نعمتوں کا احساس اور قدر دانی

قرآن ایک عظیم نعمت، انسانوں کے لیے سراسر ہدایت

جاویدہ بیگم، ورنگلی

 

اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے ستر ماوں سے زیادہ محبت کرتا ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے قرآن کافی ہے۔ جس طرح ایک ماں بچے کی تکلیف کے احساس سے بے چین و بے قرار رہا کرتی ہے اور وہ چاہتی ہے کہ اس کا بچہ کسی تکلیف میں مبتلا نہ ہو، وہ اس کو بار بار خبردار کرتی ہے اور مسلسل تاکید کرتی رہتی ہے۔ اس چیز سے بچو اس چیز سے بچو، یہ مت کھاو، وہ مت کھاو، یہاں مت جاو اور وہاں مت جاو وغیرہ۔ ہمیشہ اس کے دل کو دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں بیمار نہ پڑجائے یہ بیماری بڑھ گئی تو۔۔ اس کے آگے وہ نہیں سوچ پاتی۔ اللہ بندوں کا خالق ہی نہیں مالک بھی ہے۔ جس نے بندوں کو پیدا کر کے زندگی گزارنے کے لیے ہر طرح سامان دیا۔ اللہ جانتا ہے کہ انسان بہت کمزور ہے۔ بہت جلد شیطان کے فریب میں آکر اس کی نافرمانی کر کے اپنے آپ کو دوزخ کا مستحق بنا لیتا ہے اور اللہ نہیں چاہتا کہ اس کا بندہ دوزخ میں جائے۔ اس نے تو اپنے بندوں کے لیے جنت سجا رکھی ہے۔ مگر نادان بندہ نظر آنے والی دنیا کی دلفریبیوں اور رنگینیوں کا اس طرح دیوانہ بن جاتا ہے کہ رحیم وشفیق مالک کو بھول جاتا ہے۔ اس کی نافرمانی کرنے لگتا ہے۔ اللہ نے اپنے بندوں کو اپنی نافرمانی سے بچانے اور اپنی رضا کا راستہ بتانے کے لیے اپنے انبیا اور اپنے ہدایت نامے بھیجتا رہا ہے۔ آخری ہدایت نامہ قرآن مجید ہے جو آخری پیغمبر حضرت محمدﷺ پر نازل کیا گیا۔ یہ اللہ کی اپنے بندوں پر رحمت اور شفقت ہے ان کو سمجھانے کے لیے اپنی ہی زبان میں اپنا ہدایت نامہ۔ اپنے ایک بندے حضرت محمد ﷺ کے ذریعہ اپنے بندوں تک پہنچایا تاکہ اس کے احکامات عملی صورت میں بندوں کے سامنے آ سکیں اور ان کو سمجھنا ان پر عمل کرنا آسان ہو۔ انسان کا نفس مذہب کی پابندیوں کو آسانی سے قبول نہیں کرتا۔ اللہ کے احکامات پر عمل کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ نفس ہے اور انسان نفس کے اشاروں پر ناچتا ہے۔ جب تک انسان کے دل میں اللہ کا ڈر نہ ہو نفس پر قابو پا کر اللہ کے احکامات پر عمل کرنا مشکل ہوتا ہے۔ یہ اللہ کی کتنی بڑی مہربانی ہے جس رمضان مبارک میں اپنی عظیم نعمت قرآن نازل کیا اسی مہینے میں روزے فرض کیے۔ یہ روزے اللہ کا ڈر دل میں پیدا کرتے ہیں اور اللہ کے علیم و خبیر ہونے کے احساس کو ذہن میں تازہ رکھتے ہیں۔ اللہ کے احکامات پر عمل پیرا ہونے پر آمادہ کرتے ہیں۔ ہر سال یہ ماہ مبارک رمضان آتا ہے اور ہم کو یاد دلاتا ہے کہ اللہ کی عظیم نعمت قرآن اس ماہ مبارک میں نازل ہوئی ہے اس یاد دہانی کا سلسلہ چل رہا ہے اور مسلسل چل رہا ہے۔ لیکن ہم نے قرآن کو کتاب ہدایت کے بجائے کتاب ثواب سمجھ رکھا ہے۔ بے شک اس کا پڑھنا باعث ثواب ہے کیونکہ یہ اللہ بزرگ و برتر کا کلام ہے مگر اللہ نے یہ کتاب بندوں کی ہدایت کے لیے نازل کی ہے۔ اس سے ہدایت حاصل کرنے کے لیے اس کا سمجھنا ضروری ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ مجھے سورہ بقرہ ختم کرنے میں چھ سال لگے۔ یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ صرف سورہ بقرہ کی تلاوت کرنے میں چھ سال لگے بلکہ اس کا فہم حاصل کرنے میں چھ سال لگے جب کہ عربی ان کی مادری زبان تھی۔ قرآن کا فہم حاصل کرنے میں لوگ اپنی زندگیاں لگا دیتے ہیں کیونکہ بغیر فہم حاصل کیے قرآن کی ہدایت کے مطابق زندگی گزار نہیں سکتے۔ قرآن اپنے اندر بڑی تسخیری قوت رکھتا ہے۔ اس کی تاثیر کو سمجھنے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ آپ کے دور مبارک میں قریش مکہ اس بات کی کوشش کیا کرتے تھے کہ باہر سے آنے والے آپ کے زبان مبارک سے قرآن سننے نہ پائیں۔ عبداللہ بن مبارک جو عیش و آرام کے دلدادہ بڑے عیش پرست تھے۔ ماں باپ کی نصیحتوں کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا تھا ان کے رات دن عیاشیوں میں گزرتے تھے ایک رات جب کہ وہ سوئے ہوئے تھے خواب کی حالت میں اس آیت کو سنتے ہیں ’’کیا مومنوں کے لیے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کے ذکر سے لرز اٹھے (حدید۱۴) بے اختیار پکار اٹھے اے اللہ! وہ وقت آگیا وہ وقت آگیا پھر وہ سرتا پا بدل کر رہ گئے۔ وہ جو اپنے وقت کے عیاش نوجوان تھے وہ سب سے بڑے عالم محدث فقیہ علم و فضل کے امام میدان جنگ کے شہسوار اور عابد و زاہد سب سے بڑے تاجر اور بڑے امانت دار بن گئے۔ یہ قرآن ہے جو اپنے اندر اس قدر اثر رکھتا ہے۔ اس کی طرف ایک آیت زندگی کے معمولات ہی کو نہیں پوری زندگی کو بدل کر رکھ دیتی ہے۔
فضیل بن فیاض جو پہلے ڈاکووں کے سردار تھے ان کی دہشت قرب و جوار علاقے میں اس طرح طاری تھی کہ لوگ ان کا نام سنتے ہی لرزنے لگتے تھے۔ ایک رات ایک فضیل اسی علاقے میں پڑاو ڈالے ہوئے تھا۔ قافلے والے ڈر رہے تھے کہ ڈاکو فضیل گھات میں بیٹھا ہوا ہوگا وہ ٹوٹ پڑے گا۔ اتفاق کے قافلے میں کوئی شخص تلاوت کر رہا تھا، پڑھنے والا پڑھ رہا تھا ’’کیا اہل ایمان کے لے اے بھی وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کے ذکر سے لرزنے لگے‘‘ یہ آیت فضیل کےدل کی گہرائیوں میں اتر گئی ان کی دنیا بدل گئی۔ اب فضیل وہ فضیل نہ رہے، ڈاکو فضیل کے بجائے اللہ والے فضیل بن گئے۔ وہ قرآن سنتے تو ان پر خوف و حزن غالب آتا آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے۔ یوں زارو قطار روتے کہ حاضر مجلس کو آپ پر ترس آنے لگتا۔ یہ اللہ کا کلام اپنے اندر اتنی تاثر رکھتا ہے کہ انسان کو بدل کر رکھ دیتا ہے۔ یہ قرآن اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہے جو انسان کو اخلاقی سطح سے گرنے سے بچاتی ہے۔ اعلیٰ اوصاف سے آراستہ کرتی ہے۔ اس کو مقام و مرتبہ سے آگاہ کرتی ہے۔ اندھیرے میں غوطے کھانے سے بچا کر صراط مستقیم کا راستہ بتاتی ہے۔ انسان کسی نعمت کی ناقدری اس وقت کرتا ہے جب اس کو نعمت کا احساس ہی نہ ہو۔ احساس نعمت ہی انسان کو اس نعمت کا قدر داں بناتا ہے۔ قرآن کی ہم صرف تلاوت کرتے ہیں اسی کے معنی و مفہوم کو ہم نہیں سمجھتے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ قرآن عام لوگوں کے سمجھنے کی چیز نہیں ہے یہ علما کے سمجھنے کی چیز ہے۔ یہ بات اتنی عام ہے کہ لوگ اردو میں اس کے ترجمہ پڑھتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں کہ غلطی ہو گئی تو گناہ ہوگا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ عام طور پر لوگ صرف اس کی تلاوت کرتے ہیں جس کے نتیجے میں اس کا کوئی اثر پڑھنے والے پر نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے دل میں قرآن ایک عظیم نعمت ہے خدا کا ایک بڑا انعام ہے۔ اس کا کوئی احساس نہیں ہے اس میں شک نہیں ہم اس کو اللہ کی کتاب مانتے ہیں۔ اس کی بڑی عزت و تعظیم کرتے ہیں۔ بغیر وضو کے اس کو ہاتھ لگانے نہیں دیتے بڑی عقیدت سے طاقوں میں جزدان میں لپٹ کر حفاظت سے رکھتے ہیں۔ جب کسی چیز کو استعمال میں نہ لایا جائے اس کی قدر بھلا کیسے ہو سکتی ہے۔ قرآن کو نہ سمجھنے کی وجہ سے یہ ہماری زندگی میں جاری و ساری نہیں ہوا۔ جس کے نتیجے میں ہم میں وہ خرابیاں و برائیاں ہیں جو قرآن کو اللہ کی کتاب نہ ماننے ولوں میں ہیں۔ قرآن کو اللہ کی کتاب ماننے اور قرآن کو اللہ کی کتاب نہ ماننے والوں میں فرق کیوں نہیں۔ اس بات پر ہم سنجیدگی سے غور کریں تو اس بات کو ہم خود سمجھ پائیں گے۔ ہمارے دل میں قرآن کے عظیم نعمت کا کوئی احساس نہیں ہے کیونکہ اگر اس کو عظیم نعمت سمجھتے تو اس کی نا قدری نہیں کرتے کیونکہ انسان فطرتاً قیمتی چیزوں کی نا قدری نہیں کرتا۔ قیمتی چیزوں کا انسان کے دل میں خاص مقام ہوتا ہے اس کو اسی طرح استعمال کرنا ہے جیسا کہ کرنے کا حق ہوتا ہے۔ قرآن کو ہم سمجھ کر پڑھتے تو اس کو مشعل راہ بناکر زندگی کا سفر طے کرتے اور یوں بھٹکے بھٹکے دوسروں کے پیچھے دوڑتے نظر نہ آتے۔
فون:9399949000
***

قرآن کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہی یہ ہماری زندگی میں جاری و ساری نہیں ہوا۔ جس کے نتیجے میں ہم میں وہ خرابیاں و برائیاں ہیں جو قرآن کو اللہ کی کتاب نہ ماننے ولوں میں ہیں۔ قرآن کو اللہ کی کتاب ماننے اور قرآن کو اللہ کی کتاب نہ ماننے والوں میں فرق کیوں نہیں ہے؟ اس بات پر ہمیں سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 14 مارچ تا  20 مارچ 2021