برماور سید احمد سالک ندوی بھٹکلی
نحیف و لاغر جسم، پچکے ہوئے گال، موٹی سی ناک پر ڈٹے ہوئے پرانے چشمے سے نئی چیزیں دیکھنے والی آنکھیں، سادہ لباس زیب تن کیے ہوئے بغل میں جھولا دبائے ایک عمر رسیدہ شخص کو دور سے دیکھ کر پہچان لیا جاسکتا تھا کہ یہ مظہر محی الدین صاحب ہوں گے۔ ادب، خالص ادب اور اسلامی رنگ میں رنگا ہوا ادب ان کے نزدیک متاع جاں کی حیثیت رکھتا تھا۔ وہ قرآن مجید کی تفاسیر کا مطالعہ کرتے تو اس میں قرآن کی بلاغت اور ادبی اعجاز کے نکتے تلاش کرتے۔ کوئی چیز انہیں مل جاتی تو اسے محفوظ کرتے۔ اپنی شاعری میں اس کا خوبصورتی سے استعمال کرتے۔ انہوں نے اپنی ۸۸ سالہ زندگی میں شعور سنبھالنے کے بعد غالباً کوئی تحریر نہ تو بے مقصد لکھی نہ ہی ایسا ہوا کہ انہوں نے اس کے ذریعہ اسلامی ادب میں اضافہ کرنے کے بارے میں نہ سوچا ہو۔ نعتیں، غزلیں، آزاد نظمیں گویا ان کی ہر تحریر مقصدیت کی آئینہ دار ہوتی تھیں۔ اپنے ظاہر و باطن ہر اعتبار سے انہوں نے خود کو ادب اسلامی کے لیے وقف کر دیا تھا۔ ان کی شخصیت کے کئی ایک پہلو ہیں اور ہر پہلو میں وہ اپنے معاصرین میں ممتاز نظر آتے ہیں۔ اخلاص، بے نفسی، اپنائیت، تقویٰ ،سادگی، تواضع ایسی صفات تھیں جو مظہر محی الدین مرحوم میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھیں۔ وہ جتنے اچھے شاعر تھے اتنے ہی اچھے انسان بھی تھے۔ ان کی خوش مزاجی دیکھنے اور سیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ وہ جن سے بھی ملتے بڑے تپاک سے ملتے۔ اپنے سے چھوٹوں پر شفقت اور ان کی ترقی دیکھ کر خوش ہونا ان کی ایک بڑی خصوصیت تھی جو بڑے لوگوں میں کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔
مجھے ان کے ساتھ کئی ایک مشاعروں میں شرکت کا موقع ملا۔ ہر مرتبہ انہوں نے میری ہمت افزائی کی۔ دو سال قبل جامعہ اسلامیہ شانتا پورم کیرالا کے ایک مشاعرے میں ان سے میری ملاقات آخری ملاقات ثابت ہوئی۔ حسن اتفاق سے منتظمین مشاعرہ نے راقم الحروف کو اور مرحوم کو ایک ہی کمرہ الاٹ کیا تھا وہاں مجھے ان کی سادگی اور کسر نفسی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ مظہر صاحب کی ہر دلعزیزی کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ جن سے بھی ان کے تعلقات ہوتے ان کے تمام اہل خانہ مظہر صاحب کو نانا یا دادا ابا تصور کرتے تھے۔ بچوں کے ساتھ مل کر وہ بچہ بن جاتے اور ہنسی خوشی بچوں کے سارے ناز نخرے برداشت کرتے۔ کالج کے طلبہ کے ساتھ ملتے تو ان کے ساتھ بھی دوستانہ انداز میں ملتے۔ چونکہ مظہر صاحب پیشہ تدریس سے وظیفہ یاب تھے اسی لیے بچوں کی نفسیات سے بھی بخوبی واقف تھے۔ تحریک اسلامی کے تعلیمی اداروں کی ترقی پر وہ بے انتہا خوش ہوت اور منتظمین کو قیمتی مشورے بھی دیتے تھے ان میں ایک بڑی اچھی بات یہ تھی کہ وہ جس کو بھی چاہتے ٹوٹ کر چاہتے اور اس کے دکھ سکھ کا حصہ بنتے۔
