’’نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں‘‘

ڈاکٹر مریم عفیفہ نیورو سرجری میں داخلہ حاصل کرنے والی پہلی کم عمرمسلم طالبہ

 

حیدرآباد۔ محنت جستجو اور لگن ہو تو کامیابی قدم چومتی ہے۔ اس مقولہ کو ڈاکٹر مریم عفیفہ نے سچ ثابت کیا۔ اردو میڈیم سے دسویں جماعت تک تعلیم حاصل کرنے والی ڈاکٹر مریم عفیفہ کا یہ کارنامہ نہ صرف اردو میڈیم بلکہ دیگر طلباء کے لیے بھی قابلِ تقلید ہے۔ ڈاکٹر مریم عفیفہ حیدرآباد کے پرنسیس در شہوار ہائی اسکول اردو میڈیم سے دسویں جماعت میں اور ایم ایس کالج سے انٹرمیڈیٹ میں نمایاں کامیابی حاصل کی تھی۔ ریاستی میڈیکل انٹرنس ٹسٹ ایمسٹ میں 99 واں رینک حاصل کرتے ہوئے عثمانیہ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کی تعلیم حاصل کی جس میں انہوں نے 5 گولڈ میڈل حاصل کیے اور تمام مضامین میں امتیازی کامیابی حاصل کی۔ بعد ازاں 2017 میں ڈاکٹر اسپشیالٹی کورس ایم ایس جنرل سرجری میں عثمانیہ میڈیکل اینڈ جنرل ہاسپٹل میں فری سیٹ حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ اس طرح میڈیکل لائن کے دو اعلیٰ کورسز ایم بی بی ایس، ایم ایس کے یونیورسٹیز کوٹہ کے تحت مختص فری سیٹ میں داخلہ کے بعد ڈاکٹر مریم عفیفہ متواتر تیسری مرتبہ ایک اور اعلیٰ کورس نیورو سرجری ایم سی ایچ میں بھی گورنمنٹ اسپانسر فری سیٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئیں۔ انہیں نیٹ پی جی (NEET_PG) میں کل ہند سطح پر 137 واں مقام حاصل ہوا۔ واضح رہے کہ ہندوستان میں ایم سی ایچ میڈیکل کی اعلٰی سرجیکل ڈگری مانی جاتی ہے۔ اس کورس کی تکمیل کے بعد 27 سالہ ڈاکٹر مریم عفیفہ ہندوستان کی سب سے کم مسلم نیورو سرجن کا اعزاز حاصل کرلیں گی۔ ڈاکٹر مریم عفیفہ نے اتنا ہی نہیں ہے بلکہ انہوں نے 2019 میں رائل کالج آف سرجن انگلینڈ سے ایم آر سی ایس کی ڈگری بھی حاصل کی اور پھر 2020 میں ڈی این بی جنرل سرجری کی ڈگری تکمیل کی۔
ڈاکٹر مریم عفیفہ کا تعلق ایک متوسط گھرانے سے ہے۔ ڈاکٹر مریم عفیفہ حیدرآباد کی معروف درسگاہ جامعہ ریاض البنات، ملک پیٹ کی صدر معلمہ ذکیہ کوثر صاحبہ کی بھانجی ہوتی ہیں اور ان کی والدہ بھی اسی جامعہ سے وابستہ ہیں۔ ہفت روزہ دعوت سے بات کرتے ہوئے ذکیہ صاحبہ نے بتایا کہ ڈاکٹر مریم عفیفہ بچپن سے ہی نہایت ذہین اور محنتی طالبہ رہی ہیں، نصابی سرگرمیوں کے علاوہ آرٹ اینڈ کرافٹ میں بھی دلچسپی رکھتی ہیں اور انہیں اس میں کافی دسترس حاصل ہے۔
ان کی بے مثال کامیابیوں پر جہاں قوم و ملت کا سر فخر سے بلند ہو گیا وہیں ان کی کامیابیوں نے ہماری نئی نسل کے لیے ایک مثال قائم کی جس کی تقلید کرتے ہوئے ہمارے نوجوان کسی بھی میدان میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ ان کی کامیابیوں نے آج کے اس تعصب زدہ ماحول میں جہاں مسلمان مایوسی کا شکار ہیں ان کے اندر حوصلے اور امید کی ایک نئی کرن پیدا کر دی ہے۔
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 24 جنوری تا 30 جنوری 2021