نجی زندگی میں جھانکنے کا حق

کیا اسلام اس کی اجازت دیتا ہے؟

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
سکریٹری شعبۂ اسلامی معاشرہ، جماعت اسلامی ہند

 

فلم انڈسٹری سے توبہ کرنے والی سابق اداکارہ ثنا خان اور مفتی انس سید کے نکاح اور ہنی مون کی کچھ تصویریں وائرل ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر جس طرح کا رد عمل سامنے آیا ہے اور اس پر بحث و مباحثہ میں جس طرح دینی حلقہ کے افراد اور خاص طور پر نوجوان علماء نے دل چسپی کا مظاہرہ کیا ہے اس نے برطانیہ کی لیڈی ڈیانا کی یاد تازہ کر دی ہے۔ ڈیانا ۱۹۸۱ء میں برطانیہ میں تختِ شاہی کے وارث شہزادہ چارلس کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئی تھیں۔ تھوڑے ہی عرصے کے بعد زوجین میں کشیدگی ہونے لگی، یہاں تک کہ پندرہ برس کے بعد ۱۹۹۶ء میں دونوں کے درمیان علیٰحدگی ہوگئی۔ اس کے بعد وقفہ وقفہ سے لیڈی ڈیانا کے دوسرے مردوں سے تعلقات کی خبریں آنے لگیں۔ ذرائع ابلاغ کے نمائندے اور فوٹو گرافر ہر وقت ان کے پیچھے پڑے رہتے تھے اور ان کی نجی زندگی میں تانک جھانک کر کے اس کی خبریں عام کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے۔ یہاں تک کہ ۳۱؍ اگست ۱۹۹۷ء کو جب لیڈی ڈیانا اپنے ایک قریبی ساتھی مصری رئیس زادے دودی الفائد کے ساتھ پیرس کا سفر کر رہی تھیں، ایک سرنگ سے گزرتے ہوئے ان کی کار حادثے کا شکار ہوگئی، جس میں دونوں موقع پر ہی فوت ہوگئے تھے۔ اس وقت بھی درجنوں فوٹو گرافر ان کی کار کا تعاقب کر رہے تھے۔ تحقیقات کے بعد جن لوگوں پر اس حادثہ کی ذمہ داری ڈالی گئی تھی ان میں فوٹو گرافر بھی شامل تھے۔
ٹھیک یہی کیفیت ثنا خان کے بارے میں بھی مشاہدے میں آرہی ہے۔ ثنا خان فلم انڈسٹری کی جانی مانی اداکارہ تھیں۔ انہیں ٹی وی شو ’بگ باس‘ کے ذریعے خوب شہرت ملی تھی۔ ۸؍ اکتوبر ۲۰۲۰ء کو انہوں نے سماجی ویب سائٹ انسٹا گرام پر اپنی ایک پوسٹ کے ذریعے فلم انڈسٹری چھوڑنے کا اعلان کیا۔ ڈھائی ماہ سے زیادہ عرصہ گزر گیا، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میڈیا کی دل چسپی ابھی ان کی ذات سے ختم نہیں ہوئی ہے۔ اس معاملے میں تیزی اس وقت آئی جب ایک ماہ قبل ثنا خان کا نکاح گجرات کے ایک عالم دین مفتی انس سید کے ساتھ ہوا۔ اس کے کچھ ہی دنوں کے بعد کشمیر میں ہنی مون کی کچھ تصویریں وائرل ہوئیں۔ اُس وقت سے سوشل میڈیا پر یہ موضوع خوب گرم ہے۔ طرح طرح کے تبصرے کیے جا رہے ہیں، وضاحتیں کی جا رہی ہیں، ردّ و قدح اور جواب کا سلسلہ جاری ہے، شکایتیں کی جا رہی ہیں، کھلے خط لکھے جا رہے ہیں اور مشورے دیے جا رہے ہیں۔ اس مضمون میں اس موضوع کا کئی پہلوؤں سے جائزہ لیا جا رہا ہے:
