وزیر اعظم مودی کے نام کھلا خط
اے ایم یو کو مِنی پاکستان کے بجائے مِنی انڈیا تسلیم کرنے کے لیے شکریہ (علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی سابق طالبہ نشٹھا گوتم کا مکتوب)
ترجمہ: عبدالقوی عادل
محترم وزیر اعظم! آج آپ نے ہمیں ’پارٹنر‘ کہہ کر مخاطب کیا جسے سن کر بطور پراؤڈ ’’علیگ‘‘ مجھے بہت خوشی ہوئی۔ ’اینٹی نیشنل‘، ’جہادی‘ ، ‘جناح کی اولاد’ اور اس طرح کے القاب سے یہ ایک خوش آئند تبدیلی ہے جو اے ایم یو کے طلبہ و فارغین کا تعارف بن چکے ہیں۔
محترم وزیر اعظم! آپ کا یہ دعویٰ یقیناً اطمینان بخش ہے کہ اے ایم یو فقط عمارتوں کا مجموعہ نہیں بلکہ ہندوستان کی تاریخ کا اٹوٹ حصہ ہے۔ تاریخ کے بارے میں ہم صرف یہ جانتے ہیں کہ وہ اپنے بارے میں اچھے، برے اور بدصورت پہلوؤں کا فیصلہ نہیں کرتی بلکہ لوگ کرتے ہیں۔ اور تاریخ سے ناواقف افراد اپنے ایجنڈوں کے مطابق تاریخ کو گھڑنے میں ماہر ہیں۔ اے ایم یو نے یہ سب دیکھا اور برداشت کیا ہے۔
آپ نے اپنی تقریر کا آغاز COVID-19 کے دوران اے ایم یو کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے کیا اور کچھ ہی پل کے بعد آپ کہتے ہیں کہ یونیورسٹی اپنے اسلامی تحقیقی منصوبوں کی وجہ سے ہندوستان کی خارجہ پالیسی کو مضبوط بنانے میں بنیادی حیثیت کی حامل ہے۔ لیکن میں تبلیغی جماعت کے ان غیر ملکی ممبروں کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہوں جنہیں جان بوجھ کر وائرس پھیلانے کے الزام میں حراست میں لیا گیا تھا۔ کیا ہم کبھی ایسے واقعات کو بھول سکتے ہیں کہ جب محض کھانے کے مطالبے پر مسلمان، ملکی اور غیر ملکی دونوں پر یکساں طور سے الزام تراشی کی گئی؟ بہت سے لوگ اس الزام تراشی میں ملوث تھے لیکن وہی لوگ اس وقت خاموش ہو گئے جب سپریم کورٹ نے ابھی حال میں 36 غیر ملکی تبلیغیوں کو بری کردیا۔ اس سے ہمیں بین الاقوامی سطح پر بھی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا جس کے بارے میں آپ بخوبی واقف ہیں۔ آپ کو اے ایم یو کے 1000 غیر ملکی طلبہ پر فخر ہے اور آپ چاہتے ہیں کہ وہ ہندوستان اور اس کے لوگوں کے بارے میں مثبت پیغام لے کر جائیں۔ لیکن میں پچھلے سال سی اے اے کے خلاف احتجاج کے دوران مظاہرہ کرنے والے طلبہ کے خلاف لاٹھی چارج اور پولیس کی بلا امتیاز کارروائی کے سلسلے میں فکر مند ہوں۔ آپ کی ’میٹھی میٹھی باتوں‘ سے بھی عینی شاہدین کے دل و دماغ سے سخت ریاستی اقدامات کو محو کرنا مشکل ہے۔
مجھے خوشی ہے کہ آپ ہندی اور سنسکرت کے ساتھ ساتھ اردو اور عربی کی تعلیم کی اہمیت پر بھی زور دیتے ہیں۔ امید ہے کہ آپ کی یہ بات ہندوستان کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ان مدرسوں کو بدنام کرنے کے خاتمے پر اثر انداز ہوگی جو ہمارے ملک کے غریب اور پسماندہ طلبہ کے لیے واحد قابل رسائی تعلیمی ادارے ہیں۔ شاید اب آپ کے مصاحب شہروں کے نام بدلنے کی جدوجہد سے گریز کریں گے۔ یقیناً حیدرآباد کا نام بدل کر بھاگیہ نگر کرنے سے کوئی بہتری نہیں آئے گی۔
آپ چاہتے ہیں کہ تکثیریت جس کا اے ایم یو گواہ رہا ہے کبھی بھی کمزور نہ پڑے۔ ایسی امید کرنا ایک عمدہ خیال ہے۔ لیکن یہ امید اس وقت ٹوٹ جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ محض رہن سہن، لباس اور عبادت کے طریقوں میں فرق کی بنیاد پر اقلیتوں کی غیرذمہ دارانہ گرفت ہوتی ہے۔
