نريندر مودی اور راہل گاندھی کی کورونالوجی
ماہرينِ معاشيات کے انٹرويوز سے حکومت کے طريقہ کار کي خامياں آشکار
ڈاکٹر سليم خان
دنيا ميں بڑي سے بڑي تباہي آجائے ليکن سياست داں اس ميں اپنے اپنے انداز ميں کام کرتے رہتے ہيں البتہ ان ميں ظرف کا فرق ہوتا ہے۔ کوئي پر وقار انداز ميں سياست چلاتا ہے تو کوئي پھوہڑ انداز ميں اپنے سياسي مقاصد حاصل کرتا ہے۔ مشکل حالات کو اپنے حق ميں موڑ لينے کے فن سے وزير اعظم خوب واقف ہيں۔ کورونا کي بابت وہ اپنے رفيقِ خاص ڈونلڈ ٹرمپ کي مانند اس خوش فہمي ميں مبتلا تھے کہ اس وباء سے ان کا ملک محفوظ رہے گا اس ليے اسے سنجيدگي سے لينے يا بر وقت تياري شروع کرنے کو ضروري نہيں سمجھا گيا۔ ليکن جب يہ آفت دروازے پر دستک دينے لگي تو اس سے اپنے مخصوص انداز ميں فائدہ اٹھانے کي سعي شروع کردي گئي۔ وزير اعظم کو تقرير اور علامتي خوشامد بہت پسند ہے انہوں نے اپنے پہلے خطاب ميں جنتا کرفيو کا شوشہ چھوڑا اور عوام کو تالي، تھالي اور شنکھ وغيرہ پھونکنے کا مشورہ ديا۔ اس کام کے ليے بہت سوچ سمجھ کر اتوار کے دن کا انتخاب کيا گيا اور يہ تجربہ اتنا زيادہ کامياب رہا کہ بھکتوں کو رقص وسرود کے جشن ميں فاصلے والي نصيحت ياد ہي نہيں رہي۔ خير ميڈيا نے اسے کووڈ-۱۹ پر مودي جي کي اولين فتح قرار دے ديا۔ اس مشق سے کورونا کا تو کوئي نقصان نہيں ہوا مگر پردھان جي کا زبردست سياسي فائدہ ہوگيا۔
اس کے بعد سمجھ ميں آيا کہ اس طرح کي نوٹنکي سے کورونا کا پھيلاو نہيں رکنے والا۔ اب انہوں نے نوٹ بندي کي مانند سنسني خيز انداز ميں ديش بندي کا اعلان کر ديا۔ اس بار نصف فائدہ ہوا يعني معاشرے کے متوسط اور امير طبقے نے تو اس کو برداشت کر ليا مگر غريب مزدور سڑک پر نکل آئے اور مودي جي کي جو جہاں ہے وہيں رہے کي تلقين کو ٹھکرا ديا۔ اس کي وجہ سے وزير اعظم کي اچھي خاصي سبکي ہوئي۔ اس سے نہ صرف يہ بات ظاہر ہوگئي کہ يہ غلط فيصلہ تھا بلکہ يہ بھي پتہ چل گيا کہ اس ملک کي ايک بہت بڑي آبادي وزير اعظم کو خاطر ميں نہيں لاتي۔ اپني ساکھ کو بحال کرنے کے ليے مودي جي نے تيسرا تماشا يہ کيا کہ عوام کو رات ۹ بج کر ۹ منٹ پر ۹ منٹ کے ليے بتي بجھا کر، دِيا، موم بتي يا ٹارچ جلانے کا فرمان جاري کر ديا۔ اس ميں بھي کچھ بھکت حد سے گزر گئے اور کسي نے مشعل کے ساتھ جلوس نکالا تو کوئي پٹاخے پھوڑ کر بے وقت کے ديوالي منانے لگا۔ مودي جي نے سوچا ان پاگلوں کو کچھ کہو تو کچھ اور ہي کرتے ہيں اس ليے چوتھي بار انہوں نے اپنے من کي بات تو پيش کي ليکن کوئي نيا کام کرنے کے ليے نہيں کہا بلکہ اپنے پاس پڑوس کے فاقہ کشوں کي بھوک مٹانے کا مشورہ ديا۔ اس طرح کے کاموں ميں بھلا بھکتوں کو کيا مزہ آتا اس ليے کسي نے دلچسپي نہيں دکھائي اور وزير اعظم کا بھي موہ بھنگ ہوگيا۔ اس کے بعد وہ عوام سے خطاب کرنے ليے نہيں آئے بلکہ لاک ڈاون کي توسيع کا اعلان کرنے کي زحمت بھي گوارہ نہيں کي ۔
