نظریہ ارتقا: رد و قبول اور متبادل امکانات قرآن کا تخلیقی بیانیہ اور نظریہ ارتقا (آخری قسط)
ڈاکٹر محمد رضوان
قرآن کئی معنوں اور اعتبار سے ایک منفرد و ممتاز مذہبی کتاب ہے۔ مثلاً:
قرآن کہتا ہے کہ وہی برحق ہے اور اس نے رشد اور گمراہی کوالگ الگ کرکے رکھ دیا ہے۔
قرآن کامیابی اور ناکامیابی کے منفرد معیارات دیتا ہے۔
دیگر مذہبی کتابوں میں ابدی نوعیت کے سوالات جیسے انسان کی کائنات میں کیا حیثیت ہے؟ انسان کا بالآخر انجام کیا ہونا ہے؟ انسان کو کیسے اور کس نے بنایا ہے؟ کائنات کا کیا انجام ہوگا؟ مرنے کے بعد کی زندگی کی حقیقت کیا ہے؟ وغیرہ کے قبیل کے سوالات کے جوابات یا تو انتہائی مبہم انداز میں ملتے ہیں جیسے ویدک اور بدھسٹ فلسفہ، یا اتنی تفصیلات کے ساتھ کہ جدید معلومات کی بنیاد پر وہ بہ آسانی رد کیے جا سکتے ہیں جیسے بائبل کا تخلیقی بیانیہ۔
کوئی مذہبی کتاب اتنی انسان مرکوز نہیں ہے جتنا کہ قرآن۔ قرآن خود دعویٰ کرتا ہے کہ اس کتاب میں انسان کا ذکر ہے۔
چناں چہ باوجود اس کے کہ اصلاً قرآن انسانی ہدایت و رہ نمائی کے لیے نازل کردہ کتاب ہے اور یہ کہ وہ خدا آشنا اور خدا مرکوز رویہ اختیار کرنے پر ابھارنے والی کتاب ہے۔ وہ اپنے اندر ایسی بہت سی کسوٹیاں بھی لیے ہوئے ہے جن پر ہم اپنے اکتسابی علم کو پرکھ سکتے ہیں۔
انسان کے اس دنیا میں وجود میں آنے سے متعلق اور اس زمین پر موجود تمام تر مخلوقات کی پیدائش کے متعلق، خود کائنات اور اس کی ابتدا کے متعلق بہت سارے اشارے قرآن میں آیتوں (نشانیوں) کے طور پر بیان کیے گئے ہیں۔ یہ آیتیں (نشانیاں) در اصل وہ کسوٹیاں ہیں جن پر ہم اپنے بہت سارے مفروٖضات کو پرکھ سکتے ہیں۔
تخلیق کائنات اور تخلیق انسان پر بھی قرآن میں کئی اشارے ہیں۔ ان تمام اشاروں کو اگر جمع کیا جائے تو قرآن کا ایک تخلیقی بیانیہ تشکیل پاتا ہے۔ یہ تخلیقی بیانیہ مفصل نہیں ہے۔
قرآن کے تخلیقی بیانیے کو درج ذیل نکات کے تحت بیان کیا جا سکتا ہے۔
تخلیق کا سر چشمہ اللہ کی مشیت ہے۔
تخلیق حق کے ساتھ ہے۔
تخلیق انسان مرکوز ہے۔
تخلیقی بیانیہ میں استعارہ (allegory) بہر حال موجود ہے۔
تخلیق مقصدیت کے ساتھ ہے۔
تمام تر انواع (جانداروں) کی تخلیق کا مادہ ’’مصدر‘‘ ایک ہے۔
تخلیق مرحلہ وار ہے۔
انسانی تخلیقی مادہ اور طریقۂ تخلیقِ انواع بشمول انسان کے سلسلے میں مختلف تعبیریں آئی ہیں۔
(۱) تخلیق کا سر چشمہ اللہ کی مشیت ہے: تخلیق اور اس سے جڑے پہلوؤں پر قرآن میں ۷۰؍ سے زائد آیتیں ہیں۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ پوری کائنات اور اس میں موجود ہر شے کا خالق اللہ ہے۔ اس نے انسانوں سمیت پوری کائنات میں موجود ہر ذرہ کی تخلیق کی ہے۔ لیکن کیسے کی ہے اس کا کوئی تذکرہ قرآن نہیں کرتا۔ بس کچھ اشارے د یتا ہے۔
وہی تو ہے جس نے تمھارے لیے زمین کی ساری چیزیں پیدا کیں پھر اوپر کی طرف توجہ فرمائی اور سات آسمان استوار کیے۔ اور وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ (البقرہ :۲۹)
اور فرمایا:
یہ ہے اللہ تمھارا رب کوئی خدا اس کے سوا نہیں ہر چیز کا خالق (الانعام: ۱۰۲)
اللہ کی ذات تخلیق کے ہر پہلو کا احاطہ کیے ہوئے ہے مثلاً اوپر کی آیت میں طبعی چیزوں کا تذکرہ ہے زمین ، آسمان اور زمین کی ساری چیزوں کا۔ اس کے علاوہ اللہ ہی نے non-physical beings کی بھی تخلیق کی ہے۔
تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جس نے زمین اور آسمان بنائےروشنی اور تاریکیاں پیدا کیں۔ (الانعام: ۱)
روشنی اور تاریکی غیر مرئی شے ہے۔ انھیں چھو کر دیکھا نہیں جا سکتا۔ صرف محسوس کیا جا سکتا ہے۔ چناں چہ نیچری طرز فکر اور اسلامی تخلیقی بیانیہ میں اختلاف کی ابتدا یہیں سے ہوجاتی ہے۔ نیچری طرز فکر فطرت میں از خود تخلیق سب سے اہم ہے۔ جب کہ قرآن کی ذیل کی آیت ملاحظہ ہو:
اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ (الانعام: ۱۰۱)
اس تخلیق میں دونوں ابعاد شامل ہیں۔ یہ دو ابعاد تخلیق کے دو اہم پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہیں۔ ایک بُعد (diemension)عدم سے وجود بخشنے سے متعلق ہے ex nihilo دوسرے تخلیق تشکیل یا production سے متعلق ہے۔ یعنی اللہ نے عدم کو بھی وجود بخشا اور پھر اس وجود سے مزید تخلیق فرمائی۔ قرآن میں تخلیق کے ان دونوں ابعاد کی صراحت کئی جگہ آئی ہے۔
