیکن ان کے بقول انہیں گرجا گھروں کے ماحول سے نفرت تھی۔