ویلنٹائن ڈے۔ محبت کے نام پر بے راہ روی

ڈیز (DAYS)کلچر سے تہذیب و ثقافت تار تار

ڈاکٹر فاطمہ تنویر۔ نئی دلی

صارفیت کے نام پر خواتین کی عزتیں پامال ہوئیں
14 فروری ویلنٹائن ڈے کے نام پر دنیا بھر میں منایا جانے والا ایسا دن ہے جس میں نوجوان شادی شدہ وغیر شادی شدہ جوڑے، لڑکے لڑکیاں اور مرد و خواتین ایک دوسرے کو کھلے عام محبت کا پیغام دے کر اظہار عشق کرتے ہیں۔ پچھلے کچھ دنوں سے پوری دنیا میں ڈیز (Days) کلچر بڑی تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے چنانچہ ڈیز کی ایک لمبی فہرست نظر آتی ہے۔ مدر ڈے، فادر ڈے، گرل چائلڈ ڈے، ویمنس ڈے، انوارنمنٹ ڈے، حتی کہ سلیپ ڈے، فوڈ ڈے وغیرہ وغیرہ۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ ڈیز منانے سے اس سے جڑی ہوئی چیزوں پر کچھ اثرات مرتب بھی ہوتے ہیں؟ ایک دن خاص کر کے آواز اٹھانے سے بھلا کونسا فرق پڑ جاتا ہے؟
مثلا ویمنس ڈے’ یوم خواتین‘ کو ہی لے لیں، ہر سال 8 مارچ کو دنیا بھر میں یہ دن بڑے زور وشور سے منایا جاتا ہے۔ عورت کو بااختیار بنانے اور اس کے حقوق کی نام نہاد آزادی کی بات کہی جاتی ہے کچھ مطالبات کیے جاتے ہیں۔ مثلاً خواتین کے خلاف مظالم کو بند کیا جائے، عورت مرد کو برابری کا حق ملے وغیرہ۔
لیکن ہر سال خواتین کے خلاف جرائم کی تعداد میں اضافہ ان تمام ڈیز کا مذاق اڑاتا اور اسے شر مندہ کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ کرائم برانچ کی رپورٹ کیا کہتی ہے۔ ویمنس رائٹس کمیشن کے اعدادو شمار یہ خبر دیتے ہیں کہ ہر منٹ پر ایک عورت کو ہراساں کیا جاتا ہے۔ عصمت دری، جہیز کے لیے جلا کر مار ڈالنا، عشق وعاشقی اور جھوٹی محبت کے دام میں گرفتار کر کے تنہا چھوڑ دینا اب ایک عام بات ہوتی جارہی ہے۔ دوسری طرف نشہ آور چیزوں کا استعمال، شراب نشیلی دواؤں (ڈرگس) کا استعمال، جوا، سٹہ کی مار کا شکار کون بنتا ہے؟ عورت، لگاتار ظلم سہتی رہتی ہے مگر پرفریب اور دل لبھانے والے نعروں کا شکار ہوتی رہتی ہے۔ سامان کی بکری، اشیا کے فروخت کی خاطر اور صارفیت کے فروغ کے لیے عورت کا استعمال اور پھر کرائم اور جرائم کا بازار گرم ہوتا ہے۔ من چاہی دوستی اور نباہ نہ ہونے کی شکل میں قتل کی بڑھتی ہوئی وارداتیں، زنا بالجبر اور اس کی پردہ پوشی کے لیے قتل کر کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کردینا اس قدر عام ہو گیا ہے کہ ویمنس رائٹ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق 31 ہزار معاملے سال 2021 میں درج کیے گئے جو کہ 2014کے بعد اتنے زیادہ کبھی دیکھنے کو نہیں ملے۔ ان میں 50فیصد معاملے صرف یوپی میں درج ہوئے۔ NCW( نیشنل کمیشن فار ویمن) کی رپورٹ کے مطابق 2020کے مقابلے میں 2021میں ان جرائم میں 30فیصد ہوا ہے۔
اس مخصوص ڈے پرآج قلم اٹھانے کا مقصد یہی ہے کہ ہم ان خطرناک مواقع کی وحشت سے آگاہ ہوں۔ اندھی تقلید یا کسی بھی رسم کو سماج میں جگہ دینے سے پہلے اس کی حقیقت سے آگاہ ہونا بھی ضروری ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ دن کب اور کہاں سے شروع ہوا اور اس کی حقیقت کیا ہے؟