نیچری طرز فکر تخلیق کے ضمن میں طبعی قوانین پر جا کر رک جاتی ہے۔ یعنی طبعی قوانین اس بات کی ضمانت دیتے ہیں کہ تخلیق ہو اور پھر اس تخلیق میں جدت و ندرت اور نمو و پرداخت سب کچھ فطری قوانین کے تحت انجام پاتی رہتی ہیں۔ لیکن قوانین فطرت کیسے وجود میں آئے اس پر بہت واضح بیانیہ موجود نہیں ہے۔
قرآن کا تخلیقی بیانیہ بتاتا ہے کہ اللہ نے ex nihiloتخلیق کی یعنی کائنات عدم سے وجود میں آئی اور وہ تخلیق میں اضافہ بھی کرتا ہے۔
مخلوق میں جو چاہتا ہے اضافہ کرتا ہے۔ (سورہ فاطر:۱)
یہیں سے نظریہ ارتقا کے بعض پہلوؤں سے بھی قرآنی تخلیقی بیانیہ مختلف ہوجاتا ہے۔ اور ان محققین کی اس دلیل سے ٹکراتا ہے جس کی رُو سے یہ مانا جاتا ہے کہ اللہ نے قوانین بنا دیے اور اس کے بعد ساری مخلوقات وجود میں آتی چلی گئی۔ یہ دلیل کامل غلط نہیں ہے لیکن اساسی اعتبار سے اس میں ایک سُقم ہے، اوروہ یہ کہ اللہ نے قرآن میں اپنا تعارف ایک ایسے خالق کے طور پر کروایا ہے جس کی ہر آن ایک نئی شان ہے۔ اللہ نیوٹونین خدا کے تصور سے مختلف ہے جس نے ایک بار طبعی قوانین کو تخلیق کیا اور پھر کائنات سے لاتعلق ہو گیا۔ اللہ ایک ایسا خلاق ہے جو مخلوقات کو جیسے چاہتا ہے پیدا فرماتا ہے اور یہ عمل وہ ہر بار کرتا ہے وہ مخلوق کی ساخت میں اضافہ بھی کرتا ہے۔ اللہ نے محض تخلیق نہیں کی بلکہ وہ اس کا اعادہ بھی کرے گا۔ یہ بات قرآن میں کئی جگہوں پر بہت صاف کہی گئی ہے۔ عام طور پر تخلیق کا یہ اعادہ قیامت کے تناظر میں ہے۔ مثلاً:
وہی ہے جو تخلیق کی ابتدا کرتا ہے۔ پھر وہی اس کا اعادہ کرے گا۔ (سورہ روم :۲۷)
ایک دوسری جگہ ارشاد ہے:
کیا ان لوگوں نے کبھی دیکھا ہی نہیں ہے کہ اللہ کس طرح خلق کی ابتدا کرتا ہے اور پھر اس کا اعادہ کرتا ہے۔ (سورہ عنکبوت: ۱۹)
بالکل اسی طرز پربہت سی آیتیں اللہ کے یکسر منفرد تصور کو پیش کرتی ہیں جسے اب معروف اصطلاح میں (personal God) کہا جاتا ہے یعنی ایسا خدا جس سے بندہ براہِ راست منسلک ہے۔ اللہ یہ ارشاد فرماتا ہے کہ وہ اپنے بندوں سے حبل ورید سے بھی قریب ہے (سورہ ق ۱۶) اور وہ ان کی بات سنتا ہے۔ یہ بھی ہے کہ جب لوگ سرگوشی کرتے ہیں تو تین میں وہ چوتھا ہوتا ہے۔ (سورۃ مجادلہ ۷) اللہ تعالیٰ اس بات کواس طرح بھی ذکر کرتا ہے کہ:
زمین اور آسمان کی ہر چیز کا اسے علم ہے جو کچھ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو سب اس کو معلوم ہے اور وہ دلوں کا حال تک جانتا ہے۔ ( سورہ تغابن ۴)
مندرجہ بالا مقدمہ سے یہ بات واضح ہو گئی کہ:
نیچری طرز فکر کے برعکس تخلیق کے دونوں ابعاد قرآن سے ثابت ہیں۔ یہ دو ابعاد عدم سے وجود اور وجود سے اضافہ/تجدید کے تخلیقی بیانیے کو ثابت کرتے ہیں۔
قرآن میں جس خالق کا تذکرہ ہے وہ خالق ہر آن ہر لمحہ اور ہر وقت اپنی مخلوق سے باخبر ہے بہ الفاظ دیگر مشہور اصطلاح میں intervening God ہے۔
اسلام کے خالق کا تصور نیوٹونین یا آئنسٹائن کے خالق کے تصور سے مکمل طور پر جدا ہے۔
اسی طرح سورہ السجدہ آیت ۵ میں اللہ خود اپنے بارے میں صراحت کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ ’’وہ آسمان سے زمین تک دنیا کے معاملات کی تدبیر کرتا ہے اور اس کی تدبیرکی روداد اس کے حضور آ جاتی ہے۔ ‘‘
یہ آیت ایک intervening God کی اتنی واضح صورت پیش کرتی ہے کہ اس میں کسی بھی اختلاف کی گنجائش نہیں رہتی کہ اللہ ایک ایسی ہستی ہے جو ہر آن ہر لمحہ ہر وقت اپنی تمام تر تخلیق سے باخبر ہے۔ وہ قوانین وضع کر کے اس کائنات کو ان طبعی قوانین کے بھروسے چھوڑ کر آرام نہیں کر رہا۔ اس لیے بعض محققین کا یہ دعوی قرآن کے تصور اِلٰہ سے بالکل ٹکراتا ہے کہ اللہ نے کائنات کے لیے ابدی قوانین تشکیل دیے اور اس کے بعد کائنات از خود چل رہی ہے۔ یقیناً کائنات قوانین کے تابع ہے لیکن قوانین کے علی الرغم جتنے واقعات، مشاہدات، تخلیقات ہیں وہ اسی خدا کی صناعی اور تخلیقیت کا مظہر ہیں۔ ان محققین میں لبنان کے ابو دجانہ اور کینیڈا اور امریکہ کے بعض مسلم محققین شامل ہیں۔
چناں چہ ایک ایسا اِلٰہ وخالق جو نہ صرف خلق کی ابتدا کرتا ہے بلکہ اس کا اعادہ بھی کرے گا۔ وہ خالق باخبر، باریک بیں اور پکڑنے والا بھی ہے۔ اس تصورِ اِلٰہ سے بہت مختلف ہے جو نظریہ ارتقا کو مجبوراً ماننے والے محققین و مفکرین پیش کرتے ہیں۔
