نفرت کے ماحول میں دعوت کی اہمیت
محمد اقبال ملا
ساری دنیا میں اورخاص طور پر ہمارے ملک میں اسلام اورمسلمانوں سے نفرت اور ان پر ظلم وتشدد کا ماحول بڑھتا جارہا ہے۔ اسلاموفوبیا کی مہم کے نتیجے میں غلط پروپیگنڈے نے نہایت سنگین اور کشیدگی کا ماحول پیدا کردیا ہے۔ مخالفانہ ماحول میں دعوت کی اہمیت اورضرورت عام حالات سے کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ یہ حالات مسلمانوں کے لیے نئے نہیں ہیں۔ تاریخ میں وہ اس طرح کے حالات سےمتعدد بار گزرچکے ہیں۔ انبیاؑ کی تاریخ بھی اس پرگواہ ہے۔
قرآن کی رہ نمائی
مکہ میں جب دعوت عام کے مرحلہ کا آغاز ہوا تو الزامات، غلط پروپیگنڈے اور اعتراضات کا زور تھا لیکن چند ہی برسوں کے بعد شدید ظلم وستم اور اذیتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ایسے حالات میں قرآن نے دعوت کے تعلق سے بہترین رہ نمائی فرمائی، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّن دَعَا إِلَى اللَّـهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ ﴿٣٣﴾ وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ ﴿٣٤﴾ وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ ﴿٣٥﴾ وَإِمَّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّـهِ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ﴿٣٦﴾ (حٰمٓ السجدہ:۳۳-۳۶)
“اور اس شخص سے زیادہ اچھی بات کس کی ہوسکتی ہے جس نے لوگوں کو اللہ کی طرف بلایا اورنیک عمل کیا اور کہا کہ: بے شک میں تو فرماں برداروں میں سے ہوں۔ اور نیکی اور برائی برابر نہیں ہوسکتیں۔ آپ برائی کو ایسی بات سے ٹالیے جو احسن ہو تو کیا ہوگا کہ وہ شخص کہ آپ کے اور اس کے درمیان دشمنی ہے (ایسا ہوجائے گا) جیسے جگری دوست ہو۔ اور یہ (خصلت) انہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو صبر کرتے ہیں اور یہ اسی کو نصیب ہوتی ہے جو بڑے نصیب والا ہو۔ اور اگر آپ کو شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ ابھارے تواللہ کی پناہ مانگیے۔ حقیقتاً وہ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے۔‘‘
مولانا شبیر عثمانیؒ اس آیت کی تفسیرمیں لکھتے ہیں:
“پہلے اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْارَبُّنَا اللہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا الخ میں مخصوص مقبول بندوں کا ذکر تھا، جنہوں نے صرف ایک اللہ کی ربوبیت پراعتقاد جماکر اپنی استقامت کا ثبوت دیا۔ یہاں ان کے ایک اور اعلیٰ مقام کا ذکر کرتے ہیں، یعنی بہترین شخص وہ ہے جو خود اللہ کا ہورہے، اسی کی حکم برداری کا اعلان کرے، اسی کی پسندیدہ روش پر چلے اور دنیا کو اسی کی طرف آنے کی دعوت دے۔ اس کا قول و فعل بندوں کو خدا کی طرف کھینچنے میں موثر ہو۔ جس نیکی کی طرف لوگوں کو بلائے بذات خود اس پر عامل ہو۔ خدا کی نسبت اپنی بندگی اور فرماں برداری کا اعلان کرنے سے کسی موقع پر اور کسی وقت نہ جھجکے، اس کا طرز قومیت صرف مذہب اسلام ہو اور ہر قسم کی تنگ نظری اور فرقہ وارانہ نیتوں سے یکسو ہوکر اپنے مسلم خالص ہونے کی منادی کرے اور اسی اعلیٰ مقام کی طرف لوگوں کو بلائے جس کی دعوت دینے کے لیے سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے تھے اور صحابہ کرامؓ نے اپنی عمریں صرف کی تھیں۔” (تفسیر عثمانی، صفحہ۶۳۸)