تاریخ کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ روم کے سینٹ ویلنٹائن نامی پادری کے نام پر یہ دن منایا جاتا ہے۔ روم میں سن 269ء کی بات ہے جب کلاوڈیس نام کے بادشاہ کا دور تھا جو پیار ومحبت اور شادی بیاہ کو نوجوانوں کے لیے خطرناک اور ملک کے حق میں نقصان دہ سمجھتا تھا۔ اس کا یہ ماننا تھا کہ نوجوان دام محبت میں گرفتار ہو کر فوج میں شامل ہونے سے گریز کرتے ہیں۔ ان کے اندر سے ملک کے لیے قربانی کا جذبہ ختم ہوتا ہے۔ لہذا اس نے نوجوانوں کی توجہ ملٹری اور فوج کی طرف مبذول کرانے کی خاطر یہ سخت قدم اٹھایا اور نوجوانوں کی شادی، حتی کہ منگنی پر بھی پابندی عائد کردی۔ پھر ہوا یہ کہ لوگ چوری چھپے آشنائیاں کرنے لگے اور جذبات کی تسکین کا سامان تلاش کرنے لگے۔ اس وقت سینٹ ویلنٹائن نامی ایک نیک دل شخص نے نوجوانوں کی مدد کی اور انہیں ملانے اور ان کی شادی کروانے کا بیڑہ اٹھایا۔ وہ انہیں ملانے اور انہیں شادی کے رشتہ میں منسلک کرنے لگا لہذا اس جرم کی پاداش میں اسے جیل بھیج دیا گیا اور وہاں اس کے لیے پھانسی کی سزا تجویز کی گئی۔ اس نے جیل سے لکھے گئے خط میں جیلر کی اندھی بیٹی کو اپنی آنکھیں تحفہ میں دیتے ہوئے یہ لکھا، تمہارا ویلنٹائن۔۔ چنانچہ 14 فروری سن 269ء میں اسے پھانسی کی سزا دی گئی۔ یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ 4996ء میں پہلا ویلنٹائن ڈے رومنس تہوار کے روپ میں منایا گیا۔ لہٰذا پانچویں صدی تک 14 فروری کا دن پوپ گلوسیس کے ذریعہ ویلنٹائن ڈے کے نام سے خاص ہونے کا اعلان کردیا گیا اور اس دن یہ خاص کام متعین ہوا کہ اجتماعی شادیاں (Mass Marriages) کرائی جاتی تھیں۔ یعنی شادی پر لگی پابندی کے خلاف احتجاجی دن کی حیثیت سے یہ دن شادی کے دن کے نام پر مشہور ہوا۔ نوجوانوں کے لیے یہ راحت اور سکون کا دن تھا۔ جب وہ اپنی خواہش کو پائے تکمیل تک پہنچاتے تھے۔
لیکن آج اس کے برعکس نکاح اور شادی جیسے پاکیز بندھن کی دھجیاں اڑا کر اس دن کے نام پر ایک طوفان بدتمیزی عام ہو چکی ہے۔ کس کی شام کس کے ساتھ گزرے گی۔ کس کی بیوی اور کون دوست ہے؟ نہ کوئی حیا ہے نہ شرم۔ کوئی بھی کسی کو آئی لو یو کہہ سکتا ہے سب جائز ہے۔ سب چلتا ہے بازار عشق و محبت میں۔ رات دیر تک نوجوانوں کی من مانی حرکتیں۔ مہنگے ہوٹلس ہاوس فل جس کا انجام اسپتالوں کے ابارشن روم میں بڑی بڑی رقمیں دے کر ڈاکٹروں کے ہاتھوں ہوتا ہے۔
ویلنٹائن ڈے کے نام پر ڈیجیٹل ٹھگ۔ برانڈیڈ کمپنیاں جھوٹ اور فریب کا سودا کرتی ہیں۔ ڈسکاونٹ کے نام پر موبائلز پر میسجز کی بھر مار ہوتی ہے۔
مفت کوپن اور آن لائن آفر سے لوگوں کی جیبوں میں سیندھ لگائی جاتی ہے۔ پچھلے سال نو بھارت ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق یہ ٹھگی کا کاروبار زوروں پر تھا اور اس سے لوگوں کو آگاہ بھی کیا گیا۔ دی ویک کی رپورٹ کے مطابق 12 فروری 2021 کو سائبر سیکیوریٹی ایکسپرٹ کے ذریعہ یہ وارننگ دی گئی کہ ویلنٹائن ڈے کے دن سائبر کرائم سے ہوشیار رہیں
