’’نجی حصوں پر لات ماری اور کپڑے پھاڑے‘‘، جامعہ کے طلبا و طالبات نے 10 فروری کے پولیس تشدد کو بیان کیا

نئی دہلی، فروری 12— جامعہ ملیہ اسلامیہ یونی ورسٹی کے ایک زخمی طالب علم ابو دردہ، جسے 10 فروری کو پولیس نے تشدد کا نشانہ بنایا اور حراست میں لیا، تاہم اسے بعد میں رہا کر دیا گیا، نے بتایا کہ ایک پولیس اہلکار اسے بس میں کھینچتے ہوئے چلا رہا تھا ’’چلو تمھیں آزادی دے رہا ہوں‘‘۔

طالب علم نے یہ بات جامعہ کوآرڈینیشن کمیٹی کے زیر اہمتام منعقدہ پریس کانفرنس میں کہی۔

ابو دردہ نے مزید کہا "مارچ کو روکنے کے لیے بیریکیڈ سے پہلے ریپڈ ایکشن فورس کی 10 لائنیں کھڑی تھیں۔ پولیس نے افراد کو نشانہ بنایا۔ انھوں نے ہمارے کپڑے پھاڑ دیے۔ بہت سے اہلکار جنھوں نے ہمیں حراست میں لیا تھا وہ سول لباس میں تھے۔ انھوں نے پولیس اسٹیشن میں ہمیں پانی تک فراہم کرنے سے انکار کردیا اور پولیس اسٹیشن سے ہمارے وکلا کو بھگا دیا۔”

وہیں طالبات نے الزام لگایا کہ فورسز نے ان کے کپڑے پھاڑ ڈالے اور ان کے نجی حصوں میں لاتیں ماری جس سے شدید چوٹیں آئیں۔

جامعہ کی ایک طالبہ چندا یادو نے اپنے ہاتھوں پر بندھی ہوئی پٹی دکھاتے ہوئے الزام لگایا کہ پولیس فورس نے اسے پیٹ میں لات ماری اور اس کے ہاتھوں پر مار پیٹ کی۔ پولیس بس کے فرش پر اسے مرد پولیس اہلکاروں نے مارا پیٹا۔

یونی ورسٹی میں سماجیات کی طالبہ صفورا زرگار نے کہا کہ پولیس نے مارچ کی اجازت کے لیے ان کی بار بار کی جانے والی درخواستوں سے انکار کردیا۔ 10 فروری کو ان کا ایک مختلف حربہ تھا۔ ہم پر دکھائی دینے والے اثرات پر حملہ کرنے کے بجائے انہوں نے ہم پر اس طرح حملہ کیا کہ میڈیا اور عوام اس کا علم نہ کرسکیں۔

ایک اور طالبہ رافعہ، جو الشفا میں انتہائی نگہداشت یونٹ میں داخل تھیں، نے الزام لگایا کہ فورسز نے برقع سمیت اس کے کپڑے پھاڑ ڈالے۔ اس نے بتایا کہ پولیس نے اسے بیریکیڈز سے نیچے کھینچ لیا۔ مرد پولیس اہلکاروں نے آس پاس دوسرے پولیس اہلکاروں کے ساتھ اپنے جوتے سے اس کو لات ماری کی اور یہ یقینی بنایا کہ کوئی اور اسے نہ دیکھ سکے۔ اس نے کہا "انھوں نے میرے پیٹ اور نجی حصوں پر مارا یہاں تک کہ میں بے ہوش ہوگئی۔ مجھے پسلی کی ہڈی کے ٹوٹنے کے بعد اسپتال داخل کرایا گیا ہے۔”

ایک اور خاتون مظاہرین زکرا نے بتایا کہ ایک پولیس اہکار اس کے رانوں پر جوتوں سمیت لات مارتے ہوئے چیخا کہ "تم لوگ آئین کے لیے خطرناک ہو، جاؤ اور مر جاؤ”۔

زخمی مظاہرین نے یہ بھی الزام لگایا کہ پولیس نے حراست میں لیے گئے طلبا کو بس کے فرش پر بیٹھنے کے لیے کہا اور ان پر حملہ کیا تاکہ باہر سے کوئی بھی انھیں نہ دیکھ سکے۔

واضح رہے کہ جے سی سی کے بینر تلے طلبا نے 10 فروری بروز پیر کو متنازعہ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف پارلیمنٹ کی طرف ایک پُرامن احتجاجی مارچ نکالا تھا، لیکن پولیس نے سڑک بلاک کردی اور رکاوٹیں لگادیں اور انہیں یونی ورسٹی سے آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دی۔