۱۔ ثنا خان نے فلم انڈسٹری چھوڑنے کا اعلان کرنے کے ساتھ تحریری شکل میں اپنے احساسات کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے لکھا تھا ’’کچھ دنوں سے مجھ پر یہ احساس قبضہ جمائے ہوئے ہے کہ میں آئندہ زندگی کے بارے میں سوچوں، مرنے کے بعد کی زندگی کے بارے میں فکر کروں اور بے آسرا اور بے سہارا لوگوں کی خدمت کا منصوبہ بناؤں‘‘ اس احساس کے نتیجے میں انہوں نے گلیمر کی زندگی کو تج دیا۔ سوشل میڈیا میں ان کے اکاؤنٹ پر اپ لوڈ کی جانے والی پوسٹوں کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ فلم انڈسٹری کو خیر باد کہنے سے کچھ عرصہ قبل سے ہی دین کی طرف ان کا میلان بڑھ گیا تھا۔ اُس وقت سے اب تک جو تحریری مواد یا آڈیوز اور ویڈیوز ان کی طرف سے جاری ہوئے ہیں وہ بڑے امید افزا ہیں۔ ان میں دینی و اخلاقی تعلیمات کا بیان ملتا ہے اور پاکیزہ جذبات و احساسات ظاہر کیے گئے ہیں۔ ثنا خان کے اس رویّے میں ہمارے لیے بڑا سبق موجود ہے۔ توبہ کا دروازہ ہر انسان کے لیے ہمہ وقت کھلا ہوا ہے۔ کسی شخص سے چاہے جتنے گناہ سرزد ہوئے ہیں، اس کی زندگی کتنی ہی معصیتوں سے آلودہ ہو رہی ہو، لیکن جب اس کا ضمیر بیدار ہوجائے، وہ صدق دل سے اپنی سابقہ زندگی سے تائب ہوجائے تو بارگاہِ الٰہی میں اس کی توبہ قبول ہوجاتی ہے اور وہ گناہوں سے اس طرح پاک و صاف ہوجاتا ہے جیسے آج ہی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو۔
۲۔ جس طرح کسی شخص کے بارے میں منفی احساسات کے اظہار میں جلد بازی نہیں چاہیے اور اس کے بارے میں گم راہی، فسق اور نفاق کے فتوے صادر نہیں کرنے چاہئیں، اسی طرح کسی کی معصومیت، پاکیزگی اور بے قصوری کا حکم لگانے اور اس کے بارے میں براءت ظاہر کرنے میں بھی احتیاط کرنی چاہیے، ورنہ وہی حال ہوگا جو ثنا خان کے معاملے میں ہوا۔ نکاح کے فوراً بعد کی کچھ تصویریں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں تو دین دار طبقہ کی طرف سے اس پر سخت تنقیدیں سامنے آئیں۔ کہا گیا کہ یہ سراسر غیر اسلامی اور غیر اخلاقی حرکت ہے۔ ایک عالم دین شوہر کو اس سے باز رہنا چاہیے اور اگر سابقہ زندگی کے زیر اثر بیوی کی جانب سے اس کا صدور ہوا ہے تو اسے روکنا چاہیے۔ ان تنقیدوں کو لگام دینے کی غرض سے ایک معتبر عالم دین نے جو تقریب نکاح میں موجود تھے فوراً ایک آڈیو جاری کردیا جس میں وضاحت کی کہ نکاح کی پوری کارروائی سنت نبوی کے مطابق ہوئی ہے۔ تقریب میں کسی کو ویڈیو بنانے کی اجازت نہیں تھی۔ گھر میں کسی نے ایک موقع پر ویڈیو بنا لیا جو وائرل بھی ہو گیا، اس پر ثنا خان کافی رنجیدہ ہیں۔ اس وضاحتی بیان کی معتبریت اس وقت مشکوک ہو گئی جب خود ثنا خان نے اپنے نکاح کے بعض ویڈیوز سوشل میڈیا پر عام کر دیے۔
