نعمتوں کااحساس زندگی کو پُرلطف بناسکتا ہے
منفی سوچ سے چھٹکارے کے بغیر کامیاب زندگی کا تصور محال
سید معز الرحمان ، ناندیڑ
کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ دو بندروں کو ایک ہی پنجرے کے الگ الگ خانوں میں بند کیا گیا دونوں کو برابر مقدار میں وقت پر کھانا دیا جاتاتھا، ان کے خانوں میں کچھ بلاکس رکھ دئیے گئے ایک آدمی آتا بندروں سے بلاک مانگتا اگر وہ بلاک دے دیتا تو انہیں انعام کے طور پر مونگ پھلی دے دیتا ۔یہ مونگ پھلی کے دانے انہیں زا ئد انعام کے طور پر دئیے جاتے تھے ،بندروں کو اب اس کی عادت ہوگئی تھی ، اب ایک نیا تجربہ کیا گیا بندروں سے بلاک مانگا جاتا جیسے ہی ایک بندر بلاک دیتا اسے مونگ پھلی دی جاتی لیکن دوسرسے بندر کو مونگ پھلی کے بجائے انعام میں کیلا دیا جانے لگا، یہ دیکھ کر پہلے والا بندر بے چین ہوگیا غصہ دکھانے لگا، جب یہ سلسلہ دراز ہوا تو دیکھا گیا کہ پہلا بندراداس رہنے لگا ۔حالانکہ پہلے بندر کو دوسرے کی طرح پیٹ بھر کر کھانا دیا جارہا تھا اور ایک ذرا سا کام کرنے پر مونگ پھلی بھی مل رہی تھی لیکن دوسرے والے بندر سے تقابل کرنے کی وجہ سے وہ خوش نہیں رہ پارہا تھا۔ ہماری خوشیوں پر ڈاکہ ڈالنے والی پہلی وجہ تقابلہے۔ٹکنالوجی کے اس دور نے ہماری زندگی کو آسان بنادیا ہے، پہلے ہم کسی کی خیر خیریت جاننا چاہتے تو اسے خط لکھنا پڑتا تھا،میرے جیسے آدمی کیلیے خط لکھنا پھر بھی آسان تھالیکن اسے پوسٹ باکس میں ڈالناایک بڑا چیلنج ہوا کرتا تھا لیکن اب تو ہم ایک دوسرے کے بہت قریب ہوگئے ہیں ، بلکہ ہردم ایک دوسرے کے ’ٹچ‘ میں رہتے ہیں۔ اسی طرح کہیں آنا جانا اور سفر کرنا بھی آسان ہوگیا ہے۔ ٹکنالوجی نے زندگی کو پہلے کے مقابلے میں زیادہ آسان اور پر لطف بنا دیا ہے، لیکن دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ پہلے کے مقابلے میں زیا دہ اداس رہتے ہیں ، بہت کم لوگ ہیں جو خوش رہتے ہیں۔ آئیے ہم دیکھیں کہ تقابل کے علاوہ اور کونسی وجوہات ہیں جو ہماری خوشیوں پر ڈاکہ ڈالتی ہیں ۔
دوسری وجہ نا شکرا پن ہے ، اللہ نے جو کچھ ہمیں دیا ہے اس پر توجہ کرنے کہ بجائے جو چیز حاصل نہیں ہے اس پر توجہ کرنے سے بھی آدمی اداس رہتا ہے ،ایک سروے کے مطابق ہندوستان میں 20 کروڑلوگ خالی پیٹ سوتے ہیں، اگر اللہ نے آپ کو ایک ٹھیک ٹھاک نوکری ، رہنے کیلیے گھر اور ایک عدد بائک عطا ء فرمائی ہے تو یہ بھی خوش رہنے اور شکر ادا کرنے کے لیے کافی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کھانے پینے کو دیا اس کا شکر ادا کرنا چاہئے۔جب آدمی کو اپنے پاس موجود نعمتوں کا احساس ہو تب ہی وہ ان سے زیادہ لطف اندوز ہو سکتا ہے اور اہم بات یہ ہی کہ آپ جس چیز پر توجہ زیادہ دیں گے وہ بڑھ جاتی ہیں آپ اپنی محرومیوں پر زیادہ توجہ دیں گے تو محرومیاں بڑھیںگی اس کے برعکس اگر آپ نعمتوں پر توجہ دیں گے تو نعمتیں بڑھیں گی۔
تیسری وجہ ہے گوشہ عافیت میں رہنا ، جو لوگ گوشہ عافیت میں رہتے ہیں ا ن کی زندگی میں ترقی ختم ہوجاتی ہے ، جہاں پروگریس اور سیکھنا کے جذبہ ختم ہوجاتا ہے وہاں زندگی کا لطف کم ہو جاتا ہے ، بقول اقبال ؔ
حیات کیا ہے ، خیال و نظر کی مجذوبی!!
