ناقص تغذیہ اور ناقص حکمرانی ساتھ ساتھ

خواتین میں خون کی کمی اور بچوں کے ٹھٹر جانےکا مسئلہ

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

حکومت کو فلاحی منصوبے زمین پر اتارنے کی ضرورت
بھارت کا طبی بحران ہمہ رخی ہے مگر حکومت کا دھیان اور ساری تگ دو محض کورونا وبا پر ہے جبکہ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ صحت کی بہتری پر ہی معیشت کی ترقی کا دارومدار ہوتا ہے۔ مرکزی حکومت کا سروے بتاتا ہے کہ پانچ سال سے کم عمر کے بچے، پندرہ تا انیس سال کی لڑکیاں اورتولیدی صلاحیت کی حامل خواتین کی پچاس فیصد تعداد خون کی کمی کا شکار ہیں۔ ان کے ہیموگلوبن کی سطح بارہ گرام فی ڈیسی لیٹر سے کم درج کی گئی ہے۔ 2019-20کے نیشنل فیملی ہیلتھ سروے (این ایچ ایس) کے مطابق اس گروپ میں خون کی کمی سابق میں کرائے گئے سروے کے مطابق رہی اس میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ اشوکا یونیورسٹی نے جو ڈیٹا شائع کیا ہے اس کے مطابق دلت بچے جنہیں چھوت چھات کا سامنا رہتا ہےکچھ زیادہ ہی ٹھٹر جانے (stunting) کا شکار ہیں۔ یہ اعداد و شمار این ایف ایچ ایس کے ڈاٹا کے قریب تر ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ چارکروڑ چھ لاکھ بچے ٹھٹرجانے کی کیفیت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہ تعداد عالمی پیمانہ پر اس مرض سےدوچار پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کا ایک تہائی ہے۔ ملک میں اس طبقے میں خون کی کمی اور ٹھٹرنے کا مسئلہ عام ہے۔ اور یہ سب تغذیہ کے فقدان کی وجہ سے ہے۔ ہمارے ملک کی بڑی آبادی غذا اور تغذیہ (Nutrition) کے حصول میں بری طرح ناکام ہے۔ اگرچہ ہم دنیا کی سب سے بڑی غذائی طمانیت کا منصوبہ بھی رکھتے ہیں ۔ ہمارے یہاں اکثر منصوبے انتظامی تساہلی، بڑے پیمانہ پر پھیلی ہوئی بدعنوانی کا شکار ہوکر غیر موثر ہوجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایسے منصوبوں کو زمین میں اتارنے میں بہت ساری خامیاں رہتی ہیں۔ حالانکہ 2017میں حاملہ اور دودھ پلانے والی عورتوں اور بچوں کے لیے پوشن ابھیان کی شروعات کی گئی تھی ۔ مگر ابھی تک عوام کی فلاح کے لیے یہ اسکیم عوامی نہیں بن سکی۔ جھارکھنڈ میں راشن کارڈ کو آدھار کارڈ سے مربوط نہ کرنے کی وجہ سے لوگوں کی اموات ہورہی ہیں خاص طور سے وہ لوگ جو حاشیے پر ہیں۔ اب تو پالیسی سازی محض کاغذی ہورہی ہے۔ مرکز نے خون کی کمی کے مسئلہ سے نمٹنے کے لیے اسے راشن اور آئرن کی گولیوں سے جوڑدیا ہےمگرطبی ماہرین ایسے طریقہ کار میں بہت ساری خرابیاں دیکھ رہے ہیں۔ اس کےلیے ہدف کے ساتھ صحت کی بہتری کے لیے عوامی بیداری لانے کی ضرورت ہے۔ جس سے ہمہ جہتی طبی بحران پر قابو پایا جاسکے۔ حکومت طبی ماہرین کی خدمات لے کر زمینی سطح پر لوگوں کے اندر صحیح سمجھ اور بیداری پیدا کرسکتی ہے۔ ہمارے ملک میں کورونا وبا کے پھیلنے کے پہلے سے ہی دنیا کی سب سے زیادہ تغذیہ کی کمی کا شکار آبادی رہتی ہے۔ اسٹیٹ آف فوڈ سیکوریٹی ایڈ نیوٹریشن ان دی ورلڈ (SOFI)اور اقوام متحدہ کی پانچ تنظیموں کے اشتراک سے گزشتہ ماہ جولائی میں ایک رپورٹ شائع کی گئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ وبا کے دوران حکومت اور انتظامیہ کی بدنظمی نے ملک کے اندر بڑے پیمانہ پر غذا کی عدم دستیابی اور بھوکوں کی تعداد میں بہت اضافہ کردیا۔ پیش کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق کورونا وبا کے پھوٹ پڑنے کے بعد 2018-20کے مقابلے 6.8فیصد غذائی عدم دستیابی میں اضافہ کے ساتھ 9.7کروڑ لوگ اس کی زد میں آگئے۔ یہ ہمارے لیے بڑے شرم کی بات ہے کہ ایسے حالات اس دور حکومت میں رونما ہوئے جس کے گودام میں دس کروڑ ٹن سے زیادہ غلہ موجود ہے اور یہ دنیا کے کسی بھی ملک کے مقابلے میں ایک بڑا ذخیرہ ہے۔ یکم جولائی تک بارہ کروڑ ٹن غلہ رکھنے والے ملک کی ایک چوتھائی آبادی غذاکی عدم فراہمی کاکا شکار ہے۔ ویسے دنیا بھر میں دو سو سینتیس کروڑ لوگ غذا کی عدم دستیابی کا شکار ہیں جس میں 2019میں بتیس کروڑ لوگوں کا اضافہ ہو گیا۔ جنوبی ایشیائی ممالک میں غذائی عدم طمانیت کا شکار چھتیس فیصد آبادی بستی ہے ۔ غذائی عدم طمانیت کے لیے طریقہ پیمائش prevalence of moderate or severe food insecurity (PMSFI) کے اندازہ سے جو نتیجہ سامنے آیا ہے اس کے مطابق ملک میں تیتالیس کروڑ اوسط اور اوسط سے بہت زیادہ غذائی عدم طمانیت کے شکار افراد 2019میں پائے گئے جو کورونا قہر کی وجہ سے بڑھ کر ایک سال میں باون کروڑ ہوگئے۔ اس سے پی ایم ایس ایف آئی شرح کے پیمانے میں اوسط اور اوسط سے زیادہ غذائی عدم طمانیت کا شکار آبادی 2019میں 31.6فیصد تھی جو بڑھ کر 2021میں 38.4فیصد ہوگئی۔ اگرچہ ہمارا ملک غذائی پیداوار کے اعتبار سے خود کفیل ہے۔ اس کے باوجود ملک میں بھوک اور غذائی عدم طمانیت کا بہت ہی سنگین مسئلہ ہے۔ جو معاشی تنزلی ، آسمان کو چھوتی بیروزگاری اور بڑے پیمانہ پر ذات پات پر مبنی عدم مساوات کی وجہ سے ہے۔ زیادہ تر غربا اور حاشیے پر پڑے لوگ نجی معیشت پر منحصر ہیں جن کی آمدنی کم اور غیر یقینی ہوتی ہے۔ حکومت کی غلط معاشی پالیسی کی وجہ سے گزشتہ چندسالوں میں بے روزگاری اور مہنگائی بے تحاشہ بڑھی ہے۔ غذائی اشیا کی مہنگائی،معاشی سستی اور عوامی سرمایہ کاری کے فقدان نے محنت کش طبقوں اور کم آمدنی والے کسانوں کے مشکلات میں بے حد اضافہ کردیا ہے۔ اس طرح غیر یقینی کم آمدنی اور نجی معیشت پر کنبوں کے انحصار نے لوگوں کے لیے مناسب اور مقوی غذا تک رسائی کو ناممکن بنادیا۔ ہمارے ملک میں عرصہ دراز سے آتا ہوا مسئلہ اس وقت اور بھی مشکلات میں اضافہ کا باعث بن گیا جب وزیر اعظم مودی نے منصوبے اور تیاری کے بغیر جلد بازی میں چار گھنٹوں کے اندر سخت ترین لاک ڈاون نافذ کردیا اور لوگوں کو کہیں کا نہیں رکھا۔ غذ کی عدم دستیابی میں بے حد اضافہ کے باعث حکومت نے لوگوں کی غذائی طمانیت کے لیے سارے ملک میں پبلک ڈسٹریبیوشن سسٹم (پی ڈی ایس) کے تحت غذا کی فراہمی کو ضروری سمجھا۔ گزشتہ سال بھی حکومت نے مفت تقسیم کا کام کیا تھا اور امسال بھی دیوالی تک اسی کروڑ لوگوں تک غذا کی فراہمی کو ضروری قرار دیا ۔ خواہ لوگوں کے پاس راشن کارڈ ہو یا نہ ہو ۔ سبھوں کو راشن دکانوں سے غلہ ملے گا۔ حکومت کے گوداموں میں آج بھی تقریباً بارہ کروڑ ٹن اناج موجود ہے۔ ان غذائی اشیا کی تقسیم کو منصفانہ بنایا جائے تاکہ سبھی ضرورتمندوں کے کھانے کا انتظام ہوسکے۔ حکومت کو الگ سے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ویسے حکومت کو بخوبی اندازہ ہے کہ بے روزگاری اور مہنگائی نے لوگوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ اگر انہیں مفت غلہ فراہم نہیں کیا گیا تو لوگ بھوک سے مرنے پر مجبور ہوں گے ۔
اس طرح پی ایم ایس ایف آئی کا جو اندازہ پیش کیا گیا ہے وہ خصوصی طور سے بہت اہم ہے کیونکہ وبا کے پھوٹ پڑنے کے بعد مرکزی حکومت نے سرکاری طور پر غذائی عدم طمانیت کو سامنے رکھ کر ملک گیر پیمانے پر کوئی جائزہ نہیں لیا۔ ایسے حالات میں قومی نمائندہ سروے پی ایم ایس ایف آئی کے اندازہ کو ہی قومی پیمانہ پر غذائی عدم طمانیت کے لیے با اعتماد اور حتمی تسلیم کرتا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ وبا کا غذائی نظامِ طمانیت پر کیسا اثر ہوا؟ سب سے تازہ حالیہ سروے جس پر پی ایم ایف ایس آئی کے اندازہ کا انحصار ہے وہ 2020کے اوائل سے لے کر 2021کے ابتدا کا ہے جس میں لوگوں کی غذائی طمانیت پر کورونا قہر کے اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ موجودہ حکومت کے ساتھ یہ بڑی پریشانی ہے کہ وہ کسی دوسرے سروے کو تسلیم کرنے کو تیار ہوتی ہے اور نہ خود غذائی طمانیت پر اپنا سروے کرواتی ہے۔
ایسا ہی گلوبل ہنگر انڈیکس (جی ایچ آئی) 2020میں تغذیہ کی کمی کی شکار آبادی، بچوں کی سکڑن (stunting) ان کی جانوں کے اتلاف کے پیمانے پر دنیا کے 107ممالک میں ہمارا مقام 94واں ہے۔ ہمارے ہاں پندرہ فیصد بچے اور ان کی مائیں ناقص تغذیہ کی وجہ سے بہت ساری بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ناقص تغذیہ (Malnutrition) کی حالت اور اس کے اثرات دراصل سیاسی، بے توجہی اورناقص بجٹ کی فراہمی کی وجہ سے ہے۔ تحقیق سے واضح ہوا ہے کہ ایک ڈالر (تقریباً 75روپے) کی تغذیہ کی فراہمی پر ملک کو 34.1تا 38.6ڈالر کا معاشی فائدہ ہوتا ہے ۔ اسی مطالعہ سے پتہ چلا ہے کہ بچوں کی ناقص تغذیہ کی وجہ سے ملک کی جی ڈی پی میں چارفیصد اور ملک کی پیداوار میں آٹھ فیصد کا خسارہ ہوا ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود 2021-22کے بجٹ میں تغذیہ کی فراہمی والے بجٹ 2020-21کے مقابلے میں 18.5فیصد کی کمی کردی گئی ہے۔
***

 

***

 زیادہ تر غربا اور حاشیے پر پڑے لوگ نجی معیشت پر منحصر ہیں جن کی آمدنی کم اور غیر یقینی ہوتی ہے۔ حکومت کی غلط معاشی پالیسی کی وجہ سے گزشتہ چندسالوں میں بے روزگاری اور مہنگائی بے تحاشہ بڑھی ہے۔ غذائی اشیا کی مہنگائی،معاشی سستی اور عوامی سرمایہ کاری کے فقدان نے محنت کش طبقوں اور کم آمدنی والے کسانوں کے مشکلات میں بے حد اضافہ کردیا ہے۔ اس طرح غیر یقینی کم آمدنی اور نجی معیشت پر کنبوں کے انحصار نے لوگوں کے لیے مناسب اور مقوی غذا تک رسائی کو ناممکن بنادیا۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 22 تا 28 اگست 2021