دعوت: خدائی نسخہ
ان آیات میں حالات حاضرہ کے لحاظ سے مسلمانوں کے لیے بہت اہم رہ نمائی موجود ہے۔ یہ رہ نمائی اس عظیم ہستی کی طرف سے کی گئی ہے جو خالقِ انسان اورخالق کائنات ہے۔ جو انسان کی فطرت، اس کی کم زوریوں اور خوبیوں کو جیسا جانتا ہے کوئی دوسراجان ہی نہیں سکتا۔ انسان کی دوسرے انسانوں سے بلاوجہ دشمنی، نفرت اور اس کی بنا پر ظلم و ستم دور کرنے کا نسخہ ان آیات میں بتایا گیا ہے۔ یہ وہ خدائی نسخہ ہے جو کبھی ناکام نہیں ہوسکتا، الّا یہ کہ کوئی استثنائی صورت حال واقع ہو۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ان حالات میں مثبت تبدیلی کے لیے مسلمانوں کے اندر مثبت تبدیلی پیدا ہونی ضروری ہے۔ مسلمان قوم ہیں نہ کہ (اقلیت کے مروجہ مفہوم میں) محض اقلیت ہیں نہ محض کوئی فرقہ ( خواہ لسانی ہو یا لونی یا علاقائی)، بلکہ وہ خود کو داعیانِ حق سمجھیں اوراس خدائی نسخے کی مدد سے حالات کو بدلنے کے لیے کمر کس لیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ مسلمانوں کی تمام جماعتیں، تنظیمیں، ادارے، مسالک، ٹرسٹ، سیاسی پارٹیاں، اپنے اپنے دائروں میں اپنے کاموں کو کرتے ہوئے دعوت دین کو بھی اپنے ایجنڈے میں شامل کریں اور دعوتِ دین کا کام کریں۔ ان کے اندر مدعوین کے تعلق سے نفرت کے جواب میں نفرت، ظلم و ستم کے جواب میں ظلم و ستم، دشمنی کے بدلے دشمنی، قوم پرستی کے مقابلے میں جوابی قوم پرستی، شدت پسندی کے جواب میں مسلم شدت پسندی ہرگز نہ پیدا ہو۔ شیطان کی مسلسل کوشش ہوگی کہ فی الواقع ایسا ہوکر رہے، لیکن مسلمان اس سے مکمل اجتناب کریں۔ اللہ تعالیٰ نے تو انھیں اپنے دین کا داعی بناکر بہت اونچا درجہ عطا فرمایا ہے اور عظیم ڈیوٹی ادا کرنے کی سعادت عطا فرمائی ہے۔ دعوتی کام کرتے ہوئے ہی اللہ تعالیٰ کی نصرت، عنایات اورانعامات کی بارش ہونے لگے گی۔ اس کی مدت خواہ کتنی ہی دراز ہو، اس دوران مسلمان محسوس کرنے لگیں گے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہے، وہ اکیلے نہیں ہیں۔ اس دعوتی سفر کے ہرمرحلے پر، ہر پڑاؤ پر، ہر موڑ پر وہ کہیں بھی تنہا نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہے۔ بس شرط یہ ہے کہ ان کے ہاتھوں میں دعوت کا جھنڈا ہو۔ وہ دعوتِ دین کے لیے متحد اور یکسو ہوں۔ دعوت دین کے لیے دن رات سخت محنت کریں، اپنے تمام وسائل، صلاحیتیں (talents)اورجدید ٹیکنالوجی کے وسائل اس کے لیے لگادیں۔ دعوت کا کام چھوڑ دینے کے نتیجے میں مسلمان آزادی کے بعد سے اب تک مختلف چیلنجوں اورخطرات کا سامنا کررہے ہیں۔ اب وہ یہ طے کرلیں کہ دعوت دین کے لیے مل جل کر بھی اور اپنے اپنے طور پر بھی مسلسل کام کریں گے۔
مسلمانوں کو قرآن کی رہ نمائی میں دشمنوں کو جگری دوست بنانے والے خدائی نسخے پردعوت دین کے ذریعہ عمل کرکے آگے بڑھنا چاہیے۔ اس خدائی نسخے کی کام یابی کی ضمانت کے لیے اتنا یاد رکھنا کافی ہے کہ اس کی ہدایت اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو فرمائی تھی۔ رسول اللہﷺ اس پر عمل کرکے مکہ اور مدینہ دونوں جگہ کام یاب رہے۔ وہ نسخہ یہ ہے کہ بدی کو اعلیٰ درجہ کی نیکی کے ذریعہ دفع کیا جائے۔