محترم وزیر اعظم! آپ ہندوستانی حکومت کے ارادوں یا پالیسی میں کسی بھی طرح کے امتیازی سلوک کو ختم کرنے کے لیے اپنے نعرے ’’سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس‘‘ کا اعادہ کرتے رہتے ہیں۔ آپ نے بجا طور پر شمار کرایا کہ آپ کی حکومت نے بغیر کسی تفریق کے 40 کروڑ سے زائد شہریوں کے لیے نئے بینک اکاؤنٹس کھولے، دو کروڑ سے زائد شہریوں کو مکان دیے، آٹھ کروڑ خواتین کو گیس کے کنیکشن دیے، وبائی امراض کے دوران 80 کروڑ لوگوں کو مفت غذائی اجناس کی سہولت فراہم کی۔ تو پھر کیوں بہت سارے ہندوستانی اپنی زندگی (سی اے اے کے مظاہرے) اور معاش (کسان کے احتجاج) کے لیے فکر مند ہیں؟
مودی جی! ایک تعلیم یافتہ، کاروباری اور بااختیار عورت کی حیثیت سے مجھے یہ سن کر خوشی ہوئی کہ آپ نے خاندان اور قوم کی سربراہی میں مجھ جیسی خواتین کی شراکت کا اعتراف کیا۔ لیکن جب کسی عورت کو یہ فیصلہ کرنے کی آزادی نہیں ہے کہ وہ کس سے محبت کر سکتی ہے اور کس سے شادی کر سکتی ہے تو بھلا وہ کیسے ملک چلا سکتی ہے؟ ’لو جہاد‘ کا پروپیگنڈہ خواتین کی خود مختاری سلب کرلیتا ہے۔ کیا خواتین کو اپنے شوہروں کے جیل میں ڈالے جانے اور اسقاط حمل کے خوف میں جینا ہوگا؟ اس طرح کے واقعات معمول کا حصہ بن کر میرے آبائی وطن جالیسر، یو پی تک پہنچ گئے ہیں جہاں ایک مسلم گھرانے کے چھ افراد کو جیل بھیج دیا گیا کیونکہ ایک باشعور عورت ایک باشعور مرد کے ساتھ فرار ہوگئی تھی۔
مودی جی! آپ چاہتے ہیں کہ اے ایم یو میں ہاسٹل کے طلبہ غیر معروف مجاہدین آزادی پر تحقیق کریں۔ یہ ایک عمدہ خیال ہے لیکن اس مشورے پر اس یونیورسٹی کے طلبہ کس طرح عمل درآمد کر سکتے ہیں جس کی تاریخ پر ان کو عار دلائی جاتی ہے، یہاں تک کہ ان پر حملے کرائے جاتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ 2018 میں محمد علی جناح کے پورٹریٹ کو لے کر ہونے والے ہنگامے سے واقف ہوں گے۔ آپ نے اس پر بھی اظہار خیال کیا کہ مولانا ابو الکلام آزاد لائبریری میں موجود قدیم مخطوطات ڈیجٹلائز ہونے کے مستحق ہیں اور انہیں ساری دنیا کے لیے قابل رسائی بنایا جانا چاہیے۔ لیکن اس وقت کیا ہوگا اگر ان کے مواد کو قابل اعتراض سمجھا جائے اور اس سے کسی گروہ کے جذبات مجروح ہوں۔ یا اگر کوئی کسی ایسی چیز پر تحقیق کرے جو فتنہ انگیز تصور کی جاتی ہے۔ بہر حال متعدّد طلبہ، محققین اور سماجی کارکنان ’فتنہ انگیز‘ ادب رکھنے کی وجہ سے گرفتار کر لیے گئے ہیں۔
مثال کے طور پر، شرجیل امام ’’ایک علیگ‘‘ کے خلاف دہلی پولیس ملک مخالف اور غیر قانونی سرگرمیوں کی چارج شیٹ میں Paul brass کی کتاب Forms of collective violence ،riots and Genocide in modern India کے پائے جانے کا ذِکر کرتی ہے اور کہتی ہے کہ ’’صرف ایسے ہی ادب کو پڑھ کر اور متبادل ذرائع کا استعمال نہ کرنے کی وجہ سے ملزم انتہائی شدت پسند اور مذہبی تعصّب کا شکار ہو گیا ہے‘‘۔
وزیرِ اعظم صاحب! آپ نے بالکل درست فرمایا کہ سیاست انتظار کر سکتی ہے، سماج انتظار کرسکتا ہے لیکن ترقی انتظار نہیں کر سکتی۔ کمزور اور پسماندہ افراد انتظار نہیں کر سکتے۔ پھر کیوں ہم انتخابی فوائد حاصل کرنے کے لیے اپنے ملک کی دستوری اور آئینی اقدار کو قربان کریں؟
مجھے خوشی ہے کہ آپ ہندی اور سنسکرت کے ساتھ ساتھ اردو اور عربی کی تعلیم کی اہمیت پر بھی زور دیتے ہیں۔ امید ہے کہ آپ کی یہ بات ہندوستان کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ان مدرسوں کو بدنام کرنے کے خاتمے پر اثر انداز ہوگی جو ہمارے ملک کے غریب اور پسماندہ طلبہ کے لیے واحد قابل رسائی تعلیمی ادارے ہیں
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 3 جنوری تا 9 جنوری 2021