۳۔ سوشل میڈیا کی افادیت کے متعدد پہلو ہیں۔ یہ افکار و خیالات کی ترسیل کا بہت مؤثر ذریعہ ہے، تعلیم و تعلّم کے میدان میں کام یابی کے ساتھ اس کا استعمال ہو رہا ہے، پوری دنیا کے حالات بہت آسانی سے سیکنڈوں میں معلوم جاتے ہیں، لیکن ساتھ ہی اس کے نقصانات بھی سامنے آرہے ہیں۔ اس کا ایک بڑا نقصان فوٹو گرافی اور ویڈیو گرافی کا بڑھتا ہوا شغف ہے۔ افسوس کہ نئی نسل کو اس کی لَت پڑ گئی ہے۔ ہر نوجوان کے ہاتھ میں ملٹی میڈیا والا موبائل ہے اور وہ ہر وقت بلا ضرورت مختلف زاویوں سے اپنی تصویریں کھینچتا اور انہیں واٹس ایپ، فیس بک اور سوشل میڈیا کے دیگر پلیٹ فارمس پر اپ لوڈ کرتا رہتا ہے۔ یہ عمل افادیت کا کوئی پہلو نہیں رکھتا۔ اس میں وقت کی بربادی ہے اور اس کی وجہ سے سنجیدہ کاموں کی طرف سے توجہ ہٹتی ہے۔ لیکن پھر بھی ہر شخص اسی میں سرگرداں نظر آتا ہے۔ ؎
چھٹتی نہیں ہے منھ سے یہ کافر لگی ہوئی
ثنا خان اور مفتی انس کے ویڈیو گرافی کرنے اور ویڈیوز کو سوشل میڈیا پر وائرل کرنے کو اسی پہلو سے دیکھنا چاہیے۔ افسوس کہ جن نوجوان علماء نے ان کے عمل کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے وہ خود بھی فوٹو گرافی اور ویڈیو گرافی میں پیچھے نہیں ہیں اور ان سے سوشل میڈیا کے بے جا اور غیر شائستہ استعمال کا صدور ہوتا رہتا ہے۔
۴۔ ثنا خان کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ وہ عرصہ تک فلم انڈسٹری سے وابستہ رہی ہیں۔ اگرچہ ان کا تعلق ایک مسلم خاندان سے ہے، لیکن ان کی سابقہ زندگی جس ماحول میں گزری ہے اس میں دینی قدروں، اسلامی تعلیمات اور اخلاقی ضوابط کی زیادہ پابندی کی امید عبث ہے۔ اب جب کہ انہوں نے اس زندگی کو خیرباد کہہ دیا ہے تو امید رکھنی چاہیے کہ وہ آئندہ ان شاء اللہ پاکیزہ زندگی گزاریں گی اور اسلام کی تعلیمات پر عمل کریں گی۔ پہلے ہی مرحلے میں انہیں ’رابعہ بصری‘ تصور کر لینا اور ان کا کوئی عمل اگر دین کی بنیادی قدروں سے ٹکراتا ہوا محسوس ہوا تو اس پر سخت تنقید کرنا مناسب نہ ہوگا۔ ایک عالم دین کے رشتہ زوجیت میں رہنے کی وجہ سے ان شاء اللہ اعلیٰ دینی قدروں اور اسلامی تعلیمات پر عمل آوری کا ان کا سفر تیز ہوگا اور دن بدن اس معاملے میں بہتری آئے گی۔ مفتی انس سے بھی امید ہے کہ وہ بہترین شوہر ثابت ہوں گے اور حکمت و دانائی کے ساتھ اپنی بیوی کو، جس کی صالح فطرت کے آثار نمایاں ہیں، خیر کے کاموں میں لگائیں گے۔
۵۔ اب تک نو بیاہتا جوڑے کے جو فوٹوز اور ویڈیوز وائرل ہوئے ہیں انہیں مشرقی روایات کے خلاف تو کہا جا سکتا ہے، لیکن انہیں غیر اسلامی اور غیر شرعی قرار دینا مشکل ہوگا۔ مختلف معاشروں کے کلچر مختلف ہوتے ہیں ان کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ مشرقی روایات میں نئے شادی شدہ لڑکے اور لڑکی کا اہلِ خاندان یا دوسرے لوگوں کے سامنے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑنا تو دور کی بات ہے، مل کر کھڑے ہونا بھی معیوب سمجھا جاتا ہے جب کہ مغربی کلچر میں یہ عام بات ہے۔اسلامی نقطہ نظر سے نکاح کے بعد لڑکے اور لڑکی کو معاشرت کے وہ حقوق حاصل ہوجاتے ہیں جو نکاح سے قبل ان کے لیے جائز نہ تھے۔ معلوم ہوا ہے کہ ثنا خان نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی سے وابستہ تمام قابل اعتراض تصویریں انسٹا گرام اکاؤنٹ سے ہٹا دی ہیں۔ بعد کی زندگی کے اور خاص طور پر نکاح کے بعد وہ ساتر لباس میں نظر آتی ہیں، البتہ چہرہ کھلا رہتا ہے اور اہلِ علم جانتے ہیں کہ اسلامی نقطہ نظر سے چہرہ ستر میں شامل نہیں ہے، اگرچہ فتنہ کے اندیشے سے اسے چھپانا بہتر اور پسندیدہ ہے۔