the union home ministry has issued a warning to phone and internet users to be cautious of suspicious links offering valentine’s day offers shuterstock
اخبارات کی تمام رپورٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جنوری کے آخری ہفتہ سے لے کر 13 فروری تک تمام بڑے شہروں اور گاوں کے علاقوں میں بھی لوگ اس سائبر کرائم کا شکار ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ فحاشی اور عریانیت کا وہ بازار گرم ہوتا ہے جسے اگر لڑکے اور لڑکیوں کا رنگ رلیاں منانے کا عالمی میلہ کہیں تو غلط نہ ہوگا۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اس طوفان میں اچھے اچھے گھرانوں کے لڑکے اور لڑکیاں بھی بہہ رہی ہیں۔ خواہشات کی تکمیل کے لیے ہر وہ کام ہوتا ہے جسے مہذب سماج میں جگہ نہیں مل سکتی اور نہیں ملنی چاہیے۔ مگر کیا کیجیے کہ سماج کے لوگ ہی تہذیب سے عاری ہو چکے ہیں جب احساس ہی مرچکا ہے اور برائی برائی نہیں بلکہ کامیابی و ترقی اور ماڈرنٹی کی ضمانت سمجھی جا رہی ہے اور کسی کو مہذب اور پاکیزہ معاشرہ کی فکر ہی نہیں ہے۔ جب اولاد سے یہ سوال ہی نہ ہو وہ رات کہاں گزار کر آئی ہے۔ ان کو یہ فکر ہی نہ ہو کہ ان کی نسل کس راہ اور کس ڈگر پر جارہی ہے۔ اس راہ پر جس پر کوئی رکاوٹ نہیں بلکہ آزادی فکر ہے۔ بے راہ روی والی آزادی۔ میرا جسم میری مرضی میرا دل میری مرضی۔ نہ احساس جواب دہی نہ کوئی یہ کہنے والا کہ:
جو بناتے ہیں نمائش کا کھلونا تم کو
ان کی خاطر یہ زحمت نہ اٹھانا ہرگز
اس کے برعکس یہاں تو یہ نعرہ زبان پر ہے کہ ابھی تو میں جوان ہوں۔
آنے والے ویلنٹائن ڈے اور اس کے بعد کی بربادی کی داستان سننے سے پہلے کاش ہماری قوم میں شرم و حیا کا احساس پیدا ہو، پاکیزگی کی فکر پیدا ہو صالح معاشرہ قائم ہو۔ نکاح اور شادیوں کو آسان کیا جائے اور اس تصور کو عام کیا جائے۔ رشتہ ازدواج کے فوائد اور اس کو مہذب سماج کی نشانی سمجھا جائے۔
(مضمونگار صحافی ہیں)
***

 

***

 اس دنفحاشی اور عریانیت کا وہ بازار گرم ہوتا ہے جسے اگر لڑکے اور لڑکیوں کا رنگ رلیاں منانے کا عالمی میلہ کہیں تو غلط نہ ہوگا۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اس طوفان میں اچھے اچھے گھرانوں کے لڑکے اور لڑکیاں بھی بہہ رہی ہیں۔ خواہشات کی تکمیل کے لیے ہر وہ کام ہوتا ہے جسے مہذب سماج میں جگہ نہیں مل سکتی اور نہیں ملنی چاہیے۔ مگر کیا کیجیے کہ سماج کے لوگ ہی تہذیب سے عاری ہو چکے ہیں جب احساس ہی مرچکا ہے اور برائی برائی نہیں بلکہ کامیابی و ترقی اور ماڈرنٹی کی ضمانت سمجھی جا رہی ہے اور کسی کو مہذب اور پاکیزہ معاشرہ کی فکر ہی نہیں ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  13 فروری تا 19فروری 2022