مظہر صاحب کی شخصیت اسلامی ادب کی نمائندہ تھی۔ وہ جہاں کہیں بھی جاتے اسلامی ادب کو موضوع بناتے۔ انہوں نے اسلامی ادب کی ترویج و اشاعت کو اپنی زندگی کا مقصد بنالیا تھا۔ فکری پراگندگی، ادب کے منفی رجحانات اور غیر اخلاقی فکر کو عام کرنے والوں سے انہیں کوفت تھی۔ مشاعرے میں کوئی شعر اگر غیر معیاری یا اخلاقی حدود سے گرا ہوا محسوس کرتے تو سخت برہمی کا اظہار کرتے۔
مشاعرے میں ان کی موجودگی مشاعرے کی اٹھان کا سبب بنتی۔ ان کے معاصرین انہیں موجودہ دور کا شیفتہ کہتے تھے۔ شیفتہ کے بارے میں مشہور ہے کہ مشاعرے میں شیفتہ اگر کسی کو داد سے نوازتے تو اس کا مطلب ہوتا کہ شعر اچھا ہے اس کے بعد حاضرین بھی داد میں شریک ہوتے۔ مظہر صاحب کو کسی کا شعر پسند آتا تو اچھل اچھل کر داد دیتے اگر چہ کہنے والا کتنا ہی نو آموز یا نو مشق شاعر ہی کیوں نہ ہو۔ وہ شعر اگر اسلامی فکر کے لحاظ سے مکمل ہوتا تو مظہر صاحب جم کر داد دیتے۔ عموماً کہنہ مشق شعرا نوجوان کو شعرا کو داد دینے میں بخل سےکام لیتے ہیں لیکن یہ مظہر صاحب کی وسعت قلبی تھی کہ وہ محفل میں سب سے بڑھ کر داد دیتے اس سے نوجوان فنکاروں کی خوب ہمت افزائی ہوتی۔ اگر فنی لحاظ سے مصرع یا شعر میں کوئی کمی ہوتی تو مصرع دہراتے ہوئے شاعر کو غیر محسوس طریقہ پر متوجہ بھی کرتے تھے۔
مظہر صاحب نے بلا کی شان استغنا پائی تھی۔ آج کے اس دور میں جب آدمی پیسوں کے لیے اپنی جان دینے پر آمادہ ہوتا ہے وہاں مظہر صاحب نے حد درجہ قناعت سے کام لیا۔ ادارہ ادب اسلامی کرناٹکا شاخ کی طرف سے ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں ادارے کی طرف سے تفویض کردہ ایوارڈ کی پوری رقم یہ کہہ کر واپس کی کہ اسے ادارہ کے فروغ کے لیے استعمال کریں۔ وہ بہت ہی سنبھل کر زندگی گزارتے تھے۔ ان کے ایک رفیق نے ایک واقعہ بتایا کہ جس میں خوف خدا اور آخرت میں جواب دہی کا احساس پوری طرح سےنمایاں ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ایک بار سفر کے لیے مظہر صاحب نے ٹرین کا ٹکٹ خریدا لیکن ان کے مطلوبہ اسٹیشن جانے والی دوسری ایکسپریس گاڑی پر غلطی سے سفر کر کے جب وہ متعلقہ مقام تک پہنچے وہاں جانے پر انہیں معلوم ہوا کہ ان کا ٹکٹ اس ٹرین کا نہیں تھا جس کا کرایہ انہوں نے ادا کیا تھا اس کا کرایہ 18 روپے اضافی تھا۔ اسٹیشن پہنچ کر انہوں نے اسٹیشن ماسٹر اور دوسرے حکام سے رجوع کیا کہ ان کے اس مسئلے کا حل نکالیں کیونکہ ان کی اپنی غلطی سے ریلوے بورڈ کو 18 روپے کا خسارہ ہوا ہے لہٰذا اس کی بھرپائی کا انہیں موقع دیا جائے۔ حکام کی طرف سے کوئی جواب نہ ملنے پر انہوں نے بلا ضرورت تین روپے قیمت کے چھ پلیٹ فارم ٹکٹ خریدے تاکہ ریلوے بورڈ کو 18 روپے ادا کیے جا سکیں۔ یہ واقعہ بظاہر معمولی ہے لیکن ان کے کمال احتیاط کی دلیل ہے۔
اسلامی فکر کو عام کرنے کے لیے مظہر صاحب نے شاعری کو وسیلہ اظہار بنایا۔ طہارت فکر اور اسلوب کی دلکشی نے مظہر صاحب کی شاعری کو بڑی مقبولیت عطا کی۔ ان کے ایک چاہنے والے صمد خانہ پوری نے لکھا ہے کہ ان کی شاعری تفریح طبع کا ذریعہ نہیں بلکہ ’کار پیمبری‘ سے تعلق رکھتی ہے۔ ان کی شاعری کی تمام تلمیحات اسلامی فکر کی غماز ہیں۔ ذیل میں ان کے کچھ شعر پیش کیے جا رہے ہیں جس میں ان کی فکری پختگی، سلاست و روانی کے ساتھ ان کے شعری دیوان خانے کی رنگا رنگی بھی نظر آئے گی۔ مظہر صاحب کا یہ شعر دیکھیے کہس قدر معنی خیز ہے
شعر گوئی بھی حرف روشن میں
صدقہ جاریہ نہیں ہے کیا
مطلب صاف ہے۔ صرف تعمیری افکار و خیالات پرمبنی شاعری کے عمل کو صدقہ جاریہ بتا کر مظہر صاحب نے اس شغل جگر کاوی کی اہمیت اجاگر کی ہے۔
مظہر صاحب شعر گوئی کی صلاحیت کو قدرت کا بڑا انعام سمجھتے تھے وہ کہتے تھے کہ اگر اس نعمت کو مرضیات رب کے لیے استعمال نہیں کیا گیا تو خدا کی طرف سے سخت پکڑ کا خوف ہے۔ ایک شعر میں اس کی طرف کچھ یوں اشارہ کیا ہے؎
متاعِ نطق اگر حق کی ترجماں نہ بنے
مجھے یہ ڈر ہے یہ نعمت عذابِ جاں نہ بنے
تشبیہ و استعارے کی زبان میں قرآنی اصطلاح تقویٰ اور خوف خدا کو مظہر صاحب کے ان اشعار میں پڑھیے اور سر دُھنیے کہ
بد نگاہی، بدکلامی، بد دماغی کا چلن
عام ہو جاتا ہے دل سے جب نکل جاتا ہے ڈر
کیا ہے یہ خوفِ خدا؟ بخشش کدہ، مشکل کشا
سب سہاروں سے زیادہ کارگر زینہ ہے ڈر
آج کی رنگینیاں زنجیرِ پا جب بن گئیں
کل کی سنگینی کا مظہرؔ پھر کہاں رہتا ہے ڈر
ہجرت مدینہ کے موقع پر غار میں چھپ جانے اور پیارے رسولﷺ کے حضرت ابوبکرؓ کو تسلی دینے کے واقعہ کو دیکھیے کس خوبصورتی سے برتا ہے
وحشت کا وہ عالم تھا کہ دل ڈوب رہا تھا
تم دو ہو کہاں تین ہیں! کہنا بھی بہت تھا
مانا کہ درِ ثور پہ خطرہ بھی بہت تھا
مکڑی کا وہ اک ہلکا سا جالا بھی بہت تھا
ہجرت کی ستم رانی کا صدمہ بھی بہت تھا
اقرارِ محبت کا تقاضا بھی بہت تھا
اسی غزل کے مقطع میں مظہر صاحب نے اپنوں کی طرف سے ملنے والے دکھ پر بیزاری کا اظہار بھی کیا ہے۔ کہتے ہیں
اس شخص کو شہرت بھی مری راس نہ آئی
مظہر زہے قسمت! وہ شناسا بھی بہت تھا
