’وقت یہ قرآں سمجھنے اور سمجھانے کا ہے‘

قرآن کی توہین پر وسیم رضوی کے خلاف غم و غصہ کی لہر۔۔۔!

 

مسلمانوں میں نظر آئی اتحاد و اتفاق کی طاقت، شیعہ۔سنی ہوئے ایک
بات صرف ایک شخصیت سے جڑی ہوتی تو شاید خاموشی اختیار کی جا سکتی تھی لیکن معاملہ قرآن مجید اور ملک کے سپریم کورٹ سے منسلک ہے۔ یوں تو پہلے بھی کئی بار وسیم رضوی نے تاریخ اسلام کی پاکیزہ اور مقدس شخصیات کو نشانہ بنایا ہے اور خلفائے راشدین، ازواج مطہرات اور انبیاء کرام کے کردار پر سوال اٹھایا ہے لیکن اس بار اس نے قرآن پاک کی 26 آیتوں کے خلاف عدالت عظمیٰ میں مفاد عامہ کی عرضی داخل کی ہے جس سے نہ صرف سماج اور معاشرے میں غم وغصے کی لہر ہے بلکہ سماجی میڈیا پر بھی صارفین مشتعل اور برہم نظر آرہے ہیں۔ اور سب سے اچھی بات یہ رہی کہ امت مسلمہ اس معاملے میں متحد نظر آئی۔ اگر یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ اس وقت ملک میں مسلمانوں کے اتحاد کا معائنہ کرنے کی خواہش درکار ہے تو سوشل میڈیا پر صرف وسیم رضوی ٹائپ (type) کیا جائے۔ کیا شیعہ کیا سنی کیا دیوبندی کیا بریلوی اور کیا اہل حدیث ہر کوئی یک زبان وسیم رضوی کے عمل کی پر زور مذمت کرتا ہوا نظر آرہا ہے۔ صارفین گویا اتحاد کی ایک لڑی میں پرو دیے گئے ہوں۔ کچھ صارفین سب و شتم سے کام لیتے ہوئے نظر آئے تو کچھ صارفین نے آداب و اخلاق کے دائرے میں رہ کر وسیم رضوی کے خلاف اپنے غضبناکی کا اظہار کیا جبکہ کچھ صارفین نے اس معاملے سے الگ ہی رہنے کا بھی مشورہ دیا۔ ان کے مطابق وسیم رضوی کے معاملے میں کچھ بولنا اسے اہمیت دینے کے مترادف ہو گا۔ راقم الحروف یہاں انہیں مباحث کو پیش کرے گا جن میں سنجیدگی اور متانت پائی جاتی ہے۔ لیکن اس سے پہلے وسیم رضوی کے قبیح عمل اور مسلم تنظیموں کے رد عمل کا تذکرہ کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
مختصراً یہ کہ شیعہ سنٹرل وقف بورڈ کے سابق چئیرمین وسیم رضوی نے سپریم کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے ایک مفاد عامہ کی عرضی دائر کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ مقدس قرآن مجید میں جو 26 آیات ہیں انہیں حذف کردیا جائے (نعوذباللہ) کیونکہ ان کی وجہ سے مبینہ طور پر دہشت گردی کو بڑھاوا مل رہا ہے اور اس دور کی ان آیات کو آج کے دور میں غلط مقصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ وسیم رضوی کے اس عمل کے بعد شیعہ و سنی تنظیموں نے وقتاً فوقتاً پریس کانفرنس کی تو کسی نے پریس ریلیز جاری کی تو کئی مقامات پر احتجاج و مظاہرہ کیا گیا۔ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی نے کہا کہ قرآن حکیم میں تحریف کے قائل لوگ خارج اسلام ہیں۔ وہیں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی جانب سے مولانا ولی رحمانی نے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ قرآن پر پوری دنیا کے تمام فرقوں کے مسلمانوں کا مکمل اتفاق ہے لہذا آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی ٹیم اس معاملہ کو شروع سے دیکھ رہی ہے اور اس نے ماہرین قانون کے مشورے سے اپنا موقف تیار کر لیا ہے۔ پٹیشن تیار ہو رہی ہے، اعلیٰ قانون دانوں کے مشورہ کے مطابق مناسب وقت پر سپریم کورٹ میں پیش کیا جائے گا اور پوری مضبوطی سے سپریم کورٹ میں مسلمانوں کا موقف رکھا جائے گا۔ وہیں جماعت اسلامی ہند کے سکریٹری برائے اسلامی معاشرہ مولانا رضی الاسلام ندوی کے مطابق اس معاملے میں احتیاط اور حکمت سے کام لینے کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں ایک متحدہ موقف اختیار کیا جانا چاہیے جبکہ مسلمانوں کی نمائندہ جماعتوں کو ایسے کسی معاملے میں فریق بننے سے گریز کرنا چاہیے۔ دوسری طرف معروف عالم دین مولانا کلب جواد نے تو وسیم رضوی کے گرفتاری کا مطالبہ کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ وسیم رضوی ملک میں انشار پھیلانے میں مصرو ف ہیں۔ لہذا ایسے لوگوں کو کو گرفتار کیا جانا چاہیے۔
وسیم رضوی کے خلاف اسلامی تنظیموں کے بیانات اور ردعمل کے دوران سوشل میڈیا پر وسیم رضوی کی مخالفت اور حمایت میں کئی ٹرینڈس عام کئے گیے جن میں
Arrestwasimrizvi#
ArrestLaanatiWasimRizvi#
WasimRizvi#
Boycott #WasimRizvi#
QuranMajeed#
TahaffuzEQuranEPaak#
TahaffuzESahaba#
waseem_rizvi_pe_NSA_lagao#
मैं_वसीम_रिज़वी_के_साथ_हूँ #
FreeHinduTemples#
قابل ذکر ہیں۔ ان ٹرینڈ کے ذریعے خاص طور مسلمانوں نے اپنی برہمی کا اظہار کیا تو وہیں دوسری طرف بھگوا ٹولہ اور زعفرانی چشمہ لگانے والے صارفین نے وسیم رضوی کے ساتھ کھڑے ہو کر مسلمانوں کو تکلیف دینے کی ناکام کوشش کی۔ وجے سنگھ مینا نے اپنے ٹویٹر ہینڈل پر لکھا کہ’’ہر محب وطن کو وسیم رضوی کے ساتھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے کیوں کہ وسیم رضوی ایک سچا دیش بھکت ہے‘‘
وہیں فیس بک پر الفت آرا نامی مشوری دیتی ہوئی نظر آئیں کہ وسیم رضوی کے عمل پر لوگوں کو اپنی زبان خراب کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔انہوں نے لکھا کہ وسیم رضوی نے جو کہا سو کہا آپ لوگ اپنی زبان کیوں خراب کر رہے ہیں؟ اسلام نے جہاں ہمیں صحیح اور غلط میں فرق کر نے کا شعور دیا ہے وہیں ایسے موقعو ں پر صبر و تحمل سے کام لینا بھی سکھایا ہے۔ کیا ہمارے پیارے نبی ﷺ نے کبھی کسی کو برا بھلا کہا؟ الف آرا کے جواب میں منیر حسین حرہ لکھتے ہیں کہ ’’بات صحیح ہے جتنا ہم اسے اہمیت دیں گے اتنا ہی اسے فائدہ ملے گا کیونکہ وہ اور اس کے کارندے چاہتے ہیں کہ مسلمان آپس میں لڑیں۔ وسیم رضوی کو تو برسوں پہلے علماء نے مرتد قرار دیا تھا اور اسلام کے دائرے سے خارج کر دیا تھا۔ وسیم رضوی کا سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین جیسا حشر ہو گا‘‘