حزبِ اختلاف کے رہنما راہل گاندھي بھي اس دوران خاموش نہيں رہے۔ پہلے تو انہوں نے ٹويٹ کے ذريعہ سے خبروں ميں بنے رہنے کوشش کي ليکن ان کي توجہ سياست کے بجائے معيشت پر مرکوز تھي۔ انہوں نے حکومت کو مختلف مشورے دے کر عوام کے بجائے خواص کي توجہ اپني جانب مبذول کرنے کي کوشش کي اور انہيں اس ميں کسي قدر کاميابي بھي ملي۔ اس کے بعد انہوں نے ۱۴ اپريل کو ايک آن لائن پريس کانفرنس کا اعلان کر ديا۔ يہ نہايت شاطرانہ اقدام تھا۔ ہر سياسي رہنما کے ليے يہ لازم ہے کہ اس کو اپني اور اپنے حريف کي کمزوري وخوبي کا اندازہ ہو۔ ايک زمانے ميں راہل کي کمزوري يہ تھي کہ وہ نرم خو چاکليٹ بوائے ہوا کرتے تھے اس ليے مودي جي نے انہيں شہزادہ اور بھکتوں نے پپو کے لقب سے نواز ديا۔ يہ شبيہ ان کے پيروں کي سب سے بڑي بيڑي تھي۔ گجرات کي انتخابي مہم ميں انہوں نے اسے توڑ کر پھينک ديا اور تين صوبوں ميں کانگريس کي کاميابي کے بعد وہ کلنک ان کي پيشاني سے مٹ گيا۔ رافيل کي مہم اور چوکيدار چور کے مکالمہ نے بي جے پي کو مدافعت پر مجبور کر ديا۔ راہل کے جارحانہ انداز پر پلوامہ اور ائير اسٹرائيک غالب آگئے اور انہيں خاطر خواہ انتخابي فائدے سے محروم کر ديا حد تو يہ ہے کہ انہيں اپنے روايتي گڑھ اميٹھي ميں بھي ہار کا سامنا کرنا پڑا۔
راہل گاندھي کو معلوم ہے کہ وہ في الحال نريندر مودي سے بہتر تقرير نہيں کرسکتے ليکن ان کو يہ بھي معلوم ہے کہ پريس کانفرنس ميں اخبار نويسوں کے برجستہ سوالات کا جواب دينا مودي جي کے بس کا روگ نہيں ہے۔ مودي جي اپنے خطاب ميں عوام کو وعظ ونصيحت تو کر سکتے ہيں ليکن معيشت پر گفتگو نہيں کرسکتے۔ اس ليے راہل گاندھي نے بہت سوچ سمجھ کر اپني يہ حکمت عملي طے کي۔ يہ عام سي بات ہے کہ عوام متبادل ميں کچھ مختلف ديکھنا چاہتے ہيں يا پھر نقل کے بجائے اصل کو ترجيح ديتے ہيں۔ نريندر مودي نے بھي ۲۰۱۴ ميں يہي کيا تھا۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ پڑھے لکھے اعليٰ افسر تھے۔ مودي جي نے خود کو عام چائے والا بناکر پيش کيا۔ منموہن کام تو کرتے تھے مگر بولتے نہيں تھے مودي جي نے بول بچن شروع کر ديے۔ اس وقت عوام کي توجہات کا مرکز بدعنواني کے خلاف ملک گير تحريک تھي اور لوگ يہ سوچنے لگے تھے کہ منموہن بھلے ہي خود کرپٹ نہ ہوں ليکن کرپشن کو روکنے کي سکت ان ميں نہيں ہے۔ ايسے ميں ۵۶ انچ کا سينہ اور نہ کھاوں گا نہ کھانے دوں گا جيسے نعروں نے جادو کر ديا اور منموہن کا تختہ پلٹ کر مودي اقتدار ميں آگئے۔ معلوم ہوا کہ وقت کے ساتھ رہنما اور عوام بدلتے رہتے ہيں ليکن دونوں کي نفسيات اور سوچنے کا انداز نہيں بدلتا۔
راہل گاندھي کي پريس کانفرنس سے قبل اس بات کا ذکر اہم ہے کہ گزشتہ ۶ سالوں کے دورِ اقتدار ميں وزير اعظم نريندر مودي نے ايک مرتبہ بھي کھلي پريس کانفرنس سے خطاب کرنے کي جرأت نہيں کي۔ دوسري مرتبہ انتخابي کاميابي کے بعد جب وہ بي جے پي کے دفتر ميں منعقدہ پريس کانفرنس ميں آئے تو اخبار نويسوں نے سوچا کہ اب ايک نئے دور کا آغاز ہونے جا رہا ہے جس ميں مودي جي ان کے سوالات کے برجستہ جوابات مرحمت فرمائيں گے ليکن جلسوں ميں گرجنے والا وزير اعظم وہاں ۱۷ منٹ تک دم سادھے بيٹھا رہا۔ اس پر ان کا اس قدر مذاق اڑايا گيا کہ دوبارہ انہوں نے يہ غلطي نہيں کي۔ اس وقت راہل گاندھي نے تمسخر اڑاتے ہوئے ٹويٹ کيا تھا کہ ’’مودي جي مبارک ہو۔ شان دار پريس کانفرنس! آپ کا نظر آنا نصف جنگ ہے۔ اگلي بار مسٹر شاہ آپ کو ايک دو سوالوں کا جواب دينے کي اجازت ضرور ديں گے۔ شاباش!‘‘
اس کے بعد ايک پريس کانفرنس کر کے راہل نے کہا تھا کہ ’’ميں نے سنا کہ بعض صحافيوں کو وزير اعظم کي پريس کانفرنس ميں جانے نہيں ديا گيا، اس ليے ميں يہيں سے ان سے سوال کرتا ہوں کہ آپ نے رافيل پر ميرے کسي سوال کا جواب کيوں نہيں ديا؟‘‘ مودي جي پر تنقيد کرنے والے راہل گاندھي اکيلے نہيں تھے بلکہ کولکاتہ کے اخبار ’دي ٹيلي گراف‘ نے اپنے صفحہ اول پر جگہ خالي چھوڑ کر لکھا، ’’يہ جگہ مختص ہے، اس کو وزير اعظم نريندر مودي کي پريس کانفرنس ميں سوالات کے جواب سے بھرا جائے گا‘‘۔ اس وقت عندليب شاداني کا يہ شعر مودي جي کي حالت پر ہو بہو صادق آگيا تھا؎
دير لگي آنے ميں تم کو شکر ہے پھر بھي آئے تو
آس نے دل کا ساتھ نہ چھوڑا ويسے ہم گھبرائے تو
پہلے لاک ڈاون سے ايک دن قبل ۱۶ اپريل کو اپني پہلي کووڈ پريس کانفرنس ميں راہل گاندھي نے واضح کيا کہ ان تبصروں کو تنقيد نہيں بلکہ مشورہ سمجھا جائے۔ يہ بات بہت اہم تھي ورنہ ميڈيا تو باتوں کا بتنگڑ بنانے پر تلا رہتا ہے۔ انہوں نے لاک ڈاون کو پاز بٹن قرار ديتے ہوئے کہا تھا اس سے بات بني نہيں ٹلي ہے۔ راہل نے زيادہ سے زيادہ ٹيسٹنگ پر زور دے کر ياد دلايا کہ اُس وقت ملک ميں جانچ کي شرح دس لاکھ ميں صرف ۱۹۹ تھي۔ اس کے ساتھ ضلع اکائيوں کو مضبوط کرنے اور رياستوں کو جي ايس ٹي کي رقم مہيا کرنے کا مطالبہ کيا۔ وزير اعظم کے بارے ميں يہ مشہور ہوگيا ہے کہ وہ ماہرين سے مشورہ نہيں کرتے۔ اس پہلو کو اجاگر کرنے کے ليے راہل گاندھي نے سابق آر بي آئي سربراہ رگھو رام راجن سے عوامي انٹرويو کيا اور ان سے کورونا وائرس کے معاشي نقصانات اور ان پر قابو پانے کے لائحہ عمل پر گفتگو کي۔ راہل نے راجن سے فوري توجہ طلب مسائل اور ملک کے غريبوں کو موجودہ بحران سے باہر نکالنے کے ليے درکار وسائل وغيرہ پر استفسار کيا۔
راہل گاندھي کے ذريعہ کيے جانے والے سوالات سے لوگوں اندازہ ہوا کہ انہيں قومي مسائل کا ادراک تو ہے۔ ملک کو مختلف علاقوں ميں تقسيم کرکے معاشي سرگرميوں کا آغاز اور غريبوں پر تقريباً 65 ہزار کروڑ روپيے خرچ کر دينا (جو 200 لاکھ کروڑ کي جي ڈي پي کا عشرِ عشير بھي نہيں) جيسے مشورے سامنے آئے۔ اس کے بعد راہل نے دوسرا انٹرويو نوبل انعام يافتہ ماہر معاشيات ڈاکٹر ابھجيت بنرجي کے ساتھ کيا۔ انہوں نے بھي معيشت کو بہتر بنانے کے ليے لوگوں کے ہاتھ ميں پيسہ دے کر طلب بڑھانے پر زور ديا۔ يہ ظاہر بات ہے کہ طلب ورسد کے بغير معيشت کي گاڑي نہيں چل سکتي۔ اسي کے ساتھ غريبوں اور مہاجر مزدوروں کو غير علاقائي بنياد پر راشن کارڈ دينا تاکہ جو جہاں ہے وہيں سے اناج حاصل کر سکے، ايسے حل سامنے آئے۔ اس کے علاوہ متوسط اور بڑي صنعتوں کي مدد کرنا تاکہ بيروزگاري دور ہو سکے اس کے علاوہ مرکزيت کے بجائے علاقائي سطح پر فلاحي اسکيموں پر عمل کرنے کا مشورہ ديا گيا۔
يہ حسنِ اتفاق ہے کہ ان دونوں انٹرويوز ميں ايسي باتيں نکل کر آگئيں کہ جو مرکزي حکومت کے طريقۂ کار سے متضاد ہيں۔ موجودہ حکومت پي ايم او کے اندر سے کام کرنے ميں يقين رکھتي ہے اور ماہرين اسے ضلع کي سطح تک لے جانے کا مشورہ ديتے ہيں۔ حکومت عوام اور صنعت کاروں پر روپيہ خرچ کرنے سے کترا رہي ہے اور مہاجر مزدوروں کے معاملے ميں ناکام ہو رہي ہے وغيرہ ۔ ان باتوں سے ملک کے دانشور، صنعت کار اور عام لوگوں نے بھي يہ محسوس کيا ہوگا کہ وزير اعظم کے عمومي ونمائشي مشوروں کے علي الرغم اس گفتگو ميں فلاح وبہبود کي ٹھوس حکمت عملي کي بُو آ رہي ہے۔ اس کے بعد راہل گاندھي نے جو اپني دوسري پريس کانفرنس کي تو ان ميں بلا کا اعتماد تھا۔ اس ميں لوگ کُھل کر سوال کر رہے تھے اور ان کا برجستہ جواب مل رہا تھا۔ يہ ان مصنوعي انٹرويوز کے مقابلے ميں بالکل مختلف صورتحال تھي جو وزير اعظم کے ساتھ ہوتي ہے۔
