ویکسین کی سیاست اور بھکتی کا ناچ

اپنے منہ میاں مٹھو بن کر ریاستوں پر الزام تراشی؟۔عدالت کی پھٹکارکے بعد مفت ٹیکے کا اعلان!

ڈاکٹر سلیم خان،ممبئی

 

حکومت کی بد انتظامی کا دنیا بھر میں چرچا مگر بی جے پی قائدین وزیر اعظم کی مدح سرائی میں مصروف
وطن عزیز میں فرسودہ عقائد کا یہ عالم ہے کہ اتر پرديش کے پرتاپ گڑھ ضلع میں شُکلاپور گاؤں کے لوگوں نے ايک مندر تعمير کر کے وہاں ’کورونا ماتا‘ کی مورتی رکھ دی اور اندھی عقیدت سے سرشار بھکت اس امید کے ساتھ پانی، پھول اور چڑھاوے چڑھانے لگے تاکہ ’ماتا‘ انہیں وائرس سے بچا لے۔ اس کے بعد پولیس نے مندر کو منہدم کر دیا۔ کورونا کے مندروں کی خبر کیرالا اور تمل ناڈو سے بھی آئی ہے۔ بہار کے بیگو سرائے میں واقع دہیا گاوں کے بارے میں انتظامیہ کو معلوم ہوا کہ وہاں کسی نے ٹیکہ نہیں لگایا۔ اس بابت محکمہ جب بیداری پیدا کرنے کے لیے پہنچا تو خواتین نے لاٹھی ڈنڈوں کے زور سے سرکاری اہلکاروں کو بھگا دیا۔ ان کا کہنا تھا ویکسین سے کچھ نہیں ہوتا آپ لوگوں کو اس کے پیسے ملتے ہیں لیکن ہماری جان چلی جائے گی۔ لاکھ سمجھانے بجھانے پر صرف ایک عورت راضی ہوئی۔ بی ڈی او کا کہنا ہے کہ ہر ضلع میں ایسے گاوں ہیں جہاں سوشل میڈیا نے افواہیں پھیلا رکھی ہیں۔ سچ تو یہ ہے سوشل میڈیا کے اثرات گاوں سے زیادہ شہروں میں ہیں۔
ملک کے اندر ویکسین کے تعلق سے پھیلی غلط فہمیوں کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے۔ اس صورتحال میں ذرائع ابلاغ کے علاوہ سرکاری سرپرستی میں پھلنے پھولنے والے لالہ رام دیو جیسے لوگوں کا بھی بڑا حصہ ہے جن کو یقین ہے کہ کسی کا باپ بھی انہیں گرفتار نہیں کر سکتا۔ نیز حکومت کی عدم سنجیدگی کا بھی اس میں عمل دخل ہے۔ 16 جنوری کو ملک میں ٹیکہ کاری کا آغاز ہوا۔ اس وقت کوویشیلڈ کی دو خوراکوں کا درمیانی وقفہ 28 تا 42 دن تھا، لیکن 22؍ مارچ کو اس 4 تا 6 ہفتے کے وقفے کو بڑھا کر 6 تا 8 ہفتے کر دیا گیا۔ عوام کی جیسے جیسے ویکسین میں دلچسپی بڑھی اور فراہمی متاثر ہونے لگی تو 13؍ مئی کو اسے پھر سے بڑھا کر 12 تا 16 ہفتے کر دیا گیا۔ اب غیر ملکی مسافروں کے لیے 12 سے 16 ہفتوں کو گھٹا کر 4 سے 6 ہفتے کر دیا گیا اور یہ سہولت صرف 31؍ اگست تک باہر جانے والوں کے لیے ہے۔ یہ تبدیلیاں سائنٹفک کم اور ضرورتاً زیادہ دکھائی دیتی ہیں۔
جدید تحقیق کے مطابق 6 ہفتے یا کم وقفہ رکھنے سے اس کی اثر پذیری صرف 50 تا 60 فیصد رہ جاتی ہے جبکہ 12 تا 16 ہفتوں کے درمیان یہ بڑھ کر 81.3 فیصد ہو جاتی ہے۔ اس بنیاد پر برطانیہ اور اسپین میں بھی یہ وقفہ بڑھایا گیا ہے۔ امریکی ماہرِ وباء ڈاکٹر انٹونی فاوچی نے اس بابت خبردار کیا ہے کہ دو خوراکوں کے درمیان وقفہ بڑھانے سے انفیکشن کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ وہ ہندوستانی نژاد ڈیلٹا ویرینٹ کو 40 تا 50 فیصد زود اثر بتا کر زیادہ سے زیادہ ٹیکہ کاری پر زور دیتے ہیں۔ کوویشیلڈ تو خیر آکسفورڈ کی آسٹرازینکا کی ایجاد ہے اور اس کی اثرپذیری کی دنیا معترف ہے لیکن ہندوستان بائیو ٹیک کی سودیشی کوویکسین کو تو ابھی تک ڈبلیو ایچ او نے تسلیم ہی نہیں کیا ہے۔ اس لیے فی الحال بیرون ملک اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ یعنی جن لوگوں نے یہ ٹیکہ لگایا ہے ان کو کئی ممالک میں سفر کے بعد قرنطینہ کی صعوبت سے گزرنا پڑسکتا ہے۔ امریکہ نے ایمرجنسی سرٹیفیکیشن کی درخواست ٹھکرا دی ہے۔ اس پر معمول کے مطابق کام چل رہا ہے لیکن ویکسین کے معاملے میں بار بار کی تبدیلی حکومت کی غیر سنجیدگی کی جانب اشارہ کر کے شکوک وشبہات کو جنم دیتی ہے۔
کورونا کی بابت فی الحال عوام عجیب مخمصے میں گرفتار ہیں۔ ایک طرف تو میڈیا میں لوگوں کو ڈرایا جا رہا ہے دوسری جانب ٹیکے کی فراہمی متاثر چل ر ہی اور تیسری طرف سرکار اس پر سیاست کر رہی ہے۔ کورونا کی دوسری لہر کے آغاز میں 20؍ اپریل کو مغربی بنگال کی انتخابی مہم سے تھوڑا سا وقت نکال کر وزیر اعظم نے قوم سے خطاب کیا تھا۔ عوام کو وبا کے تعلق سے احتیاط کرنے کی خوب نصیحت کی تھی اور خود ان کو پامال کرنے کی خاطر مغربی بنگال لوٹ گئے تھے۔ اس کے بعد ملک میں وہ تباہی مچی کہ جس کا تصور بھی کسی نے نہیں کیا تھا۔ نہ ادویہ، نہ آکسیجن، نہ اسپتال اور نہ شمشان۔ ان میں سے ہر ایک کے لیے ملک کے عوام در بہ در کی ٹھوکریں کھاتے پھرتے رہے لیکن اچھل اچھل کر تقریر کرنے والے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ گدھے کے سر سے سینگ کی مانند غائب ہو گئے بلکہ ان کی دم یوگی بھی نہ جانے کہاں دبک کر بیٹھ گئی۔ اس اندوہناک کیفیت پر یہ شعر صادق آتا تھا؎
کشتیاں ٹوٹ گئی ہیں ساری
اب لیے پھرتا ہے دریا ہم کو
اس زمانے میں یومیہ متاثرین کی تعداد چار لاکھ سے تجاوز کر چکی تھی اور چار ہزار سے زیادہ اموات ہونے لگی تھیں اس لیے عارضی طور پر ہی سہی 56 انچ کا سینہ پچک چکا تھا۔ لیکن جیسے ہی متاثرین کی تعداد ایک لاکھ سے کم ہوئی پی ایم مودی کی بتیاں جل گئیں، کیمرہ چل پڑا اور پروچن (pravachan) شروع ہو گیا۔ ایک زمانے میں خود انہوں نے ہی جبکہ وہ وزیراعلیٰ گجرات تھے کہا تھا کہ میں خود نہیں آیا اور نہ مجھے کسی نے بھیجا ہے بلکہ مجھے گنگا میّا نے بلایا ہے۔ یہ سن کر خود کو گنگا کا بیٹا سمجھنے والوں نے انہیں اپنا بڑا بھائی سمجھ کر وزیر اعظم بنا دیا۔ کورونا کی وبا کے دوران جب ان بیٹوں کی لاشیں گنگا میّا میں تیرنے لگیں اور وہ خون کے آنسو رونے لگی تو بڑا بیٹا چُھو منتر ہو گیا۔ آگے چل کر جب دوسری لہر کا زور ٹوٹا اور لاشیں خلیج بنگال میں ڈوب گئیں تو 7؍ جون کو مودی جی نے قوم سے خطاب کیا اور خوب جی بھر کے کذب گوئی کی۔ اس روز دوپہر 2 بجے جب وزیر اعظم کے دفتر نے ٹوئٹر پر اعلان کیا کہ شام 5 بجے مودی جی قوم سے خطاب کریں گے تو لوگوں نے قدرے اطمینان کا سانس لیا کہ رات 8 بجے کا منحوس مہورت نہیں ہے یعنی کوئی بڑی آفت نہیں آئے گی۔ اس کے بعد بھکت آپس میں شرط لگانے لگے کہ وزیر اعظم روئیں گے یا نہیں؟ جن کے گھروں میں کسی کا انتقال ہوا تھا انہیں یقین تھا کہ مودی جی ان کے غم میں شریک ہو کر دو آنسو بہائیں گے لیکن دیگر لوگوں کو یقین تھا کہ پچھلی مرتبہ جو جگ ہنسائی ہوئی تھی اس کے پیش نظر پرانی غلطی کو نہیں دوہرایا جائے گا اس لیے کہ اس وقت کسی کو وزیر اعظم کے آنسووں پر تو نہیں لیکن دشمنوں کے تمسخر اڑانے پر بہت رونا آیا تھا۔ مختلف اٹکلوں کے بیچ تین گھنٹے گزر گئے اور کورونا وبا کے دوران نویں بار مودی جی ایک نیا لباس اور قدرے مختصر داڑھی کے ساتھ سج دھج کر ٹیلی ویژن پر نمودار ہو گئے اور 32 منٹ تک ناظرین کی سمع خراشی کر کے لوٹ گئے۔
وزیر اعظم کے رخصت ہوتے ہی مرکزی وزراء کے ٹوئٹر بولنے لگے۔ اسے دیکھ کر پرانے زمانے کے قوال اور ان کی ٹیم یاد آگئی جو قوال کی آواز میں آواز ملا کر اس کے مصرعوں کو بار بار دوہرایا کرتے تھے۔ وزیر اعظم کی چاپلوسی میں سب سے آگے ان کی پارٹی بی جے پی تھی۔ اس نے 18 سال کی عمر کے لوگوں کو مفت میں ویکسین دینے اور غریبوں کو مفت راشن دینے کی اعلان کی تعریف کی۔ سچ تو یہ ہے کہ ویکسین کے معاملے میں یہ فیصلہ عدالت کی پھٹکار کے بعد بہت تاخیر سے ہوا۔ مودی سرکار کی جیب سے سرمایہ داروں کے لیے تو کروڑوں روپے بڑی آسانی سے نکل آتے ہیں مگر عوام کی فلاح وبہبود کے لیے پھوٹی کوڑی بھی نہیں نکلتی۔ مرکزی سرکار نے اول تو ویکسین کے بغیر کورونا کی جنگ جیتنے کا اعلان کرکے اس خرچ سے بچنے کی کوشش کی۔ شروع میں 60 سال سے اوپر والوں کے لیے اس خیال سے مفت میں ویکسین دینے کا اعلان کیا کہ وہ تو آئیں گے ہی نہیں لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس کے بعد 45 سال سے اوپر والوں کو اپائنٹمنٹ کے ذریعے ٹیکہ دینے کا وعدہ کیا مگر سائیٹ ہی کام نہیں کرتی تھی پھر 18 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں سے روپیہ کمانے کا خواب دیکھا گیا لیکن جب ساری دنیا میں خوب بدنامی ہو چکی تو شرم آئی اس لیے سراہنے جیسا کچھ نہیں بچا۔ یہ اعلان اگر چار ماہ قبل ہوا ہوتا تب تو اور بات تھی۔ دیوالی تک 80 کروڑ لوگوں کو مفت اناج دینے کا فیصلہ اچھا ہے مگر اس کے اندر یہ حقیقت بھی پوشیدہ ہے کہ ملک کے اندر فی الحال 80 کروڑ ایسے لوگ بستے ہیں جن کا گزارہ مفت سرکاری راشن کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ ملک کی اتنی کثیر آبادی کا اس قدر غریب ہونا کسی وِشو گرو کو زیب نہیں دیتا۔ وزیر اعظم ایک زمانے تک مفت خوری کا تمسخر اڑا کر عوام کو خود کفیل بنانے کا نعرہ لگاتے تھے۔ تو کیا اب یہ سمجھ لیا جائے کہ وہ خود کفالت کے نعرے سے رجوع کر کے کانگریس کے راستے پر گامزن ہو چکے ہیں؟ بی جے پی کے صدر نشین جگت پرشاد نڈا نے وزیر اعظم کا اس طرح شکریہ ادا کیا گویا وہ سرکاری خزانے سے نہیں اپنی جیب سے یہ رقم خرچ کر رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کورونا کے خلاف لڑائی میں مودی سرکار ہر ہندوستانی کے ساتھ کھڑی ہے۔ یہ بات اگر حقیقت ہو تو کہنے کی کیا ضرورت؟ اس لیے کہ مثل مشہور ہے ’’ہاتھ کنگن کو آر سی کیا اور پڑھے لکھے کو فارسی کیا‘‘ مگر چونکہ اس دعویٰ کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے اس لیے نہ صرف خود بلکہ میڈیا کے ذریعہ بار بار کہلوانا بھی پڑتا ہے تاکہ ایک سفید جھوٹ پر عوام یقین کر لیں۔
جے پی نڈا کے پیش رو امیت شاہ نے اپنا فرض منصبی نبھاتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ عوام کے تحفظ اور صحت کی خاطر مودی سرکار نے ہمیشہ پُر عزم ہو کر کام کیا ہے۔ لوگ نہیں جانتے کہ یہ کام کس دنیا میں کیا گیا مگر پوچھنے سے ڈرتے ہیں کہ کہیں اس کے جواب میں یہ نہ کہ دیا جائے ’’وہ تو انتخابی جملہ ہے‘‘۔ ویسے بھی آئندہ سال 6 صوبوں میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ شاہ نے 18 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کو ٹیکہ لگانے کا تاریخی فیصلے کرنے کے لیے وزیر اعظم کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔ اس میں تاریخی کیا ہے یہ وہی جانتے ہیں کیونکہ دنیا کے کئی ممالک میں یہ کام بہت پہلے ہو چکا ہے نیز عوام کے پیسے سے ٹیکہ دینے پر شکریہ کیسا؟ شاہ جی نے اس کو کورونا سے نجات دلانے کی جانب ایک اہم قدم بتایا۔ ایک زمانے سے وہ ملک کو کانگریس مُکت بنانے کے چکر میں ہیں۔ اس میں تو انہیں کامیابی نہیں ملی اب کورونا کے معاملے میں کامیابی ملتی ہے یا ناکامی ہاتھ آتی یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے وزیر اعظم کے اعلان کا استقبال کرتے ہوئے کہا کہ تمام بالغوں کے لیے مفت ٹیکے کا اعلان کر کے وزیر اعظم نے ملک کے باشندوں کو بڑی راحت دی ہے۔ لیکن یہ راحت بڑے انتظار کے بعد نصیب ہوئی اور ابھی تو صرف اعلان ہوا ہے، ویکسین کہاں ہے؟ اس کو مہیا کرنے کا کوئی ٹھوس منصوبہ حکومت کے پاس نہیں ہے۔ اس راحت سے کتنے لوگ اور کب تک فائدہ اٹھا سکیں گے یہ کہنا مشکل ہے۔ وزیر دفاع کے مطابق اس فیصلے سے کورونا کے خلاف جاری جنگ میں نئی طاقت ملے گی لیکن سوال یہ ہے کہ آخر پرانی طاقت کہاں چلی گئی؟ انہوں نے بھی عوامی فلاح وبہبود کے اس فیصلے کا دل سے شاید اس لیے شکریہ ادا کیا کیونکہ وزیر اعظم ایسا کم ہی کرتے ہیں۔ وہ نہ تو فیصلے کرتے ہیں اور نہ تو عمل درآمد کرواتے ہیں۔ ان کا پسندیدہ مشغلہ عوام کو موقع بے موقع کہانیاں سنانا اور پند ونصیحت کرنا ہے۔ مثلاً اول تو طلباء کو امتحان میں کامیابی حاصل کرنے نسخے سجھاتے ہیں اور پھر امتحان کے مسترد ہو جانے کا اعلان کر دیتے ہیں۔ ان کے مشوروں پرعملدرآمد کرنے والے طلباء فی الحال اپنے آپ کو فریب خوردہ محسوس کر رہے ہیں۔