چناں چہ یہ بات درست ہے کہ تخلیق کے میکانسٹک پہلو بہت واضح نہیں ہیں اور نظریۂ ارتقا ان پہلوؤں پر بڑی حد تک روشنی بھی ڈالتا ہے لیکن یہ روشنی بہرحال اتنی زیادہ نہیں ہے کہ وہ اِلٰہ کے حقیقی تصور کو ’’دھندلا‘‘ کر دے۔
(۲) تخلیق حق کے ساتھ ہے: قرآن جابجا یہ بتاتا ہے کہ پوری کائنات اور اس کی تخلیق حق کے ساتھ کی گئی ہے۔ حق عربی کا بڑا معنی خیز لفظ ہے اور ایک وسیع مفہوم میں استعمال کیا جاتا ہے۔ چناں چہ ارشاد خالق ہے۔
اللہ نے زمین و آسمان کی تخلیق کو حق پر قائم کیا۔ (ابراہیم: ۱۹)
یعنی زمین و آسمان کی تخلیق ایک مقصد کے ساتھ ہے۔ اگرچہ تخلیق کے اس عمل کی وضاحت نہیں ہے لیکن یہ آیت ارتقا کے اس مفروضہ کو غلط ٹہراتی ہے جس کی رو سے ارتقا ایک random اور اندھا فطری قانون بتایا جاتا ہے۔
اسی طرح ایک اور جگہ خالق ارض و سماوات نے انسانی عقل کی رہ نمائی کے لیے مزید کسوٹی فراہم کی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
ہم نے زمین اور آسمان کو اور ان کی موجودات کو حق کے سوا اور کسی بنیاد پر تخلیق نہیں کیا۔ (سورۂ حجر: ۸۵)
یعنی نہ صرف یہ کہ مجرد زمین اور آسمان بلکہ اس کے اندر موجود تمام موجودات کی تخلیق چاہے وہ جس طریقے پر بھی کی گئی ہو اصل میں اسی حق پر قائم ہے جس کا تذکرہ اوپر گزر چکا ہے اور وہ حق یہ ہے کہ ان تمام مظاہر تخلیق کا ایک خصوصی ہدف ہے۔ اور وہ ہدف یہ ہے کہ انسانوں کی آزمائش کی جائے۔ انھیں ارادہ و اختیار دے کر کائنات کی بہت ساری قوتوں کو ان کے لیے قابل تسخیر بنا کر اور انھیں اعلیٰ ادراکی صلاحیتیں ( higher cognitive skills) دے کر، دیکھا جائے کہ ان میں سے کتنے شکرگزار ہو جاتے ہیں اور کتنے کفر ’’جھٹلانے‘‘ کا رویہ اختیار کرتے ہیں۔
اسی طرح فرمایا گیا:
اس نے زمین اور آسمان کو بر حق پیدا کیا۔ (سورۂ نحل :3)
اوپر کی سطور سے اس بات کی کما حقہ وضاحت ہوگئی کہ تخلیقی بیانیہ کا اہم بُعد تخلیق کا حق کے ساتھ ہونا ہے۔
(۳) تخلیق انسان مرکوز ہے: نظریۂ ارتقا کی رو سے یہ بات اصولی طور پر تسلیم کی جاتی ہے کہ انسان بھی دیگر جانداروں کی طرح ارتقا کا product ہے۔ بائبل کے تخلیقی بیانیہ کے ماننے والوں اور نظریۂ ارتقا کے ماننے والوں میں اس پر زبردست اختلاف ہے۔ حتیٰ کہ مسیحی دنیا کے وہ محققین اور علما بھی جو بائبل کی لفظی اور literal تعبیر کے خلاف ہیں، وہ بھی نظریۂ ارتقا کے بہت سارے مشمولات بلکہ نظریۂ ارتقا کو جوں کا توں ماننے کے بعد بھی اس نکتہ پر خلجان میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ کیوں کہ بائبل میں بھی انسان ایک خصوصی تخلیق اور کائنات میں ایک اہم entity کے طور ر مذکور ہوا ہے۔
قرآن کا تخلیقی بیانیہ بھی نہ صرف تکریم انسان کو مرکزی اہمیت دیتا ہے بلکہ بائبل سے آگے بڑھ کر بہت ہی واضح الفاظ میں کہتا نظر آتا ہے کہ
اس نے تمھاری بھلائی کے لیے رات اور دن کو اور سورج اور چاند کو مسخر کر رکھا ہے۔ (سورہ النحل ۱۲)
یعنی یہ کائنات کا وجود جیسے بھی ہوا ہو۔ یعنی تخلیق کے کسی بھی میکانسٹک پہلو سے ہواہو لیکن اصلاً یہ انسان مرکوز ہے اور اس طرح تخلیقی بیانیہ کا ایک پیٹرن بنتا ہے جس میں ایک مخصوص تخلیق (انسان) کوتکریم سے نوازا گیا۔ اسے سمع، بصر اور فواد عطا کیا گیا۔ اس پر ’’فجور‘‘ و ’’تقویٰ‘‘ کا فرق الہام کیا گیا۔ اور اسے وہ علم دیا گیا جس کو وہ نہیں جانتا تھا۔ اور پھر اسے اس کائنات میں ایک خاص مقصد کے تحت لایا گیا۔
(۴) تخلیقی بیانیہ میں استعارہ (allegory) کی گنجائش بہر حال ہے: عام طور پر عالم اسلام میں تخلیق کا تصور بائبل اور توراۃ کے تخلیقی بیانیہ اور بہت ساری روایات سے آلودہ ہے۔ مثلاً عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ایک مٹی کا پُتلا اللہ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا اور پھر اپنی روح اس میں پھونک دی۔ یہ بالکل درست ہے کہ قرآن اس کا تذکرہ کرتا ہے لیکن اس کے literal معنی لینے میں کئی اشکالات ہیں جیسے اللہ کے ہاتھ ہیں۔ اللہ کو دونوں ہاتھ استعمال کرتے ہوئے کسی کو بنانے کی ضرورت ہے۔ چناں چہ کچھ مفسرین اس طرح کی آیات کو متشابہات یا استعارے کے درجے میں رکھتے ہیں۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ استعارہ allegory ہونے میں ماضی قریب کے مفسرین اور ماضی بعید کے بعض علماء و فلاسفہ نے کافی متشدد رویہ اپنایا۔ استعارہ کے اس خط پر ایک سرے پر وہ ہیں جو قرآن کے literal معنی اور روایتوں کو بعینہ قبول کرتے ہیں اور اس پر سوال وجواب یا غور و فکر کو کفر سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس خط کے دوسرے سرے پر وہ لوگ ہیں جو قرآن کے بالکل ثابت شدہ بیانیہ کو جس کی تفسیر اور تصدیق قرآن کی متعدد دوسری آیتیں کرتی ہیں اسے بھی استعارہ ماننے لگتے ہیں۔ مذہبی کتابوں کی تعبیر و تفسیر کا یہ مسئلہ سارے ابراہیمی مذاہب کی کتابوں کے ساتھ ہوا ہے۔ چناں چہ ہم توراۃ اور انجیل کی واضح مثالیں دیکھ سکتے ہیں۔ قرآن میں کئی آیتیں استعارہ کے طرز پر ہیں اور کئی آیتیں ایسی ہیں جو بظاہر استعارہ سمجھی جاتی ہیں لیکن ایسا ہے نہیں۔ تخلیق کی استعارہ والی آیتوں میں سے دو کا تذکرہ ذیل میں کیا جاتا ہے۔
کیا یہ لوگ دیکھتے ہیں کہ ہم نے اپنے ہاتھوں کی بنائی ہوئی چیزوں میں سے ان کے لیے مویشی پیدا کیے اور اب یہ ان کے مالک ہیں۔ (یٰس ۷۱)
یہاں ’’اپنے ہاتھوں‘‘ کا تذکرہ استعارہ ہے۔
اس طرح تخلیق آدم کے موقع کا تذکرہ کرتے ہوئے قرآن اپنے تخلیقی بیانیے میں اس استعارے کو واضح کرتا ہے۔ ارشاد ہے
تجھے کیا چیز اس کو سجدہ کرنے میں مانع ہوئی جسے میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا۔ (ص: ۷۵)
اسی طرح جنوں کو آگ سے پیدا کیا۔ یہ آگ جس سے جنات پیدا کیے گئے ہیں۔ آگ کیا وہی آگ ہے جو ہم دیکھتے ہیں یا کچھ اور ہے! کوئی اور آگ ہے۔ ہمارے نزدیک قرآن کے تخلیقی بیانیے میں استعارے کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ ظاہر سی بات ہے تخلیق ایک پیچیدہ ترین عمل ہے۔ نیز اس کی ایسی وضاحت جو رہتی دنیا تک انسانوں کو مطمئن کر سکے اس کے لیے استعارہ سے بہتر اور کچھ ہو ہی نہیں سکتا تھا اور وہ استعارے بھی ایسے ہونے چاہیے تھے جو ہر دور کے ارتقا پذیرintellectual landscape کو مطمئن بھی کر سکیں اور اسے اپیل بھی کر سکیں چاہے وہ چودہ سوسال پہلے کا ذہن ہو یا ۲۱ویں صدی کا یا رہتی دنیا تک کا۔
(۴) یہ تخلیق مقصد کے ساتھ ہے: قرآن کے تخلیقی بیانیے اور نظریۂ ارتقا میں مقصدیت کے اعتبار سے اصولی تضاد ہے۔ لیکن یہ تضاد حقیقی نہیں ہے۔ اختیاری ہے۔ یعنی اس فرد پر انحصار کرتا ہے جس کا فکری تعامل نظریۂ ارتقا کے ساتھ ہو رہا ہے۔ مثلاً نظریۂ ارتقا ایک بے سمت اور بے مقصد عمل ہے کسی خاص منہج اور مقام تک پہنچنے کے تناظر میں۔ وہ کسی کو اس بات پر مجبور نہیں کرتا کہ وہ انواع کے وجود میں آنے کے طریقے اور تعاملات کی تفصیل کو جاننے کے بعد کسی فوق الفطرت ہستی کا منکر ہو جائے۔ اسی لیے ماضی میں بھی اور حال میں بھی خدا یا اِلٰہ یا فوق الفطرت ہستی کا تصور بیشتر محققین کے یہاںہمیں ملتا ہے۔ خود سائنسی حلقوں میں خدا کے متعلق محققین میں پائے جانے والے تصورات ایک دلچسپ تحقیق کا میدان ہیں۔ نظریۂ ارتقا کے بالمقابل قرآن کا تخلیقی بیانیہ اپنے آپ کو منواتا ہے۔ وہ انواع کے وجود میں آنے اور اس پوری کائنات کے وجود میں آنے کا ایک مقصد بیان کرتا نظر آتا ہے۔ وہ اپنے ماننے والوں سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ اس مقصد کے تحت روحانی ارتقا پر توجہ دیں۔ قرآن کا تخلیقی نظریہ رویے، ورلڈ ویو، ترجیحات، ان تمام کے لیے بنیادیں فراہم کرتا ہے۔ جب کہ نظریۂ ارتقا پر ان پہلوؤں سے خاموشی ہے۔ چناں چہ یہ بیانیہ کہتا ہے کہ حیات اور موت (disintegration) اس لیے تخلیق کیے، تا کہ انسانوں کو اختیار دے کر آزمایا جا سکے۔
جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تا کہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے کہ تم میں سے بہتر عمل کرنے والا کون ہے۔( سورہ الملک: 2)
اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے:
واقعہ یہ ہے کہ جو کچھ سرو سامان بھی زمین پر ہے اس کو ہم نے زمین کی زینت بنایا ہے تاکہ لوگوں کو آزمائیں ان میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔ (سورہ الکہف 7)
یعنی جو کچھ وجود میں آیا ہے وہ رینڈم نہیں ہے بلکہ بامقصد ہے۔ تا کہ رویہ، رجحانات، ترجیحات، سب کچھ آزمایا جا سکے۔
چناں چہ واضح ہو گیا کہ تخلیق مقصد کے ساتھ ہے جب کہ نظریۂ ارتقا مقصدیت کے ضمن میں خاموش ہے۔