غزلوں کے علاوہ مظہر صاحب نےحمدیں، نعتیں، مناجات اور آزاد نظمیں بھی خوب کہی ہیں۔ ان کی شاعری میں عصری رجحانات منظر نگاری، دور حاضر کے مسائل، قدیم ادب سے استفادہ، تہذیبی اقدار کی پامالی پر افسوس، ادب کے نام پر بے ادبی، عریانیت ہرزہ سرائی، غزلوں میں بیہودہ خیالات پر طنز، معروف کی دعوت، منکرات پر نکیر، حسن اخلاق کو اختیار کرنے کی ترغیب جیسے تمام اہم موضوعات کا احاطہ ہے۔ مظہر صاحب اپنی بات بڑے دو ٹوک لہجے میں کہتے وہ کسی کی ناگواری کو بالکل خاطر میں نہیں لاتے۔ ان کا یہ شعر دیکھیے
اِدھر غزل میں سنا رہا تھا
اُدھر وہ چہرہ چھپا رہا تھا
اِدھر میں درپن دکھا رہا تھا
اُدھر وہ پتھر اٹھا رہا تھا
مظہر صاحب کے یہاں بلا کا تغزل بھی ہے۔ کہتے ہیں:
ترکِ تعلقات کی لا حاصلی تو دیکھ
سانسوں میں تیری پھر بھی سمایا ہوا ہوں میں
ایک اور مقام پر ان کا یہ انداز بھی دیکھنے لائق ہے۔ کہتے ہیں
دشت دشت پھرتا ہوں، شہر شہر بھٹکا ہوں
جب بھی تنہا تنہا تھا اب بھی تنہا تنہا ہوں
مظہر صاحب کا یہ انداز ان کی جوانی کا زمانہ یاد دلاتا ہے
اک ذرا سی بات پر وہ مجھ کو تنہا کر گیا
بات تو ایسی نہ تھی لیکن وہ ایسا کر گیا
یوں ہوا کل بھیڑ میں وہ دفعتاً آیا نظر
یوں ہوا جیسے پرانا زخم تازہ کر گیا
اپنی زندگی کے تلخ وشیریں تجربات کو مظہرصاحب جب اشعار کے قالب میں ڈھالتے تو یوں کہتے
آنکھوں پہ کیا بٹھایا زمیں کا نہیں رہا
نظروں سے گر گیا تو کہیں کا نہیں رہا
مظہر صاحب پر مقصدیت اس قدر سوار تھی جس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ ادب اسلامی کے پروگرام کے لیے چاہے کتنی دور جانا پڑے مظہر صاحب بے تکان سفر کرتے تھے۔ ان کے معاصرین ان کو ازرہ تفریح سفر محی الدین کہتے تھے۔ مظہر صاحب سفر میں بھی اپنا جھولا ساتھ میں رکھتے جس میں کچھ ادبی مضامین ،کچھ تنقیدی تحریروں کے نمونے، کچھ اپنی تازہ غزلیں اور ادب اسلامی کے پروگرام کی تیاری کے کاغذات ہوتے۔ کسی بھی ادبی مضمون میں فکری انحراف کا کوئی عنصر دیکھتے تو احباب کو ضرور مطلع کرتے اور اخبارات کے ذریعہ اسکی سرکوبی کی تاکید کرتے۔
مظہر صاحب کے چار مجموعے کلام منظر عام پر آچکے ہیں جبکہ پانچواں مجموعہ کلام اشاعت کے مرحلہ میں ہے۔ 1984میں انہوں نے اپنے شعری سفر کے ایک بڑے مرحلہ کی تکمیل کر کے (پہلا مجموعہ کلام) ’’جاگتی دہلیز ‘‘ پر قدم رکھا تو پورے 19 سال کے وقفہ کے بعد 2003 میں ان کی شاعری نے مزید سفر طے کر کے (دوسرا مجموعہ کلام) ’’اعتبار‘‘ حاصل کیا۔ جب مشق سخن پوری آب و تاب پر رہی تو مظہر صاحب کے قلمِ گہر بار نے 2011 میں تیسرے مجموعہ کلام کے ذریعہ ’’لفظ لفظ روشنی‘‘ بکھیری۔ اسی طرح ملت کے اداس اور درماندہ دلوں کو خوف و ہراس سے نکالنے کے لیے 2017 میں اپنے چوتھے مجموعہ کلام کی ’’بشارت‘‘ دی۔ اگر زندگی نے وفا کی ہوتی تو اشاعت کے مرحلے کا پانچواں مجموعہ کلام ’’بصارت‘‘ سےبھی لطف اندوز ہوتے۔ اللہ غریق رحمت کرے۔ آمین