وزیر پٹرولیم اور گیس دھرمیندر پردھان نے یہ نادر انکشاف کیا کہ حکومت اپنے خرچ پر ٹیکہ اندازی کر رہی ہے کیا ملک کے عوام یہ بھی نہیں جانتے؟ مرکزی وزراء کی مکھن بازی کو دیکھ کر صوبائی وزرائے اعلیٰ کو بھی جوش آگیا۔ اس میں یوگی ادتیہ ناتھ سب سے آگے تھے۔ ان کے وزیر اعظم سے تعلقات کشیدہ ہیں اس لیے مفت ویکسین اور اناج فراہم کرنے کے لیے شکریہ پر اکتفا کیا۔ مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان ذرا تفصیل میں گئے، انہوں نے لکھا کہ ویکسین کے معاملے پر مختلف وزرائے اعلیٰ کے درمیان باہم مسابقت تھی۔ یہ مسابقت ان کی مجبوری تھی کیونکہ مرکز اپنی ذمہ داری ادا کرنے سے کنی کاٹ رہا تھا۔ چوہان کہتے ہیں کہ گلوبل ٹینڈر سے کچھ ہو نہیں پا رہا تھا کیونکہ مرکزی حکومت غیر ملکی صنعتکاروں کو تحفظ فراہم کرنے میں آنا کانی کر رہی تھی۔ مفت میں ویکسین اور اناج فراہم کرنے پر وزیر اعظم کا شکریہ ادا کرنے کے بجائے چوہان کو مرکزی حکومت کا ممنون ہونا چاہیے تھا لیکن چاپلوس سیاستدانوں سے اس کی توقع کرنا خود فریبی ہے۔ ان ابن الوقتوں پر تو باقی صدیقی کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
خود فریبی سی خود فریبی ہے
پاس کے ڈھول بھی سہانے لگے
حزب اختلاف کے وزرائے اعلیٰ مثلاً کیجریوال نے اس فیصلےکا کریڈٹ عدالت کی پھٹکار کو دیا۔ ممتا بنرجی نے جارحانہ انداز میں چار ماہ کی تاخیر کا ذکر کیا جس کی قیمت لوگوں نے جان دے کر چکائی۔ جھارکھنڈ کے وزیر اعلیٰ کو بھی تاخیر کی شکایت ہے کیونکہ وہ ویکسین کی خریدی پر 47 کروڑ روپے خرچ کر چکے ہیں۔ کیرالا کے وزیر اعلیٰ نے استقبال کرتے ہوئے خوشی کا اظہار کیا کہ کم ازکم مرکزی حکومت نے ان کے مطالبے کو سمجھا۔ تمل ناڈو کے اسٹالن نے کہا کہ اب ویکسین کے تعلق سے تمام ذمہ داریاں صوبائی حکومت کو منتقل کی جائیں۔ چھتیس گڑھ کے بَگھیل نے کہا اعلان تو ہو گیا اب اس کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ کانگریس اور دیگر جماعتوں کے وزرائے اعلیٰ نے تو ویکسین کے معاملے میں بد انتظامی کے لیے صوبائی حکومتوں کو ذمہ دار ٹھہرانے کی سستی سیاست پر تنقید کی لیکن بی جے پی کے رہنما یا وزیر اعلیٰ اس کی جرأت نہیں کر سکے کیونکہ طبلہ سارنگی بجانے والوں سے اس کی توقع فضول ہے۔ ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وزیر اعظم کو اس تقریر کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ یہ ایک حقیقت ہے کہ فی الحال مودی جی کی مقبولیت بے حد کم ہو گئی ہے۔ ساری دنیا میں ان کی کارکردگی پر زبردست تنقید ہو چکی ہے ایسے میں وزیر اعظم نے بڑی مکاری سے پہلی لہر میں کامیابی کا سہرا اپنے سر باندھ لیا اور دوسری لہر کی تباہ کاری کے لیے صوبائی حکومتوں کو ذمہ دار ٹھیرا دیا حالانکہ دوسری لہر کے لیے ذمہ دار کمبھ میلے کا انعقاد ان کی مرضی سے ہوا تھا۔ انتخابی مہم کے دوران بھیڑ انہوں نے جمع کی اور اتر پردیش میں پنچایتی الیکشن کا فیصلہ بھی اقتدار کی بھوکی بی جے پی سرکار ہی کا تھا۔ اس لیے اگر صوبائی حکومتوں کو بھی ذمہ دار ٹھیرایا جائے تو اس دوران سب سے زیادہ متاثر ہونے والی شمالی ریاست اتر پردیش اور مغرب میں گجرات کے اندر بی جے پی کی حکومت پیش پیش ہے۔ مشرق کے بہار میں این ڈی اے کے اندر بی جے پی سب سے بڑی پارٹی ہے۔ مودی جی بھول گئے کہ یہ تیر تو الٹا کمل کی جانب پلٹ کر آتا ہے۔ اس دنیا میں اب جو کچھ اچھا ہوا ہماری بدولت اور ساری برائی دوسروں کے سبب والا فارمولا اب نہیں چلے گا، عوام اتنی بیوقوف نہیں ہیں۔
عالمی سطح پر اپنی ساکھ بنانے کی خاطر مودی جی اپنے منہ میاں مٹھو تو بن گئے لیکن پچھلے دو سالوں کے اندر بین لاقوامی سطح پر ملک کی جو حالت ہوئی ہے اس کو کہاں چھپائیں گے؟ دنیا بھر میں مستحکم ترقی کے اہداف (Sustainable Development Goals Ranking) کی درجہ بندی ابھی حال میں شائع ہوئی ہے۔ اس فہرست میں ہندوستان مزید نیچے اتر کر 120ویں مقام پر پہنچ گیا ہے۔ پڑوسی ممالک سے اس کا موازنہ کریں تو بھوٹان 75ویں مقام پر ہے۔ برونئی 84ویں اور مالدیپ 79 ویں پر ہےاور سری لنکا 87ویں پر ہے۔ امیت شاہ جس بنگلہ دیش کو بھوکا اور ننگا کہتے ہیں وہ 109ویں اور ہندوستان 120ویں مقام پر ہے۔ ایسے میں 129ویں پر موجود پاکستان سے موازنہ کر کے اپنے آپ کو مطمئن کرنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ اس عالمی درجہ بندی کو متاثر کرنا مودی سرکار کے بس کی بات نہیں ہے۔ وہاں سی بی آئی اور پولیس کا چھاپہ مار کر ٹوئٹر یا واٹس ایپ کی طرح دھونس دھمکی ممکن نہیں ہے اس لیے یہ مودی جی کی تقاریر اور دعووں کو آئینہ دکھا کر شرمندہ کرتی ہے۔ ویکسین پر وزیر اعظم کی تقریر سنتے ہوئے یہ خیال گزرتا ہے کہ کاش قوم کو لاحق کذب گوئی اور فسطائی سیاست کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی کوئی ویکسین ایجاد ہو جاتی اور اسے سارے لوگوں کو مفت میں لگا کر منافرت کے وائرس سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی۔ مگر غالب نے کہا تھا ’ہزاروں خواہشیں ایسی۔۔۔۔
***

ویکسین پر وزیر اعظم کی تقریر سنتے ہوئے یہ خیال گزرتا ہے کہ کاش قوم کو لاحق کذب گوئی اور فسطائی سیاست کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی کوئی ویکسین ایجاد ہو جاتی اور اسے سارے لوگوں کو مفت میں لگا کر منافرت کے وائرس سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 20 جون تا 26 جون 2021