ڈاکٹر سلیم خان ، ممبئی
وزیر اعظم کو چنّی کے بعد چندر شیکھر راو سے بھی مایوسی
تلنگانہ کا ’مجسمہ مساوات‘ این ڈی اے حکومت کی سماجی ناانصافیوں کے آگے سوالیہ نشان؟
اتر پردیش کا انتخابی مہابھارت اپنے شباب پر ہے۔ اس مرتبہ امید تو تھی کہ وزیر اعظم نریندر مودی لنگوٹ کس کر دنگل میں کود پڑیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ الیکشن کمیشن نے جلسہ جلوس پر پابندی لگائی تو وزیر داخلہ گلی گلی گھوم کر ہینڈ بل بانٹنے لگے۔ وہ اس قدر جوش میں تھے کہ کورونا کو بھول کر اپنے تھوک سے پرچے الگ کرنے لگے اور اندھے بھکتوں نے اپنی جان پر کھیل اسے خوشی خوشی لے کر دوسروں کو بانٹا۔ یہ اور بات ہے کہ اس کے باوجود کورونا پھیلنے کے بجائے کم ہوگیا اور الیکشن کمیشن نے محدود پیمانے پر انتخابی مہم چلانے کی اجازت دے دی۔ وزیر اعظم نے گلی محلے میں گھوم کر ہینڈ بل تقسیم کرنے کو کسرِ شان سمجھا اور اپنے گھر کے اندر آرام فرماتے رہے تو لوگ بھانت بھانت کی اٹکلیں لگانے لگے ۔ کسی نے کہا کہ انہوں نے آر ایس ایس کا مشورہ مان کر صوبائی انتخابی مہم سے اپنے آپ کو الگ کرلیا ہے ۔ کوئی بولا انہیں اپنی پارٹی کی شکست کا احساس ہوگیا ہے اس لیے وہ اس کے حصہ دار بننا نہیں چاہتے ۔ کسی کو یہ گمان ہوا کہ انہیں بنگال کی رسوائی یاد آگئی اور اسے دوبارہ جھیلنے کا خطرہ مول لینا گوارا نہیں کیا۔ جتنے منہ اتنی باتیں ہو رہی تھیں کہ اچانک مودی جی کے بجنور میں ریلی کو خطاب کرنے کی خبر آگئی اور سارا ہوائی قلعہ زمین دوز ہو گیا۔
بجنور کا مہورت غلط نکلا لوگ نہیں آئے تو مودی جی نے اپنا ارادہ ترک کیا اور ایسا عذرِ لنگ پیش کیا کہ مذاق بن کر رہ گئے۔ اس کے بعد انہوں نے خبر میں رہنے کی خاطر تلنگانہ کا دورہ کرکے وارانسی پارٹ ٹو بنانے کی کوشش کیونکہ انتخابی موسم کے اندر خبروں میں رہنا اور ٹیلی ویژن پر نظر آنا لازمی ہوتا ہے۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر کسی نہ کسی نوٹنکی کی ضرورت پیش آتی ہے مگر اس رنگ میں بھنگ ٹی آر ایس کی بیماری کے بہانے نے ڈال دیا۔ انہوں ایسا گھسا پٹا بہانا بناکر استقبال میں آنے سے کنی کاٹی کہ لوگوں کو بے ساختہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ گروچرن سنگھ چنیّ یاد آگئے۔ یار دوستوں نے ان دونوں کو جوڑ کر بات کا بتنگڑ بنایا لیکن ایک فرق یہ تھا کہ چنیّ کی کانگریس تو خیر بی جے پی کی ازلی دشمن ہے مگر تلنگانہ کی ٹی آر ایس ایسی نہیں تھی۔ اس نے ایم آئی ایم کے ساتھ الحاق کے باوجود ہر نازک موقع پر بی جے پی کا ساتھ دیا تھا۔ ایسا لگتا تھا گویا دونوں نے خفیہ طور پر نکاح کر رکھا ہے۔