اسلاموفوبیا کا چیلنج
موجودہ حالات میں، جب کہ اسلاموفوبیا کی مہم زوروں پر ہےاور جو تمام برادران وطن کو متاثر کررہی ہے۔ اس سے گاؤں، دیہات، شہر اور ہر جگہ کے باشندے متاثر ہورہے ہیں۔ سوشل میڈیا مہم الگ سے طوفان برپا کیے ہوئے ہے۔ آئی ٹی سیل والے دن رات اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے ہیں۔ کروڑوں روپے، ہزاروں افراد، بہترین دماغ ، باصلاحیت نوجوان اس پروپیگنڈہ مشنری میں جھونک دیے گئے ہیں۔ متعدد شہروں، بلکہ قصبات اور دیہاتوں میں مسلمانوں کو الگ تھلگ(isolate) کیا جارہا ہے۔ برادران وطن پولرائز ہورہے ہیں۔ یہ صورت حال صرف مسلمانوں یا برادران وطن ہی کے لیے نہیں، بلکہ پورے ملک اور سماج کے لیے بے حد خطرناک ہے۔ ملکی سالمیت، اتحاد اور یکجہتی اسلاموفوبیا کی اندھی مہم میں پارہ پارہ ہوجائیں گی۔ آج اس عظیم ملک کو دعوت دین کے ذریعے بچانے اور اللہ تعالیٰ کے غضب کا شکار نہ ہونے دینے کی ذمہ داری صرف مسلمانوں کی ہے۔
دعوت کا مفاد
دعوت کا مفاد سب سے اہم ہے۔ اس کی حفاظت اور بقا دراصل مسلمانوں کی حفاظت اور بقا کا سامان ہے۔ دعوت کا مفاد اسی میں ہے کہ مسلمان کسی کو بھی خود سے اپنا دشمن بنانے سے گریز کریں۔ برادرانِ وطن سے بلاامتیاز عقیدہ و مذہب ملاقاتوں کا پروگرام بنائیں۔ خاص طور پر ان سے ایسی دوستی کی جائے جس کے نتیجے میں وہ مسلمانوں سے قریب ہوں۔ ان کے ہاں خوشی، غم اور دیگر تقریبات کے مواقع پرضرور جانا چاہیے، خواہ ان کی طرف سے اس کی دعوت ملی ہو یا نہ ملی ہو۔ وہ ناراض نہیں ہوتے بلکہ بالعموم پسند کرتے ہیں کہ مسلمان ان سے ملیں۔ ان کے اہم پروگراموں، مثلاً سنتوں کی جینتی یا تہوار وغیرہ کے مواقع پر ضرور جانا چاہیے۔ ان سب معاملات میں صرف شرک اور غیر اخلاقی حرکات سے مسلمان خود کو بچاکر رکھیں۔ برادران وطن سے ملنے جلنے کی وجہ سے وہ اسلام کی بہت سی تعلیمات اور قدروں کو مسلمانوں کی زندگی میں دیکھ سکیں گے۔ ان مواقع پر بس مسلمان موقع محل کی مناسبت سے قرآن کی ایک دو آیات واحادیث بتادیں۔ حضوراکرمﷺکی مبارک زندگی سے کوئی واقعہ سنادیں۔ یقین رکھیں کہ وہ یہ سب سن کر برا نہیں مانتے بلکہ کہتے ہیں کہ ان کو اس طرح کی باتیں پہلے کسی نے نہیں سنائیں یا وہ پہلی بار ایسی اچھی اچھی باتیں سن رہے ہیں۔ وہ شکریہ ادا کرتے ہیں۔ برادران وطن پڑوسی یا وہ دکان دار جن کی دکان سے سودا سلف لینا ہوتا ہے یا کسی اور نسبت سے ان سے ملنا جلنا ہوتا ہے ان سے دعوت کا تعلق جاری رکھیں۔ ان سے گہری ہم دردی، جذبۂ خیر خواہی اور انسانیت کا تقاضا یہی ہے کہ دعوت پیش کی جائے اور ان کے لیے قبول حق کی دعا کرکے جہنم کی آگ سے ان کو بچانے کی کوشش کی جائے۔
برادران وطن سے تعلقات