1933 کو ریاست کرناٹکا کے ہبلی میں پیدا ہونے والا یہ عظیم انسان، تعمیری فکر کا نمائندہ اور منفرد لب و لہجہ کا حامل اپنے خاص انداز کی وجہ سے مشاعروں اور شعری مجالس کی آبرو کہا جانے والا شاعر ادارہ ادب اسلامی کا قیمتی گوہر 12 مارچ 2021 کو اس دار فانی سے کوچ کر گیا۔ یہ ان کے اخلاص کی بدولت تھا کہ رب کے حضور پہنچنے کے لیے رجب کے آخری دنوں میں جمعہ کے دن عصر بعد کی قبولیت کی ساعت انہیں نصیب ہوئی۔ چاہنے والوں نے ان کی رحلت پر بڑے دکھ کا اظہار کیا۔ محبین نے ایک دوسرے سے تعزیت کی اور ان کے انتقال کو ادب اسلامی کرناٹکا کے ایک اہم باب کے خاتمہ سے تعبیر کیا۔ ابھی کچھ روز قبل ہی ان کے ایک غیر مسلم دوست ممتاز فوٹو گرافر اور اردو ناول نگار انل ٹھکر کا انتقال ہوا تھا جس سے مظہر صاحب بہت افسردہ ہو گئے تھے۔ ان کے ایک اور غیر مسلم دوست شاعر و ادیب کامل کلادگی سے بھی ان کے دیرینہ تعلقات رہے ہیں۔ کامل صاحب مظہر صاحب کی تدفین کے وقت بھی موجود تھے۔ ممکن ہے انہیں ضرور احساس ہوا ہوگا کہ قبر و حشر کی باتیں کرنے والا ان کا ایک نہایت قریبی دوست اب اس مقام پر پہنچ گیا ہے جہاں سے لوٹنا ممکن نہیں ہے۔ اگر اس احساس نے کامل صاحب کے دل میں حق و صداقت کی شمع فروزاں کی تو شاید مظہر صاحب کی دوستی کا حق بھی پوری طرح ادا ہو جائے گا۔ خیر! مظہر صاحب اب اس دنیا میں نہیں رہے مگر ان کی محبت، زندہ دلی، بے لوثی، اخلاص اور ٹوٹ کر چاہنے کی ادا بہت یاد آئے گی۔ ادارہ ادب سلامی ہند کے مشاعروں میں ان کی کمی برابر محسوس کی جاتی رہے گی۔ یقیناً ان کے بغیر محفلوں میں سناٹا ہو گا۔ محرومی قسمت کا شکوہ کن سے کیا جائے کہ ہماری محفلوں میں ان جیسے لوگ خال خال ہی نظر آتے ہیں۔
مظہر صاحب ہمارے جیسے انسان تھے تو ظاہر سی بات ہے کہ ان سے کچھ کمی بیشی بھی ہوئی ہو گی۔ ان سے محبت کا تقاضا ہے کہ ہم انہیں بخش دیں اور اللہ سے ان کی مغفرت اور جنت میں درجات کی بلندی کے لیے دعا کریں۔ اللہ رب العزت انہیں حشر و نشر میں ثابت قدم رکھے اور جس کی کامیابی کی تمنا دلوں میں بسا کر انہوں نے ادب اسلامی کے حوالے سے دین کی خدمت کی اللہ رب العزت اسے شرف قبولیت بخشے۔
این دعا از من و منجملہ جہاں آمین باد
***
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 21 مارچ تا 70 مارچ 2021