ٹی آر ایس کے ناراض ہونے کی سیاسی وجہ تو یہ ہے کہ ایوان پارلیمان میں حمایت لینی والی بی جے پی نے دھیرے دھیرے اسی کی جڑ کاٹنا شروع کردی۔ حیدر آباد کے بلدیاتی انتخابات میں وہ ایم آئی ایم کا تو کچھ بھی نہیں بگاڑ سکی مگر ٹی آر ایس سے چالیس نشستیں نگل گئی اور جشن منایا۔ اس کے بعد دوباک میں ٹی آر ایس کے رکن اسمبلی کو بدعنوانی کے سبب پارٹی نے نکال باہر کیا تو وہ گنگا نہانے کی خاطر بی جے پی میں شامل ہو گئے اور اس نے انہیں اپنا امیدوار بنا دیا۔ آگے چل کر یہ ہوا کہ اس باغی نے اپنی مادر تنظیم ٹی آر ایس کو شکست فاش سے دوچار کر دیا۔ اس کے بعد کے چندر شیکھر راو کی سمجھ میں آیا کہ وہ بی جے پی کا ساتھ دے کر خود اپنی چتا جلا رہے ہیں۔ مسلمانوں کے ووٹ لے کر ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے والے ٹی آر ایس کو کوئی خطرہ اس لیے نہیں تھا کیونکہ مسلم امت کے سب سے بڑے سیاسی وکیل کو اس نے اپنا حلیف بنا رکھا تھا اس لیے جو تلوار کانگریس اور سماجوادی کے خلاف بے نیام ہوتی ہے وہ اس پر پھول برساتی تھی لیکن جب اس کے اپنے سیاسی مفادات پر آنچ آئی تو اس نے ہوش کے ناخن لیے۔
سیاسی جماعتوں کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کا ہر فیصلہ سیاسی مفادات کے پیش نظر ہو تا ہے مگر اس کا اعتراف نہیں کیا جاتا اس لیے وزیر اعظم کے دورے سے قبل ٹی آر ایس کے ریاستی وزیر بلدی نظم و نسق کے ٹی آر نے وزیراعظم نریندر مودی کی کھل کر تنقید کی۔ انہوں نے بجٹ کے حوالے سے کہا کہ ریاست کے لیے ایک بھی تعلیمی ادارہ مختص نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس کے کسی آبپاشی پراجکٹ کو قومی درجہ دیا گیا۔ اس کے علاوہ دیگر ترقیاتی کاموں کے لیے بھی فنڈز نہیں جاری کیے گئے۔ محبوب نگر میں اپنی حکومت کی کامیابیاں گنوانے کے بعد کے ٹی آر نے انکشاف کیا کہ مودی حکومت نے ملک بھر میں 157 میڈیکل کالجس منظور کیے جس میں تلنگانہ کے لیے ایک بھی میڈیکل کالج کی منظوری نہیں ہوئی۔ 8 نئے آئی آئی ایمس منظور کیے گئے مگر تلنگانہ کے حصے میں ایک بھی نہیں آیا۔ 100 نوودیالیہ اسکولوں کی فہرست میں تلنگانہ کا نام و نشان غائب تھا۔
کے ٹی آر نے صاف کہا کہ ایک طرف تعلیمی معاملات میں وزیر اعظم نریندر مودی ریاست تلنگانہ کے ساتھ نا انصافی کر رہے ہیں اور دوسری جانب حیدرآباد کا دورہ کر کے مساوات کا درس دینے والے مجسمہ کی رونمائی کر رہے ہیں۔ تعلیم کے علاوہ آبپاشی کے شعبے میں ناانصافی کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا پالمور، رنگاریڈی پراجکٹ کو قومی درجہ دینے کے بجائے کرناٹک کے اپربھدرا پراجکٹ کو قومی درجہ دے کر مودی حکومت نے تلنگانہ کے ساتھ امتیازی سلوک کیا ہے۔ جس جماعت کو وزیر اعظم سے اس قدر شکایات ہوں اس کا وزیر اعلیٰ اگر استقبال کے لیے نہ آئے تو اس میں تعجب کی کون سی بات ہے؟ اس بابت پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے جو روایت قائم کی کے سی آر نے اسے آگے بڑھا دیا۔ مودی جی کے لیے یہ تشویشناک صورتحال ہے کہ ایک زمانے میں لوگ ان کے ساتھ تصویر کھچوانے کو اپنے لیے سعادت سمجھتے تھے۔ اس کے بعد وہ وقت آیا کہ ڈر کے مارے بادلِ نخواستہ آجاتے تھے لیکن اب بلا تکلف بہانہ بناتے ہیں۔ کوئی قومی رہنما جب سیاسی مفادات کے پیش نظر اپنا پرایا کرنے لگے تو اس کا یہ ردعمل فطری ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کو اگر یہ بتا دیا گیا ہوتا کہ حیدرآباد میں دورے کے خلاف یہ کھچڑی بلکہ بریانی پک رہی ہے تو وہ احتیاط کے ساتھ جاتے اور اتنی مایوسی بھی نہیں ہوتی۔ امیت شاہ چاہتے تو تھوڑا بہت بلیک میل کرکے انہیں راضی بھی کر سکتے تھے مگر فی الحال وہ دست راست اتر پردیش میں اس قدر مصروف ہے کہ وہ اتراکھنڈ سے بھی غافل ہوچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 11 ویں صدی کے سنت شری رامانوج آچاریہ کا 216 فٹ بلند مجسمہ مساوات کی افتتاحی تقریب میں مزہ کرکرا ہو گیا۔ اس موقع پر وزیر اعظم نے کہا کہ شری رامانوج آچاریہ نے قومیت، جنس، نسل، ذات یا عقیدے سے قطع نظر انسانی مساوات کا نظریہ پیش کرکے تمام لوگوں کی ترقی کے لیے انتھک محنت کی۔ یہ تو ٹھیک ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس وقت اس کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کون سا نظریہ تھا جس نے انسانی مساوات کو پامال کر رکھا تھا۔ جنس، نسل اور ذات یا عقیدے کی بنیاد پر تفریق و امتیاز کرنے والے کون لوگ تھے؟ اس وقت تک تو مسلمان یہاں نہیں آئے تھے اس لیے ان کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
وزیر اعظم نے سب کے لیے سماجی انصاف اور ان سبھی لوگوں کو جو صدیوں سے ظلم سہہ رہے ہیں، پورے وقار کے ساتھ ملک کی ترقی میں شراکت دار بنانے کی بات کہی۔ ملک میں صدیوں سے مظلوم طبقات کون سے ہیں؟ ان پسماندہ طبقات پر کن بنیادوں پر کون ظلم کر رہا ہے؟ ان سوالات کے ساتھ وزیر اعظم کو اس کا جواب بھی دینا پڑے گا کہ کیا فی الحال ملک میں ان بنیادوں پر بھید بھاو بند ہوگیا ہے یا ان کے اقتدار نے اس میں اضافہ کیا ہے یا کمی کی ہے؟ بظاہر تو یہی نظر آتا ہے کہ پسماندہ طبقات پر مظالم میں اضافہ ہوا ہے۔ سرکاری اعدادوشمار اس کی تائید کرتے ہیں۔ آخری سوال یہ ہے کہ مجسمہ مساوات اس کو کم کرنے میں کیا کردار ادا کرے گا؟ وزیر اعظم کہیں جائیں اور اپنا پر چار نہ کریں یہ کیونکر ممکن ہے اس لیے انہوں نے شری رامانوج آچاریہ کے حوالے سے کہا کہ یہ عظیم مجسمہ ہمیں مساوات کا پیغام دے رہا ہے اور اس پر عمل کرتے ہوئے وہ ’سب کا ساتھ سب کا وکاس سب کا وشواس اور سب کا پرایاس‘ کے نعرے کی مدد سے ایک نئے مستقبل کی بنیاد رکھ ر ہے ہیں۔