راہل گاندھي سے گودي ميڈيا کے اکثر سوالات حکومت کے خلاف تھے۔ راہل کو سرکاري مخالفت پر اکسا نے والي يہ ايک چال تھي ليکن انہوں نے اپنے آپ کو قابوميں رکھا تاکہ ان پر سياست کرنے کا الزام نہ لگ سکے۔ ايک سوال کا جواب ديتے ہوئے اس کا اعتراف بھي کرليا کہ وہ اشتعال ميں آکر ايسي غلطي نہيں کريں گے۔ کسي رہنما کو اگر يہ اندازہ ہو جائے کہ اس کے کسي بيان کا مخالفين بيجا استعمال کرکے اسے نقصان پہنچا سکتے ہيں گا تو يہ سياسي پختگي کي علامت ہے۔ ماضي ميں ميڈيا نے آئي ٹي سيل کي مدد سے يہ کھيل بہت کھيلا ہے ليکن راہل نے اس کا موقع نہيں ديا اور متنازع سوالات کو بڑي خوبي سے ٹالتے رہے يہاں تک کہ پي ايم کيئر پر بھي صرف آڈٹ کے مطالبے پر اکتفا کيا۔ انہوں نے کم وبيش ۵۰ سوالات کے جوابات ديے اور عوام کے اندر اپنے اعتماد کا اظہار کيا جو ايک خوش آئند بات ہے نيز کورونا کي دہشت کو کم کرنے پر زور ديا۔ راہل گاندھي نے اپني پريس کانفرنس ميں مہاجر مزدوروں کي حالتِ زار کو شرمناک بتايا۔ کورونا وائرس سے جنگ جيتنے کي خاطر پي ايم کے ساتھ ساتھ سي ايم اور ڈي ايم کي اہميت پر بھي زور ديا۔ کانگريس کے علاوہ بي جے پي کے وزير اعليٰ کي مشکلات کا اعتراف کيا اور حکومت سے لاک ڈاون کھولنے کا تفصيلي لائحہ عمل عوام کے سامنے پيش کرنے کي درخواست کي۔ راہل نے متنبہ کيا کہ حکومت نے اگر فوري اقدامات نہ کيے تو ملک ميں بے روزگاروں کي سونامي آجائے گي۔ راہل گاندھي نے جو ٹھوس مشورے ديے ان ميں سب سے پہلا ۱۳؍ کروڑ کنبوں کي فوري مالي مدد ہے۔ اس کے علاوہ منريگا کے تحت ۱۰۰؍ دنوں کے بجائے ۲۰۰؍ دن کام کي گارنٹي، پي ڈي ايس اسکيم کے دائرے سے باہر ۱۱؍ کروڑ لوگوں کو بھي ۶ ماہ تک اشيائے خوردني مہيا کرانا، کسانوں کے ليے ۲۲؍کروڑ روپے، پي ايم کسان کھاتوں ميں ۱۰؍ ہزار روپے ڈال کر ان مالي مدد اور کم سے کم قيمت پر زراعتي پيداوار کي خريداري کو يقيني بنانا، زراعت ميں کام آنے والے آلات پر جي ايس ٹي معطل کرنا، چھوٹي اور متوسط صنعتوں کے ليے ايک لاکھ کروڑ روپے کي کريڈٹ گارنٹي اسکيم جاري کرنا کيونکہ ان سے ۱۱ کروڑ لوگوں کو روزگار ملتا ہے اور تقريباً ۷؍ کروڑ دوکانداروں کو دوبارہ تجارت شروع کرنے ميں راحت دينا وغيرہ شامل تھے۔ ان مشوروں پر عمل درآمد ميں مشکلات پيش آسکتي ہيں ليکن يہاں ايک لائحہ عمل موجود تو ہے جس کو اصلاح وترميم کے بعد حتمي شکل دي جا سکتي ہے۔ اس پريس کانفرنس سے يہ ثابت ہوگيا کہ دلکش تقريروں سے رائے دہندگان کا دل جيت لينے ميں اور عوام کے مسائل کو سمجھ کر ان کے حل کي تدابير کرنے ميں کيا فرق ہے۔