نظریے کی طاقت اور فنی توانائی کا حسین امتزاج
فکر اسلامی کے تناظر میں جدید غزل کی معنویت میں اضافہ
ڈاکٹر شاہ رشاد عثمانی
ادب سے ہمارا مطالبہ صرف یہ ہے کہ ہم کس لیے زندہ رہیں اور کیسے زندہ رہیں؟ یوں تو یہ سوال پوری انسانیت کے سامنے ہے مگر ادب میں یہ سوال اسی لیے اٹھتا ہے کہ ادب زندگی سے پیدا ہوتا ہے، زندگی سے وابستہ رہتا ہے اور زندگی ہی کی خدمت کرتا ہے۔ ادب اور زندگی کا تعلق اس قدر گہرا اور مضبوط ہے کہ ہم نظر انداز نہیں کر سکتے۔ جب ہم ادب اور زندگی کی بات کرتے ہیں تو بعض ناقدین کو فطری طور سے یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ شاید ہماری مراد بھی وہی ہو جو ترقی پسند ادیب سمجھتے ہیں، جن کے یہاں ادب برائے زندگی کے روپ میں ادب برائے عوام کا پرچار کیا جاتا ہے۔ جب ہم ادب اور زندگی کے باہمی تعلق پر گفتگو کرتے ہیں تو ہمارے سامنے ایک خدا پرستانہ تصور حیات ہوتا ہے اور ہمارا ادب اسی تصور حیات کا ایک طاقتور ترجمان اور بے مثل عکاس ہوتا ہے۔ اس مختصر سی توضیح سے جہاں یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ ہم ادب میں مقصدی میلانیت کے قائل ہیں، کیونکہ جب انسان اور کائنات کی تخلیق ایک عظیم مقصد کے تحت وجود میں آئی ہے تو پھر ادب بغیر کسی غایت یا میلان کے ناقابل تصور ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ حق و باطل کی کشاکش میں غیر جانب داری ناممکن ہے، یا تو ادیب خیر کی حمایت کرے گا یا شر کی، ان دونوں کے درمیان کوئی راہ اعتدال نہیں۔ آج انہیں نظریات کی روشنی میں اسلام پسند ادیبوں شاعروں اور قلمکاروں کا ایک کارواں آگے بڑھ رہا ہے۔ اردو شاعری میں خصوصاً غزل ایک ایسی صنف ہے جسے ہم بجا طور پر ایک موثر ترین حربہ کہہ سکتے ہیں۔ چنانچہ اس حربہ کا استعمال تمام نظریاتی فنکاروں نے کیا ہے۔ البتہ ان کے طریقہ استعمال میں فرق رہا ہے۔ ظاہر ہے یہ فرق بنیادی اور اصولی ہے، جہاں سے نظریہ حیات بدلتا ہے۔ وہیں سے فن کا تصور اور فن کے تقاضے بھی بدل جاتے ہیں۔ یہیں سے ادب میں نظریے کی پیش کش کا مسئلہ سامنے آجاتا ہے۔ چنانچہ جہاں پروفیسر آل احمد سرور ادب میں نظریہ کے قائل ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ’’اب غزل کی بحث کسی نہ کسی نظریے کے زیر سایہ ہی ممکن ہے صرف رائے زنی سے کام نہیں چل سکتا۔‘‘
اردو غزل کی پوری تاریخ میں یہ نقطہ نظر پایا جاتا ہے۔ کلاسیکی غزل سے لے کر جدید اردو غزل تک ان تصورات کے گہرے نقوش ہمیں جابجا ملتے ہیں، مگر ان کا شعوری اور منظم اظہار سب سے زیادہ علامہ اقبال کی شاعری میں ہوا ہے۔ ان کی پوری شاعری نظریات کی شاعری ہے۔ نظریے کی بے پناہ طاقت اور فنی توانائی کا آفاقی شعور اقبال کے یہاں بڑی پختگی کے ساتھ ملتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ آج انہیں کے نقش قدم پر جدید اردو شاعری کا قافلہ گامزن ہے۔ فکر اسلامی کے تناظر میں گامزن اس قافلہ میں شریک شعرا کی مختصر ترین فہرست بنائی جائے تو یوں ہو سکتی ہے۔ شفیق جونپوری، روش صدیقی، نعیم صدیقی، ماہر القادری، عامر عثمانی، حفیظ میرٹھی، حفیظ جالندھری، عزیز بگھروی، انور صدیقی، عرشی بھوپالی، سہیل احمد زیدی، عروج قادری، جمال احمد امین آبادی، فاروق بانسپاری، رشید کوثر فاروقی کلیم عاجز، اعجاز رحمانی ، شبنم سبحانی ابوالمجاہد زاہد، شفیع مونس(مرحومین)، محسن انصاری، حفیظ الرحمن احسن، فراز سلطان پوری، انتظار نعیم، تابش مہدی، مسعود جاوید ہاشمی، ابوالبیان حماد، مظہر محی الدین، یوسف راز، رؤوف خیر، ابوالفاروق شعور، عزیز بیلگامی اور حنیف شباب وغیرہ وغیرہ۔تحریک ادب اسلامی کے ان جیالے شعرا میں بیشتر کی مشق سخن کی عمر چالیس اور پچاس سال رہی ہے اور جنہوں نے فن کا رسوخ حاصل کرلیا ہے۔ ہاں کچھ ایسے بھی ہیں کہ جب اس تحریک میں شامل ہوئے تھے تو نو عمر تھے مگر اب ذہنی و فنی پختگی کے مراحل طے کررہے ہیں۔ یہ وہ فنکار ہیں جنہوں نے اسلامی اقدار حیات پر اپنے فن کی بنیاد ڈالی ہے اقبال نے کہا تھا؎