ابتداء میں یہ نعرہ صرف ’سب کا ساتھ اور سب کا وکاس‘ تھا۔ یہ چورن قوم کو پانچ سالوں تک کھلائی گئی لیکن مودی حکومت نے نہ تو سب کا ساتھ دیا اور نہ لیا۔ وہ تو اڈانی اور امبانی کا ساتھ دیتی رہی انہیں کا وکاس (ترقی) ہوا باقی سب ہتاش (مایوس) ہوئے۔ اس کے باوجود سرجیکل اسٹرائیک کی مدد سے ۲۰۱۹ء میں دوبارہ انتخابی کامیابی درج کرانے کے بعد اس نعرے میں ’سب کا وشواس‘ بڑھا دیا گیا۔ آگے چل کر جب عوام کا وشواس یعنی یقین ڈگمگانے لگا اور اس کا اظہار یکے بعد دیگرے صوبائی انتخابات کی شکست کے طور پر ہوتا چلا گیا تو بڑی چالاکی سے ’سب کا پریاس‘ (سب کی کوشش) کو اس میں جوڑ دیا گیا یعنی اب اگر وکاس (ترقی) نہ ہو تو اس کے لیے عوام کو موردِ الزام ٹھہرا کر کہہ دیا جائے کہ لوگوں نے ٹھیک ڈھنگ سے کوشش ہی نہیں کی اس لیے یہ ہدف حاصل نہیں ہوسکا۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت اگر سرمایہ داروں سے سانٹھ گانٹھ کرکے عوامی کوششوں پر پانی پھیرنے لگے تو وہ بیچارے کیا کرسکتے ہیں؟
وزیر اعظم نے اس موقع پر زور دے کر کہا کہ ملک آج بلا تفریق سب کی ترقی کے لیے اجتماعی طور پر کام کر رہا ہے۔ یہ دعویٰ اگر مبنی برحقیقت ہوتا تو کے ٹی آر کو شکایت کیوں ہوتی اور وزیر اعلیٰ کو بیماری کا بہانہ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آتی؟ وزیر اعظم نے غالباً پہلی بار خلاف توقع ملک کی جدوجہدِ آزادی کا ذکر کیا۔ اس بابت انہوں نے بتایا کہ وہ صرف اپنے اقتدار اور اپنے حقوق کی لڑائی نہیں تھی۔ اس لڑائی میں ایک طرف ’نو آبادیاتی ذہنیت‘ تھی اور دوسری طرف ’جیو اور جینے دو‘ کا نظریہ تھا۔ یہ بات درست ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ ہندو مہاسبھا اور آر ایس ایس کس کے ساتھ تھے؟ نو آبادیاتی ذہنیت کے خلاف گاندھی جی نے جیو اور جینے دو کا نظریہ پیش کیا تھا لیکن ان کو قتل کرنے والے گوڈسے کے مریدین ان کی پارٹی میں کیا کر رہے ہیں؟ ان کو مودی حکومت کی پشت پناہی کیوں حاصل ہے؟ مودی یگ میں ’جیو اور جینے دو‘ کے تحت دھرم سنسد کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں کھلے عام مسلمانوں کی نسل کشی کا اعلان کیا جاتا ہے اور ’جیو اور جینے دو‘ کا نظریہ پیش کرنے والے گاندھی جی کے قتل کو جائز ٹھہرایا جاتا ہے لیکن حکومت خاموش تماشائی بنی رہتی ہے؟
وزیر اعظم انگریزوں کی نسلی برتری اور مادیت کے جذباتی ہیجان پر تو تنقید کرتے ہیں مگر ان کا اپنا پریوار آئے دن نسلی برتری کی بنیاد پر ظلم وبربریت کا بازار گرم کیے ہوئے ہے اور مسلمان ودیگر پسماندہ طبقات اس کا شکار ہوتے ہیں۔ وزیر اعظم نے اس کے خلاف جس انسانیت اور روحانیت کی تعریف کی ہے آخر وہ ہے کہاں؟ ملک کی جدوجہد آزادی میں مساوات، انسانیت اور روحانیت کی تعریف و توصیف کرنے والے وزیر اعظم کو بتانا پڑے گا کہ فی زمانہ وہ اقدار کیوں کر مفقود ہوگئی ہیں۔ تلگو ثقافت کے تنوع کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بادشاہوں کی طویل روایات کو بھی یاد کیا اور اسے مشعل راہ ٹھہرایا مگر یہ سبق تو انہیں اپنے دست راست امیت شاہ اور بسوا سرما کو دینا چاہیے کہ جو ’نظام‘ کا نام لے کر مسلمانوں کے خلاف انسانیت کے بجائے شیطانی خیالات پھیلاتے ہیں۔ پی ایم مودی اگر ملک میں حقیقی اتحاد ومساوات پیدا کرنا چاہتے ہیں تو یہ کام محض سردار پٹیل کے ’مجسمہ اتحاد‘ یا رامانوج آچاریہ کا ’مجسمہ مساوات‘ کھڑا کر دینے سے نہیں ہو گا۔