(۵) تمام تر جانداروں کی تخلیق کا مادہ ’’مصدر‘‘ ایک ہے: قرآن کے تخلیقی بیانیے کا یہ نکتہ معنی خیز اور اہم ہے۔ سورۂ نور میں اس کا تذکرہ ملتا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے ’’اور اللہ نے ہر جاندار ایک طرح کے پانی سے پیدا کیا۔ (سورہ نور45) ’’ماء‘‘ عربی زبان میں کئی طریقوں اور معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کا سادہ اور قریب ترین مفہوم پانی ہی ہے لیکن اور بھی معنی لینے کی گنجائش اس لفظ میں ہے۔ اس بنا پر بہت سارے مفسرین یہ مانتے ہیں کہ یا تو تمام جاندار ’’ماء‘‘ سے وجود میں آئے یا ’’ماء‘‘ کے ذریعے وجود میں آئے، یا ماء سے ان کا وجود قائم ہے۔
تمام انسانوں کا مصدر بھی ایک ہی ہے۔ قرآن واضح طور پر بتاتا ہے کہ
اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ سے ڈرو جس نے تمھیں ایک نفس سے بنایا پھر اس سے اس کا جوڑا بنایا اور پھر اس سے بہت سے عورت ومرد ساری دنیا میں پھیلا دیے (سورہ نساء: ۱)
چناں چہ تمام نوع انسانی اسی ایک نفس سے تشکیل پاتی نظر آتی ہے۔
ان آیتوں سے ملتے جلتے مفہوم کی اور بھی کئی آیتیں قرآن کے تخلیقی بیانیے کی وضاحت کرتی نظر آتی ہیں۔
(۶) تخلیق مرحلہ وار ہے: قرآن کے اصولی تخلیقی بیانیے میں ایک اہم نکتہ مرحلہ وار تخلیق کا ہے۔ بائبل میں یہ مرحلہ وار تخلیق اتنی تفصیل کے ساتھ ہے کہ جدید سائنسی تحقیقات نے اس پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ لیکن قرآن میں مرحلہ وار تخلیق نسبتاً غیرتفصیلی ہے۔ قرآن میں سات آیتوں میں اس کا تذکرہ ہے کہ اللہ نے زمین و آسمان کو چھ دنوں میں بنایا ہے۔
۱۔ حقیقت یہ ہے کہ تمھارا رب اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا۔ (الاعراف 7)
۲۔ حقیقت یہ ہے کہ تمھارا رب وہی اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا۔ (سورہ یونس 3)
۳۔ وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا۔ اس سے پہلے اس کا عرش پانی پر تھا۔ (سورہ ہود 7)
۴۔ وہ جس نے چھ دنوں میں زمین اور آسمان کو اور ان ساری چیزوں کو بنا کر رکھ دیا جو آسمان اور زمین کے درمیان ہیں۔ اور پھر آپ ہی عرش پر جلوہ افروز ہوا۔ (سورہ فرقان 59)
۵۔ وہ اللہ ہے جس نے آسمان اور زمین کو اور ان ساری چیزوں کو جو ان کے درمیان ہیں چھ دنوں میں پیدا کیا۔ اور اس کے بعد اپنے عرش پر جلوہ افروز ہوا۔ (سورہ سجدہ ۴)
۶۔ ہم نے زمین اور آسمان اور ان کے رمیان کی ساری چیزوں کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور ہمیں کوئی تھکان لاحق نہ ہوئی۔ (سورہ ق ۳۸)
۷۔ وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور پھر عرش پر جلوہ افروز ہوا اس کے علم میں ہے جو کچھ زمین میں جاتا ہے اور جو کچھ اس سے نکلتا ہے۔ (سورہ حدید ۴)
مندرجہ بالا 7 آیتوں میں غور کرنے کے بعد جو بصراحت بات سمجھ میں آتی ہے کہ زمین اور آسمان کی پیدائش اور ان میں موجود تمام مخلوقات و اشیا کی پیدائش اللہ ہی نے کی ہے۔ یعنی بطور خالق اللہ نے یہ بات الگ الگ لاحقوں کے ساتھ سات مرتبہ دہرائی ہے۔ اسی طرح یہ آیتیں نہ صرف کائنات کی تخلیق کے مختلف ادوار اور مراحل کی طرف اشارہ کرتی ہیں بلکہ ایک استعارۂ ’’عرش‘‘ بھی اپنے اندر رکھتی ہیں۔
اکثر محققین و مفسرین مانتے ہیں کہ اللہ کا عرش پانی پر ہونا استعارہ ہے۔ وہ کون سا پانی ہے۔ پانی ہے یا کوئی مائع ہے۔ یا سیال جیسی کوئی شے ہے۔ یہ تمام ممکنات استعاراتی نوعیت ہی کے ہیں بعض مفسرین ان آیات کو متشابہات میں بھی رکھتے ہیں۔ اسی طرح سورہ اعراف آیت 54 میں اس کا خلق ہے اسی کا امر ہے اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ خلق صرف اللہ کے ساتھ خاص ہے۔ وہ محض قوانین پر منحصر نہیں ہے، وہ ساری خلق جو ہم قوانین فطرت کے علی الرغم دیکھتے ہیں اور انھیں اسثنائیات کے درجے میں ڈال دیتے ہیں۔ وہ ان قوانین کے استثنائیات نہیں ہیں بلکہ اس بات کا اظہار ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے امر (حکم) سے مخلوق قوانین کے علی الرغم بھی وجود میں آ سکتی ہیں۔ اس لیے نیچری طرز فکر سے نکتۂ انحراف یہاں مزید گہرا ہو جاتا ہے۔ نیچری طرز فکر قوانین فطرت کو تخلیقیت کے لیے ذمہ دار مانتی ہے جب کہ مندرجہ بالا ۷ آیتیں تخلیق کو خالصتاً اللہ کے لیے مخصوص کرتی ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تخلیق کی ابتدا اور قوانین کو منضبط کردیا تاکہ ہم تخلیق کے میکانسٹک پہلوؤں کی کھوج کر سکیں۔