رگوں میں گردشِ خوں ہے اگر تو کیا حاصل
حیات سوز جگر کے سوا کچھ اور نہیں
فن میں نظریے کا استعمال بظاہر تو آسان ہے مگر حقیقت میں وہ دلوں کی گہرائیوں میں اس وقت تک نہیں اتر سکتے جب تک سوزِ یقین اور خون جگر کی آمیزش نہ ہو۔ انور صدیقی مرحوم نے بڑی عمدہ بات کہی تھی؎
سوز یقین کے بغیر خاتم بے نگیں ہے فن
دست ہنر وراں میں ہے معجزہ ہنر تو کیا
چنانچہ ان فکری محرکات کے ساتھ ساتھ گہرے سماجی شعور اور انسانی مسائل کے شدید ادراک و احساس کے تحت تعمیر پسندوں نے اپنی شاعری شروع کی۔ عالمی امن کے نام پر دو دو جنگ عظیم کا تجربہ اور تیسری جنگ لڑنے کی تیاریاں، اخلاقی قدروں کی پامالی، جرائم کی ترقی، مغربی مادی تحریکوں کی لائی ہوئی دہریت اور مادیت کی تباہیاں، ذہنی اور روحانی انتشار، بھوک، افلاس اور بیماریوں کا سیلاب اور پھر سرمایہ دارانہ اور اشتراکی نظاموں کی لائی ہوئی طبقاتی کش مکش اور منافرت۔ ان حالات میں تعمیر پسند فنکاروں نے یہ محسوس کیا کہ ان تمام مشکلات کا حل کہیں اورہے۔ بقول حضرت روش صدیقی؎
کس کو معلوم ہے کہ ہم حسن شناسان ازل
کتنے اوہام سے گذرے تو یقین تک پہنچے
چنانچہ غزل جیسی صنف سخن کی تمام روایتی خصوصیات کو برقرار رکھتے ہوئے ان تعمیری فنکاروں کو جن آزمائشوں سے گزرنا پڑا ہے اور آج وہ جس منزل پر ہیں، اس سے اردو غزل گوئی کی ایک نئی تاریخ بنتی ہے، یہ تاریخ ایک ایسے دور کی ترجمان ہے، جس میں ان فنکاروں نے بڑی توانائی اور تازگی کے ساتھ زندگی کی اعلیٰ قدروں کو ایک ایجابی، مستحکم اور جان دار نظامِ حیات کی شکل میں جدید غزل میں سمویا ہے۔
ماحول سے شدید کشمکش اور اس کے اثرات ہماری شاعری میں نمایاں ہیں۔ ایک طرف استعماریت و مادیت اور دوسری طرف صداقت و عدالت اور وحدانیت و روحانیت۔ یہ کشمکش کوئی معمولی کشمکش نہیں۔ پوری انسانیت اس کشمکش سے دوچار ہے اور آج کی پوری انسانی زندگی اس کی مظہر ہے۔؎
سہمی سہمی دھوپ سائے لرزہ براندام سے
کون ٹکرانے اٹھا یہ گردش ایام سے
(حفیظ میرٹھی)
یہ کیا غضب ہے کہ الحاد کے اندھیروں میں
حیات ڈھونڈتی پھرتی ہے آئینہ خانے
(عرشی بھوپالی)
جسم تک ہے بس نفاست کی نمائش کا ہنر
روح کی پاکیزگی تزئین کاروں میں کہاں
(عزیز بگھروی)
اس لیے ہم سے خفا ہے مصلحت پوشوں کی بھیڑ
شہر یاروں کی نہ ہم سے ناز برداری ہوئی
(انتظار نعیم)
ہر آدمی اوڑھے ہے تقدس کا لبادہ
لگتا ہے یہاں کوئی گنہگار نہیں ہے
(تابش مہدی)
ان اشعار میں صرف حقیقت کے مظاہر کی عکاسی نہیں کی گئی ہے بلکہ ان کی تہوں کو بھی ٹٹولا گیا ہے۔ وہ کیڑے جو ہماری پوری سماجی، سیاسی اور معاشرتی زندگی کو کھوکھلا کرتے جارہے ہیں، ان پر بھرپور وار کیے گئے ہیں۔ ان اشعار سے ایک ایسا اجتماعی شعور جھلکتا ہے جو ہمیں ایک خدا پرستانہ انقلابی جدوجہد کے ذریعہ پورے انسانی معاشرے کی تنظیم نو پر اکساتا ہے۔ اردو غزل میں اقبال کے بعد اسلام کی تہذیبی قدروں کی اس قدر شعوری انداز اور فنکارانہ چابک دستی کے ساتھ سمو کر پیش کرنے میں اسلام پسند شعرا نے ایک ایسی غیر معمولی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے جس سے نہ صرف نظریے کی طاقت کا اندازہ ہوتا ہے بلکہ تمام اصناف سخن میں خود غزل کے امکانات کا بڑا تابناک اور روشن تصور سامنے آتا ہے۔