فیس بک پر بلال نامی صارف نے لکھا کہ’’مجھے افسوس ہے کہ عدالت عظمیٰ نے کیوں اور کیسے وسیم رضوی کی قران سے متعلق درخواست کو سنوائی کے لیے تسلیم کر لیا۔ معاملے کی حساسیت کو سمجھتے ہوئے ہر ایک مسلمان کو قران و حدیث اور قانون کے دائرے میں رہ کر اپنے رد عمل کا اظہار کرنا چاہیے ورنہ جس عدلیہ نے رضوی کی اس درخواست کو سنوائی کے لیے قبول کیا وہ عدالت مسلمانوں کی خاموشی کا فائدہ اُٹھا کر قرانی آیتوں کو ہٹانے کا فیصلہ بھی سُنا سکتی ہے۔
فیس بک پر ہی مفتی نصراللہ ندوی لکھتے ہیں کہ ’’امید ہے کہ سپریم کورٹ اس کی عرضی کو خارج کردے گا اس لیے کہ یہ انٹرنیشنل معاملہ ہے پوری دنیا کے مسلمانوں کے جذبات اس سے وابستہ ہیں۔‘‘ وہیں نصراللہ ندوی نے مسلمانوں سے صبرو تحمل کی تلقین کرتے ہوئے لکھا کہ ’’مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ صبر وتحمل سے کام لیں البتہ سوشل میڈیا میں وسیم رضوی کے خلاف خوب لکھیں اور بیان دیں تاکہ خفیہ ایجینسیوں کو یہ احساس ہوجائے کہ مسلمانوں میں اس قضیہ کو لے کر سخت غم وغصہ ہے اور اس کو براہ راست وہ اپنے دین ایمان کے خلاف اعلان جنگ سمجھتے ہیں۔‘‘
فیس بک پر ہی ابو القیس نامی صارف لکھتے ہیں کہ ’’تو آج ہر کھلی آنکھوں کے سامنے ثابت ہو گیا کہ اہل تشیع تحریف قرآن مجید کے قائل نہیں لہذا اب سنیت کو چاہیے کہ وہ شیعیت پر تحریف قرآن کے اپنے من گھڑت الزام سے رجوع کر لیں۔‘‘ فیس بک پر ہی دارلعلوم ندوۃ العماء کے مولانا ارشاد احمد اعظمی نے لکھا کہ’’ قرآن ایسی کتاب نہیں جس پر کوئی دست درازی کر سکے ایسا نہ پہلے کبھی ہوا اور نہ کبھی ہوگا۔ جو حواس باختہ قسم کے لوگ اس قسم کا شوشہ چھوڑتے ہیں سوائے اپنے ناپاک مقاصد کے حصول کے وہ اور کچھ نہیں حاصل کرتے۔ افسوس ہے کہ ہمارا مذہبی طبقہ اس ناپاک پروپگنڈہ میں شانہ بشانہ اس کے ساتھ کھڑا ملتا ہے اور جذبات سے مغلوب ہو کر لا شعوری طور پر اس کی مدد کرتا ہے۔
سرکردہ اسلامی تنظیموں اور سوشل میڈیا پر سنجیدہ صارفین کے پوسٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ معاشرے میں قرآنی تعلیمات کا پیغام عام کرنے کی ضرورت ہے۔ خاص طور آنے والے مقدس مہینہ رمضان المبارک میں قرآن کو سمجھ کر سیکھنے کی ضروت ہے تاکہ غیر مسلم بھائیوں تک دین کا صحیح پیغام پہنچایا جاسکے۔ فیس بک پر شاعر ضمیر ہاشمی کے خوبصورت اشعار بھی اسی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
حد سے آگے بڑھ گئی ہیں ظالموں کی سازشیں
موڑ یہ سب تک پیام حق کو پہنچانے کا ہے
جو شرارت کر رہے ہیں ان پہ لعنت بھیجیے
وقت یہ قرآں سمجھنے اور سمجھانے کا ہے
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 21 مارچ تا  70 مارچ 2021