انتخابی موسم میں وزیر اعظم کی حالت ’جل بن مچھلی‘ جیسی ہو جاتی ہے۔ ان کو کسی کروٹ چین نہیں آتا اور وہ کچھ نہ کچھ کرتے رہنا چاہتے ہیں۔ حیدرآباد سے واپس جانے کے بعد انہوں نے گودی نیوز ایجنسی اے این آئی کو ایک انٹرویو دے کر پانچ صوبوں کے انتخاب سے لے کر کسانوں کا احتجاج اور تین زرعی قوانین کی واپسی سمیت مختلف سوالات کا جواب دیا۔ انہوں نے جب کہا کہ میں نے تمام ریاستوں میں بی جے پی کی طرف جھکاؤ دیکھا ہے اور ہم مکمل اکثریت سے الیکشن جیتیں گے تو بے ساختہ ان کا جملہ ’’۲؍ مئی دیدی گئی‘‘ یاد آگیا۔ اتر پردیش کے بارے میں اس خوش فہمی کا اظہار کیا کہ 2014، 2017 اور 2019 میں بھی بی جے پی کو کامیابی ملی اس لیے 2022 میں وہ دوبارہ ہمارا کام دیکھ کر ہمیں دوبارہ قبول کریں گے۔ اگر یہی بات تھی تو وہ بجنور کیوں نہیں گئے؟ اور یوگی کا کام بتانے کے بجائے اسیّ اور بیس کا کھیل کیوں کھیل رہے ہیں؟
وزیر اعظم نے کہا کہ جب کوئی پارٹی نسلوں تک خاندان کے ذریعے چلائی جاتی ہے تو وہاں صرف خاندانی نظام ہوتا ہے۔ جموں وکشمیر سے لے کر ہریانہ، جھارکھنڈ، اتر پردیش اور تمل ناڈو میں اسی طرح کا رجحان دیکھا جا سکتا ہے۔ مودی کے مطابق یہ خاندانی سیاست جمہوریت کی سب سے بڑی دشمن ہے۔ یہ بات اگر درست ہے تو ان کی پارٹی نے کشمیر میں محبوبہ مفتی، مہاراشٹر میں شیوسینا، پنجاب میں اکالی دل اور ہریانہ میں جے جے پی کے ساتھ الحاق کیوں کیا؟ ویسے ان کی قیادت میں بی جے پی ’’ہم دو ہمارے دو کی‘‘ خاندانی منصوبہ بندی کا شکار ہو گئی ہے۔ وزیر اعظم نے اتر پردیش میں سیکیورٹی کے بارے میں کہا کہ پچھلی حکومتیں، مافیا راج اور غنڈہ راج تھیں۔ ان کے بیان کی لاج رکھنے کے لیے بی جے پی امیدوار سنگیت سوم نے انتخابی افسر کو پولنگ کے دوران چانٹا مارا اور میرٹھ میں سماجوادی پارٹی کے امیدوار نے بی جے پی والوں کو دوڑا دوڑا کر مارا۔ پنچایت انتخاب کے دوران نہ صرف امیدواروں کو اغوا کیا گیا بلکہ سماجوادی خاتون امیدوار کے کپڑے پھاڑ دیے گئے۔ اس پر بھی وہ کہتے ہیں کہ پہلے خواتین باہر نہیں نکل سکتی تھیں اب نکلتی ہیں۔ مودی سرکار کے اعدادو شمار گواہ ہیں کہ پچھلے تین سالوں سے خواتین پر جرائم کے معاملے میں یو پی مسلسل پہلے نمبر پر ہے اس لیے وہ کس کو بیوقوف بنا رہے ہیں؟