اسی طرح چھ دنوں کی تفصیل بھی بہت دلچسپ ہے۔ اگر اس دلیل کو مانیں کہ قرآن کی سب سے بہترین تفسیر خود قرآن کرتا ہے تودن کی لفظی بحث کے علاوہ خود قرآن سے دن کی تفسیر بڑا دلچسپ منظرنامہ سامنے لاتی ہے۔ مثلاً سورۂ حج میں آیت 47 میں فرمایا گیا :
حقیقت یہ ہے کہ تیرے رب کے یہاں ایک دن کی مقدار ایک ہزار سال کے برابر ہے اس حساب سے جو تم لگاتے ہو۔
لیکن یہاں بھی واضح ہو کہ ایک ہزار سال کا لازمی مطلب 1000 سال مجرد نہیں ہے بلکہ جس طرح سورۃ القدر میں وضاحت کی گئی کہ ’’یہ رات ہزار سال سے بہتر ہے۔ ‘‘ اس کا مطلب بہت زیادہ سے آتا ہے۔ اسی طرح دوسری آیت جو سورۂ معارج میں آئی ہے ترجمہ:فرشتے اور جبرئیل اس کی طرف ایک دن میں چڑھتے ہیں جس کی تعداد پچاس ہزار سال کی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک دن کی مقدار 50 ہزار سال بھی ہو سکتی ہے۔
اس کا ایک مفہوم بعض حضرات یہ نکالتے ہیں کہ ہمارے ایک دن کی مقدار کم از کم ایک اور زیادہ سے زیادہ 50 ہزار سال ہوسکتی ہے۔ ہمارے نزدیک یہ قیاس غلط ہے کیوں عربی لغت اور قرآن میں اس معنی کے لیے واضح دلائل نہیں ہیں۔ کیوں کہ عربی لغت میں زیادتی کے الگ الگ استعارے استعمال ہوتے ہیں۔ ہزار یا 50 ہزار بھی بطور استعارہ یا تمثیل کے ہے۔ قرآن کی تفسیر اور لغت کے حوالے سے مناسب نتیجہ یہی نکالا جا سکتا ہے کہ یوم کی انسانی مقدار کا تعین مشکل یا مشتبہ ہے اس لیے یوم کو عرصہ سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے، ایک دورانیہ سے بھی اور ایک طویل وقفہ سے بھی۔
چناں چہ مذکورہ بالا 7 آیتوں کے علاوہ تخلیقی بیانیہ میں ادوار یا ترتیب یا منصوبہ بندی کا ایک اہم ثبوت درج ذیل آیت بھی ہے۔ سورہ البقرہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے
وہی تو ہے جس نے تمھارے لیے زمین کا فرش بنایا۔ پھر اوپر کی طرف توجہ فرمائی اور سات آسمان استوار کیے۔ (البقرہ 29)
یہ آیت بغیر کسی شبہ کے اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ زمین کی تخلیق پہلے کی گئی اور پھر سات آسمان استوار کیے۔ یہاں اوپر کی طرف توجہ بھی استعارے کے طور پر ہے کیوں کہ اوپر اور نیچے ایک اضافی اصطلاح ہے، جو زمین پر انسان کے تناظر میں ہے۔ کیوں کہ سر اوپر اٹھا کر انسان آسمان کی جانب دیکھتا ہے۔ جب کہ خلا میں اوپر اور نیچے کا تصور ختم ہو جاتا ہے اور وہاں ریفرنس پوائنٹ خلا باز اور اس کا جہاز بن جاتا ہے۔
اسی مرحلہ واریت کا ایک اور ثبوت اس آیت سے ملتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ
اے نبی! ان سے کہہ دو کیا تم اس خدا سے کفر کرتے ہو اور دوسروں کو اس کا ہمسر ٹھہراتے ہو جس نے زمین کو دو دن میں بنا دیا۔ (سورہ حم سجدہ ۹)
یعنی زمین کی تخلیق دو دن میں کی گئی۔ یا دو مرحلوں میں کی گئی یا دو وقفوں میں وقوع پذیر ہوئی یا دو دورانیوں میں اسے وجود میں لایا گیا ہے۔
قرآن میں تخلیق انسانی کے ادوار رحم مادر میں بھی بیان ہوئے ہیں۔ بعض جدید محققین اسے تخلیق انسان کے میکانسٹک پہلوؤں کی علامتی تشریح کے طور پر دیکھتے ہیں۔ یہ آیتیں متعدد مقامات پر ہیں۔ لیکن دو وجوہ کی بنیاد پر یہ قیاس درست نہیں کہا جا سکتا۔
۱۔ جہاں جہاں یہ آیتیں وارد ہوئی ہیں ان میں واضح طور پر سیاق و سباق میں رحم مادر میں انسانی تخلیق کے مراحل کا تذکرہ ہے۔ اس لیے ان سیاق و سباق کے واضح ہونے کے باوجود ان سے وہ معنی جو سیاق و سباق سے بالکل جدا ہوں نکالنا قرآن فہمی کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔
۲۔ قرآن خود آپ اپنی بہترین تفسیر ہے کہ مسلّم اور صحیح تر اصول کو ماننے کے بعد ان تمام آیتوں کا بغور مطالعہ بتاتا ہے کہ اس قبیل کی تمام آیتیں آپس میں ایک دوسرے سے تعامل کرتی دکھاتی دیتی ہیں۔ کہیں وہ ایک دوسرے کی وضاحت کرتی ہیں۔ کہیں ایک دوسرے کی تکمیل کرتی ہیں۔ کہیں مضمون میں شدت پیدا کرتی ہیں اور کہیں مضمون میں اضافہ کرتی ہیں۔ اس لیے گو کہ یہ آیتیں غیر معمولی اہمیت کی حامل ہیں اور قرآن کے تخلیقی بیانیہ کا ناگزیر حصہ ہیں اس کے باوجود بھی بالاصل یہ آیتیں انسانی جنین کے رحم مادر میں ادوار اور نشوو نما کے بنیادی اصولوں سے متعلق ہی کہی جا سکتی ہیں۔
