زعیم الدین احمد، حیدرآباد
مرکزی حکومت کو مالی سال 2021 کے سات ماہ یعنی اپریل تا اکتوبر کے دوران جملہ 13 لاکھ 64 ہزار کروڑ روپے کا ٹیکس وصول ہوا۔ سوال یہ ہے کہ اتنے کم عرصے میں اتنی خطیر مقدار میں ٹیکس وصول ہونے کی وجہ کیا ہے؟ کیوں حکومت کو ٹیکس کی شکل میں حاصل ہونے رقم میں اس قدر بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے؟ اگر اس کا تقابل گزشتہ سال 2020 کے انہی مہینوں سے کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اس سال تقریباً 56 فیصد زائد ٹیکس وصول ہوا ہے۔ لکین اس طرح کا موازنہ کرنا شاید صحیح نہیں ہو گا کیوں کہ 2020 میں تو سارے ملک میں تالا بندی تھی جس کی وجہ سے حکومت کو ٹیکس وصول نہیں ہوا اور جبکہ اس وقت کسی قسم کی پابندی عائد نہیں ہے تو ظاہر ہے کہ ٹیکس کا زیادہ وصول ہونا معمول کے مطابق ہے۔ لہٰذا اگر ہم سال 2019ء کے انہی مہینوں سے اس کا موازنہ کر کے دیکھیں تب بھی معلوم ہو گا کہ 2019 کے مقابلے میں بھی اس سال تقریباً 30 فیصد زیادہ ٹیکس وصول ہوا ہے۔
اتنی بھاری رقم کا بطور ٹیکس وصول ہونا جبکہ پورا ملک کورونا وائرس کی تباہ کاری سے بد حال تھا واقعی بڑی تعجب خیز بات ہے۔ اس کی دوسری لہر نے تو جیسے قیامت برپا کر دی تھی، اس نازک صورتحال کے باوجود کس طرح اتنی خطیر رقم ٹیکس کی شکل میں وصول ہوئی حالانکہ ملک کے زیادہ تر حصہ میں صنعتی سرگرمیاں ٹھپ پڑی ہوئی تھیں، کاروباری مراکز بند تھے، چھوٹے موٹے کاروبار تو بالکل ہی ختم ہو گئے تھے، سارے ملک میں تالا بندی تھی، لوگ روزگار سے محروم ہوگئے تھے، وہ اپنی نوکروں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے، لوگ اتنے بد حال تھے کہ اپنی انتہائی ضرورت کی اشیاء بھی خرید نہیں پا رہے تھے، ملک معاشی طور پر تباہ حال ہو گیا تھا، ملک کی حالت اتنی دگرگوں ہونے کے باوجود، عوام معاشی طور پر بدحال ہونے کے باوجود کیسے ممکن ہوا کہ حکومت کو اتنا بھاری بھرکم ٹیکس وصول ہوا؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ اس ٹیکس میں دونوں طرح کا یعنی بلا واسط اور بالواسط ٹیکس شامل ہے۔
بلاواسط ٹیکس جس میں لوگ اپنی آمدنی کا ٹیکس ادا کرتے ہیں جسے انکم ٹیکس کہتے ہیں اس کا گزشتہ دو سالوں کا موازنہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اس میں 25 فیصد کا اضافہ ہوا ہے، جبکہ بالواسط ٹیکس کی وصولی میں 34 فیصد کا اضافہ درج کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ یہ وہ ٹیکس ہے جسے ملک کا ہر شہری ادا کرتا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے اور مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ مرکزی حکومت نے وبائی مرض کوویڈ کے دوران عوام کو راحت کم پہنچائی ہے اور ٹیکس زیادہ وصول کیا ہے۔ اگر اپریل تا اکتوبر 2019 سے موازنہ کیا جائے تو سال 2021 اپریل تا اکتوبر تک مرکزی حکومت نے متمول لوگوں سے زیادہ عام لوگوں سے بالواسط ٹیکس کی شکل میں 34 فیصد اضافی ٹیکس وصول کیا ہے جو حکومت کے متمول اور کارپوریٹ آقاؤں کی طرفدار ہونے کا کھلا ثبوت ہے۔ یقینی طور کہا جا سکتا ہے کہ یہ غریب ومتوسط طبقے کی مخالف حکومت ہے، اس کی فکر یہی ہوتی ہے کہ عوام پر کس طرح سے نت نئے ٹیکسوں کا بوجھ ڈالا جائے۔ وزیر خزانہ نرملا تائی سے جب کسی صحافی نے پوچھا کہ عام لوگوں کی راحت کے لیے آپ نے ٹیکس میں کسی قسم کی چھوٹ کیوں نہیں دی تو وہ متکبرانہ انداز میں یہ کہتی ہیں کہ شکر کریں کہ ہم نے ٹیکس میں کوئی اضافہ نہیں کیا ہے۔
آخر ٹیکس کے ذریعے اتنی رقم کیسے وصول ہوئی؟
حکومت کا اس سے تعلق سے کہنا ہے کہ پیسوں کا لین دین ڈیجیٹل طریقے سے ہوا ہے، عوام نے اپنا لین دین ڈیجیٹل طور پر زیادہ کیا ہے، اسی وجہ سے ایسے ادارے جو ٹیکس چوری کیا کرتے تھے وہ اس طریقہ کار کی وجہ سے ٹیکس چوری نہیں کر پائے، پھر جی ایس ٹی بھی ایک وجہ ہے جس سے کاروباری اداروں کو یہ لازم ہے کہ وہ اپنا جی ایس ٹی وقت پر ادا کریں، اسی کا ڈیٹا لے کر انکم ٹیکس محکمہ بھی کام کر رہا ہے۔ حکومت کا نکتہ یہ ہے کہ نوٹ بندی کے بعد عوام میں یہ رجحان زیادہ دیکھا گیا ہے کہ وہ اپنا لین دین ڈیجیٹل طور پر کریں جس کی وجہ سے ٹیکس کی وصولی میں اضافہ ہوا ہے، حکومت کی یہ دلیل مانی جاسکتی ہے کہ ایسے ادارے جو ٹیکس ادا نہیں کرتے تھے وہ اب ادا کر رہے ہیں۔
دوسری دلیل یہ ہے کہ بعض شعبوں نے کوویڈ کے دوران بہت زیادہ ترقی کی ہے جیسے ادویات کی صنعتیں، ٹکنالوجی فراہم کرنے والے ادارے وغیرہ، ایسے اداروں سے ٹیکس زیادہ وصول ہوا ہے۔ مثال کے طور پر ٹیک مہندرا، انفوسس وغیرہ، ایسے اداروں نے گزشتہ کے مقابلے میں 40 فیصد زیادہ ٹیکس ادا کیا ہے۔ چلیے یہ بھی بات مانی جا سکتی ہے۔
تیسری وجہ وہ یہ بتا رہی ہیں کہ بڑے بڑے صنعتی اداروں نے اپنے خرچ میں کمی کی ہے جیسے اپنے ملازمین کو انہوں نے اپنے گھر پر کام کرنے کی چھوٹ دی، ان کی تنخواہوں میں کمی کی، ان پر جو اخراجات ہوا کرتے تھے ان میں کمی واقع ہوئی جس کی وجہ سے ان کی آمدنیوں میں اضافہ ہوا، یہی وجہ ہے کہ کارپوریٹ انکم ٹیکس میں 24 فیصد کا اضافہ درج کیا گیا ہے۔ ماہرین اور حکومت کے مطابق یہ تین وجوہات ہیں
جس سے ٹیکس کی رقم میں اضافہ ہوا ہے۔ ان دلیلوں سے بھی ہم انکار نہیں کرسکتے۔
ایک بات یہاں غور طلب یہ ہے کہ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کی وجہ سے ملک کی معیشت میں ایک حیرت انگیز تبدیلی رونما ہوئی ہے وہ یہ کہ چھوٹے اور متوسط یا گھریلو صنعتیں یا تو مکمل طور پر ختم ہوگئیں یا ختم ہونے کے قریب ہیں۔ بعض ماہرین معاشیات کا یہ بھی کہنا ہے کہ نوٹ بندی کا اصل مقصد یہ تھا کہ چھوٹے، متوسط اور گھریلو صنعتیں ختم ہو جائیں، تاکہ بڑے بڑے صنعتی اداروں کو پھلنے پھولنے کے مواقع ملیں، یہی وجہ ہے کہ جہاں بڑے صنعتی اداروں کے ٹیکس میں اضافہ ہوا ہے وہیں چھوٹے کاروبار مکمل طور پر ختم ہو گئے۔ چھوٹے کاروباروں کا ختم ہونے کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ بڑی صنعتوں کے لیے میدان صاف ہوں گے۔ ایک بات یہاں ذہن میں ہونی چاہیے کہ چھوٹی اور متوسط صنعتیں زیادہ لوگوں کو روزگار فراہم کرتی ہیں، جبکہ بڑی صنعتیں حکومت کو زیادہ ٹیکس تو دے سکتی ہیں کیوں بازار میں ان کی حصہ داری زیادہ ہوتی ہے مگر وہ زیادہ لوگوں کو روزگار فراہم نہیں کر سکتیں، مثال کے طور پر وال مارٹ کو لیجیے جس کے مقابلے میں سیکڑوں افراد خود روزگار سے مربوط ہو سکتے ہیں، وہ اپنے مقام پر کرانے کی دوکان لگا سکتے ہیں اور اس سے روزگار پاسکتے ہیں۔ حکومت کو زیادہ ٹیکس وال مارٹ سے ملے گا جبکہ یہ چھوٹے بیوپاری بلاواسط ٹیکس نہیں دیں گے۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ مثال کے طور پر ادتیہ برلا گروپ کی ہنڈالکو کمپنی کو دیکھ لیجیے، گزشتہ دو سالوں کے مقابلے میں اس نے 188 فیصد اضافی ٹیکس ادا کیا ہے، اسی طرح ڈانی پورٹس اینڈ شپیچ نے 156 فیصد زائد ٹیکس ادا کیا ہے، یو پی ایل یونائٹیڈ فاسفورس لمیٹڈ نے 117 فیصد اضافی ٹیکس ادا کیا ہے، ٹاٹا موٹرز نے 118 فیصد اضافی ٹیکس ادا کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت اسی قسم کے بڑے صنعتی اداروں کو ترجیح دیتی ہے، ہمیں یہ بات اچھی نظر آتی ہے کہ بڑی صنعتیں زائد ٹیکس ادا کر رہی ہیں لیکن وہ اضافی ٹیکس اس لیے ادا کر رہی ہیں کیوں کہ بازار میں ان کی حصہ داری بڑھی ہے اس لیے وہ ٹیکس اداکر رہی ہیں ورنہ وہ کیوں ادا کرتیں۔ چنانچہ ہندوستانی معیشت پر ان ہی بڑے صنعتی اداروں کا غلبہ ودبدبہ ہے، یہی بڑے صنعتی ادارے ہندوستانی معیشت کو کنٹرول کر رہے ہیں، معیشت پر ان کا کنٹرول ہونے کی وجہ سے ہی چھوٹی، متوسط اور گھریلو صنعتیں ختم ہو رہی ہیں، روزگار ختم ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے آج بے روزگاری اپنی انتہا کو پہنچ گئی ہے مگر حکومت کو ٹیکس زیادہ وصول ہو رہا ہے، پھر کوویڈ کے دوران حکومت نے ٹیکسوں میں بے تحاشہ اضافہ بھی کیا ہے۔ حکومتی اعداد وشمار کے مطابق سال 2021 میں مرکزی اکسائز میں 2019 کے مقابلے میں 79 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح کسٹمز ڈیوٹی میں بھی 74 فیصد کا اضافہ ہوا ہے، اسی وجہ سے آپ دیکھ رہے ہیں کہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ حکومت کارپوریٹس کی پرستار اور غریبوں کی دشمن ہے، وہ یہ چاہتی ہے کہ چھوٹے کاروبار مکمل طور ختم ہو جائیں اور بڑی صنعتیں پھلیں پھولیں، اسے غریب عوام کی کوئی فکر نہیں ہے۔
***
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 13 فروری تا 19فروری 2022