ورنگل: انوکھی لائبریری کا قیام

کتاب پڑھیں مگر ’چائے اور کافی‘ کے ساتھ

سید احمد سالک ندوی بھٹکلی

نوجوان نسل کو کتابوں سے قریب کرنے اظہر الدین کا مثالی قدم
جہاں کہیں دو چار کتابوں کے شوقین جمع ہوتے ہیں نئی نسل کی کتابوں سے دوری کے رجحان پر فکر مندی اور تشویش کا اظہار کرنے لگتے ہیں اور ان کے چہروں سے مایوسی ٹپکنے لگتی ہے۔ کتابوں کا ذکر چھڑتے ہی یار رہنے دو ’یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی‘ جیسے اشعار ان کی زبانوں سے بے ساختہ نکل پڑتے ہیں۔ لیکن ایسا بہت ہی کم ہوتا ہے کہ ہم مسائل بیان کرتے ہوئے ان کے حل کے بارے میں بھی سوچتے ہوں۔ اگر ہم صرف مسائل کا رونا روتے رہیں اور کتابوں سے لوگوں کی بے نیازی کے قصے سنا سنا کر مایوسی میں اضافہ کرتے رہیں تو یہ دیانت داری کے خلاف بات ہو گی۔ ہماری کتاب دوستی کا تقاضا ہے کہ ہم کوشش کریں کہ لوگوں کو پڑھنے لکھنے سے قریب کیا جائے اور اس کے لیے نئے نئے طریقے اپنائے جائیں۔ واقعہ یہ ہے کہ لوگ اپنے پیٹ کی فکر زیادہ کرتے ہیں لیکن اپنی روحانی غذا یعنی مطالعہ کی فکر بالکل نہیں کرتے۔ آج ہم آپ کو کتابوں کی طرف لوگوں کو راغب کرنے کے ایک انوکھے انداز سے روشناس کروائیں گے۔ ریاست تلنگانہ کے ضلع ورنگل کے چنتل میں ایک نوجوان محمد اظہرالدین نے کتابوں سے دوری اور ڈیجیٹل پلیٹ فارموں پر اپنی جان چھڑکنے والی نئی نسل کے لیے ایک انوکھا قدم اٹھایا ہے۔ ان کا یہ اقدام ان نوجوانوں کے لیے زیادہ مفید ہے جو چائے خانوں میں گپیں ہانکتے ہوئے وقت ضائع کرتے ہیں۔ محمد اظہرالدین نے اپنے قلیل صرفہ کے ساتھ اپنے ہی گھر میں ایک ایسا کتب خانہ تیار کیا ہے جہاں آپ کو کتاب کے مطالعہ میں یکسوئی کے لیے چائے اور کافی فراہم کی جاتی ہے۔ در اصل قوموں کی ترقی و عروج کی ساری کہانیوں کی بنیاد علم و تحقیق ہوتی ہے۔ اگر ہماری نسل، جسے کتابوں سے استفادے کی ضرورت دوسری تمام اقوام سے کہیں زیادہ ہے تو پھر کتابوں سے اس کی بے نیازی اسے مستقبل میں بہت رلائے گی۔ اگر چائے یا کافی کے نام پر انہیں لائبریری کے ماحول سے آشنا کیا جائے تو کیا بعید کہ ’پہلے عادت پھر عبادت‘ کے مصداق ان کا بھی دل مطالعہ میں لگ جائے اور وہ بھی آہستہ آہستہ کتب بینی کی عادت ڈال لیں۔ عموما یہ کہا جاتا ہے کہ آج لوگ کتابیں نہیں پڑھتے لیکن اظہر الدین کا کہنا ہے کہ اگر یہ دعوی درست ہوتا تو جو بڑے بڑے اشاعتی ادارے ہیں وہ بند ہو چکے ہوتے، لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ لوگ اب دوسرے پلیٹ فارموں سے استفادہ کر رہے ہیں۔ اظہر الدین کو اس بات کا پورا یقین ہے کہ وہ نوجوانوں کو جو مطالعہ کا ماحول فراہم کر رہے ہیں اس کے بہترین نتائج برآمد ہوں گے۔ ان کی کوشش ہے کہ جو لوگ چائے خانوں میں وقت ضائع کرتے ہیں ان کے لیے وہیں کچھ نظم کیا جائے تاکہ چائے کے ساتھ ’وائے‘ کا بھی انتظام ہو جائے۔ ہفت روزہ دعوت سے بات چیت میں انہوں نے بتایا کہ میری کوشش ہے کہ لوگوں کے خیالات میں تبدیلی آئے اور اگر یہ کام ہو جائے تو پھر ان میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہو گی اور جب یہ ہو گا تو پھر معاشرے میں صالح تبدیلیوں کے لیے بھی وہ اپنا تعاون پیش کریں گے۔