(۷) تخلیقی مادے اور تخلیقی طریقے کے سلسلے میں مختلف تعبیریں: قرآن کے تخلیقی بیانیہ کے سب سے اہم نکات میں سے ایک نکتہ انسانی تخلیقی مادے کا ہے۔ عام طور پر یہ مانا جاتا ہے کہ انسان مٹی سے بنا ہے۔ جو قرآن کی کئی آیتوں میں مذکور ہے۔ لیکن کون سی مٹی؟ مثلاً درج ذیل آیت ملاحظہ ہو:
وہی ہے جس نے تمھیں مٹی سے پیدا کیا۔ (سورۃ الانعام 2)
بالکل صاف بات ہے اور سمجھ میں آجاتی ہے کہ مٹی استعارہ ہے یعنی مٹی کے اجزاے ترکیبی اور انسان کے کیمیائی اجزاے ترکیبی تقریباً یکساں ہیں۔ لیکن ایک دوسری جگہ ارشاد ہوا ہے:
’’ہم نے انسانوں کو سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے بنایا۔ ‘‘ (سورہ حجر 26)
خمیر اٹھی ہوئی مٹی اور مٹی دونوں میں بہر حال فرق ہے۔ ایک اور جگہ ارشاد ہوا ہے:
’’ہم نے انسان کو مٹی کے ست سے بنایا ہے۔ ‘‘ (سورہ مومنون12)
اب مٹی، خمیر اٹھی ہوئی مٹی اور مٹی کا ست ان تمام الفاظ کے عربی کی چھان بین کریں تو لسانیات کا ایک pandora box کھل جاتا ہے۔ اسی طرح سورہ الصافات میں ارشاد ہوا ہے:
’’انسان کو تو ہم نے لیس دار گارے سے پیدا کیا۔ ‘‘ (سورہ الصافات 11)
اوپر دی گئی چار آیتوں کے مضامین تھوڑے الفاظ کے رد و بدل کے ساتھ یا بعینہ دوسری جگہوں پر بھی آتے ہیں۔ ان آیتوں کے ساتھ پھر آپ انسانی طریقۂ تخلیق کو ملا کر دیکھیے تو ذیل کے نکات اخذ کیے جا سکتے ہیں:
۱۔ تخلیقی مادہ تو بہر حال ’’مٹی‘‘ہے لیکن مٹی میں کون سا ہے؟ اس پر تحقیق کے لیے میدان کھلا ہے چناں چہ قارئین زندگی کی ابتدا کے متعلق گذشتہ قسطوں میں بیان کیے گئے 5 مشہور نظریات کا اعادہ کر لیں۔
۲۔ طریقۂ تخلیق کی زیادہ تر آیتیں استعارے کی نوعیت کی ہیں اس لیے طریقۂ تخلیق مختلف فیہ ہو سکتا ہے۔ آدم کی تخلیق کا استعاراتی پہلو بالکل واضح ہے۔
۳۔ تخلیق کے سلسلے میں بعض ایسے اشارات ہیں جن پر از سرِ نو غور و فکر کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ مثلاً یہ آیت کہ
کیا انسان پر کوئی ایسا وقت بھی گزرا ہے جب کہ وہ کوئی قابلِ ذکر شے نہ تھا۔ (سورۃ الانسان: ۱)
اس کی قریب ترین تشریح یہ کی جاتی ہے کہ جب وہ نطفہ تھا۔ یا جب وہ محض طفل تھا، یا جب اس تک رشد و ہدایت نہیں پہنچی تھی، یا اس قبیل کی دوسری تشریحات لیکن اس آیت کی بالکل ایک الگ تفسیر بھی ممکن ہے۔
قرآن کا تخلیقی بیانیہ کئی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے۔ خصوصاً جب کہ انجیل کے تخلیقی بیانیے کو لے کر علمی سطح پر غیر معمولی جد و جہد اور سائنسی و فلسفیانہ موشگافیوں کے باوجود کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ اس ضمن میں درج ذیل نکات اہم ہیں۔
کیا قرآن کے تخلیقی بیانیہ میں اور نظریۂ ارتقا میں جوہری نوعیت کے تضادات ہیں؟ جواب ہے ’’ہاں‘‘۔
کیا قرآن کے تخلیقی بیانیہ میں اور نظریۂ ارتقا میں جوہری اور اصولی نوعیت کی مماثلتیں ہیں؟ جواب ہے ’’ہاں‘‘۔
کیا قرآن کے تخلیقی بیانیے اور نظریۂ ارتقا کے تقابل میں ایسے پہلو سامنے آتے ہیں جو دقت طلب ہیں یا واضح نہیں ہیں؟ منکشف ہونے ہیں؟ مبہم ہیں؟ مزید تحقیق کے طالب ہیں؟ جواب ہے ’’ہاں‘‘۔
کیا نظریۂ ارتقا کو کامل طور پر رد کر دیا جانا چاہیے۔ ہمارا جواب ہوگا ’’نہیں‘‘۔
مندرجہ بالا نکات پر ذیل کی سطور میں مختصراً روشنی ڈالی جاتی ہے۔
نظریۂ ارتقا اور قرآن کا تخلیقی بیانیہ
گذشتہ صفحات میں دیے گئے دونوں جدول قرآنی
تخلیقی بیانیے اور تصور ارتقا کے تعامل کو ظاہر کرتے ہیں۔
جدول——————————————————–
ان کا تجزیہ ہمیں درج ذیل نکات تک پہنچاتا ہے:
۱۔ قرآن کے تخلیقی بیانیے اور تصور ارتقا میں بعض جوہری مماثلتیں ہیں۔ بعض جوہری تضادات ہیں اور بعض ایسے پہلو ہیں جو دونوں بیانیوں میں تحقیق طلب ہیں۔
۲۔ تصور ارتقا اور نظریۂ ارتقاے انسانی اکتسابی علم ہے اور قرآنی تخلیقی بیانیہ وحی پر مبنی ہے۔ دونوں بیانیے دو مختلف طریقۂ علم اور مختلف علمی ذرائع سے تشکیل پاتے ہیں۔
۳۔ دونوں بیانیے اصلاً دو مختلف ورلڈ ویو تخلیق دیتے ہیں۔ ایک وحی پر مبنی مقصدیت دیتا ہے انسان اور اس کارخانۂ حیات میں اختیاری رویہ کا ضامن ہے۔ دوسرا فرد کو واضح مقصدیت نہیں دیتا لیکن کسی بھی مقصدیت کو اختیار کرنے کی ضمانت دیتا ہے۔