چمن کی قید نہ تخصیص آشیانے کی
مرے حدود میں ہیں وسعتیں زمانے کی
(شفیق جونپوری)
یہ راہ صدق ہے اس راہ کا بھرم رکھنا
سمجھ کے سوچ کے اس راہ میں قدم رکھنا
(ابوالمجاہد زاہد)
ان گنت خداوں کی دل نوازیاں منظور
اک خدائے واحد کی بندگی نہیں ہوتی
(عزیز بگھروی)
رہروان شوق جب ہے ایک ہی منزل تو پھر
ایک جادہ، ایک میر کارواں رکھا کریں
(انتظار نعیم)
غم کے مارو آو میدان شہادت میں چلو
زندگی کیا زندگی سے سوا مل جائے گا
(تابش مہدی)
ایک بار تجھے عقل نے چاہا تھا بھلانا
سو بار جنوں نے تری تصویر بنادی
(ماہر القادری)
ان اقدار حیات کے واضح نقوش میں ہمیں خدا پرستانہ انقلاب کی گونج سنائی دیتی ہے اور ایک مثالی معاشرہ کے قیام کی دعوت بھی۔ پہلے تو ایک خاص التزام اور نفسیاتی تناسب کے ساتھ قدروں کو اجاگر کر کے ذہنوں کو صاف کیا جاتا ہے اور مغربی مادی افکار اور لا دینی نظام حیات سے نفرت کا احساس پیدا کر کے اس آئیڈیل نظام زندگی اور اس کی فکری اور تہذیبی قدروں کے فروغ کی جدوجہد میں شریک ہونے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ چند اشعار دیکھیے کہ خدا پرستانہ انقلاب کی تجدید کے لیے کتنے دل پذیر انداز سے اکسایا جا رہا ہے۔ وہ انقلاب عظیم جس نے صدیوں کے زنگ آلود دماغوں کو جلا بخشی اور جاہلی نظام کے تمام تار و پود بکھیر کر ایک آفاقی اور مثالی معاشرے کی بنیادوں کو مستحکم کیا۔
جلنے کو شمع جل نہ سکی صبح تک مگر
وجہ فروغ دیدہ امکاں ہوئی تو ہے
(نعیم صدیقی)
گھروں سے تا درِزنداں وہاں سے مقتل تک
ہر امتحاں سے ترے جاں نثار گذرے ہیں
(حفیظ میرٹھی)
آئیں گے سربکف ابھی کچھ اور اہل شوق
مقتل کو میرے بعد مقفل نہ کیجیے
(انتظار نعیم)
زمانہ تیغ بکف اور فضا کفن بردوش
مٹاسکے ہیں نہ پھر بھی یہ ماہ و سال مجھے
(مظہر محی الدین)
سنگ و آہن، طوق و سلاسل اور درزنداں تیرے نام
سیل حوادث دار و رسن اور خون شہیداں تیرے نام
(مسعود جاوید ہاشمی)
سربکف جو رہتے ہیں سرفراز ہوتے ہیں
تحفتاً کسی کو بھی عظمتیں نہیں ملتیں
(حنیف شباب)
اردو غزل کے آئینہ میں ہمارا تصور حیات اپنی تمام انقلابی اور تحریکی خصوصیات کےساتھ جلوہ گر ہے۔ اس وقت ہمارے سامنے غزل ایک ایسی ہی صنف سخن ہے جس میں روح عصر اپنی پوری شدت کے ساتھ موجود ہے۔ اقبال نے غزل کو اسی مقصد کے لیے استعمال کیا تھا اور یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں یہ حدیث دلبری کے بجائے صحیفہ کائنات بن گئی اور دوسری طرف اسلامی ادبی تحریک کے تناظر میں فنکاروں نے اسے شعری طور پر ایک موثر ترین حربہ کی حیثیت سے استعمال کیا ہے۔ اب تک کی گفتگو سے یہ بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ غزل کا مثبت رول کیا ہے اور اس کے امکانات کی سرحدیں کیا ہیں؟
***
ہم ادب میں مقصدی میلانیت کے قائل ہیں، کیونکہ جب انسان اور کائنات کی تخلیق ایک عظیم مقصد کے تحت وجود میں آئی ہے تو پھر ادب بغیر کسی غایت یا میلان کے ناقابل تصور ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ حق و باطل کی کشاکش میں غیر جانبداری ناممکن ہے، یا تو ادیب خیر کی حمایت کرے گا یا شر کی، ان دونوں کے درمیان کوئی راہ اعتدال نہیں۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 24 جنوری تا 30 جنوری 2021