غرض یہ کہ برادران وطن کو دعوت دینے اور انھیں سمجھانے کے لیے ان سے گھل مل کر رہنا ضروری ہے۔ ایک دوسرے کے لیے اجنبی بن کر اور دوری رکھ کر کسی گاؤں، شہر یا علاقے میں آخر دعوت کیسے پہنچائی جاسکتی ہے؟ دعوت ہمیشہ تقریروں، قرآن مجید کے دروس، خطابات، کتابوں اور فولڈرس کے ذریعہ نہیں پہنچائی جاسکتی۔ ویسے بھی اس طرح کے پروگراموں میں شریک ہونے والوں کی تعداد ہمیشہ بہت کم ہوتی ہے۔ اس لیے ان کے ساتھ مل جل کر رہنا، ان سے تعلقات قائم رکھنا، اور خیر خواہانہ مشوروں کا سلسلہ جاری رکھنا چاہیے۔ سماجی رشتے دراصل عملی دعوت کے لیے راہیں ہم وار کرتے ہیں۔ ویسے بھی انسانی رشتے سے وہ مسلمانوں کے بھائی ہیں۔ اس لیے ان کے ساتھ برادرانہ سلوک، حسنِ اخلاق اور بے لوث خدمت کا رویہ ضرور اختیار کرنا چاہیے۔
سورہ حٰمٓ السجدہ کی مذکورہ بالا آیات کی تفسیر میں مولانا شبیر احمد عثمانیؒ لکھتے ہیں:
“ان آیات میں ایک سچے داعی الیٰ اللہ کو جس حسن اخلاق کی ضرورت ہے، اس کی تعلیم دی گئی ہے، یعنی خوب سمجھ لو نیکی، بدی کے اور بدی نیکی کے برابر نہیں ہوسکتیں، دونوں کی تاثیر جداگانہ ہے، بلکہ ایک نیکی دوسری نیکی سے اور ایک بدی دوسری بدی سے اثر میں بڑھ کر ہوتی ہے، لہٰذا ایک مومنِ قانت اور خصوصاً ایک داعی الی اللہ کا مسلک یہ ہونا چاہیے کہ برائی کا جواب برائی سے نہ دے، بلکہ جہاں تک گنجائش ہو، برائی کے مقابلے میں بھلائی سے پیش آئے۔ اگر کوئی اسے سخت بات کہے، یا برامعاملہ کرے تو اس کے مقابل وہ طرز اختیار کرنا چاہیے جو اس سے بہتر ہو۔ مثلاً ً غصہ کے جواب میں بردباری، گالی کے جواب میں تہذیب و شائستگی اور سختی کے جواب میں نرمی اور مہربانی سے پیش آئے۔ اس طرزعمل کے نتیجے میں تم دیکھ لوگے کہ سخت سے سخت دشمن بھی ڈھیلا پڑجائے گا، بلکہ ممکن ہے، کچھ دنوں بعد سچے دل سے دوست بن جائے۔ ہاں کسی شخص کی طبیعت کی افتاد ہی سانپ بچھو کی طرح ہو کہ کوئی نرم خوئی اورخوش اخلاقی اس پر اثر نہ کرے وہ دوسری بات ہے۔ ایسے افراد بہت کم ہوتے ہیں۔ بہرحال دعوت الی اللہ کے منصب پر فائز ہونے والوں کو بہت زیادہ صبرو استقلال اور حسن خلق کی ضرورت ہے۔” (تفسیر عثمانی ؒ، صفحہ۶۳۹)
ہمارے ملک میں بعض عناصر اور گروہ کج فہمی اورقوم پرستی کے منفی جذبے سے نفرت و تعصب اور ظلم و تشدد کی آگ بھڑکا رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں اور ان کو سمجھایا جارہا ہے کہ اس سے ایک مخصوص فرقہ یا ملک اور سماج کا فائدہ ہوگا۔ یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ یہ آگ اگر بجھائی نہیں گئی تو سب کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ یہ کسی کو فائدہ پہنچانے والی نہیں ہے۔ مسلمانوں کا رویہ قرآن و اسوہ رسولﷺ کی روشنی میں جوابی نفرت و تعصب اور ظلم و تشدد کا نہیں ہونا چاہیے۔ قوم پرستی کا جواب قوم پرستی نہیں ہے، بلکہ خدا پرستی کی دعوت ہے۔ تمام انسانوں سے محبت اور خیرخواہی اور ان کی فلاح و نجات کے لیے تڑپنا ہے۔ انسانوں سے حسن سلوک اور اچھے اخلاق سے پیش آنا ہے۔ ظاہر ہے کہ آگ کو بجھانے کے لیے آگ نہیں لگائی جاتی بلکہ اس کو بجھانے کے لیے ٹھنڈے پانی کے فوارے درکار ہوتے ہیں۔ پانی سے آگ بجھائی جاتی ہے۔ شدید گرمی کا موسم ہو تو اس سے بچنے کے لیے ٹھنڈی ہوا اور ٹھنڈے مشروبات استعمال کیے جاتے ہیں۔ گرمی سے بچنے کے لیے کوئی آگ نہیں سلگاتا۔ دنیا کا عام قاعدہ تو یہی ہے۔