ہفت روزہ نے جب ان سے کورونا سے پیدا ہونے والے حالات کے درمیان لائبریری کے قیام کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ کورونا کے دوران پڑھنے کا رجحان بڑھا ہے۔ کورونا کا چکر پچھلے دو برسوں سے چل رہا ہے لیکن اس سے دنیا رکی نہیں ہے بلکہ ہر کام ہو رہا ہے، تو اس بیچ یہ بھی ایک کوشش کی گئی ہے۔ ابھی اس کے افتتاح کو تھوڑا ہی عرصہ ہوا ہے، چونکہ اسکولوں اور کالجس میں تعطیلات ہیں اس لیے طلبا کم آ رہے ہیں۔ تلنگانہ میں حیدرآباد کے بعد ورنگل تعلیم کا سب سے بڑا مرکز ہے جہاں میڈیکل اور انجینئرنگ کے طلبا دوسرے اضلاع سے بھی آتے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ طلبا اس میں ضرور دلچسپی لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی لائبریری میں آنے والوں کی اوسط عمر اٹھارہ سے تیس سال کے درمیان ہوتی ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کی لائبریری میں کونسی زبان کی کتابیں ہیں تو انہوں نے کہا کہ ابھی فی الوقت ان کی لائبریری میں اردو، ہندی، انگریزی اور تلگو زبانوں میں کتابیں ہیں اور بعد میں وہ اس کے کلکشن میں مزید اضافہ کریں گے۔
اظہر الدین اپنی لائبریری میں ورک فرام ہوم والوں کو بھی بیٹھنے کا موقع دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ لوگ اس طرح بھی قریب ہوں گے۔
لائبریریوں کے لیے سرکاری اسکیمیں بھی ہوتی ہیں لیکن جب ان سے اس سلسلے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ مقامی میونسپل سے رابطہ قائم کیا گیا ہے لیکن سرکاری اسکیمیں کیا ہیں اس بارے میں معلومات حاصل کر کے کام کو مزید آگے بڑھایا جائے گا۔
اظہر الدین کے اس اقدام سے متاثر ہو کر لوگ دوسری جگہوں پر بھی اس کام کو کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کے ’کافی اینڈ بک‘ کے تصور سے لوگ متاثر ہو کر دوسری جگہوں پر بھی اس پر کام کرنے کا ارادہ ظاہر کر رہے ہیں۔ دہلی، ممبئی اور چنئی میں بھی لوگ اس طریقہ کو اختیار کر کے لائبریری کے قیام کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔
اظہر الدین اپنی لائبریری سے لوگوں کو قریب کرنے کے لیے اور بھی آئیڈیاز پر کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ مستقبل میں وہ آرٹ اینڈ کلچر اور ادبی نشستیں وغیرہ بھی منعقد کر کے لوگوں کو لائبریری سے منسلک کرنے اور ریڈنگ کلچر کو عام کرنے کی کوشش کریں گے۔
عام طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ مرد حضرات کتابوں سے کچھ نہ کچھ واسطہ رکھتے ہیں لیکن گھریلو خواتین میں یہ رجحان انتہائی کم ہے۔ ’کافی اینڈ بک‘ کے ذریعہ وہ خواتین کے لیے بھی مطالعہ کا انتظام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر والدین بچوں کے سامنے موبائل فون پر وقت گزاری کریں گے تو بچے کتابوں سے کبھی قریب نہیں ہو سکتے، اس لیے ضروری ہے کہ والدین خود اپنا زیادہ وقت کتابوں کے ساتھ گزاریں۔ اس لائبریری کے قیام کا مقصد صرف اور صرف پڑھنے کے رجحان کو فروغ دینا ہے اور اس کلچر کو عام کرنا ہے۔ جب کتابوں سے تعلق پیدا ہو گا تب پڑھنے اور سمجھنے کی صلاحیت بھی پیدا ہو گی تبھی لٹریچر کے ذریعہ ہم سماج میں بڑی تبدیلی لا سکیں گے، اور یہ سب اسی وقت ممکن ہے کہ جب لوگ کتابوں سے اپنا تعلق مضبوط کریں۔ ’بک اینڈ کافی‘ اسی راہ کی طرف ایک قدم ہے۔ لوگوں کو یہ نیا رجحان پسند بھی آ رہا ہے۔ اگر لوگوں کا تعاون ملا تو وہ اس کام کو اور بہتر انداز میں کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ سماج میں پڑھنے پڑھانے کا ماحول بنے اور کتابوں کی طرف لوگوں کا رجحان بڑھے۔
***

 

***

 والدین بچوں کے سامنے موبائل فون پر وقت گزاری کریں گے تو بچے کتابوں سے کبھی قریب نہیں ہو سکتے، اس لیے ضروری ہے کہ والدین خود اپنا زیادہ وقت کتابوں کے ساتھ گزاریں۔ اس لائبریری کے قیام کا مقصد صرف اور صرف پڑھنے کے رجحان کو فروغ دینا ہے اور اس کلچر کو عام کرنا ہے۔ جب کتابوں سے تعلق پیدا ہو گا تب پڑھنے اور سمجھنے کی صلاحیت بھی پیدا ہو گی تبھی لٹریچر کے ذریعہ ہم سماج میں بڑی تبدیلی لا سکیں گے، اور یہ سب اسی وقت ممکن ہے کہ جب لوگ کتابوں سے اپنا تعلق مضبوط کریں۔ ’بک اینڈ کافی‘ اسی راہ کی طرف ایک قدم ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  13 فروری تا 19فروری 2022