یوگی سرکار کے اندر وزیر سواتی سنگھ کی ایک ویڈیو فی الحال ذرائع ابلاغ میں گردش کررہی ہے جس میں وہ اعتراف کرتی ہیں کہ انہیں گھریلو تشدد کا شکار ہونا پڑا ہے۔ وہ اپنے شوہر دیا شنکر سنگھ سمیت بی ایس پی سے نکل کر بی جے پی میں آئی تھیں اور کمل کے نشان پر انتخاب جیت کر وزیر بنائی گئیں۔ سواتی سنگھ نے 2008 میں بھی اپنے شوہر کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی تھی۔ ان کا مسئلہ بی جے پی میں آکر وزیر بننے کے بعد بھی حل نہیں ہوا۔ خود سواتی سنگھ پر اپنی بھابی کو گھر سے نکال کر بھائی کی قبل از طلاق دوسری شادی کرانے کا الزام ہے۔ ملک میں خواتین کے تحفظ کا اندازہ بی جے پی کی معروف رہنما بیبی رانی موریہ کے ایک بیان سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے جس میں انہوں نے خواتین کو مشورہ دیا کہ پانچ بجے کے بعد وہ پولیس تھانے میں نہ جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مصیبت گھڑی کے کانٹے دیکھ کر نہیں آتی۔ اتر پردیش کے لیے اس سے زیادہ شرم کی بات اور کیا ہو سکتی ہے؟
اس بیچ حجاب کا مسئلہ سامنے آیا اور مسکان والے معاملے پر مودی کی خاموشی خوب تنقید کا نشانہ بنی تو سہارنپورکی پہلی انتخابی ریلی میں انہوں نے کہا کہ میری حکومت ہر مظلوم مسلم خاتون کے ساتھ کھڑی ہے۔ ان کی حکومت نے تین طلاق کا قانون بنا کر مسلم خواتین کو ظلم سے نجات دلائی ہے اس سے ان میں اپنے تحفظ کا احساس جاگا ہے اور خود اعتمادی بڑھی ہے۔ اس کے بعد مسلم خواتین بھی مودی مودی کر رہی ہیں اور ان کی تعریف میں ویڈیوز پوسٹ کر رہی ہیں اور بی جے کی حمایت میں کھل کر بول رہی ہیں۔ اس سے ووٹوں کے سوداگروں کی نیند حرام ہو گئی ہے کہ ان کی بیٹیاں بھی مودی مودی کر رہی ہیں۔ اس احمقانہ گفتگو کو سن کر پہلا سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ مذکورہ خواتین کس سیارے میں رہتی اور بستی ہیں ؟ جب سے پرینکا گاندھی نے ’’لڑکی ہوں میں لڑ سکتی ہوں‘‘ کا نعرہ لگایا ہے مسلمان تو مسلمان ہندو خواتین نے بھی مودی مودی کہنا چھوڑ دیا ہے۔ مودی کہتے ہیں کہ مسلم بہن بیٹیوں کے حقوق سلب کرنے اور ان کی ترقی روکنے کے لیے ان کو ورغلایا جا رہا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ان بھیڑیوں کو سنگھ پریوار نے ورغلایا ہے جو حجاب کی مخالفت کر رہے ہیں۔ مسلم خواتین نہ تو وزیر اعظم کے ساتھ ہیں اور نہ ان کی محتاج ہیں۔ وہ اس یوگی حکومت کو خوب جانتی ہیں جس نے این آرسی احتجاج کو لکھنو اور اعظم گڑھ میں انتہائی سفاکی کے ساتھ کچل دیا تھا۔ اس وقت جو نعرہ بلند کیا گیا تھا کہ ’یاد رکھا جائے گا‘ اس پر عملدر آمد کا وقت آگیا ہے۔ یہ نعرہ اسی دن کے لیے تھا جس میں مودی کو تارے نظر آ رہے ہیں۔
***
***
وزیراعظم جب کہا کہ میں نے تمام ریاستوں میں بی جے پی کی طرف جھکاؤ دیکھا ہے اور ہم مکمل اکثریت سے الیکشن جیتیں گے تو بے ساختہ ان کا جملہ ’’۲؍ مئی دیدی گئی‘‘ یاد آگیا۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 20 فروری تا 26فروری 2022