وسعت فکر سے محروم ذرائع ابلاغ ہندوستانی سماج کے لیے لمحہ فکریہ
ذہنی تنزلی اور انحطاط سے معاشرہ کو اوپر اٹھانے کے لیے مؤثر حل تلاش کرنے کی ضرورت
ڈاکٹرظفردارک قاسمی، علی گڑھ
آج ہندوستانی معاشرے کی جو تصویر ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ ہندوستان کی عوام ایسے مراحل سے دوچار ہے جن کا تصور شاید کسی نے کیا ہو گا۔ اس وقت ملک میں بے چینی کی بہت ساری وجوہات ہیں۔ مثلا بے روزگاری، غربت یا اس نوعیت کے دوسرے واقعات نے ملک کی عوام کو سکتے میں ڈال دیا ہے۔ لیکن ان تمام چیزوں پر ایک ایسا تعفن حاوی ہے جسے کسی دوسرے ملک اور دوسری تہذیب سے نہیں لایا گیا بلکہ اس کی پیدائش و نشوونما اسی معاشرے اور اسی تہذیب و ثقافت میں ہوئی ہے اور اب یہ اپنے دورِ عروج پر ہے۔ جی اس کو ہمارے ملک میں جمہوریت کے چوتھے ستون میڈیا نے جنم دیا ہے اور اس کی پرورش وپرداخت ان گودوں اور آغوشوں میں ہوئی ہے جن کے دماغ میں فسطائیت، عصبیت اور منافرت کو گزشتہ کئی دہائیوں سے پیوست کیا جا رہا تھا۔ انہیں مذہب کی بنیاد پر تفریق کرنا سکھایا گیا۔ مسلم کمیونٹی کی تاریخ و تہذیب اور ان کی قربانیوں کو مجروح کیا گیا ۔ گویا یہ وہ طبقہ ہے کہ ان کی فکر، زبان اور دماغ تو ان کے جسم وروح سے پیوست ہیں لیکن اس پر قبضہ خود ان کا نہیں ہے بلکہ اس پر قابض وحکمراں کوئی اور ہے۔ اپنی عقل و خرد سے یہ نہ سوچتے ہیں نہ کہتے اور نہ ہی کسی بھی قابل اعتراض بات پر سوال قائم کر سکتے ہیں۔ گویا ذرائع ابلاغ کا ایک طبقہ اپنی فکری آزادی اور حریت فکر سے پوری طرح مفلوج و اپاہج ہو چکا ہے۔ تدبر وتفکر کی تمام راہیں مسدود ہو چکی ہیں۔ اس کے فکری اعصاب پر تخریب کاری اور بے اعتدالی وعدم توازن سوار ہے۔ اپنی اصل ذمہ داری اور فرض کو یکسر بھلا دیا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ان کی زبان سے نکلنے والا ایک ایک لفظ حتیٰ کہ ان کی سوچ وفکر، تدبر وتفکر کی تمام راہیں عالمی طاقتوں اور فرقہ پرست ذہنیتوں کے ہاتھوں فروخت ہو چکی ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان سے کسی طرح کی خیر کی توقع کرنا ناممکن نہیں بلکہ محال ہے۔ اگر ان کا رویہ اسی طرح جارحانہ اور جانبدارانہ رہا تو ممکن ہے کہ ہندوستان کی مستحکم بنیاد یعنی باہمی اتحاد ویکجہتی اور سالمیت کمزور ہو جائے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ آج کی تاریخ میں وطن عزیز میں جو ماحول تیار کیا جا رہا ہے اس نے جہاں نفرت وتعصب اور تشدد وتعدی کو فروغ دیا ہے وہیں ملک کا ایک طبقہ فکری ارتداد اور ذہنی غلامی کا بھی شکار ہے۔ اس لیے ان کے آقا جو ان سے کہتے ہیں اسے انجام دینے اور ان کے اشاروں پر رقص کرنے کو اپنی سعادت سمجھتے ہیں۔ یہی وہ طبقہ ہے جس نے ہندوستان جیسے عظیم جمہوری نظام اور تکثیری سماج کی روحانیت و پاکیزگی اور اس کے بنیادی و اہم تقاضوں کو خود ساختہ مصلحتوں اور محدود مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ جو لوگ ملک کی پاکیزگی کو انتہا پسندی سے مخدوش و مجروح کر رہے ہیں انہیں اپنا محاسبہ کرنا ہوگا نیز بتانا ہو گا کہ کیا ہندوستان کا موجودہ ماحول وہی ہے جس کا خواب عدم تشدد کے پجاری مہاتما گاندھی نے دیکھا تھا اور جس کی امید بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر نے کی تھی؟ ٹھنڈے دماغ سے یہ بھی سوچنا ہوگا کہ یہی وہ سر زمین ہے جس کی امن پسندی اور محبت کی مثالیں دنیائے افق پر روشن وتابناک تھیں۔ آج ان کو بری طرح گہن لگ چکا ہے۔ ہمارا باہمی اعتماد وارتباط لگاتار بے نور بے آب ہوتا دکھ رہا ہے۔ انسانی انحطاط اور پستی کے اس دور سے فوری طور پر نکلنے کی ضرورت ہے۔ اور جو فضا ملک کے منظر نامے پر ذرائع ابلاغ کے توسل سے تیار کی جارہی اس کا مقابلہ ملک کی تمام سیکولر جماعتوں، معاشروں اور افراد کو انتہائی دانشمندی، سنجیدگی اور حکمت و مصلحت سے کرنا ہو گا۔ نفرت اور تعصب کے بدلے امن، رواداری، انسانیت اور اتحاد واتفاق کے زیور سے موجودہ تمام برائیوں اور بد عنوانیوں کا قلع قمع کرنا ہو گا۔ یہی ہمارا اس وقت سب سے موثر اور پائیدار ہتھیار ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ہمیں ان پہلوؤں پر بھی سنجیدگی اور متانت سے سوچنا ہوگا اور دوسروں کی طرف حرف شکایت اٹھانے سے پہلے اپنے گریبان میں بھی جھانکنا ہو گا اور طے کرنا ہوگا کہ جو تہذیب ووراثت ہم نے اپنے مذہب، سنت رسول، آباؤ اجداد اور اسلاف واولیاء سے پائی تھی کیا واقعی اس کا عشر عشیر بھی ہماری زندگیوں میں موجود ہے؟ جن اوصاف حمیدہ اور پاکیزہ خصال کی بنیاد پر ہر دور میں ہم کامیاب وسعادت مند ہوتے رہے ہیں ان کو ہم نے کس حد تک اختیار کیا ہے۔ آج اس سوال پر مسلم کمیونٹی کے ہر فرد اور ہر شخص کو غور وخوض کرنا ہو گا۔ اس لیے اپنی تہذیب اور ہندوستان کی ساجھی وراثت وروایت کو زندہ وتازگی بخشنے کے لیے ہمیں بھی اپنے اعمال وکردار کو سدھارنا ہو گا۔
ذرا تصور کیجیے کہ آج مسلم کمیونٹی کے سب سے زیادہ مقدمات عدالتوں میں ملیں گے۔ ہمارا آپسی تناؤ اور رنجش و حسد اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ ہم اپنے گاؤں، محلے اور معاشرے میں کسی کی تعمیر وترقی کو برداشت تک نہیں کر سکتے۔ گویا خود مسلم معاشرہ بد اخلاقی کے ساتھ ساتھ تمام طرح کی ظاہری اور باطنی بد اعمالیوں سے آلودہ ہے۔ نفاق ہماری صفوں میں اس حد تک آچکا ہے کہ اس سے شاید ہی کوئی مجلس ہماری بچی ہوئی ہو۔
جو طاقتیں سرخ رو اور آزاد وخود مختار تھیں آج وہ بھی دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کے زیر نگیں ہیں۔ ان کی فکری روحانیت پر بھی تسلط انہی باطل طاقتوں کا ہے جو اپنے آپ کو سپر پاور کہلاتی ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ جنہیں اقوام عالم کی سربراہی اور سرپرستی کرنی تھی وہ اب دوسروں کی سربراہی میں اپنا سیاسی و اقتصادی سفر طے کر رہے ہیں۔ جہاں ہماری بد حالی اور تنگ دستی کے ذمہ دار اغیار و متعصبین ہیں تو وہیں اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے کہ اس بدحالی میں خود ہم اور ہمارے نام نہاد رہنما اور خود ساختہ قائد بھی برابر کے شریک ہیں۔ ان حقائق سے ہم نے اب تک صرف نظر کیا ہے اور اپنے درمیان رہنے والے آستین کے سانپوں کو نہیں پہچانا۔ لہٰذا اپنی اس صورت حال سے نکلنے کے لیے خود ان افراد ورہنماؤں پر نظر رکھنی ہوگی جو ہمارا سودا ایوانوں میں جا کر کرتے ہیں اور پھر ہمیں جھوٹی تسلی دیتے ہیں، ہماری پیٹھ تھپتھپاتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملی قیادت وسیادت کے نام پر قوم کو بے آب وگیاہ صحراء میں یہی نام نہاد رہنما جان بوجھ کر دھکیل رہے ہیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ آج ہمیں ملت کے مفادات اور قومی صلاح وفلاح سے زیادہ عزیز اپنے ذاتی مفادات ہیں۔ جب سے ہمارے اندر اخلاقی گراوٹ اور انسانی وملی ہمدردی کے صادق جذبہ اور مخلصانہ جد وجہد میں کمی واقع ہوئی ہے تبھی سے عالمی سطح پر وہ تمام طاقتیں ٹوٹ پڑی ہیں ۔گویا جن کو ہماری اس فاش غلطی کا انتظا ر تھا۔ اسی کے ساتھ یہ بھی سوچنا اور سمجھنا ہو گا کہ آج مسلم معاشرے میں ایک بڑا طبقہ منطقی اور دلائل و شواہد کی بنیاد پر چیزوں کو جانچنے پرکھنے اور تسلیم کرنے کا مزاج کم رکھتا ہے۔ بلکہ روایتی اور سنی سنائی بات پر اعتماد کا غالب رجحان پایا جاتا ہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی کوئی بات معاشرے کی عام روش سے اوپر اٹھ کر نہیں کہی جاسکتی ہے۔ انہی وجوہات کی بنیاد پر مسلم کمیونٹی کا ایک بڑا حصہ روایتی چیزوں پر اعتماد و یقین کرنے کو اپنی کامیابی تصور کرتا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج پوروپ نے جن علوم وفنون کو اپنی ترقی اور کامیابی کا زینہ سمجھا ہے ہمارے معاشرے میں آج بھی ایک بڑا طبقہ اس کے جائز اور ناجائز ہونے پر فضول بحث میں مبتلا ہے۔ جبکہ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ جدید ایجادات و انکشافات اور سائنسی علوم و تجربات کے بانی مبانی ہمارے اکابر واسلاف ہیں۔ لیکن آج اس بات کو کہتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے کہ کہیں مذہبی اور روایتی طبقہ، الحاد وزندقہ کی فہرست میں شامل نہ کردے۔ ذرا سوچیے اور اپنے تعلیمی اداروں اور معاشرتی پہلوؤں کا انصاف سے تجزیہ کیجیے کہ آج معاشرے اور مسلم کمیونٹی کو کن چیزوں کی ضرورت ہے اور کس طرح تعلیمی اور معیاری معاشرے کی تشکیل ممکن ہے۔ اس جدید دور اور ہندوستان جیسے تکثیری سماج میں ہمیں اپنے مذہب پر عمل کرتے ہوئے بقائے باہم کے درخشاں اصول کو تابندہ کرنا ہو گا۔ سماجی تقاضوں اور مجلسی ضرورتوں پر نظر رکھنی ہوگی۔ فکری سطحیت کو بھی وسعت دینے کی شدید ضرورت ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود آج دنیا کا ایک بڑا طبقہ خصوصاً نوجوان نسل صحیح رہنمائی اور راہ راست کی جویا ومتلاشی ہے۔ یقیناً وہ طبقہ دیگر مذاہب کی ناقص اور عصری تقاضوں سے عدم موافقت کی تعلیمات سے مایوس ہوچکا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ آج بھی دنیا کو کہیں پناہ اور ہمدردی و انسیت مل سکتی ہے تو وہ اسلام کی پر کیف آغوش میں ہی مل سکتی ہے۔ اس لیے وہ دزدیدہ اور پر امید نظروں سے اسلام کی طرف دیکھ رہا ہے کیونکہ اسلام ہی دنیا کا وہ واحد مذہب جس میں ہر زمانے کے ساتھ چلنے کی صلاحیت موجود ہے۔ جدید تقاضوں و عصری ضروریات سے ہم آہنگ ہونا اسلام کی فطرت میں شامل وداخل ہے۔ مگر ان کے دکھ اور ضرورت کا مداوا کہیں نہیں مل پا رہا ہے۔ ادھر مسلم کمیونٹی میں خود ساختہ مسلکوں اور فرقوں کی بہتات اور مسلمانوں کی سیرت وکردار نے دیگر اقوام پر منفی اثر ڈالا ہے۔ چنانچہ آج ضرورت ہے کہ ہم اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ، اسلام کی ترویج واشاعت کریں نہ کہ ا پنے اپنے مسلک وفکر کی۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب مسلم کمیونٹی کا مذہبی طبقہ عوام پر اپنی بالادستی قائم کرنے کے بجائے عوام الناس کی ذہنی و فکری تربیت واصلاح صالح خطوط پر انجام دے۔ کیونکہ آج کے معاشرے کی بنیادی اور انسانی ضروریات کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا نہایت ضروری ہے۔ اسلام کی حقیقی اور درست ترجمانی کرنے کی سخت ترین ضرورت ہے۔ جب تک
ہم اسلام کے حقیقی پیغام کی ترویج واشاعت نہیں کریں گے یاد رکھیے ہم اسی طرح عالمی منظر نامے پر بدنام ہوتے رہیں گے ۔اس کے لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم کمیونٹی میں جو خود ساختہ مسلکی تنازع ہے اس میں اعتدال وتوازن پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ شدت وزیادتی کو بھی نابود کرنا ہوگا اور باہم مل کر اسلام پر ہونے والے اتہامات والزامات کا جواب دینا ہوگا۔ اسی کے ساتھ فکری انحطاط اور ذہنی پستی کی طرف ہمارا سماج لگاتار بڑھ رہا ہے اس پر بھی فوری طور پر روک لگانی ہو گی۔ اس کے لیے مسلم سماج کے مذہبی طبقہ کو عوام کی رہنمائی کے لیے آگے آنا ہو گا۔ عوام کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کی ترغیب دینی ہو گی۔
[email protected]
***
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 29 مئی تا 05 جون 2021