۴۔ نظریۂ ارتقاے انسانی مجرد معنوں میں نہ الحاد کا حامی ہے اور نہ ہی الحاد کے لیے غذا فراہم کرتا ہے۔ بلکہ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا سیاسی، معاشی، سماجی، انفرادی و اجتماعی جبر و استبداد اور ظلم و جور کے لیے افراد، ادارے، حکومتیں مذہبی بیانیے کا استعمال کرتی ہیں۔ بالکل اسی طریقے پر جدید الحاد کے حامی اور اس کے پھیلانے والے نظریۂ ارتقا کا استعمال کرتے ہیں۔ جس طرح مذہبی بیانیہ ارتقا کو تمام فساد کی جڑ مانتا ہے اور اس کے سماجی و سیاسی اور تمدنی برے اثرات کا ذکر کرتا ہے اور دنیا کے بیشتر فساد کو نظریۂ ارتقا سے بالواسطہ یا بلا واسطہ جوڑتا ہے، بالکل اسی طرز پر الحاد کے حاملین مذہبی بیانیے کو دنیا میں سارے جھگڑوں کی جڑ مانتے ہیں۔
۵۔ یہ بات درست ہے کہ نظریۂ ارتقا انسان اور دیگر مخلوقات کے وجود میں آنے کے میکانسٹک پہلوؤں سے بحث کرتا ہے لیکن وہ اس بات کی ضمانت نہیں دیتا اور نہ ہی اس کے لیے محقق کو مجبور کرتا ہے کہ وہ ملحد ہو جائے یا تصورِ خالق کا منکر ہو جائے۔
۶۔ نظریۂ ارتقاے انسانی کے تمام تر اصولوں میں اضافیت کا پہلو اب ابھرنے لگا ہے۔ مثلاً خورد ارتقا کے لیے کہا جا سکتا ہے کہ یہ تقریباً ثابت شدہ امر ہے لیکن کلاں ارتقا میں ہر سطح پر خلا ہیں۔ ارتقا کو ماننے والے اس تقسیم کو تخلیقیت کے ماننے والوں کا دھوکہ بتاتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ طبعی انتخاب، جین ڈرفٹ، تنازع للبقا اگر خورد ارتقا کی ضمانت دیتے ہیں تو ایک طویل عرصے تک خورد ارتقا، کلاں ارتقا کی طرف لے جاتا ہے۔ لیکن اس ضمن میں ہو رہی طویل ترین تحقیقات بھی کلاں ارتقا کے مفروضاتی شواہد سے آگے نہیں بڑھ پائی ہیں۔ اس لیے ہم یہ ماننے پر مجبور ہیں کہ تصور ارتقا کی تمام تر صحت کے باوجود اب بھی کلاں ارتقا کے شواہد اتنے متاثر کن نہیں ہیں جتنے خورد ارتقا کے۔ نیز سالماتی حیاتیات میں ہونے والی تحقیقات تو خود نظریۂ ارتقا کے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی کا تقاضا کر رہی ہیں۔ مثلاً وہ تمام جین جو بیکٹیریا سے لے کر انسان تک میں مشترک ہیں ان کی موجودگی کی وضاحت محض فٹنس والے ماڈل سے نہیں کی جا سکتی۔ اسی طرح ایک عمومی جینیاتی مادہ یا کوڈ سے تمام جانداروں کا مصدر بھی محض طبعی انتخاب سے تشریح نہیں کیا جا سکتا۔ چناں چہ تصور ارتقا تو یقیناً بڑی حد تک ثابت شدہ امر ہے لیکن اس پورے تصور میں اصولی لچک اختیار کیے بغیر یہ نظریۂ صحت کے اصولوں پر پورا نہیں اتر پاتا۔
۷۔ اصل بات یہ ہے کہ تصور ارتقا و نظریہ ارتقاے انسانی اور خورد و کلاں ارتقا ان سب نظریات و تصورات کو بالکل ایک نئے اور جدید عدسے سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ ضرورت سائنس کے حاملین اور مذہبی کتابوں کے ماہرین دونوں کے لیے یکساں ہے۔ ہمارے نزدیک تصور ارتقا اور نظریۂ ارتقاے انسانی میں فرق کیا جانا چاہیے۔ تصور ارتقا تبدیلی سے عبارت ہے۔ تصور ارتقا میں یہ سوال اہم ہے کہ تبدیلی واقع کیسے ہوتی ہے۔ ڈارون نے تصور ارتقا کے اس سوال کے جواب میں فطری انتخاب، تنازع للبقا اور descent with modification کے تصورات پیش کیے۔ جینیاتی ماہرین نے gene drift کو اس تبدیلی کے لیے ذمہ دار بتایا۔ لیکن صورت حال یہ ہے (جیسا کہ پچھلے مضامین میں تذکرہ آ چکا) کہ تصور ارتقا کے لیے ذمہ دار تمام عوامل فطرت میں موجود ہزارہا تنوع کی وضاحت نہیں کر پاتے۔ انسان جیسی پیچیدہ ترین مخلوق کا وجود مکمل طور پر مندرجہ بالا تصورات سے وضاحت پذیر نہیں ہوتا۔
اس لیے تصور ارتقا اور نظریہ ارتقا ے انسانی میں فرق کرتے ہوئے جدید سائنس داں تصور ارتقا کو ڈارونیم یا نظریہ ارتقا ے انسانی سے الگ کرنے کی بات کرنے لگے ہیں۔ کیوں کہ تصور ارتقا خورد ارتقا کے لیے کافی شواہد فراہم کرتا ہے لیکن کلاں ارتقا کے لیے نہیں۔
چناں چہ اس صورت حال میں نظریہ ارتقاے انسانی کو ماننے کے لیے مفروضاتی شواہد یا extensional arguments دلائل کے سوا اور کچھ باقی نہیں بچتا۔ دوسرے یہ کہ نظریہ ارتقاے انسانی کو ماننے کے بعد مقصدیت، امید اور رویوں کو منضبط کرنے کی بنیادیں باقی نہیں رہتیں۔ سیکولر ہیومنیزم کا متبادل جو نظریہ ارتقاے انسانی کے ماننے والے دیتے ہیں خود اس کے ساتھ بھی ان بنیادوں کا مسئلہ ہے۔
چناں چہ تصور ارتقا اور نظریہ ارتقاے انسانی کو الگ الگ کر کے یہ دیکھا جانا چاہیے کہ قرآن کا تخلیقی بیانیہ کس طرح سے ایک بہتر متبادل فراہم کرتا ہے اور انسانی تہذیب کو مقصدیت، امید اور رویوں کو منضبط کرنے کی بنیادیں فراہم کرتا ہے۔■