۶۔ آخری سوال یہ کہ کسی شخص کی نجی زندگی میں جھانکنے اس پر تبصرے کرنے اور اس کی جزئیات کو زیر بحث لانے کے حدود کیا ہیں جن کی رعایت کی جانی چاہیے؟ میرا خیال ہے کہ اس سلسلے میں بھی سوشل میڈیا یوزرس سے بے احتیاطی ہوئی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ ثنا خان اور مفتی انس نے نکاح کے بعد اپنی جو تصویریں وائرل کی ہیں ان سے انہیں احتراز کرنا چاہیے تھا۔ ہمارے معاشرے میں اگر اس عمل کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تو ان کا اس سے اجتناب اولیٰ تھا۔ اس معاملے میں ان سے بے احتیاطی ہوئی ہے۔ لیکن ان سے زیادہ نامناسب رویّہ اس موضوع کو سوشل میڈیا پر زیر بحث لانے والوں کا ہے۔ انہوں نے نئے جوڑے کی بے احتیاطی پر نقد اور تنبیہ کرنے کے ساتھ خود بھی ان کی تصویریں خوب شیئر کی ہیں۔ اس طرح جو چیز ان کی نظر میں ناپسندیدہ تھی غیر شعوری طور پر وہ اسے عام کرنے کا ذریعہ بنے ہیں۔ عہدِ نبوی میں ہجرت مدینہ کے پانچویں سال ایک واقعہ پیش آیا جسے ’واقعۂ افک‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہؓ کی طرف ایک ایسی بات منسوب کر دی گئی جس کی کوئی حقیقت نہیں تھی۔ منافقوں نے اس کے خوب چرچے کیےاور نادانی میں بعض مسلمان بھی اس میں شامل ہوگئے۔ اس موقع پر نازل ہونے والی سورۂ النور کی آیات میں مسلمانوں کو سماجی زندگی کے بارے میں انتہائی اہم ہدایات دی گئی تھیں۔ ان میں سے ایک ہدایت یہ تھی کہ انہیں نامناسب باتوں اور ناشائستہ کاموں کے تذکرے سے بھی بچنا چاہیے (النور:۱۹) اس لیے کہ ان کا تذکرہ بھی انہیں ہوا دینے اور عام کرنے کا سبب بن جاتا ہے۔
میری رائے میں اب اس موضوع کو ختم ہوجانا چاہیے۔ موجودہ حالات میں ہندوستانی مسلمانوں کو دوسرے بہت سے مسائل درپیش ہیں جن کا انہیں نوٹس لینا چاہیے اور پوری مہارت کے ساتھ منصوبہ بندی کرکے ان کو حل کرنے کی تدابیر اختیار کرنی چاہیے۔ امید رکھنی چاہیے کہ نو بیاہتا جوڑا آئندہ زندگی میں مثالی مسلمان ثابت ہوگا اور اس سے خیر کے بہت سے کام انجام پائیں گے۔ ہمیں ان کے لیے دعا بھی کرنی چاہیے۔
٭٭٭

جس طرح کسی شخص کے بارے میں منفی احساسات کے اظہار میں جلد بازی نہیں چاہیے اور اس کے بارے میں گم راہی، فسق اور نفاق کے فتوے صادر نہیں کرنے چاہییں، اسی طرح کسی کی معصومیت ، پاکیزگی اور بے قصوری کا حکم لگانے اور اس کے بارے میں براء ت ظاہر کرنے میں بھی احتیاط کرنی چاہیے

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 3 جنوری تا 9 جنوری 2021