خودی کی موت ہے اندیشہ ہائے گوناگوں
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ انہیں جو کرنا ہے اس کا مناسب وقت نہیں آیا ہے، یا یہ کہ اگر کچھ کروں اور فیل ہوگیا تو بہت بد نامی ہوگی ، یہ اور اسطرح کے اندیشے اور اندیشوں میں گرفتار لوگ دھیرے دھیرے اداس رہنے لگتے ہیں ۔
چوتھی وجہ اپنے جسم کو حرکت نا دینا ہے ، بہت زیادہ آسائش اور آرام دہ زندگی گزارنے کی وجہ سے تھکان نہیں ہوتی ہے او رتھکان نہ ہونے کی وجہ سے بھر پور نیند سے ہم محروم ہوجاتے ہیں منور راناؔ کے بقول ؎
سوجاتے ہیں فٹ پاتھ پہ اخبار بچھا کر
مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھاتے
انسانی نفس میں تین چیزیںبڑی اہم ہیں ایک آرام دوسرا بھوک اور تیسری چیز جنسی خواہش ، ان تینوں چیزوں کی زیادتی ان تینوں سے انسان کو متنفرکر دیتی ہے۔ مثلاً بھوک ہو تو ہی کھانے کا مزہ آتا ہے، بھوک لگنے سے پہلے کھا نے کی عادت ہو تو آدمی بھوک کی نعمت سے محروم ہوجاتا ہے اور جب بھوک ہی نا لگے تو کھانا کیسا؟ کھانا بے لطف ہوجاتا ہے،شایدا سی لیے کہا گیا ہیکہ بھوک رکھ کر دستر خوان سے اٹھنا چاہئے۔ویسا ہی آرام پسندی اور جنسی زندگی کا معاملہ ہے ۔اگر آپ ان سے زیادہ لطف اندوز ہونا چاہتے ہوں تواسکی کثرت سے بچیں زندگی پر لطف ہوجائے گی ۔
پانچویں وجہ یہ ہے کہ آپ یا تو ماضی میں رہتے ہیں یا مستقبل میں حال میں نہیں رہتے ، جولوگ ماضی کے خیالات میں ہوتے ہیں انہیں ڈپریشن ہوجاتا ہے اور جو لوگ مستقبل میں رہتے ہیں وہ اندیشے Anxiety کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ ایک اوسط انسانی دماغ میں ایک دن میں 60ہزار خیالات آتے ہیںان میں سے 95فیصد خیالات ریپیٹ ہوتے ہیں ، لوگ عام طور پر یا تو ماضی کے خیالات میں گم ہوتے ہیں یا مستقبل میں، انہیں حال کی خبر ہی نہیں ہوتی ، اور اس طرح زندگی بے خبری میں گزرتی جاتی ہے ، جو لوگ حال میں جیتے ہیں وہ ہر چیز کا لطف لیتے ہیں یہاں تک کہ اگر ان پر مصیبتیں بھی آتی ہیں تو کہتے ہیں ؎
آز مائشیں اے دل سخت ہی سہی لیکن
یہ نصیب کیا کم ہے کوئی آزماتا ہے
ماضی یا مستقبل کے خیالات میں رہنے کی وجہ سے حال میں کوئی کام نہیں ہو پاتا ہے اور آدمی کا ماضی مزید بدتر اور مستقبل تاریک ہوتا جاتا ہے۔ حال میں رہنے کیلیے آدمی کا پر سکون ہونا ضروری ہے ۔ پرسکون ہونے کے لیے ضروری ہے کہ آپ منفی خبروں اور منفی سوچ رکھنے والے افراد سے دور رہیں ۔ خوش رہیں ، خوشیاں بانٹتے رہیں ۔
ایک سروے کے مطابق ہندوستان میں 20 کروڑلوگ خالی پیٹ سوتے ہیں، اگر اللہ نے آپ کو ایک ٹھیک ٹھاک نوکری ، رہنے کے لیے گھر اور ایک عدد بائک عطا ء فرمائی ہے تو یہ بھی خوش رہنے اور شکر ادا کرنے کے لیے کافی ہے
HL2
آپ جس چیز پر توجہ زیادہ دیں گے وہ بڑھ جاتی ہیں آپ اپنی محرومیوں پر زیادہ توجہ دیں گے تو محرومیاں بڑھیںگی اسکے برعکس اگر آپ نعمتوں پر توجہ دیں گے تو نعمتیں بڑھیں گی۔